اظہر جمال ، مؤ
ایم فل ریسرچ اسکالر، یونیورسٹی آف حیدرآباد
عالمی شہرت یافتہ ادیب محقق اور نقا پدم شری پروفیسر شمس الرحمن فاروقی صاحب‘ جناب حسن چشتی صاحب اور پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے سانحہئ ارتحال پر شعبہ اردو، یونی ورسٹی حیدرآباد کی جانب سے ایک تعزیتی اجلاس بتاریخ ۹۲/دسمبر ۰۲۰۲ء بروز منگل بوقت ۳ بجے دن آن لائن منعقد کیا گیا جس میں شعبہئ اردو کے اساتذہ کے علاوہ دیگر احباب بھی اپنے شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔تعزیتی اجلاس کا آغاز شعبہئ اردو کے ریسرچ اسکالر نسیم امانتی کی قرات کلام پاک سے ہوا۔ ڈاکٹر نشاط احمد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نے کہا کہ ہمارے لیے یہ ایک دکھ بھرا ناقابل تلافی مرحلہ ہے۔
۲۰۲۰ء جہاں عالمی وباکا سال ٹھہرا اس کا براہ راست اثراردو زبان و اد ب پر بھی پڑا اور سرکردہ شخصیات جو اپنی ذات میں ایک انجمن ایک قوم ایک ادارہ ایک تحریک ایک رجحان تھے وہ اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ ڈاکٹر اسلم فاروقی صدرشعبہئ اردو،گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر نے کہا کہ حسن چشتی صاحب دکن کے نمائندہ شخصیت تھے اور سیاست اخبار میں ان کی تخلیقات اکثر شائع ہوا کرتی تھیں آپ کی تحریروں سے حیدرآبادی تہذیب کا اظہار ہوتاتھا۔شمس الرحمن فاروقی سے ایک انٹرویو میں سوال کیا گیاکہ آپ کے تنقیدی رویے کے بارے میں کچھ کہیے تو انھوں نے کہا تھا کہ جب کبھی میں نے کوئی تخلیق پڑھی ہے تو اس میں جو باتیں کہی گئی ہیں اس کو میں نے من و عن قبول نہیں کیا ہے چاہے وہ تنقیدی تخلیق ہو یا کوئی اور تخلیق بلکہ جہاں کہیں میرے ذہن میں کچھ سوال آئے۔تو وہاں پر میں رک گیا اور سوال اپنے ذہن میں کیا اور ان سوالوں کے جواب پانے کی کوشش کی۔ اسلم فاروقی نے کہا کہ جب کسی شخصیت کا انتقال ہوجاتاہے تو خلا بن جاتاہے لیکن یہ دنیا کا اصول ہے کہ جانے والے کبھی نہیں آتے جانے والوں کی یاد آتی ہے۔ ڈاکٹر اے۔ آر منظر استاد شعبہئ اردو، یونی ورسٹی آف حیدرآبادنے اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔تصانیف کے حوالے سے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ پروفیسر شوکت حیات جنھوں کچھ برس اسی یونیورسٹی میں برسرکار تھے‘نے اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی اور حسن چشتی صاحب کے بہت زیادہ تخلیقات ہیں ان سے استفادہ کیا جائے تاکہ ان کو صدقہئ جاریہ پہنچے اور اللہ ان دونوں کو قبر میں کروٹ کروٹ آرام نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ڈاکٹر محمد زاہدالحق اسوسیئٹ پروفیسر شعبہئ اردو، یونی ورسٹی آف حیدرآباد نے اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی نے ہم لوگوں کو ادب پڑھنا سکھایا کہ ادب کو پڑھتے کیسے ہیں اس کو سمجھتے کیسے ہیں اور کیسے ڈائجیسٹ کرتے ہیں انھوں نے کہا کہ ان کی ایک پتلی سی کتاب ”اردو غزل کے اہم موڑ“دیکھ لیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ وہ کلاسیکی ادب سے کس طرح الجھتے رہے ادب کے سوالات کے جوابات وہ کس طرح سے دیتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ شمس الرحمن فاروقی نے جس فن پہ قلم اٹھایا جس چیز پر لکھا انھوں نے اس کا حق ادا کردیا۔ جناب حسن چشتی کے بارے میں ڈاکٹر زاہدالحق نے کہا کہ ان کے بات کرنے کا طریقہ و سلیقہ دیکھا تولگا کہ ہاں یہ حیدرآباد کی پرانی تہذیب کا ایک علمبردار ہیں اور وہ آدمی تمام حیدرآبادکی تہذیبی وراثتوں کو سمیٹے ہوئے ہے انھوں نے مجتبیٰ حسین کی تحریروں کو جمع کیا ہے حسن چشتی کا بڑا کارنامہ ہے وہ شکاگو میں رہتے تھے اور سات سمندر پار اردوکی خدمت کرنا اردو کی شمع روشن کرنا اردو تہذیب کا علمبردار بنے رہنا اپنے آپ میں ایک مثال ہے اور بڑا کام ہے۔ ا انھوں نے پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے انتقال کی اطلاع بھی دی اور اپنے استاد کے بارے میں گہرے رنج و ملال کا اظہار کیا۔انھوں نے کہاکہ ایسی آفتاب مہتاب شخصیت کا درمیان سے اٹھ جانا ادب کا نقصان ہے ہمارے سماج کا نقصان ہے اور بالخصوص حیدرآباد کی تہذیب کا نقصان ہے کہ ایسے لوگ جو انگلیوں پر گننے کے لائق بچے ہوئے تھے وہ سب بھی ہمارے درمیان سے اٹھتے ہوئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔پروفیسر حبیب نثار نے جناب حسن چشتی‘ پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی اور پروفیسر ظفر احمد صدیقی سے اپنے دیرینہ ماسم کا تذکرہ کرتے ہوے کہا کہ حسن چشتی حیدرآباد تہذیب کے نمائندہ تھے انہوں دیار غیر میں اردو کے فروغ کے لیے بہت کچھ کام کیا۔پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی اردو زبان و ادب کے حوالے سے ہمیشہ جانے جاتے رہیں گے ان کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔انہوں نے بہت سی نسلوں کی ذہنی تربیت کی ہے۔پروفیسر ظفر احمد صدیقی کا کلاسیکی ادب کی طرف رجحان تھا۔انہوں اس حوالے سے بہت کچھ کام کیا گو کہ ان میں کچھ خامیاں تھیں مگر انسان بشر ہے۔ اللہ تعلیٰ ان تمام مرحومین کی مغفرت فرماے۔ آخر میں صدر شعبہئ اردو پروفیسر فضل اللہ مکرم صاحب، یونی ورسٹی آف حیدرآباد نے اپنے شدید رنج وغم کا اظہار کیا اور انھوں نے کہا کہ حسن چشتی صاحب عثمانیہ یونیورسٹی کے یونین لیڈر بھی تھے ادیب بھی تھے اور سب سے بڑی بات وہ ایک تہذیبی سفیر بھی تھے وہ حیدرآباد کے مختلف اخبار اور رسائل کے لیے لکھتے رہے۔وہ میرے ہم محلہ تھے۔ان کو اسرارالحق ایورڈ سے بھی نوازے گئے، ایوارڈ آف ایکسلینٹ ملا، ظہیر احمد ایوارڈ ملا بہت سارے انھیں ایوارڈ بھی ملے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ انھوں نے اردو کے فروغ کے لیے بہت ساری محفلیں منعقد کیں اور وہاں اردو زبان و تہذیب خصوصاً حیدرآباد کی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے بہت کچھ کیا۔ وہ اچھے شخصیت کے مالک تھے‘ دھیمے لہجے میں بات کرتے تھے ایسے لوگ اب ہمارے درمیان نہیں رہے اللہ تعالیٰ حسن چشتی صاحب کے درجات کو بلند فرمائے عذاب جہنم سے بچائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ شمس الرحمن فاروقی کے بارے میں پروفیسر فضل اللہ مکرم فرماتے ہیں کہ شمس الرحمن فاروقی سے بڑا نقاد کون ہوسکتا ہے؟ ا حالانکہ انھوں نے تخلیقی میدان کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا، انھوں نے شاعری بھی کرکے دکھائی، افسانے لکھ کربتایا، انھوں نے بہترین ناول لکھا اور کہا ہمیں اس کو چھوڑ نا نہیں چاہیے وہ جدیدیت کے حوالے سے جانے جاتے ہیں انھوں نے ”شب خون“ اکے ذریعے پوری ایک نسل کی تربیت کی۔ انھوں نے ادب کے حوالے سے باضابطہ ایک فاروقی مسلک چھوڑا ہے اوروہ اس کے امام تھے انھوں نے نہ صرف جدیدت کو پروان چڑھایا بلکہ وہ پھر کلاسکی شاعری کو رجوع ہوئے انھوں نے کہا کہ آپ کو زبان سیکھنا ہے تو داستانوں کا مطالعہ کیجیے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس پر تحقیق کی تنقیدی کی بلکہ قدیم شعریات جیسے میر تقی میر اور غالب پر خامہ فرسائی کی انھوں نے شعر شور انگیز کے حوالے سے جو کام کیا ہے شاید ہی ہمیں اس کی کوئی مثال ملے گی ۔ انھوں نے ہر صنف کے حوالے سے کام کیا اور بہترین کام کیاایسے لوگ اب اردو میں نہیں رہے۔ یہ گود سے گورتک طالب علم رہے اور مطالعے میں اپنی ساری زندگی صرف کردی۔ ان کے نہیں رہنے کی وجہ سے اردو کا بہت بڑا نقصان ہے اور ہم اردو والوں کا بڑا نقصا ن ہے۔اللہ تعالیٰ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور انھیں عذاب جہنم سے بچائے۔پروفیسر ظفراحمد صدیقی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ انھوں نے شبلی پر بھی بہت کچھ کام کیا تھا مولانا شبلی کی سیرت نگاری کے علاوہ شبلی کے حوالے سے کئی کتابیں ترتیب دیں وہ اچھے نقاد تھے اچھے مرتب تھے وہ بھی اب ہم میں نہیں رہے۔انھوں نے کہا کہ شعبہئ اردو کے اساتذہ طلبا، ریسرچ اسکالرز اور دیگر احباب جو یہاں جڑے ہوئے ہیں میں ان کی طرف سے اظہار تعزیت کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ان تینوں احباب کو جنت الفردوس عطا فرمائے، عذاب قبر اور عذاب جہنم سے بچائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے اور انھوں نے جو کچھ سرمایہ ہمارے لیے چھوڑ رکھا ہے اس سے استفادہ کریں۔اس تعزیتی اجلاس میں شعبہ اردو کے طلبا و طالبات اور ریسرچ اسکالرز اور دیگر احباب بھی شریک تھے۔ آخر میں ریسرچ اسکالر نسیم امانتی کی دعائیہ کلمات سے تعزیتی اجلاس اختتام کو پہنچا۔