پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
ہزارہ برادری کے گیارہ معصوم نہتے غریب مزدوروں کو جس بے رحمی سفاکیت اور سنگ دلانہ وحشی طریقے سے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُن مجبوروں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر درندگی سے ذبح کیا گیا یہ منظر دیکھ اور سن کرہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا کہ کوئی انسان وہ بھی کلمہ گو مسلمان اِس قدر درندگی سے کسی انسان کو قتل کر سکتا ہے حکومت ہر بار کی طرح غیر ملکی دشمنوں کے کھاتے میں یہ کیس بھی ڈال کر پھر اقتدار کے جھولوں میں مست ہوجائے گی لیکن یہ حماقت ہو گی کیونکہ اکبر بگٹی کے افسوس ناک واقعہ کے بلوچستان میں آپ کو بہت سارے ایسے لوگ مل جائیں گے جو پاکستان کی سا لمیت اور مضبوطی کے خلاف ہو نگے
اِیسے ہی سر پھرے دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر مذہبی تفرقہ بازی کے شیش ناگ بن کر معصوم انسانوں کو ڈنگ مارتے نظر آتے ہیں بلوچستان پچھلے کئی عشروں سے ایک لاوے کی شکل اختیار کر تا جارہا ہے جس کو وقتی عارضی اقدامات سے سدھارنے کی کو شش کی جاتی ہے عارضی کو ششوں سے چند دنوں کے لیے نفرت کے یہ شعلے تھوڑے ٹھنڈے پڑتے ہیں لیکن پھر تھوڑے عرصے بعد ہی سانحہ ہزارہ جیسا واقعہ ملک کے طول و عرض میں غم و غصے کی لہر دوڑا جاتا ہے اب بلوچستان کی مسلسل سلگتی چتا کو مستقل ٹھنڈا کر کے پائیدار مستقل امن کی ضرورت ہے اِس کے لیے محروم طبقے سے مذاکرات کے ساتھ ساتھ اجتماعی شعور بیدار کر نے کی ضرورت ہے اِس کے لیے دانشوروں ارباب علم و دانش اور مذہبی علما کرام کو بھی اجتماعی شعور کی بیداری امن بھائی چارے پیار محبت کی فضا پیدا کر نے کی اشد ضرورت ہے علماء کرام کا وہ طبقہ جس نے پچھلی کئی دہائیوں سے نفرت تفرقہ بازی کی پنیری کاشت کی اُن کو روکنا ہو گا دوسروں کو برداشت کر نا ہو گا تما م مکاتب فکر کے علما ء کرام کو ایک میز پر بیٹھاکر قائل کر نا ہو گا کہ بہت ہو چکا اب نفرت تفرقہ بازی کفر کفر کی گولہ باری بند کر کے پیار و محبت کے پھولوں کو کاشت کی ضرورت ہے امن بھائی چارے مثالی رواداری کا ماحول بنانا ہو گا کیونکہ تفرقہ بازی اور دوسروں پر کفر کے الزامات نے پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے اب ملک کی فضا کو امن بھائی چارے میں بدلنے کے لیے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے وہ اگر تفرقہ بازی کے سیلاب کو روکا نہ گیا تو پھر خدا نہ کر ے ہزارہ برادری جیسے درد ناک واقعات وقو ع پذیر ہو سکتے ہیں امن رواداری پیار محبت دوسروں کو برداشت کر نے کے ساتھ تمام انسان خدا کا کنبہ ہیں مخالف نقطہ نظر کے لوگوں کو برداشت کر نیکا جذبہ فروغ دینا ہو گا برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں امن بھائی چارے انسان دوستی میں صوفیا کرام نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے موجودہ تفرقہ بازی نفرت دوسروں کو تحقیر سے دیکھنا خود کو حق پر دوسروں کو کافر قرار دینا جیسے جذبات بہت فروغ پاگئے ہیں اِن کو مٹانا ہو گا پھر سے گلشن تصوف کے گلشن کو آباد کر نا ہو گا صوفیانہ مٹھاس سے نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کر نا ہو گا دوسروں کو برداشت کر نا ہو گا انسان سے پیار کرنا ہو گا کو چہ تصوف کا دامن ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے جہا ں پر ہمیں انسان دوستی کے عظیم مظاہرے نظر آتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے یہی وہ عظیم میٹھے لوگ تھے جن کے آستانوں پر مذہب کی تفریق کے بغیر آنے والوں سے پیار کیا جاتا تھا انہیں گلے سے لگایا جاتا تھا ان کو پیار سے ایک ہی دستر خوان پر بٹھایا جاتا تھا جن کے دستر خوانوں پر مسلم غیرمسلم کی تفریق کی بجائے اللہ کی مخلوق کا درس دیا جاتا تھا جہاں پر انسان کواہمیت دی جاتی تھی صوفیا ء کرام کی مساجد اور خانقاہوں میں نفرت نہیں پیار کی مٹھاس بانٹی جاتی تھی جن کے لنگر خوانوں پر مسلم غیرمسلم سب اکٹھے کھانا کھاتے تھے جبکہ علما کی فوج نے غیر مسلم تو درکنار مسلمانوں کے آپس کے چھوٹے چھوٹے نظریاتی اختلاف کو اِس قدر بھڑکایا ہے کہ اب ایک ہی کلمہ پڑھنے والے ایک ہی رسول قرآن کو ماننے والے ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن ہیں کو چہ تصوف میں پیار بانٹنے کے ساتھ دوسروں کو برداشت کر نے کا سبق دیا جاتا ہے جہاں پر دشمن کو بھی گلے لگا یا جاتا اولیاء کرام کی اِسی صفت کی وجہ سے دشمن بھی حلقہ اسلام میں شامل ہو جاتے تھے خود کوقتل کر نے والوں زخمی کر نے والوں کو معاف کر دیا جاتا ہمارا معاشرہ جس طرح ذات پات نفرت تفرقہ بازی سے زہر آلودہ ہے اِس کو نارمل کر نے کے لیے صوفیانہ مٹھاس کی اشد ضرورت ہے جوصوفیا ء کرام کا خاصہ ہے حضرت شیخ نظام الدین اولیاء ؒ ہندوستان کے عظیم صوفی تھے جن کے دربار کے سامنے شاہی درباروں کی چکا چوند ماند پڑ جاتی تھی آپ ؒ کے خلیفہ اکبر حضرت سید نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ جن کو چراغ دہلی بھی کہا جاتا ہے آپ ؒ کا معمول تھا نماز عصر کے بعد حجرہ خاص میں عبادت الٰہی میں مشغول ہو جاتے۔ اِس دوران زائرین سے نہیں ملتے تھے بلکہ خادموں کو حکم تھا کہ آنے والوں کو ایک سکہ دے کر رخصت کر دو اگر آنے والا زیادہ مانگے تو پچاس سکے تک دے کر رخصت کر دو تاکہ میں ذکر مشغول رہ سکوں ایک دن آپ ؒ عبادت میں غرق تھے کہ ایک ملنگ آپ ؒ سے ملنے آیا خادموں نے بہت منع کیا سکے بھی دئیے لیکن وہ ملنے پر بضدر ہا کہ میں حضرت سے ملے بغیر نہیں جاؤں گا مجھے اندر جانے دو خادموں کے منع کر نے کے باوجود ملنگ زبردستی حجرے میں داخل ہو گیا شیخ عبادت میں غرق تھے کہ ملنگ نے اندر داخل ہو کر زمین پر پاؤں مار مار کر اونچی آواز میں بول کر شیخ کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا ابھی میری جھولی سکون سے بھر دو گو شیخ نے اشارے سے سمجھایا کہ ابھی تھوڑا انتظار کر ومیں ذکر سے فارغ ہو کر آپ کی آرزو پوری کر تا ہوں لیکن ملنگ تو پتہ نہیں کس اضطراب میں گرفتار تھا اشارے کو انکار سمجھ کر چھپا یا ہوا خنجر نکالا اور شیخ نصیر الدین چراغ دہلی ؒ پر خنجروں کی بارش کر د ی ملنگ وحشیانہ طریقے سے خنجر کے وار کر تا رہا شیخ عبا دت میں مشغول رہے آخر ملنگ آپ کو شدید زخمی کر کے باہر کی طرف بھاگا تو باہر خادموں نے ملنگ کو خون آلودہ خنجر کے ساتھ دیکھا تو پکڑنے کی کو شش کی ملنگ نے خادموں کو بھی زخمی کر دیا لیکن آخر کار پکڑا گیا توخادم ملنگ کو اندر حجرے کے لائے تو شیخ نصیر الدین چراغ خون میں نہائے ہوئے کپڑوں کے ساتھ زمین پر پڑے تھے آپ کی حالت دیکھ کر خادم دیوانے ہو کر ملنگ کو مارنے لگے تو دلوں کے مسیحا شیخ بولے نہ اِس کو کچھ نہ کہو اِس کو چھوڑ دو اِس کا کو ئی قصور نہیں ہے تو خادم بولے شیخ آپ خون میں بھرے پڑے اِس کو معاف کر رہے ہیں تو شیخ بولے یہ زخم تو میرے مقدر میں تھے اِس میں اِس کا کو ئی قصور نہیں ہے میری تقدیر میں تھا میں اپنے خون میں نہاؤں اِس لیے اپنے خون میں نہا گیا پھر آپ نے خادموں کو حکم دیا اِسکو پچاس اشرفیاں اور تیز رفتار گھوڑا اور جانے کا راستہ دے دو‘ درویش باکمال کا حسن سلوک دیکھ کر ملنگ حیران رہ گیا جنون ختم ہو اشیخ کے قدموں پر سر رکھ کر بولا اے حقیقی سلطان میں نے تم کو مارنا چاہا تم مجھے زندگی بخش رہے ہو تو شیخ نے اُس کو اٹھا یا اور کہا اِس سے پہلے کہ یہ خبر شہر میں پھیل جائے اور سارا شہر یہاں اکٹھا ہو جائے اور کوئی میرا دیوانہ تمہارا نقصان کر دے میں نے تم کو معاف کیا تم فوری مو قع کا فائدہ اٹھا ؤ اوریہاں سے بھاگ جاؤ میں نے تم کو د ل سے معاف کیا ساتھ ہی آپ نے خادموں کو حکم دیا کہ فوری طور پر اِس کو گھوڑا اور اشرفیاں دو‘ لہٰذا اُس ملنگ کو روانہ کر دیا گیا تو مریدوں نے پوچھا اے مالک وہ آپ کو مارنا چاہتا تھا آپ نے اُس کو اشرفیاں دے کر رخصت کیا تو آپ نے کہا ہو سکتا ہے اِس کو کبھی میرے کسی عمل سے دکھ پہنچا ہو اِس لیے ایسی حرکت کی تو خادم بولے شہنشاہ آپ تو سراپا محبت میں آپ تو پیار بانٹتے ہیں محبت بانٹتے ہیں تو آپ بولے میں اپنے خدا کے کسی بندے کو نقصان نہیں پہنچا سکتا شیخ نصیر الدین ؒ کی اُسی مٹھاس کی آج ہمارے معاشرے کو بہت ضرورت ہے۔