ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ساری دنیا کو جمہوریت کا سبق دینے والے امریکہ میں گزشتہ دنوں تشدّد کے جو کچھ واقعات پیش آ ئے اس سے امریکی سماج کے سارے دعوے کھوکھلے ثابت ہو گئے۔ چند دنوں میں صدارتی عہدہ سے سبکدوش ہو نے والے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اُکسانے پر ان کے حامیوں نے امریکی پارلیمنٹ کی عمارت: کیپٹل ہِل: پر حملہ کر تے ہوئے جس کھلی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا اس سے پوری دنیا حیران اور ششدر ہو گئی۔
کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک میں اقتدار کی منتقلی کے مرحلے کے دوران ایسے خون آ شام واقعات ہوں گے۔ امریکہ کی 244سالہ تاریخ میں پہلی مر تبہ ایسا بد ترین منظر دیکھنے میں آ یا کہ یہاں کے صدر، صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے کے باوجود عہدے سے چمٹے رہنے کے لئے ملک میں آگ و خون کا ماحول پیدا کر دئے۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ ان کی انانیت بھی مشہورِ زمانہ ہے لیکن اس بات کا کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ غیر قانونی طور پر اقتدار پر قابض رہنے کے لئے آئینی اور اخلاقی حدود کو بھی پار کرجائیں گے۔ ڈونا لڈٹرمپ 3/ نومبر 2020کو ہوئے امریکی صدارتی انتخاب میں اپنی شکست کو ماننے سے مسلسل انکار کر تے رہے۔ ان کا دعوی تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں ہار نہیں سکتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے ہر حربہ اختیار کر تے ہوئے یہ جتانے کی کوشش کی کہ وہی امریکہ کے صدر بر قرار رہیں گے۔ لیکن ان کی ساری چالیں کار گر ثابت نہ ہو سکیں۔ ایک ایسے وقت جب کہ امریکی پارلیمنٹ میں ووٹوں کی گنتی جاری تھی اور ٹرمپ کی اُلٹی گنتی شروع ہو چکی تھی، ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہِل پر چڑھائی کردی جس سے صورت حال بگڑ گئی اور پارلیمنٹ کی بلڈنگ ایک میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ طرفہ تماشا یہ کہ ٹرمپ خود کیپٹل ہل کے با ہر ہجومیوں سے خطاب کر تے ہوئے انہیں بھڑکا رہے تھے اور انہیں مزید طاقتوربننے کی تاکید کر رہے تھے۔ اس ہنگامہ میں چار افراد ہلاک ہو گئے اور سینکڑوں زخمی ہو ئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس جارحانہ کارستانی کی دنیا بھر کے قائدین نے سخت الفاظ میں مذ مت کی ہے۔ امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ کو بغاوت کا مر تکب قرار دیا ہے۔ امریکہ کے چار سابق صدور بارک اوبا ما۔ جارج ڈبلیو بش، بل کلنٹن اور جمی کارٹر نے اس پر اپنے صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے اس حملہ کو دارالحکومت، دستور اور ملک پر حملہ قرار دیا ہے۔ عالمی قائدین نے کیپٹل ہل تشدد کو امریکی جمہوریت پر حمل گردانتے ہوئے اس پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔ وہ ملک جو پوری دنیا میں جمہوریت کے مسیحا کے طور پر اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے آج وہاں اقتدار کی پُر امن منتقلی کئی اندیشوں کا شکار ہو گئی ہے۔ منتخب صدر جو بائیڈن، 20/ جنوری کو اپنے عہدہ کا حلف لینے والے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب سے پہلے یااس دوران کسی بھی نا خو شگوار واقعہ کو روکنے کے لئے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں 24/ جنوری تک ایمر جنسی نافذ کردی گئی ہے۔ سیکور یٹی کے لئے فوج کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ سارے حفا طتی انتظامات کے با وجود امریکہ میں دہشت گردی کے بادل چھٹے نہیں ہیں۔ امریکی حکام کو اس بات کا خوف ہے کہ ڈونا لڈ ٹرمپ اس موقع پر بڑے پیمانے پر تشدد کو بھڑکاتے ہوئے امریکی معاشرے اور امریکی اداروں کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیپٹل ہل کے واقعہ کے بعد ٹرمپ کی بر طرفی کا بھی مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ لیکن ابھی بھی ٹرمپ صدر کے عہدہ پر فائز ہیں
امریکی پارلیمنٹ پر ہوئی اس یلغار نے جہاں امریکہ کی جمہوریت کو داغدار کیا وہیں امریکی حکمرانوں کے غرور و تکبر کو واضح کر دیا۔ ایک عظیم ملک کا صدر اپنی انتخابی شکست سے اتنا بو کھلا گیا کہ اس نے اپنے ملک کی روایات اور جمہوری قدروں کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے اشتعال انگیز بیا نات کے ذریعہ تشدد کو ایسی ہوا دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دارلحکومت میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا۔ ان واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ کے موجودہ صدر قانون اور جمہوریت پر ایقان نہیں رکھتے بلکہ دھونس اور دھاندلی اور طاقت کے بل بوتے پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ امریکی عوام کی جانب سے مسترد کئے جا نے کے بعد بھی وہ وائٹ ہاوس کو چھوڑنا نہیں چا ہتے اور بدستور صدر بنے رہنا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد کے خاطر انہوں نے ملک میں ایک ہیجان پیدا کر دیاتا کہ اقتدار کی منتقلی کا عمل پورا نہ ہو سکے۔ لیکن ان کی یہ ڈرامہ بازی چل نہیں سکی۔ ہنگاموں کے دوران ہی امریکی کانگریس نے بائیڈن کی جیت کی تو ثیق کر دی۔ بائیڈن امریکہ کے صدر کی حیثیت سے 20/ جنوری کو حلف لینے والے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ڈونالڈ ٹرمپ کا قصہ تمام ہو جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ بائیڈن، ٹرمپ کے خلاف کوئی کاروائی کر تے ہوئے ان کو سزا دینے میں کا میاب ہوتے ہیں یا پھر ٹرمپ عہدہ پر نہ رہتے ہوئے بھی امریکن لابی کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ امریکی کانگریس کے نتائج کے بعد ٹرمپ نے اپنا لب و لہجہ بدل دیا۔ ایسا انہوں نے پوری دنیا کی جانب سے تنقید کئے جا نے کی وجہ سے کیا یا اپنے کئے کی سزا پانے کے ڈر سے انہوں نے اپنے تیور بدل دئے ہوں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑ تا۔ اب وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ جب کانگریس نے انتخابی نتائج کی تو ثیق کردی ہے تو ان کی کو شش ہو گی کہ اقتدار کی منتقلی بھی پر امن انداز میں ہو۔ اور وہ آئین کے مطابق مقررہ وقت میں اپنے پیش رو کو اقتدارسونپ دیں گے۔ ٹرمپ نے امریکی پارلیمنٹ پر ہوئے حملہ سے اپنے کو بے تعلق بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جو گروہ اس حملہ میں ملوث ہے وہ امریکی معاشرہ کی نما ئندگی نہیں کر تا۔ لیکن کیا ٹرمپ کی ان باتوں پر یقین کیا جا سکتا ہے۔ ساری دنیا جا نتی ہے کہ شورش پسندوں کی حو صلہ افزائی کوئی اور نہیں بلکہ ٹرمپ خود کر رہے تھے۔ انہوں نے ہی اپنے حا میوں کو کیپٹل ہل پر یلغار کرنے کے لئے اکسایا۔ جب عالمی برادری کی جانب سے ٹرمپ کو ذلت آمیز جملے سننے پڑے تو انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ اس واقعہ پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے برات کا اعلان کر دیا جائے۔ لیکن ان کی اس دوہری پالیسی کو کوئی سمجھ دار انسان قبول نہیں کر سکتا۔ گزشتہ 7/ جنوری کو امریکہ میں تشدد کے جو واقعات ہوئے یہ ڈونالڈ ٹرمپ کی چار سالہ زہریلی سیاست کا نتیجہ ہے۔ ٹرمپ ایک نسل پرست صدر واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے سیاہ فاموں کو کچلنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ گزشتہ سال ایک سیاہ فام کو جس بیدردی کے ساتھ ایک سفید فام پولیس آ فیسر نے قتل کر دیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ نے کس طرح امریکی سماج کو اپنی سیاست کے ذریعہ آلودہ کر دیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ صرف امریکیوں کے لئے رہے گا۔ اس سے امریکہ میں مقیم بیرونی ممالک کے شہریوں میں بچینی پھیل گئی تھی۔ ٹرمپ کے چار سالہ دور میں نسلی تشدد کے بے شمار واقعات پیش آئے لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اس پر قابو پانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ نسلی منافرت، یوروپ میں عام ہے لیکن اس کو بڑھاوا دینے میں ٹرمپ کا رول بڑا اہم رہا۔ ایک طرف مساوات اور آزادی کے نعرے بلند ہوتے رہے اور دوسری طرف رنگ اور نسل کی بنیاد پر انسانوں کا قتلِ عام ہوتا رہا۔ ہزروں سیاہ فام ان چار سالوں کے دوران نسلی امیتازکا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔گزشتہ ہفتہ بھی جو ہوا وہ اسی کا تسلسل ہے۔
امریکہ کے پُر تشدد واقعات کے تناظر میں دوسرے ممالک میں جمہوریت کے حوالے سے ہونے والی کارستانیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی کوئی خوش آ ئند صورت حال نظر نہیں آ تی۔ ہمارے اپنے ملک میں جمہوریت کی نقاب میں کیا کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ پارلیمانی عددی اکثریت کی بنیاد پر ملک میں اکثریتی طبقہ کے ایک گروہ کو من مانی کرنے کی کھلی آزادی اسی جمہوریت کے نام پر دی جا رہی ہے۔ یہ طبقہ دستور اور قانون کی دھجیاں اُ ڑا تے ہوئے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہا ہے۔ لیکن حکومت ان کو ہر قسم کی چھوٹ دے رکھی ہے۔ کبھی گؤ کشی کے نام پر اور کبھی لَو جہاد کے نام پر ہندوستانی سما ج کو تقسیم کر نے کی مذموم حرکتیں اب عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ملک کی بعض ریاستوں میں قانون سازی کے ذریعہ اقلیتوں کے حقوق کو سلب کرنے کا عمل جاری ہے۔ ایسا معلوم ہورہا ہے حکمران جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار کو استحکام بخشنا چاہتے ہیں۔ ڈونا لڈ ٹرمپ نے اکیسویں صدی میں جو کچھ کیا، ہندوستان میں ایسا واقعہ بیسویں صدی کے اواخر میں دیکھنے میں آ یا تھا۔ 1975جب الہ آباد ہائی کورٹ نے مسز اندراگاندھی کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے انہیں وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے لئے کہا تھا، اس وقت اندرا گاندھی نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کے بجائے پورے ملک میں ایمرجنسی نا فذ کر دی تھی اور سارے اپوزیشن لیڈروں کو جیل میں بند کر دیا تھا۔ اس وقت امریکہ نے ہندوستان کو جمہوریت کا سبق پڑھایا تھا اور اندراگاندھی کے اقدام کی مخالفت کی تھی۔ لیکن آج اُسی امریکہ کا صدر عوامی فیصلہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ اقتدار کی منتقلی میں روڑے اٹکارہا ہے۔ اس سے امریکی جمہوریت کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ جس راستے پر جا رہے ہیں اس کی تقلید ہمارے ملک کے وزیراعظم بھی کر سکتے ہیں۔ نریندرمودی نے جس انداز میں ہندستانی سیاست کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اس سے ملک میں جمہوریت کا مستقبل ڈانوا ڈول ہوتا نظر آرہا ہے۔ اپنی پہلی معیاد کے دوران انہوں نے ملک کے قانونی اور دستوری اداروں کی آزادی کو بڑی حد تک کم کردیا اور اب تو یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر کوئی قانون نہیں بن سکتا اور نہ ہی ملک میں نافذ ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن سے لے کر سپریم کورٹ کی کارکر دگی شک کے دائرے میں آ گئی ہے۔ ابھی کسانوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے زرعی قوانین کا جائزہ لینے والی کمیٹی پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کر تے ہوئے اس کے سامنے پیش نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کسانوں کو بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کی جانب سے غیرجانبدار اور شفاف انداز میں الیکشن نہ کرائے جانے کی شکایات عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم نریندرمودی نے ایک قوم۔ ایک الیکشن کی بحث بھی ملک میں چھیڑ دی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہونے سے قومی مصارف میں کمی آ تی ہے۔ اس سے رائے دہندوں کو بھی سہولت ہوگی۔ لیکن یہ بات با خبر حلقے جا نتے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑا منصوبہ کام کر رہا ہے۔ مودی چاہتے ہیں مرکز کے ساتھ ساتھ ساری ریاستوں میں بی جے پی کے ہاتھوں میں اقتدار آ جائے۔ انہوں نے ملک سے کانگریس مکت کا نعرہ لگایا تھا۔ اور آج کانگریس اپنی تاریخ کے بدترین دورسے گذر رہی ہے۔ اب بی جے پی ملک سے ساری اپوزیشن پارٹیوں کو ختم کر نا چاہتی ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اگر جو بائیڈن کو اقتدار میں آنے سے روکنے میں کامیاب ہوجاتے تو مودی کے لئے بھی راستہ صاف ہوجاتا اور 2023کے الیکشن میں ہارنے کے باوجود مودی ملک کے وزیراعظم بن جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو اپنی شکست کے بعد اقتدار چھوڑنا پڑا۔