پیشہ وکالت اور اسلام

Share

کومل شہزادی ، سیالکوٹ

ڈکشنری میں وکالت کا معنی ہے: ’’اپنا کام دوسرے کو سپرد کرناـ۔‘‘ فقہ میں وکالت سے مراد ایک ایسا معاملہ ہے،جس میں ایک ایسا کام جسے آدمی خود کرسکتا ہے، لیکن وہ دوسرے کے سپر د کردیتاہے۔ اس معاملے کووکالت کہتے ہیں،جیسے: خرید و فروخت، کرایہ داری،وصولی،ادائیگی… یہ سب کام جس طرح خود کیے جاسکتے ہیں، اسی طرح دوسرے کو وکیل بنا کر بھی کروائے جاسکتے ہیں۔پیشہ وکالت اسلامی نقطہ نظر سے کیسا ہے ؟؟؟کیا آج کا پیشہ وکالت اسلام کے مطابق ہے؟؟؟وکالت کے پیشے کو حرام کب اور کیوں کہا جاتا ؟؟


میں اکثر اپنے اردگرد ایک بات سنتی رہتی ہوں کہ وکیل کا پیشہ حرام ہے یا کمائی حرام ہے وغیرہ وغیرہ۔میرے ذہن میں یہ سوال اکثرگردش کرتا ہے کہ اگر وکالت کا پیشہ اسلام میں حرام ہے تو پھر مسلمان اس پیشے کو اختیار کر کے کیوں اپنے ہی ہاتھوں اپنی آخرت خراب کرتے ہیں۔کیا کوئی جاننے کے باوجود کسی کنوئیں یا کھائی میں چھلانگ لگاتا ہے ؟؟تو پھر یہ شعبے میں کیوں؟؟؟ایسے بہت سے سوال جن کو جاننے کے لیے یہ کالم لکھ رہی ہوں ۔کیوں کہ اگر کسی تجسس میں انسان پڑھ جائے تو وہ اُس کو جاننے کی جستجو اور تحقیق میں لگا رہتا ہے جب تک وہ کسی بات پر اپنی تحقیق پوری نہ کرلے۔
وکالت ایک ایسا پیشہ ہے جو فی نفسہ حرام نہیں مگر ناجائز اور جھوٹا مقدمہ یا جھوٹ اور فراڈ کو چھپانے اور غلط کو صحیح ثابت کرنے کی وکالت حرام ہے اور اس کی اجرت بھی حرام ہے یا وضعی (مغربی )قانون کو حق سمجھنا اور شریعت سے بہتر ماننا یا اس پر راضی رہنا بھی حرام ہے ۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے ۔

﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّٰهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا﴾

النساء: 105
ترجمہ:’’ہم نے آپ کی طرف سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ جو کچھ بصیرت اللہ نے آپ کو عطا کی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو ‘‘۔

﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۖ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾

المائدۃ: 02
ترجمہ:’’ اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو،اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالٰی سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔

ایک اور جگہ ارشاد ہے : اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے، عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ [المائدہ:8]

اور ارشاد فرمایا’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، نہ ہی ایسے مقدمات اس غرض سے حکام تک لے جاؤ کہ تم دوسروں کے مال کا کچھ حصہ ناحق طور پر ہضم کر جاؤ، حالانکہ حقیقت حال تمہیں معلوم ہوتی ہے‘‘۔ [البقرۃ :188]

ہمارے معاشرے میں وکالت کے پیشہ میں جو لاقانونیت پیدا ہوچکی ہے تو ضروری ہے کہ قرآن کریم و احادیث مبارکہ کے تصور وکالت کو واضح کیا جائے۔
وکیل عادل و منصف و صادق ہو۔اور حق و سچ کا ساتھ دے ۔چند رقم کے لیے اپنی آخرت خراب نہ کرے۔

قرآن کریم نے اس شرط کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا "[الاحزاب:70 ]

ترجمہ:

اے إیمان والو! اللہ سے ڈرو ، اور سیدھی سیدھی بات کرو۔

اور سورہ مائدہ میں واضح فرمایا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ” [ المائدة :8 ]

ترجمہ:
اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف ( و عدل) کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ ، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اسکے خلاف نا انصافی پر نہ ابھارے ، عدل کرنا اور وہ ( عدل و انصاف ہی) اللہ کے زیادہ قریب ( مقبول) ہے ، اور اللہ سے ڈرنا بے شک وہ خبر دینے والا ہے اسکی جو کچھ تم کرتے ہو.

اس آیت میں واضح فرمادیا کہ ایک وکیل صرف دوسرے وکیل کو ہرانے کے لیے جھوٹی گواہیاں قائم نہ کرے ، اور نہ ہی کوئی گواہ یا جج کسی سے دشمنی کی بنیاد پہ غلط فیصلہ دے۔ اور تقوی کی بات اس لیے کی کہ جھوٹے گواہ جج سے تو چھپا سکتے ہو لیکن اس اللہ رب العزت سے نہیں جس سے کائنات کا ادنی سا ذرہ بھی پوشیدہ نہیں اور وہ تمہیں تمہارے ہر ظلم کی خبر دے گا لہذا ڈرنا۔

حتی کہ قرآن کریم نے ایک اور مقام پر تو اتنا بھی فرمایا کہ اگر کیس تمہارے اپنے ہی خلاف کیوں نہ ہو تب بھی عدل و انصاف و صدق کا دامن نہ چھوڑنا جیسے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ ” [النساء: من 135 ]

ترجمہ:
اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے بن جاؤ اگرچہ وہ گواہی تمہارے اپنے ہی خلاف کیوں نہ ہو یا آپکے والدین یا پھر رشتہ داروں کے ( لیکن اس وقت بھی انصاف و صدق و عدل کا پیکر بن کر رہنا)۔

وکیل کو حلال و حرام کا علم ہو۔اگر وہ اس میں امتیاز کرنا سیکھ گیا تو وہ اپنے پیشے سے مخلص ہے۔کسی بھی وکیل کو حلال و حرام کا علم ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال ثابت کردیں جیسے آج کے دور میں ہوتا ہے لہذا قرآن کریم نے فرمایا:

"ولا تقولوا لما تصف ألسنتكم الكذب هذا حلال وهذا حرام لتفتروا على الله الكذب ” [ النحل : من آیہ 116 ]

( اور تم نہ کہو کسی شے کو اپنی زبانوں سے ( بغیر دلیل شرعی کے) یہ حلال ہے ، اور یہ حرام ( یہ کہ کر) تم اللہ ( تعالیٰ) پہ جھوٹ باندھتے ہو).

اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

"لا ترتكبوا ما ارتكبت اليهود، فتستحلوا محارم الله بأدنى الحيل”

ترجمہ:

تم ان چیزوں کا ارتکاب نہ کرنا جنکا ارتکاب یہود نے کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو چھوٹے چھوٹے حیلوں سے حلال کیا۔

( ابطال الحیل لابن بطہ ، حدیث نمبر:56 ، امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: اسکی سند جید ہے- تفسیر ابن کثیر- ج:1 ، ص :293 ، مطبوعہ دار طیبہ للنشر والتوزیع )
لہذا ہمارے ہاں وکالت میں باطل کو حق اور حق کو باطل ثابت کیا جاتا ہے جھوٹے دلائل سے جو کہ یہود کا فعل ہے۔کیونکہ معاشرے میں سچائی پر کم اور جھوٹ کا بول بالا زیادہ ہے۔

         وکیل ظالم کا ساتھ نہ دیے ۔اکثر جیسے بہت سے امراء طبقے کے کیسز جن کے مقابلے متوسط طبقہ ہو تو ظاہر ہے امراء اگر ظالم بھی ہوا تو جیت اُسی کی ہے۔  اسی لیے قرآن کریم نے فرمایا:

"وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ” [الهود:113 ]

ترجمہ:

ان لوگوں کی طرف مت جھکنا جنہوں نے ظلم کیا ( اگر تم نے ایسا کیا تو ظالم کا ساتھ دینے کی وجہ سے) پس وہ آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوگا پھر تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی۔

حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

” من خاصم في باطل وهو يعلمه لم يزل في سخط الله حتى ينزع عنه”

ترجمہ:

جس نے بھی اس باطل کو جسکو وہ جانتا ہے ( ثابت کرنے کے لیے) وکالت کی وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہے گا یہاں تک وہ اس ( وکالت) سے دستبردار ہوجائے۔

کیا یہ جو اوپر شرائط بیان کی گئیں ہیں ، کیاآج کا وکیل ایسا ہے؟؟؟کیا وہ ان سب شرائط پر عمل کرتے ہوئے اپنے پیشے کی خدمات سرانجام دے رہا ہے ؟؟یہ سب قارئین پر ہے کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔

کیا آج کا وکیل اقبال و قائداعظم کا جانشین ہے ؟؟
قائداعظم سے سوال کیا گیا کہ وکیل کیسا ہونا چاہیے۔قائدِاعظم نے جواب دیا۔ جس میں تین خوبیاں ہونی چاہئیں۔1۔اپنے مؤکل سے فیس مناسب لے، زیادہ نہ لے۔2۔کیس اچھی طرح تیّار کرے اور خوب محنت کرے۔3۔کسی عدالت میں جج سے مرعوب نہ ہو۔

اگرآپ قانون کی تعلیم حاصل کررہے ہیں تو آپ نے نصابِ قانون میں قائداعظم کے تاریخی واقعات ضرور پڑھے ہوں گے لیکن وہ طلبہ جو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور کسی لاء کالج میں داخلہ لے کر بحیثیت قانون دان اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں تو انہیں ضرو ر محترم قائد اعظم محمد علی جناح کے اخلاقی ضابطوں اور رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، جس کی وجہ سے قائداعظم تاریخ کی ایک مشہور شخصیت اور قانون کی دنیا کے لافانی کردار کے طورپر سامنے آتے ہیں۔
لہذا وکالت کسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے نہیں ہونی چاہیے جیسے عصر حاضر میں ہورہا ہے۔علاوہ اذیں سوسائٹی میں صرف وکلاء کو مورد الزام ٹھہرانا قرین انصاف نہیں۔ گیس ، بجلی اور ٹیکس چوروں کے اس ملک میں سبھی لوگ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ سچ کو جھوٹ اور حق دار کا حق مارنے والے وکلاء کے خلاف عام طور پر سند کے طور پر اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر سنایا جاتا ہے ۔

پیدا ہواوکیل تو شیطان نے کہا

لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے

المختصر،ہر پیشے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہیں ۔اسی طرح وکالت کا پیشہ بھی ہے۔ضروری نہیں کہ پیشہ وکالت کو ہی حرام کہا جائے ۔میرے مطابق ہر پیشہ جس میں جھوٹ اور حق دار کا حق مارنا اور ناجائز معاملات وغیرہ وہ سبھی حرام ہے چاہے وہ ایک تدریس کا پیشہ ہو ،پولیس کا،یا کوئی اور وہ سبھی اسلام کے مطابق حرام ہوجاتے ہیں۔

Share
Share
Share