ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
9885210770
ہندوستان کی آزادی سے پہلے محبانِ آزادی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی ہوگی کہ وطن عزیز میں ایسے دلخراش منظر بھی دیکھنے کو ملیں گے کہ جہاں ملک کے کسانوں کو اپنے حق کے لئے اس قدر دلگداز مرحلوں کو طے کرنا پڑے گا۔ بی جے پی حکو مت کی جانب سے منظورہ تین زرعی قوانین کو منسوخ کر نے کامطا لبہ کر تے ہوئے ملک کے کسان گزشتہ دیڑھ مہینے سے اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لیکن حکومت کسانوں کے جائز مطالبات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔مر کزی حکومت اور کسانوں کے درمیان سات مر تبہ مذاکرات ہوچکے ہیں لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ 5/ جنوری کو ہوئی ساتویں دور کی بات چیت کی ناکامی کے بعد حکومت نے صاف طور پر کہہ دیا کہ قوانین منسوخ نہیں کئے جائیں گے اور کسان چاہیں تو ان قوانین کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہو سکتے ہیں۔ حکومت کے اس سخت موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت اس معاملے میں ہٹ دھرمی پر اُ تر آئی ہے۔ 45دن سے کسان دہلی کی کڑاکے کی سردی میں اپنا گھر بار چھوڑ کر ان کالے قوانین کے خلاف زبردست احتجاج کر رہے ہیں لیکن حکومت نے کسانوں کے دکھ درد کو محسوس کر نے کے بجائے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ ان زرعی قوانین کو ملک میں نافذ کرنے کا مقصد زرعی شعبہ کو ترقی دینے کے علاوہ ملک کے کسانوں کو مختلف قسم کی سہولتیں پہنچنا ہے۔ اگر یہ قوانین واقعی کسانوں کی بھلائی کو پیشِ نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں تو آخر کسانوں کو ان قوانین کے خلاف احتجاج کر نے کی نوبت کیوں آ ئی۔ اگر یہ قوانین موافق کسان ہیں تو حکومت کسانوں کے ساتھ ہوئی 7دور کی بات چیت میں کسانوں کو مطمئن کر نے میں کیوں ناکام ہو گئی۔ کسان کیا اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ کون سے قانون سے انہیں فائدہ ہونے والا ہے اور کون سا قانون ان کے لئے نقصان کا سبب بنے گا۔ سردی اور بارش میں ہزاروں کسان اس وقت دہلی کی سرحدوں پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ کسانوں کی تنظیموں نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ جب تک حکومت ان متنازعہ قوانین سے دستبردار نہیں ہوتی وہ اپنے احتجاج کو پوری شدت سے جاری رکھیں گے۔ کسانوں کواس بات کا ڈر ہے کہ اگر ان قوانین کے خلاف اب احتجاج نہیں کیا جائے گا تو آ نے والے دنوں میں ان کے لئے حالات اور ابترہو جائیں گے۔ آ ثار یہی بتا رہے ہیں کہ حکومت ان قو انین کو ملک میں لاگو کر کے کسانوں کا استحصال کر تے ہوئے کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کا تحفظ کر نا چاہتی ہے۔ جب کسانوں کی فصل پر کار پوریٹ طبقہ کا قبضہ ہوجائے گا تو غریب کسان ان کے رحم وکرم پر جینے کے لئے مجبور ہو جائے گا۔ حکومت کے رویہ سے واضح ہورہا ہے کہ وہ مخصوص طبقہ کی مرضی کے خلاف جانا نہیں چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیچارے کسان اپنی مانگوں کو لے کر 45 دن سے زیرِ آ سمان ناقابلِ بیان مصیبتوں کو جھیلتے ہوئے حکومت سے التجا کر رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ انصاف کرے لیکن حکومت اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کرتے ہوئے کسانوں کے صبر کو آزما رہی ہے۔ 45دن سے جاری اس احتجاج کے دوران 60کسانوں کی جانیں بھی چلی گئیں۔ زائد از دیڑھ ماہ سے جاری یہ احتجاج اب شدت اختیار کر چکا ہے۔ حکومت بات چیت کے نام پر ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے جب کہ کسان حکومت پر بھروسہ کر تے ہوئے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسانوں کو اعتماد میں لے کر بات چیت کے مرحلہ کو ثمرآور بنانے کے بجائے حکومت کئی شرطوں کو کسانوں کے سامنے رکھ کر اپنی مرضی اور فیصلہ کو ان پر مسلظ کرنا چاہتی ہے۔جس سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔
جمہوریت میں کسی بھی سنگین سے سنگین مسئلہ کا حل باہمی بات چیت کے ذریعہ نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے فریقین کے درمیان باہمی اعتماد کی بھی ضرورت ہو تی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ دونوں کے رویوں میں نرمی اور کچھ دو اور لو کا جذبہ بھی ہونا ضروری ہے۔ حکومت، کسانوں کی کسی بات کو سننے کے لئے ہی تیار نہ ہو اور اپنے موقف پر ڈٹی رہے تو حالات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ اب یہ احتجاج صرف کسانوں کا احتجاج نہیں رہا بلکہ ملک کے تمام طبقے کسانوں کے اس احتجاج کا حصہ بن کر ان سے یگانگت کا اظہار کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت ان تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے سے انکار کرتی ہے تو کسانوں کا یہ احتجاج ایک لاوا بن کر پھٹ پڑے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ کسانوں کے اس احتجاج کو حکومت کسانوں کا احتجاج بھی ماننے کے لئے تیار ہے۔ کہا جارہا ہے کسانوں کے بھیس میں خالصانی دہشت گرد اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ کسان مخالف قوانین سے پیدا غصہ کو ٹھنڈا کرنے کا یہ اوچھا طریقہ حکومت کو کبھی راس نہیں آ ئے گا۔ وہ چاہے کسانوں کے اس احتجاج کے بارے کتنا ہی غلط پروپگنڈا کرلے لیکن سارا ملک جانتا ہے کہ سرد ہواؤں کے بیچ احتجاج کرنے والے کوئی اور نہیں ہیں بلکہ ملک کے یہ وہ کسان ہیں جن سے سارے ملک کی عوام کا پیٹ بھر تا ہے۔ مودی حکومت کا یہ رویہ صرف ان تین زرعی قوانین کے بارے میں عوام کے سامنے نہیں آ یا ہے۔ جب سے ملک میں بی جے پی کو اقتدار ملا ہے دھڑلے سے قانون بنانا اور نافذ کرنا ان کامزاج بن گیا ہے۔ اس ضمن میں بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ گزشتہ سال اس ہٹ دھرم حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کو منظور کرکے پورے ملک میں ایک بھونچال پیدا کردیا۔ مسلمانوں کو ملک ِ بدر کرنے کی نیت سے یہ ظالمانہ قانون لایا گیا۔ جب اس کے خلاف اس ملک کے سارے سیکولر حلقے احتجاج پر اتر آئے تو حکومت کو اندازہ ہونے لگا کہ کسی طبقہ کو ملک سے نکالنے کی تیاری کر نا حکومت کے لئے کتنا مہنگا ثابت ہوگا۔ لیکن اس وقت بھی بی جے پی حکومت اپنے فیصلہ پر اڑی رہی اور سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہونے والے احتجاج کو جو بالکل جمہوری طرز پر آراستہ کیا گیاتھا، اسے کچلنے کے سارے حربے حکومت نے آ زمائے۔ اور اب بھی مرکزی حکومت کی ضد نے کسانوں کی زندگی کو اجیرن کر کے رکھ دیا ہے۔ حکومت کا یہ دعویٰ کہ تینوں قوانین ختم نہیں کئے جائیں گے، صاف ظاہر کرتا ہے حکومت ٹکراؤ اور تصادم کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ وہ ایک لحاظ سے تشدد کی راہ ہموار کررہی ہے۔ کسانوں کی شکایتوں کو دور کرنے اور ان کے اندیشوں کا ازالہ کرنے کے بجائے حکومت ان کے احتجاج کو مختلف نام دے کر بدنام کر تی ہے اور بات چیت کو ایک حتمی نتیجہ پر لانے میں اپنی ناکامی کا ثبوت دیتی ہے تو اس سے حکومت کی نیت بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ دہلی کی سرحدوں پر جو کسان احتجاج کر رہے ہیں ان میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی ہیں اور سکھ تو بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ احتجاج کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کانہیں ہے۔ اس میں سارے ہی مذاہب اور سارے علاقوں کے کسان شامل ہیں۔ حکومت ان کو الگ الگ نام دے کر ان کو با ٹنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے کسانوں کے پر امن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ متنازعہ قوانین کو ملتوی کر دے اور اس تعطل کے خاتمہ کے لئے زرعی ماہرین اور کسان یونینوں پر مشتمل ایک غیر جانبدار اور آزادانہ پیا نل تشکیل دے۔ لیکن حکومت سنجیدگی سے مسئلہ کا کوئی حل نکالنے کی راہیں تلاش کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ اب حکومت نے اپنا موقف بھی سخت کرلیا ہے۔ وہ کسانوں سے کوئی مذاکرات کے موڈ میں نہیں ہے۔ یہ حکومت کی مجبوری ہو سکتی ہے کیوں کہ وہ کارپوریٹ طبقہ کے دباؤ میں آ کر ان تینوں متنازعہ قوانین کو ملک میں نافذ کرنا چاہتی ہے۔
ساتویں دور کی بات چیت جو گزشتہ 5/ جنوری (پیر)کو ہوئی تھی، اس کے ناکام ہونے کے بعد حکومت اور احتجاجی کسانوں نے 8/ جنوری کو دوبارہ میٹنگ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعہ کو منعقد ہونیوالی اس آٹھویں دور کی بات چیت پر سارے ملک کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اگر اس میٹنگ میں بھی حکومت اپنی مرضی کو کسانوں پر مسلط کرنے کی کوشش کر ے گی تو یہ مذاکرات بھی بے فیض ثابت ہوں گے۔ حکومت کو کھلے دل کے ساتھ اس اہم بات چیت میں کسانوں کے مسائل کو پوری توجہ سنتے ہوئے اس کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اب جب کہ کسانوں کا احتجاج ایک فیصلہ کن مر حلہ میں داخل ہو گیا ہے اسے مثبت نتیجہ پر پہنچانے کی ذ مہ داری حکومت پر آ تی ہے۔ حکومت اگر مسئلہ کی یکسوئی کے لئے ممکنہ تدابیر اختیار کر تی ہے تو تعطل کے ختم ہونے کے امکانات ہیں۔حکومت.جب یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ کسانوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دے رہی ہے تو پھر ان متنازعہ قوانین سے دستبرداری میں اسے کیوں عار محسوس ہو رہا ہے۔ ملک کے سارے کسان جب اس بات پر متفق ہیں کہ مجوزہ تینوں قوانین کسانوں کے لئے نقصان دہ ہیں تو پھر بغیر کسی تاخیر کے حکومت ان قوانین کو منسوخ کر دے۔ ساتویں دور کی بات چیت کے بعد کسان تنظیموں نے اعلان کر دیا کہ اب وہ ان قوانین کی تنسیخ کے سوا حکومت کی کسی پیشکش کو قبول کر نے کے لئے رضا مند نہیں ہیں۔ حکومت اس مسئلہ کو کسی کمیٹی کے قیام کے ذریعہ حل کرنے کی بات کرے گی تو یہ بات کسانوں کے لئے قابلِ قبول نہ ہوگی۔ اب تو گزشتہ تین دن سے موسلا دھار بارش کے باوجود احتجاجی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں تو اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ کسان اپنے مطالبات کو منوائے بغیراپنے گھروں کو واپس نہیں ہوں گے۔ حکومت لاکھ ان قوانین کے فائدے گنوائے، کسان اب حکومت کے جھانسے میں آ نے والے نہیں ہیں۔ زرعی قوانین کی منسوخی ہی اب کسانوں کے احتجاج کو ختم کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اب کوئی دوسرا متبادل باقی نہیں رہا ہے۔ حکومت کے لئے یہ ایک کٹھن اقدام ہوگا کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو عوامی دباؤ کے پیشِ نظر منسوخ کر دے۔اس بات کی بھی بہت کم امید ہے کہ بی جے پی حکومت اپنی غلطی کو مانتے ہوئے ان قوانین سے دستبردار ہو جائے۔ لمحہء آ خر تک مودی حکومت ان متنازعہ قوانین کو بچانے کی تگ و دو کرے گی۔ اس بات کے پورے آ ثار ہیں کہ احتجاجی کسانوں کو کچھ تیقنات دے کر مطمئن کر نے کی کوشش کی جائے گی۔ گودی میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ جتایا جائے گا کہ حکومت کسانوں کی ہمدردی میں ان قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔ یہ بھی کہا جائے کہ ملک کی اپوزیشن پارٹیاں غیر ضروری طور پر ہنگامہ کھڑی کر رہی ہیں۔ صدر کانگریس سونیا گاندھی نے بی جے پی حکومت کو کسانوں کے احتجاج کے تناظر میں ایک گھمنڈی حکومت قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ مرکز میں پہلی مرتبہ ایک مغرور حکومت آئی ہے جو کسی کی نہیں سُن رہی ہے۔ سونیا گاندھی کی اس بات میں بڑی حد تک سچائی ہے۔ لیکن جمہوریت میں غرور اور تکّبر زیادہ دن نہیں چل سکتا۔ حکومت ہٹ دھرمی کی روش اختیار کرلے اور جانوں کے اتلاف کے باوجود وہ ٹس سے مس نہ ہوتی ہو تو ایک دن عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔عوام کے غیض و غضب کے سامنے حکومتوں کا ظلم و جبر ٹِک نہیں سکتا۔ دنیا کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ روئے زمین پر جب کبھی ظالموں اور قاہروں نے معصوموں اور بے گناہوں کو اپنے عتاب کا نشانہ بنا یا قدرت نے بھی اپنا جلوہ دکھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسی حکومتیں اور ایسے حکمران تاریخ میں عبرت کے نشان بن کر رہ گئے۔کسان اپنی محنت کا صِلہ مانگ رہے ہیں جو کوئی ان کے ساتھ انصاف نہیں کرے گا اس کے اقتدار کے دن بہت جلد ختم ہوجائیں گے۔ یہ قانونِ قدرت ہے۔