پروفیسر محمد عبد اللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
ہزارہ برادری کے موجودہ قتل عام جس میں گیارہ معصوم جانوں کو بے رحمی سے ذبح کر دیا گیا پھر لواحقین کا اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ خاموش احتجاج اور وزیراعظم کا انتظار پھر یہ احتجاج کوئٹہ سے ملک کے کونے کونے میں پھیلتا چلا گیا اگر دنیا کے مہذب ترقی یافتہ ممالک کی طرح وزیر اعظم صاحب پہلے دن ہی غمزدہ لواحقین سے اظہار افسوس اور یک جہتی کے لیے چلے جاتے تو یہ احتجاجی دھرنے ملک کے چپے چپے میں نہ پھیلتے لیکن حکومتی وزرا اور مشیروں کے غلط مشوروں سے وزیر اعظم جس طرح لیٹ کرتے گئے اتنا ہی وطن عزیز کے باشعور اہل دل انسان ہزارہ والوں کے درد دکھ اپنا دکھ محسوس کر نا شروع ہو گیا
پھرجب تک دھرنے اپنے عروج پر پہنچے یہاں تک کہ ملک مفلوج ہو کر رہ گیا تو عزت مآب وزیر اعظم مجبور ا ً جاکر لواحقین سے ملے اِس طرح متاثرین نے اپنے پیاروں کی تدفین تو کر دی لیکن یہ چھ دن جب متاثرین سردی کے برفشاں میں اپنے پیاروں کی لا شیں رکھ کر دن رات لگاتار احتجاج اور انتظار کرتے رہے اِس نے پاکستانی قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے پاکستان کا شاید ہی کوئی طبقہ فکر ایسا ہو جس نے ہزارہ کا درد دکھ ظلم برداشت نہ کیا ہو وہیں پر یہ سوال بھی شدت سے عوامی ذہنوں میں کروٹ لیتا رہا کہ بیس سالوں سے ہزارہ برادری کا قتل عام تواتر سے جاری ہے دہشت گردوں کے لیے یہ بلوچستان کئی عشروں سے چراگاہ بن گیا داعش اور بھارتی غنڈوں کی یہ آما جگاہ بن چکی ہے جب پاکستان دشمن کسی قوت کو اپنا غصہ نکالنا ہو تا ہے یا پاکستان کو دھمکی دینی ہو تی ہے تو وہ ہزارہ برادری پر موت کی بارش کر دیتی ہے یہاں تک کہ بار بار ہونے والی اِس بربریت سے ہزارہ برادری کے ہزاروں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں جب بھی دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ہزارہ برادری کے لوگوں کو گاجرمولی کی طرح کاٹ دیتے ہیں تو متاثرین چند دن احتجاج کر کے حکومتی وعدہ پر کہ دوبارہ اُن کی برادری کے ساتھ یہ ظلم نہیں ہوگاچپ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن چند دن گزرنے کے بعد پھر خون کی ہولی دوبارہ کھیلی جاتی ہے بار بار سر زمین بلوچستان کو ہزارہ برادری کی مقتل گاہ بنا دیا جاتا ہے بار بار قتل و غارت سے ہزارہ برادری کا یہ زخم اب ناسور کینسر پھوڑا بن چکا ہے جس کے علاج کے لیے حقیقی کو ششوں کی بجائے زبانی وعدوں سے متاثرین کو ٹرخایا جاتا ہے لہذا بار بار کی وعدہ خلافیاں اور جھوٹے دلاسوں کے بعد جب اِس بار تنگ آکر متاثرین نے جب اپنے مطالبات میں یہ گستاخی کر دی کہ اب ہم عام حکومتی وزرا یا مشیروں کی باتوں پر یقین نہیں کریں گے اِس بار ملک کا وزیر اعظم ہمارے پاس آکر افسوس دل جوئی کے ساتھ حقیقی ٹھوس پلان کیساتھ وعدہ کر ے تاکہ آئندہ ہماری نسل کشی کا عمل رک جائے اگر یہ نسل کشی کا عمل جاری رہا تو ہماری بقا خطرے میں پڑ جائے گی جب بیماروں نے وزیراعظم صاحب کا مطالبہ کیا تو اُن کے مطالبے کو سنجیدہ لینے کی بجائے اُن کو بلہک میلر قرار دے کر ان کا مذاق اڑا یا گیا حکومت کی طر ف سے اِس طرح کی غیر سنجیدگی نے اہل وطن کے دلوں کو اُدھیڑ کر رکھ دیا سوشل میڈیا پر وزیراعظم صاحب کے بیان کی مذمت میں طوفان سا آگیا یہاں تک کے وہ حکومت کے حمایتی جو ہر ناجائز بات پر بھی سینہ ٹھونک کر سامنے آکر حکومت اور پی ٹی آئی کی سائیڈ لیتے تھے الفاظ کی جادوگری سے حکومتی موقف کو سچ ثابت کر تے تھے اِس بار عوامی رد عمل دیکھ کر اِیسے حمایتی بھی منہ چھپا نے پر مجبور ہو گئے یہاں تک کہ سارا ملک احتجاج کی آگ کی لپیٹ میں آکر جھلسنے لگا تو عوام کا شدید ناراضگی کا رد عمل دیکھ کر ارباب اقتدار خواب غفلت سے جاگے وزیر اعظم صاحب نے جا کر سانحہ ہزارہ برادری سے افسوس کیا اِس طرح لواحقین نے اپنے پیاروں کی تدفین کر تو دی لیکن یہاں پر ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ حکومت وقت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کہ اِس بار تو متاثرین نے لاشیں رکھ کر وزیر اعظم صاحب کے آنے کا مطالبہ کیا ہے اگر اِس بار بھی دہشت گردی اور ہزارہ برادری کی نسل کشی کو بند نہ کیا گیا دہشت گردوں کے خاتمے ان کے نیٹ ورک کو توڑنے کے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے اور خدا نخواستہ پھر دہشت گرد کوئی ایسی ظالمانہ کاروائی کر تے ہیں تو ہزارہ برادری کا رد عمل کیا ہو گا اب ارباب اقتداار کو اِس مسئلے کو سنجیدہ لینا چاہیے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے انٹیلی جینس ادارو ں کو متحرک کر کے دہشت گردوں کی جڑوں کو کاٹنا ہو گا لیکن ہمارے ملک کا یہ المیہ ہے کہ حکومت وقت ماضی کی حکومتوں کی طرح خاں صاحب کی حکومت بھی وطن عزیزسے نفرت تفرقہ بازی مذہبی نفرت کو ختم کر نے کی بجائے مخالفین کو دبانے ان کا پیچھا کرنے پر لگی ہوئی حکومت وقت کو حزب مخالف یا ماضی کی حکومتوں کی کرپشن کے گیت الاپنے کی بجائے اپنی ساری توجہ دہشت گردی کے خاتمے پر لگانی چاہیے اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج نے بے شمار قیمتی جوانوں افسروں کی شہادت کے بعد وطن عزیز کو دہشت گردی سے پاک کیا ہے اور پاک فوج کی شہادتوں اور عزم حوصلے سے ہی وطن عزیز میں امن چین آیا ہے لیکن اب بلوچستان میں توجہ کی ضرورت ہے جو پچھلے کئی عشروں سے صوبابیت عصیبت نفرت حقوق کے متاثر ہونے کے غم میں مبتلا ہے جہاں پر عالمی دہشت گرد تنظیموں اور بھارت کو اپنی ناپاک سازشوں کے لیے لوگ مل جاتے ہیں لہذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ بلوچستان کا احساس محرومی ختم کیا جائے حکومت کو اجتماعی شعور کے لیے تمام مکاتب فکر کے علما کو بٹھا کر نفرت تفرقہ بازی کی آگ کو ٹھنڈا کر نا چاہیے تمام علما سے درخواست کی جائے کہ کافر کافر کی گولہ باری بند کی جائے اور پاکستان کی انٹیلی جینس اداروں کو مزید فعال کیا جائے تاکہ وہ دہشت گردوں کی جڑوں تک پہنچ کر ان کا خاتمہ کر نے میں اہم کردار ادا کریں اگر حکومت وقت مقتدر حلقوں نے اِس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو ہزارہ برادری کے معصوم نہتے عوام تنگ آکر عالمی دہشت گرد تنظیموں اور منافق بھارت کے جاسوسوں کے آلہ کار بن جائیں شہدا کی تدفین اور دھرنے کے ختم ہونے سے مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ آنے والے دنوں میں ایسا واقعہ ظلم نہ ہو حکومت اور انٹیلی جینس اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر ایسے برق رفتار ٹھوس اقدامات اُٹھانے چاہئیں کہ آئندہ ایسا کوئی ظلم بربریت کسی بھی فرقے یا طبقے پر نہ ہو ورنہ اِس بار وطن عزیز کا چپہ چپہ دھرنے کی صورت میں جو خاموش احتجاج کی صورت میں سامنے آیا آئندہ احتجاج خاموشی کی بجائے ردِ عمل کے طور پر ہو شروع میں مسئلے کو ختم کر نا آسان ہو تا اگر لیٹ ہوجائیں تو قطرہ ندی دریا سمندر بن کر ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر ہزارہ برادری کے جائز مطالبات کو مان کر ان کا سد باب کر نا چاہیے۔