جاوید اختر بھارتی
ہم کسان ہیں صبح سویرے اٹھنا ہمارا کام ہے سردی ہو یا گرمی یابرسات، دھوپ ہو یا چھاؤں صبح صبح ہم کھیتوں میں جاتے ہیں ہل چلاتے ہیں کھیتوں میں جتائی بوائی روپائی کرتے ہیں،، ہم زمین کے اندر بیج ڈالتے ہیں اور یہ سب کرنے میں ہمیں دھوپ میں جلنا پڑتا ہے، لو کے تھپیڑوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بارش کے موسم میں بھیگنا بھی پڑتا ہے، گرمی کے موسم میں سر سے پاؤں تک پسینہ بھی بہانہ پڑتا ہے اور ٹھنڈک میں کانپنا اور ٹھٹھرنا بھی پڑتا ہے اور یہ سب ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ (ایشور) کی ذات پر مکمل بھروسہ ہوتا ہے کہ ہماری یہ محنت رنگ لائی گئی اور ہماری یہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی
اور جب ہمیں ہماری محنت کا صلہ ملے گا تو ہماری بھی بھوک مٹے گی اور تمام انسانوں کے پیٹ کی بھوک مٹے گی اور ہمیں ہماری محنت کا صلہ حاصل بھی ہوتا ہے ہم مٹی میں بیج ڈالتے ہیں اب اس میں سے پودا اگانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے اگر ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم مٹی میں بیج ڈالنے کے بعد فصل تیار ہونے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ فوراً تیار کرتے اور فصل کاٹتے یعنی روز بیجتے روز فصل تیار کرتے لیکن نہیں ہرگز نہیں ایسا ہم کبھی سوچتے بھی نہیں ہیں بلکہ ہم اس یقین کے ساتھ اپنا ہاتھ پیر چلاتے ہیں کہ فرمانِ الٰہی ہے کہ رزق دینے والا میں ہوں،، اور یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے حکمرانوں کا آرڈر انسانوں پر چلتا ہے لیکن کوئی تو ایسی ذات ہے کوئی تو ایسی ہستی ہے جس کا کنٹرول ہواؤں پر بھی ہے، دریاؤں پر بھی ہے، پیڑ پودوں پر بھی ہے، شجر و حجر پر بھی ہے، بحر وبر پر بھی ہے یہ وہی عظیم ہستی ہے جس کے سمیع و بصیر ہونے کا عالم یہ ہے کہ وہ کالی رات میں بھی کالے پہاڑ کے کالے پتھر پر چلنے والی کالی چیونٹیوں کو دیکھتا بھی ہے اور ان کے چلنے کی آواز کو سنتا بھی ہے اسی کو رب ذوالجلال کہتے ہیں جس طرح ہمارے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم لاکھ خوشیاں منالیں یہ الگ بات ہے لیکن ہم اس بچے سے کہیں کہ تو فوراً بڑا ہوجا میرے قد کے برابر ہوجا تو یہ ناممکن ہے اسی طرح جب ہمارے کھیت میں پودا اگتا ہے تو ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے لیکن ہم اس پودے کو پکڑ کر کہیں کہ فوراً بڑا ہوجا تو یہ بھی ناممکن ہے اسی لئے ہم صبر سے کام لیتے ہوئے اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور اللہ ہماری محنت کا یہ صلہ دیتا ہے کہ ایک ایک بالی میں سو سو دانہ لگاتا ہے اور ہر پودہ ہر دانہ اعلان کرتا ہے کہ قدرت کے خزانے میں کوئی کمی نہیں اور اللہ کہتا ہے بھی ہے کہ میرے دئیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ پیو اور میرا شکر ادا کرو اور زمین پر فساد برپا نہ کرو اور اسی لیے ہم نے خون پسینہ بہاکر اپنی فصل اکٹھا کی تو اس پر امیری غریبی کا لیبل نہیں لگایا، اس پر ذات برادری کا لیبل نہیں لگایا، اس پر علاقائیت اور رنگ و نسل کا لیبل نہیں لگایا اور اس پر مذہب کا بھی لیبل نہیں لگایا کیوں کہ جب ہوا پانی، زمین و آسمان سب کیلئے ہے اور آسمان سے ہونے والی بارش سب کے لیے ہے تو زمین کی چھاتی چیر کر نکلنے والا دانہ بھی سب کے لیے ہے اور اس دانے کی قدر کرنا بھی سب کی ذمہ داری ہے اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی سب کی ہے ہم نے کھیتی کے ذریعے گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا، ملک میں امن و سلامتی قائم کرنے کا پیغام دیا، بھائی چارگی کو بڑھاوا دیا، ہم نے قومی یکجہتی کو چار چاند لگایا، ہماری محنت و مشقت کے نتیجے میں تیار ہونے والی فصل سے سب نے فائدہ اٹھایا،، چاہے کوئی جھونپڑی رہے یا شیش محل میں، چاہے کوئی سائکل سے چلے یا لال بتی کی کار سے، چاہے کوئی فٹپاتھ پر سوئے یا مخمل کی سیز پر سب نے ہماری فصل کا دانہ کھایا اور اسی لئے آنجہانی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے جے جوان جے کسان کا نعرہ دیکر ہمارا حوصلہ بڑھایا لیکن آج کچھ لوگ نئ سوچ رکھتے ہیں، ہمیں کو آنکھ دکھاتے ہیں ہمارے ہی وجود کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں کل ہم اپنے کھیتوں میں سردیوں کا سامنا کرتے تھے اور آج راجدھانی میں سردیوں کا سامنا کر رہے ہیں ہماری فریاد سننے کو تیار نہیں اور ہمارے مطالبات کو اب تک تسلیم نہیں کیا گیا ہم صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ زرعی قوانین ہم کسانوں کے لئے موت کا پروانہ ہے حکومت کی اس پالیسیوں سے آلو پیدا کرنے والا کسان بھکمری کا شکار ہوگا اور آلو کی چپس بنانے والا مالدار ہوگا ایسی پالیسیاں ہمیں منظور نہیں –
بنی اسرائیل کے لئے اللہ کی طرف سے من و سلویٰ آتا تھا اللہ کی طرف سے کھانا آتا تھا تو انہوں نے ذخیرہ اندوزی کرنا شروع کردیا اور قانون قدرت کو چیلنج کرنا شروع کردیا حال یہ ہوا کہ ذخیرہ اندوزی کے بعد بھی کھانے سے محروم رہ گئے،، آج پھر وہی خواب دیکھا جارہا ہے جبکہ اس کے نتائج کیا ہوں گے اس کا جواب پیاز سے ملتا ہے اور کچھ دنوں قبل آلو سے بھی جواب مل چکا ہے ہم کسانوں کے گھروں میں جب تک پیاز رہتی ہے تو سو روپے میں دس کلو تک ملتی ہے اور سرمایہ داروں کے اسٹوروں میں چلی جاتی ہے تو سوا سو روپے میں ایک کلو ملتی ہے ابھی حال ہی میں آلو بھی چلاگیا تھا بڑے لوگوں کے ایرکنڈیش کمروں میں اور وہاں سے کہنے لگا کہ اب میری بھی کوئی معمولی حیثیت نہیں ہے نتیجہ یہ ہوا کہ ساٹھ ستر روپے کلو تک آلو فروخت ہوا لیکن وہ رقم ہم کسانوں کو نہیں ملی بلکہ حکومت کے سرمایہ داروں کو ملی،، ہم کسان گئے آلو کو پکڑا اسے سمجھایا کہ تجھ سے ملک کا غریب طبقہ بے انتہا پیار کرتا ہے تو اگر غریبوں سے منہ موڑے گا تو ایک دن پچھتائے گا ہمارا ہاتھ پکڑ چل غریبوں کی بستی میں چل ہمارے اپنے پرانے گھر ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غریب طبقہ بھی تجھ سے منہ نہ موڑ لے پھر تیرا انجام بھی بڑا بھیانک ہوگا جو لوگ آج ہمارے مسائل کو نظر انداز کر رہے ہیں کل وہی لوگ تجھے بورے میں بھر بھر کر پھینکیں گے بہر حال آلو کو ہم کسانوں کی بات سمجھ میں آئی وہ ہمارے ساتھ ہمارے گھر آیا اور آج سو روپے میں آٹھ کلو دس کلو آلو مل رہا ہے زرعی قوانین کیا ہیں اور ہم کسان پریشان کیوں ہیں اور حکومت سے کیوں لڑرہے ہیں اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے –