محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز(اردو وہندی) پورٹل ومیگزین، گورکھ پور
دورحاضر میں موبایل ہماری زندگی کا ایک ایسا جز بنتا جارہا ہے جسے ہم سے جدا کرنا ایسے ہے جیسے انسان کے کھانے، پینے پر پابندی عائد کردی جائے بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ آدمی کو دو وقت کی روٹی کے بجائے ایک وقت کا کھانا ملے وہ منظور ہے مگر موبایل کے بغیر زندگی اجیرن ہوئی جارہی ہے۔ اس سے کوئی سروکار نہیں کہ بمشکل تمام پانچ یا دس فی صد لوگ اس سے خارج ہوں مگر اکثریت کی زندگی بغیر موبایل کے مشکل تر ہے۔ اور جب سے سوشل میڈیا نے اپنی بانھیں پھیلائی تو لوگوں خاص کر نوجوانوں نے اسے اپنی معشوقہ کی بانہہ سمجھ لی اور ایسے چمٹے کہ دو جسم ایک جان کہلانے لگے،،، کچھ کا حال تو یہ ہے کہ وہ صبح اٹھ کر جماہی بعد میں لیتے ہیں موبایل کی سوشلستان کا دورہ پہلے کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے فائدے بہت ہیں اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے مگر اسی میں ہمہ وقت مصروف رہنا کہاں کی عاقبت اندیشی ہے؟ خیر! یہ تو انسان کا اپنا ذاتی معاملہ ہے دوسرے کو اس سے کیا؟؟؟؟؟ ہاں! ذاتی معاملہ سے کچھ یاد آیا۔۔۔۔۔ ابھی سوشلستان کی مشہور ویب سائٹ اور ایپ واٹس ایپ نے اپنی جدید پالیسی جاری کی ہے اور اپنے یوزرز (استعمال کرنے والوں) سے کہا ہے کہ ہماری جدید پالیسی کو قبول کریں! ورنہ جگہ خالی کریں!!! وہ بھی ۸؍فروری سے پہلے پہلے، ورنہ وہاٹس ایپ (کمپنی) خود آپ کا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کردے گا اور آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اب آپ سونچ رہے ہوں گے کہ پالیسی بدلنے کا کیا، اس میں تو ہمیشہ کچھ نہ کچھ بدلاؤ ہوتا رہتا ہے مگر۔۔۔۔ جدید پالیسی کو منظور کرنے سے پہلے ذرا رکیں! اس بار معاملہ تھوڑا سنجیدہ ہے۔۔۔
وہاٹس ایپ کی جدید پالیسی میں اب آپ کا ذاتی ڈیٹا آپ کا ذاتی نہ ہوگا بلکہ اسے وہاٹس ایپ خود جمع کرے گا اور حسب ضرورت کہیں بھی کبھی بھی کسی سے بھی شیئر (تقسیم) کرتا پھرے گا، اور اس کی بات کی اجازت آپ خود وہاٹس ایپ(کمپنی) کو دے رہے ہیں اس جدید پالیسی کو منظور کرکے، ایسا نہیں کہ آپ کا کوئی ذاتی معاملہ بر سر عام ہوجائے تو آپ کمپنی پر ہتک عزت وغیرہ کا دعویٰ کردیں، اگر آپ نے ایسا کیا تو منہ کی کھانی پڑے گی کیوں کہ واٹس ایپ(کمپنی) کے پاس آپ کی منظوری کی سند رہے گی۔ جبکہ پہلے ایسا نہ تھا۔جب آج سے تقریباً پانچ سال سوشلستان کی دوسری معروف کمپنی فیس بک نے وہاٹس ایپ کو خریدا تھا تو اس کے ذمہ داران اور خود بانی وموجد مارک زکربرگ کا بیان آیا تھا کہ فیس بک کی طرح ہم واٹس ایپ کے ڈیٹا کو عام نہیں کریں گے بلکہ جس طرح پہلے وہاٹس ایپ میں ’’اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن‘‘ یعنی فقط ایک سے دوسرے تک ڈیٹا رسانی کا سسٹم تھا اس طرح اب بھی رہے گا مگر آج پانچ سال بعد اب اسنے اپنی پرانی بات پر مٹی ڈالتے ہوئے نئی پالیسی جاری کردی ہے جس میں آپ کا ذاتی ڈیٹا(مواد) غیر محفوظ ہوچلا ہے۔ خیال رہے کہ ڈیٹا(مواد) ہر وہ چیز ہے جو آپ کسی دوسرے کو سینڈ کرتے(بھیجتے) ہیں خواہ وہ تحریر ہو یا تصویر اب سب کچھ عام ہوسکتا ہے۔۔۔
یہ خبر واٹس ایپ یوزرز کے لیے پریشان کن بھی حیرت انگیز بھی!!! کہ اب ان کا ذاتی معاملہ لوگوں کے سامنے ہوگا اور ان سب کے علاوہ جو امر سب سے زیادہ پریشان کن ہے وہ ہے ڈیٹا کے ذریعہ ناجائز حکمرانی کا، جس کا خواب یہودی(اسرائیل) کافی پہلے سے دیکھتے آرہے ہیں جسے ہم ڈیجیٹل حکومت کہہ سکتے ہیں جہاں آپ پر ایسی حکومت کی جائے گی کہ جس کا تصور بھی روح فرساں ہے کہ ماضی میں غلام بھی اس طرح اپنے آقا کی پیروی نہیں کرتے تھے جس طرح ہم روبوٹ(مشین) کی طرح ان ڈیجیٹل حکمرانوں کی پیروی کرنے کو مجبور ہوجائیں گے؛ کہ وہ جب جو چاہیں گے ہم سے کرالیں گے، ہمیں اپنے اشاروں پہ نچالیں گے، ہمیں اپنے ہاتھ کی کٹھ پتلی بنالیں گے۔۔۔ اس بات کا اندازہ ایسے لگایا جاسکتا ہے ہم بارہا سنتے، دیکھتے آرہے ہیں کہ فلاں جگہ کسی کی ذاتی تصویر،گفتگو،ویڈیو،میسج(پیغام) کسی سرفرے کے ہاتھ لگ جاتا ہے تو وہ اس کے ذریعہ بلیک میل کرکے کتنے پیسے ہڑپ جاتا ہے، کیا سے کیا کرالیتا کہ بسا اوقات کچھ سرفرے کسی دوسرے کا قتل تک کرا ڈالتے ہیں اور کچھ گندی ذہنیت کے پروردہ کسی خاتون(بالخصوص) کو اپنے بستر تک کھینچ لاتے ہیں۔ تو جب یہ سرفرے اور کم عقل لوگ کسی کی ہلکی پھلکی جان کاری اور ڈیتا سے اتنا کچھ کرجاتے ہیں تو اگر ہمارا ڈیٹا اس قوم کے ہاتھ لگ جائے جو شب و روز ہمیں محکوم بنانے کا خواب دیکھتی ہے وہ بھی مکمل ڈیٹا تو وہ ذلیل ورسواے زمانہ قوم کس حد تک جاسکتی ہے؟؟؟ ۔۔۔جاری۔۔۔۔۔
وہاٹس ایپ کی جدید پالیسی پر حکومت کی خاموشی چہ معنی دارد؟ (قسط دوم)
از قلم: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
ہم نے پچھلی تحریر میں آپ کو بتایا کہ کس طرح اب وہاٹس ایپ ہمارے ڈیٹا کو جمع کر اپنی مرضی کے مطابق بروے کار لا سکتا ہے۔۔۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے کہ وہاٹس ایپ کی غنڈہ گردی کرے گا یا ڈیجیٹل ڈکیتی کرے گا اور لوگوں کو ڈیجیٹل حکمرانی کرنے کا موقع فراہم کرائے گا۔ یہ انتہائی افسوس ناک خبر ہے مگر اب تک ملک کی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، نہ تو ابھی تک حکومت کا اس کے متعلق کوئی بیان سامنے آیا، نہ اس کی مخالفت کی بات ہوئی نہ اسے مذموم قرار دیا گیا۔ آخر ایسا کیوں؟ کیا حکومت مذکوہ کمپنی کو اس بات کی پابند نہیں کرسکتی ہے کہ وہ ہمارے ڈیٹا کو جمع نہ کرے اسے عام نہ کرے؟ جبکہ مذکورہ ویب سائٹ و ایپ کے استعمال کرنے میں ہم بھارتی لوگ سب سے آگے ہیں کہ تقریباً وہاٹس ایپ و فیس بک کے مجموعی یوزرز کا پانچواں حصہ بھارت کے باشندے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہاٹس ایپ کی جدید پالیسی یوروپین یونین (برطانیہ ممالک) کے لیے نہیں ہے۔ وہاں کے یوزرز کے ڈیٹا نہ تو وہاٹس ایپ (کمپنی) جمع کرے گی اور نہ کہیں اور شیئر کرے گی۔ تو پھر ہمارے ملک کی حکومت کا اس سنگین معاملہ میں خاموشی چہ معنی دارد؟؟؟
ہمارے ملک کی وہ حکومت جو چھوٹے سے چھوٹے مسائل کو ایوانوں میں اچھال اچھال کر پیش کرتی ہے اور اس پر نئے نئے آرڈیننس (قانون) بناتی ہے جس کی زد میں کا بڑا حصہ آکر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے، اس حکومت کو اس معاملہ میں کیا ہوگیا کہ اب تک خاموش تمشائی بنے بیٹھی ہے؟
جہاں تک وہاٹس ایپ کی جدید پالیسی میں ڈیجیٹل ڈکیتی کا سوال ہے کہ آخر اسے کس نے چھوٹ دی ہے تو اس داداگیری کی ذمہ دار بھی ہمارے ملک کی حکومت ہے؛ موجودہ بھی اور سابقہ بھی، جس نے ان جیسی کمپنیوں کو حد سے زیادہ چھوٹ دے کر ان کا حوصلہ بڑھا رکھا، آج نہیں سالوں سے کئی معاملوں میں ملک کی حکومت نے ان کمپنیوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، ان پر کوئی لگام نہیں لگایا تو آج حال یہ ہے کہ یہ کمپنیاں بے لگام گھوڑے کی طرح اب ہمارے ذاتی معاملات کو عام کرنے پہ آگئی ہیں۔ ذیل میں ان چند امور پہ حکومت کو غور وخوض کرنا چاہیے کہ ان معاملوں میں ہم نے چھوٹ دے کر ان جیسی کمپنیوں کا حوصلہ بڑھادیا تھا مگر بہت ہوا اب نہیں۔۔۔
٭ سرکاری افسران کا وہاٹس ایپ، فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹ اور ایپ کے (سرکاری کاموں میں) استعمال پر پابندی: کیوں کہ ایسا کرنا سوشل میڈیا پالیسی کے خلاف بھی ہے اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
٭ ان سوشل میڈیائی کمپنیوں پر ٹیکس: جاننا چاہیے کہ ڈیٹا(مواد) ایک طرح کی پراپرٹی(مال وزر/جائیداد) بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے جس کے ٹرانسجیکشن (منتقلی) پر ٹیکس لگنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں جائیداد کی منتقلی پر سالوں سے ٹیکس لگتا ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کمپنیوں پر بھی ٹیکس عائد کرے تاکہ ان کا دماغ بھی ٹھکانے رہے اور سرکاری تجوری میں موٹی آمدنی بھی ہوتی رہے ویسے بھی سرکار کو آمدنی کی ضرورت ہے کہ آئے دن سرکاری کمپنیاں فروخت ہو رہی ہیں۔
٭وہاٹس ایپ استعمال کرنے والوں کے عمر کی تعیین اور اس پر سختی سے عمل: یہ بھی ایک حیرت انگیز بات ہے وہاٹس ایپ کی پالیسی کے مطابق وہاٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی کم سے کم عمر تیرہ(۱۳) سال ہونی چاہیے اس سے کم عمر کے بچے وہاٹس ایپ نہیں استعمال کرسکتے مگر آج تعلیم کے نام پر خود حکومت ان جیسی سائٹس اور ایپس کو بڑھاوا دے رہی ہے جس کا برا اثر سماج ومعاشرے پر اتنا گہرا دکھ رہا ہے کہ بڑوں سے زیادہ چھوٹے اسی وہاٹس ایپ، فیس بک وغیرہ میں دن رات لگے رہتے ہیں جس کے سبب ان کی تعلیم وتربیت سب چوپٹ ہوئے جارہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں ۱۳ سال سے کم عمر والے بچے کسی بھی طرح وہاٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا کا استعمال نہ کرسکے تاکہ ان کی تعلیم وتربیت پر اثر نہ پڑے۔
ان کمپنیوں کا من مانی طور پہ پالیس تبدیل کرنے پر روک لگانی چاہیے، حکومت نے اب تک ان کمپنیوں کے پالیسی رولز میں کبھی بھی مداخلت نہیں کی، جس کے باعث کمپنیاں اپنی من مرضی پالیسی بناتی آئی ہیں مگر اب حکومت کو بیدار ہونا چاہیے اور ان امور کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ مذکورہ اور ان جیسی دوسری کمپنیوں کو اگر بھارت میں سب سے زیادہ یوزرز مل رہے ہیں انھیں بھارت میں سب سے بڑا بازار مل رہا ہے تو ان کی جواب دہی بھی طے کی جائے تاکہ ملک کی عوام ان کی دادا گیری سے محفوظ رہ سکے۔ اور ہم ایک ان چاہے خطرے سے محفوظ رہ سکیں جس کی زد میں آنے کے بعد صرف ہماری نہیں بلکہ اچھے اچھوں کی کھٹیاں کھڑی ہوجائے گی۔