محمدقمرانجم فیضی
ہماری زندگی میں جس طرح دیگر اشیاء کی قدر وقیمت ہیں اسی طرح سے ہماری زندگی میں وقت، دن، ماہ وسال کی بہت ہی زیادہ قدر وقیمت ہے، اور دن، ماہ وسال کو سمجھنے کے لئے ہمارے پاس جنتری کا ہونا بہت ضروری ہے اور اس کی اہمیت وافادیت آج کسی سے مخفی نہیں ہے
اسی وجہ سے قمری تقویم قدیم زمانوں سے قابل عمل چلی آ رہی ہے۔ چنانچہ مصری، سومری، یونانی اور دوسری قومیں قمری تقویم پر عمل پیرا تھیں۔ شمسی جنتری ہر شخص کے لیے قابل فہم نہیں تھی۔ چنانچہ اب شمسی قمری بہت سے مفکرین کی مسلسل کوششوں سے موجودہ شکل میں آ گئی ہےاور آج ہر کسی کے لئے آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں، اور دن ماہ وسال سے آدمیوں کے ہزار ہا دینی ودنیوی کام اس سے متعلق ہیں ،زراعت ، تجارت ،لین دین کے معاملات، روزے اور عید کے اوقات، عورتوں کی عدتیں ،حیض کے ایّام ، حمل اور دودھ پلانے کی مدتیں اور دودھ چھڑانے کے وقت اور حج کے اوقات اس سے معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ شروع میں جب چاند باریک ہوتا ہے تو دیکھنے والا جان لیتا ہے کہ ابتدائی تاریخیں ہیں اور جب چاند پورا روشن ہوتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مہینے کی درمیانی تاریخ ہے اور جب چاند چھپ جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہینہ ختم پر ہے ،پھر مہینوں سے سال کا حساب ہوتا ہے ۔یہ وہ قدرتی جنتری ہے جو آسمان کے صفحہ پر ہمیشہ کھلی رہتی ہے اور ہر ملک اور ہر زبان کے لوگ پڑھے بھی اور بے پڑھے بھی سب اس سے اپنا حساب معلوم کرلیتے ہیں۔یاد رہے کہ بہت سے احکام میں چاند کا حساب رکھنا ضروری ہے جیسے بالغ ہونے کی عمر کے اعتبار سے ، یونہی روزہ،عیدَین، حج کے مہینوں اور دنوں کے بارے میں ، یونہی زکوٰۃ میں جو سال گزرنے کا اعتبارہے وہ بھی چاند کے اعتبار سے ہے
تاریخ کی ابتدا کب اور کس طرح ہوئی؟علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں کہ جب زمین پر انسان کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی ، اس وقت حضرت آدم علیہ السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی، پھر طوفان نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ہوئی ، پھر نار خلیل سے، پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، پھر موسی علیہ السلام کے خروج مصر سے، پھر حضرت داؤد سے ،ان کے فوراً بعد سلیمان علیہ السلام سے پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے۔ اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم واقعہ کو سن قرار دیتی تھی، مثلاً قوم احمر نے واقعہ تبایعہ کو، قوم غسان نے سد سکندری کو، اہل صنعاء نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا، علامہ عینی مزید لکھتے ہیں کہ جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات وخصائص پر رکھا، اسی طرح اہل عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا، چناں چہ سب سے پہلے اہل عرب نے حرب بسوسسے تاریخ کی ابتدا کی۔ اس کے بعد جنگ داحس ( جو محض گھڑ دوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی ،اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم کے اسلاف میں سے ایک بزرگ کعب کے کسی واقعہ سے سالوں اورتاریخ کا حساب لگاتے رہے ، پھر اصحاب الفیل کے واقعہ سے، یہاں تک کہ عام الفیل کی اصطلاح ان کے یہاں رائج ہوئی( عمدة القاری للعلامہ بدرالدین عینی ج17 ص66)قرآن پاک میں قمری مہینوں کا ذکرآیاہواہےقمری مہینوں کا ذکر قرآن پاک میں صراحةً موجود ہے، جیسے،شھر رمضان الذی اس آیت میں قمری سال کے ایک ماہ رمضان کا نام صراحتاً ذکر ہے یا ضمناً ذکر ہے۔ جیسے ﴿الحج اشھر معلومات ﴾البقرة اس میں اشہر سے مراد شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں۔ ایک دوسری آیت میں اسلامی سال کے سارے مہینوں کا ذکر ضمناً آیا ہے وہ آیت یہ ہے :﴿ان عدة الشھور اثنا عندالله عشر شھرا﴾، یقینا شمار مہینوں کا کتب الہٰی میں اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اس آیت میں جن بارہ مہینوں کا ذکر آتا ہے ان سے مراد قمری مہینے ہیں ،اس کی دلیل بھی یہی آیت ہے، وہ اس طرح کہ ان بارہ میں سے جو چار ماہ ادب کے لیے خاص کر دیے گئے ہیں، وہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب ہیں۔ جنہیں ” اشھر حرم“ کہاجاتا ہے،جب یہ چار ماہ قمری کے ہیں تو باقی آٹھ ماہ بھی قمری کے ہیں، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قمری مہینوں کی ترتیب اور ان کے اسماء جو اسلام میں معروف ہیں یہ انسانوں کی بنائی ہوئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ رب العالمین نے جس روز زمین وآسمان کو پیدا کیا اسی دن سے یہ ترتیب اور یہ نام، ہر ماہ کے ساتھ خاص خاص احکام متعین فرما دیاہے، مفتی اعظم پاکستان مولانا محمدشفیع اکاڑوی لکھتے ہیں کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرنا ناجائز ہے، بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز، روزہ ، زکوٰة اور عدت کے معاملہ میں تو قمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے، مگر اپنے کاروبار تجارت وغیرہ میں شمسی استعمال کرے۔ شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے، تاکہ رمضان او رحج وغیرہ کے اوقات معلوم ہوتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ اسے جنوری فروری کے سوا کوئی مہینے ہی معلوم نہ ہوں ، فقہاء نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ ہاں! اس میں شبہ نہیں ہے کہ سنت انبیاء او رسنت رسول صلی الله علیہ وسلم اورخلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں قمری حساب استعمال کیا گیا ہے، اس کا اتباع موجب برکت و ثواب ہے اورشمسی حساب سے بھی اسلام منع نہیں کرتا۔لہذا انہی سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے واحدی طیبی پاکٹ جنتری کو منظر عام پر لایا گیا ہے جس کو پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ الحاج سیدسہیل میاں قادری چشتی واحدی ولی عہد خانقاہ واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف ضلع ہردوئی یوپی کی صدارت میں ریاستِ اترپردیش کے مشہور ومعروف ضلع گونڈہ سے تعلق رکھنے والے فکرمند محنتی شخصیت جامع معقولات ومنقولات فاضل علوم عصریہ خطیب مقبول حضرت علامہ اسرار احمد فیضی واحدی صاحب قبلہ ناظم اعلی جامعہ امام اعظم ابوحنیفہ علی پوربازارضلع گونڈہ نے مرتب کیاہےعلم وادب کی دنیا میں حضرت محتاج تعارف نہیں ہیں، وہ ایک ذی استعداد عالم دین اور خطابت کے ماہر ہیں، جملہ علوم وفنون کے مہارت سے مالامال ہیں، وہ عزم محکم اور عمل پیہم پر یقین رکھتے ہیں، انہوں نے شب و روز محنت کرکے واحدی طیبی پاکٹ جنتری کو مرتب کیاہے، اور شائع کردہ میں دارالعلوم واحدیہ طیبیہ بلگرام شریف نیز اشاعت بتعاون خصوصی جناب علی احمد صابری واحدی ہیں
جس کے ذریعہ دین کی اہم اور بنیادی معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں، نیز دن، ماہ وسال ،بزرگان دین کے اعراس کی تاریخیں،اور تعطیلات کے بارے میں معلومات فراہم کی جاسکتی ہے، اور اس جنتری کی خصوصیات یہ ہیں کہ اس میں اوقات نماز٬ اوقات نماز کی دائمی جنتری٬ قمری شمسی کلینڈر٬ صبح وشام کے مسنون اذکار مع ترجمہ اور تسبیح، انکے علاوہ بھی روزمرہ کے استعمال کی کئی اہم چیزیں موجود ہیں۔ جس میں مقبول بارگاہ رسول گرامی حضورسید میر عبدالواحد بلگرامی رضی المولی عنہ کی حیات وخدمات پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے اور آپ کی زندگی کے کارناموں پر خامہ فرسائی ہوئی ہےبعدہ سراج السالکین قطب العارفین پیر سیدمیر محمدطیب علیہ الرحمہ کے حالات وکوائف پر بہترین انداز میں چند گوشوں کو اجاگر کیا گیاہے پھر دارالعلوم واحدیہ طیبیہ کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہے، جس میں بنگال، بہار، مہاراشٹرا، گجرات، دہلی، نیپال، یوپی کے مختلف اضلاع جیسے شاہ جہان پور، سیتاپور، بریلی شریف، اناؤ، قنوج، فرخ آباد، بلرامپور، گونڈہ، سدھارتھ نگر کے کثیر طلبہ رہ کرکے تعلیم حاصل کررہے ہیں
بعدہ فہرست تعطیلات بابت 2021 شمار کرائے گئے ہیں،
جس میں خصوصی چھٹیاں، قابل ذکر ہیں، الغرض مختلف جہتوں واحدی طیبی جنتری ہر مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے مفید ہے، اس لٸے برادران اسلام سے گزارش ہے کہ وہ اس کو اپنے موبائل میں ڈاؤن لوڈ کریں اور اس سے خوب خوب فائدہ اٹھائیں،دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی کوششوں کو قبول فرمائے اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی مسلمانوں کو توفیق عطا فرمائے۔