زیب النسا زیبیؔ بیسویں اور اکیسویں صدی کی قدروں کی علمبردار

Share

افضل رضوی – آسٹریلیا

                یہ بات نہایت غور طلب ہے کہ دنیا کے بیشتر معاشروں اور جمہوریتوں میں عورت کاانیسویں صدی کی آخری چوتھائی تک کوئی اہم کردار نہیں تھا۔اگرچہ اسلام نے خواتین کو وہ حقوق عطا کیے جو دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ ریاست، جمہوریت یا معاشرے نے انہیں تفویض نہیں کیے؛لیکن اس کے باوجود عورت مردانہ شاونزم کا شکار تھی۔ زندگی کے تمام شعبوں بشمول علم وادب پرصرف اور صرف مردوں کی اجارہ داری تھی اور خاص طور پر شعروادب میں عورت کی شمولیت کوتوبہت ہی معیوب خیال کیا جاتا تھا۔انیسویں صدی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے مغرب میں عورت نے نہ صرف اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی بلکہ حقوق کے حصول میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئی۔یہاں اس بات کا تذکرہ نہایت ضروری ہے کہ یہ حقوق کی بات عام عورت کے حقوق کی ہے کیونکہ برصغیر پاک و ہند میں طبقہ اشرافیہ اور اہلِ اقتدار کے یہاں عورت مغلیہ عہد میں بھی استصوابِ رائے رکھتی تھی تاہم یہ انہیں طبقات تک محدود تھی اورعام عورت ان حقوق سے محروم تھی۔

                پھرجب مغربی تحریک کا اثر مشرق میں نمودار ہوا اور عورت نے علم وادب کے میدان میں قدم رکھا تو اس نے بڑی بہادری سے بے باکانہ حکمت عملی اور جرات مندانہ کردار سے مردوں کے ان تمام خود ساختہ اور عیارانہ آہنی حصاروں کو طشت ازبام کر دیاجن کی بدولت عورت ایک مدت سے مغلوب و مقہور اور مجبور ِمحض زندگی بسر کررہی تھی۔

                مغرب میں Feministتحریکوں کے زیرِ اثر عورت کو نہ صرف حقوق ملے بلکہ وہ اس میں بہت آگے نکل گئی جس کے نتیجے کے طور پر معاشرتی بگاڑ جنم لے چکا ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ نسائی تحریک کا قیام دراصل عورتوں پہ مردوں کے ظلم وزیادتی اور انکے حقوق سے روگردانی کے خلاف ایک طرح کا انتقامی رد عمل تصور کیا جاتا ہے۔ان حقوق کے حصول کے ساتھ ہی دنیا کے بیشتر معاشروں میں عورت نے ہر میدان میں قدم رکھے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اگرچہ مغرب کے مقابل برصغیر پاک ہند میں عورت آج بھی کسی حد تک مجبوری اور بے بسی کی زندگی بسر کرتی ہے؛ لیکن جہاں جہاں تعلیم کے در کھلے ہیں وہاں وہاں عورت نے اپنا مقام حاصل کیا ہے۔

                تعلیم کے عام ہونے سے عورت سیاست، معاشرت، اقتصادیت، تقریر وتحقیق  اور تصنیف وتالیف الغرض ہرشعبہ ہائے زندگی میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔چنانچہ اگر پاک وہند کے منظر نامے کو سامنے رکھا جائے تو ہمیں گزشتہ اور موجودہ صدی میں مرد مصنفین کے شانہ بشانہ خواتین کی بھی کثیر تعداد نظر آتی ہے۔ان خواتین نے شعروادب کی مختلف اصناف میں نہایت سنجیدگی سے اپنے جذبات واحساسات،تجربات ومشاہدات نیزمیل شاونزم معاشرے میں عورت کی تاریخی،تہذیبی اور سماجی حیثیت کو موضوع بنایا ہے۔عورت نے  اپنی محققانہ کاوشوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ علم وادب میں مردوں سے کسی طور کم نہیں۔

                ان مصنفین اور شاعرات میں بانو قدسیہ، فرزانہ خاں نینا، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور،فاطمہ ثریا بجیا، عشرت آفرین، ادا جعفری، زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، پروین شاکر، سیدہ ناہید نشتر،سیما عابدی، حجاب امتیاز علی، فرخندہ لودھی اور حسینہ معین نے بیسویں صدی کے نسوانی ادب میں قابل قدر شہرت حاصل کی۔

                بالآخر بیسویں صدی اپنی تمام تر ہنگامہ آرائیوں کے ساتھ رخصت ہوگئی اور نوع انساں اکیسویں صدی میں ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ داخل ہوئی۔یہ بین الاقوامی رابطے کی صدی ہے۔یہاں یہ بات  واضح کردینا لازمی معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی کے پہلے دو عشروں کے دوران صرف وہی نظم نگار خواتین اپنی تخلیقی سرگرمیوں میں سرگرم عمل نہیں جن کا شعری یا نثری سفر بیسویں صدی کیآخری چوتھائی میں شروع ہوا تھا بلکہ بہت سے نئے نام منصہ شہود پر آئے ہیں۔ ان میں نوشی گیلانی،ایس ایف گیلانی، عندلیب صدیقی، تہمہنہ راؤ (آسٹریلیا)،پروین شیر، شکیلہ رفیق (کینیڈا) اور آصفہ نشاط، غوثیہ سلطانہ،رضیہ فصیح احمد (امریکہ)، شفگتہ شفیق، ڈاکٹر تنویر انور خاں، نغمانی شیخ،شامل ہیں تاہم ایک نام ایسا بھی ہے جس کا ادبی سفر بیسویں صدی میں شروع اور اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میں عروج پر نظر آتاہے، میری مراد اردو ادب کی درخشندہ کرن شاعرہ، افسانہ نگار، کالم نگار، ٹرانسلیٹراور ماہر تعلیم محترمہ زیب النسا زیبی ؔ سے ہے۔

                زیب النساء زیبیؔ کراچی میں اقبال بیگ اور زہرا خاتون کے ہاں 3 جولائی1954ء میں پیدا ہوئیں۔ابتدائی تعلیم مقامی اسکول اور کالج سے حاصل کی۔ ایم اے صحافت، ایم اے سیاسیات کی سند جامعہ کراچی سے حاصل کی۔ محکمہ اطلاعات، حکومت سندھ میں افسر اطلاعات کے عہدے پر خدمات سر انجام دیتی رہی ہیں۔ زیب النساء کی شادی محمد اقبال شیخ سے ہوئی، ان کی اولاد میں دو بیٹیاں عنبرین افشاں اور سحرین درخشاں ہیں۔ اب تک 60 ادبی تصانیف اور 25 نصابی کتابیں تالیف اور ترجمہ کر چکی ہیں۔ شعری صنف سوالنے متعارف کرائی ہے، جب کہ تروینی میں اردو وبان کا پہلا مجموعہ شائع کیا ہے۔ اب تک ان کی پانچ کلیات:

”سخن تمام”،کلیات ِ اول(دوہزار صفحات): ستر سے زائد نظمیہ شعری اصناف پر زیب النساء زیبی کی دنیا کی پہلی کلیات ”سخن تمام ”اس میں ان کے نظمیہ شاعری کے 23 مجموعے شامل ہیں (2013)

”کارِ دوام”کلیات ِ دوئم (دوہزار صفحات) غزلیات کے اکیس مجموعوں پر مشتمل ہے۔ (2014)

”عکسِ زندگی”(کلیات، افسانے، ناولٹ اور ناول)،اس میں افسانوں کے سات مجموعے،سات ناولٹ اور ایک ناول شامل ہے۔

”متاع ِ زیست ”کلیات چہارم،بیس تحقیق و تنقید کالم،مقالات کے مجموعے شامل ہیں۔ (2019)

”حرف ناتمام ”کلیات پنجم، اس میں 12 شعری مجموعے شامل ہیں۔(2019)

زیبی صاحبہ نے طنز و مزاح پر بھی طبع آزمائی کی اور انکے دو مجموعے شاعری کی اس صنف پر بھی شائع ہوچکے ہیں۔

                زیب النساء زیبیؔکی شاعری کا آغاز ان کے زمانہ اسکول ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ شعر و ادب کا ذوق دیکھ کر ان کے والد گرامی نے ان کی خوب حوصلہ افزائی کی نیز ان کی والدہ محترمہ بھی شعری ذوق رکھتی تھیں چنانچہ ماں اور باپ دونوں کی سرپرستی نے زیب النسا ء کو زیب النساء زیبی بنادیا۔اساتذہ میں مقرب حسین دہلوی، رئیس امروہی جیسے شعرا ء کرام کی معیت حاصل رہی۔بعد ازاں راغب مرادآبادی، آفاق صدیقی،اور ذکی عثمانی صاحب سے بھی زانوئے تلمذ طے کیا۔

                                 زیب النساء سے پہلے بھی ایک خاتون شاعرہ زیب النساء کے نام سے تا ریخ ادب ِ برصغیر پاک وہند میں اپنا نام درج کراچکی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ زیب النساء مخفیؔ تھیں اور یہ زیب النساء زیبی ؔہیں۔وہ شہنشاہِ ہندوستان اورنگزیب عالمگیر کی صاحبزادی تھیں اور یہ  پاکستان کی بیٹی ہیں۔

                جیسا کہ پہلے ذکر ہو ا کہ زیب النساء زیبی  نے اردو ادب میں ا یک نئی شعری صنف ”سوالنے ” کے نام سے بھی ایجاد کی ہے۔یہ ایک سہ مصرعی نظم ہے جس کے ہر مصرعے میں ایک سوال ہوتا ہے اور جواب بھی بین السطور ہی مل جاتا ہے یہ تما م بحور اور اوزان میں لکھی جاسکتی ہے۔یہاں سامعین کے ذوق کی خاطر صرف دو مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔

”سوالنے”

مجھے کیوں کرب میں زنجیر کرنا چاہتا ہے

  رلاتا رہتا ہے دن رات  وہ آخر مجھے کیوں

وہ زیبی سے مجھے کیا میر کرنا چاہتا ہے

وحشت کہاں سے لائے روانی یہ آنکھ میں

 کتنے سمندروں کا ہے پانی یہ آنکھ میں

 کیا کیا نہیں ہے ظلم زمانی یہ آنکھ میں 

                خواتین وحضرات!

                محترمہ زیب النساء زیبیؔ کے فن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے رئیس امروہوی نے کہا تھا:

                                 زیب النساء زیبی کو قدرت نے فیاضی کے ساتھ فہم و ادراک اور مشاہدات کی قوت سے شناسا کیا ہے۔

                ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی شاعری پر ڈاکٹر وزیر آغا جیسے نقاد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھا:

                 زیب النساء زیبی نے اپنی تحریروں میں زندگی کے تلخ حقائق کو موضوع بنایا ہے۔۔۔۔ ان کے موضوعات میں

                 بہت تنوع ہے اور ان کے فکر و خیال میں بلا کی برق رفتاری ہے۔

                اورعصمت چغتائی نے ان کے فن پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا:

                                 زیب النساء زیبی اور ان کی ذہانت و تخلیقی کارکردگی پر نا صرف پاکستان بلکہ دنیائے ادب ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔

                اب میں ان کی شاعری سے مثالیں پیش کرتا ہوں جن سے اندازہ لگایاجاسکے گا کہ محترمہ زیب النساء زیبی صاحبہ کی فکر کا دھارا کیسے کیسے گردش کرتا ہے اور محولہ نقادوں کی رائے کہاں تک درست ہے۔

                زیب النسا ء زیبی ؔ اب تک 70اصنافِ شاعری میں شعر کہہ چکی ہیں۔اس مختصر مقالے میں ان سب پر اظہارِ خیال کرنا تو ممکن نہیں تاہم ان کی شاعری کے چیدہ چیدہ اشعار حوالے کے طور پر بیان کیے جائیں گے۔ ہر شاعر کی طرح زیبیؔ کے شعری مجموعوں کا آغازبھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہوتا ہے۔ ان کے دو حمدیہ اشعار دیکھیے۔

توزمین و زماں کا مالک ہے

اورتو ہی میری جاں کا مالک ہے

چاند سورج ہیں شاہکار ترے

انجم و کہکشاں کا مالک ہے

                اور ایک دوسری جگہ کہتی ہیں:

تیرے وجود کو جو نہیں مانتا خدا

بیمار ہے وہ عقل کا، دل کا علیل ہے

باقی کی عمر زیبیؔ! ثنا میں تو کر بسر

یہ ساٹھ سالہ عمر تو بے حد قلیل ہے

                حمدکے بعد جیسا کہ دستور ہے شاعر آقائے نامدار محمد مصطفی ﷺ کے حضور نذرانہ ئ عقیدت پیش کرتے ہیں سو زیبیؔنے بھی اس روایت کو قائم رکھا ہے۔ دیکھئے، کس انداز سے رسولِ پاک ﷺ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے:

وہ نظر آنے لگا شہر ِ  پیمبر سامنے

اے دلِ بے تاب دیکھ،اپنا مقدر سامنے

جنتُ الفِردَوس کا نِعمُ البدل کہیےّ اسے

وادیءِ طیبہ کا ہے انمول منظر سامنے

اللہ اللہ یہ ہے معراجِ تصور کا کرم

روزوشب رہنے لگا وہ روئے ِ انور سامنے

                ایک جگہ سید الشہدا امامِ عالی مقام کو کچھ ان الفاظ میں سلام پیش کرتی ہیں:

وہ فاطمہ کے  لا ڈلے بیٹے حسینؑ ہیں

محبوب ِ کبر یا ﷺکے نواسے حسین ؑہیں

اے ساحل ِ فرات کے پیاسو تمہیں سلام

صد آفریں، حیات کا تم  نے دیا پیام

سر کٹ گیا جبیں پہ شہادت کا تاج ہے

تا حشر تم نے رکھی صداقت کی لاج ہے

                ایک غزل میں زندگی کی بے ثباتی کو یاد کرکے آخری لمحے کی تصویر کھینچتی ہیں، جس سے یاسیت میں ڈوبی ہوئی ذیبیؔ ہمارے سامنے  آتی ہے لیکن جیسے جیسے غزل کا سفر اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہے، ان کی یاسیت اور مایوسی امید میں ڈھل جاتی ہے اور وہ زندگی کو بجائے خود ایک ثواب تصور کرکے یاسیت سے رجائیت کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ یہی ذیبی ؔکافن ہے جس کا پر تو ان کی شاعری کے اکثر مجموعوں میں جھلکتے ہیں۔

آخری اب ختم ہونے کو ہے، بابِ ِ زندگی

لو مکمل ہوگئی، زیبیؔ کتابِ ِ زندگی

لکھ رہی ہوں نام ترے، انتسابِ ِ زندگی

صرف تو ہے،صرف تو ہے، انتخابِ ِ زندگی

زندگی سے اِس طرح، مایوس ہو نا بھی نہیں

زندگی! خود ہی ہے زیبیؔ، اک ثوابِ ِ  زندگی

                معاملاتِ عشق کی گہرائی میں اتر کر دیکھیے کس طرح محترمہ نے جذبات کی عکاسی کی ہے۔کہتی ہیں:

تیرا خیال ہے، اب چشمِ تر کا زاویہ دیکھ

تیرے بغیر بھی زندہ ہوں، میرا حوصلہ دیکھ

دلوں کے کھیل میں، رُسوائی بھی ہے، غم بھی ہیں

یہ پہلے سوچ لے، پھر کر کوئی معاہدہ دیکھ

تجھے کہا تھا کہ، اتنی نہ ڈھیل دے، دل کو

سواب رکے گا کہاں، خواہشوں کا قافلہ دیکھ

وہ دیکھ! سامنے روشن چراغِ منزل ہے

ہے زیبیؔ عزم، سفر کا، تو پھر نہ فاصلہ دیکھ

                ایک جگہ لسانی فسادیوں، سفارشی اور پرچی ادیبوں پر چوٹ کرتے ہوئے کہتی ہیں:

 یوں بٹ گئے گروہوں میں سارے ادیب بھی

لسانی ہیں سیاسی ہیں کچھ ہیں خوشامدی

اب ہیں شاعروں کی بھی اقسام بے شمار

پیسوں کے، پرچیوں کے، مفادی اور عالمی

شہرت کا یہ تماشہ بھی کتنا عجیب ہے

علم و ہنر سے ان کو علاقہ نہیں کوئی

طبقہ امرا اور غرباء کے جذبات کے فرق واضح کرتے ہوئے گویا ہیں۔

 تری امید ترا انتظار جب سے ہے

دعاکو حاجتِ صَد مُستجاب رب سے ہے

غریبِ شہر نے بانٹی ہے ایک روٹی بھی

امیرِ شہر کو لیکن غرض طرب سے ہے

                محبوب کی یاد میں گم ہو نا ہر عاشق کے لیے لازم ٹھہرتا ہے۔ شاعرہ نے ایک شعر میں ایسے ہی جذبات کی عکاسی کی ہے۔

ہر ایک چہرہ ہمیں لگتا ہے ترا چہرہ

سبھی سے اپنا تعلق ترے سبب سے ہے

                اور پھر دن رات کے پھرنے اور رات کو غم کا استعارہ بناکر کہتی ہیں۔

سحر کا رنگ نہیں کچھ بھی تیرگی کے بغیر

وجودِ صُبح بھی گویا وجودِ شب سے ہے

                شاعرہ کو یہ احساس بھی ہے کہ اگرچہ دنیا والوں کی نظر میں امیر، غریب کا فرق واضح نظر آتا ہے لیکن اللہ کے ہاں ان میں کوئی فرق نہیں دونوں انسان ہیں۔

نہیں ہے فرق امیر و غریب کے مابین

حساب دونوں کا اک جیسا اپنے رب سے ہے

                زیب النساء ذیبی ؔ نے ظلمتِ شب اور سحر کے استعارے بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال کیے ہیں ایک غزل میں کہتی ہیں؛

ڈھلے گا ظلمتِ شب کا یہ ابر جانے کب

سحر ہمیں بھی تِرا اَنتظار کب سے ہے

کسی بھی طرح سے کرسی یہ چھوڑتا ہی نہیں

حریصِ منصب و اعزاز کم نسب سے ہے

یہاں تو ہوتے ہیں روشن ضمیر زیرِ عتاب

حیات اُن کی گزرتی عجیب ڈھب سے ہے

اے آفتاب تیری روشنی کہاں گُم ہے

یہ تیرگی یہ گُھٹن زندگی میں کب سے ہے

                ذیبی کے سینے میں دھڑکتا دل جب ارد گرد کے ماحول کو دیکھتا ہے تو بیگانہ وار تڑپ تڑپ جاتا ہے اور ان کے لہجے میں بلا کی بغاوت جنم لیتی ہے اور وہ فیض احمد فیض ؔ کے تتبع میں اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ان کی اسی بے باکانہ خوبی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فیض ؔ نے کہا تھا:

                زیبی انقلابی جوش و جذبے سے پر ایک حقیقت پسند دردمند دل رکھنے والی تخلیق کار ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں

                میں مظلوموں اور نسائیت کے مسائل کو بہت جرأت سے بے نقاب کیا۔

کب جَور نہیں کب قَہر نہیں کب ظلم کی یہ سوغات نہیں

وہ کونسا گھر ہے جس گھر میں ماتم کی اندھیری رات نہیں

ہے سچا عشق تو مذہب کیا اور رنگ و نسل کو فرق عَبث

کوئی نیچ نہیں کوئی اونچ نہیں کوئی نام و نسب کوئی ذات نہیں

پیسے کی ضرورت سب کو ہے انکار نہیں اس بات سے بھی

اس پیٹ کی خاطربِک جائیں ہم ایسے کم اوقات نہیں

میں حق کے لئے ہوں سینہ سِپر لکھا نہ معافی نامہ بھی

نازاں ہوں ملامت کا مرکز اِک بار بھی میری ذات نہیں

                دیکھئے کس بے باکی سے ملکی حالات وواقعات کو شعر کے سانچے میں ڈھالتی ہیں:

جب ملک کے حاکم بک جائیں اور افسر راشی ہو جائیں

اس ملک کااللہ حافظ ہے پھر خیر کی کوئی بات نہیں

 بے تِیغ بھی لڑنا ہے زیبی ؔاور ہار کو جیت بنانا ہے

پھر دیکھنا قسمت سے بازی کوئی بھی تمہاری مات نہیں

                عشق میں روایتی جوروستم اردو غزل کا حصہ رہاہے چنانچہ یہ مضمون محترمہ زیبی کے یہاں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ا س کے کرم سے آئینہ ساماں ہوئے تو ہیں

فرزانگی و عقل سے تاباں ہوئے تو ہیں

کیا اُن کو مل گیاہے ہمیں یہ نہیں پتہ

ٹھکرا کہ میرے پیار کو فرحاں ہوئے تو ہیں

احساس ان کو بھی مرا ہونے لگا ہے اب

دل میں چراغِ عشق فروزاں ہوئے تو ہیں

اور پھر اسی قسم کی وارداتِ قلبی کا اظہار دیکھئے:

 کیوں لکھا احوالِ شب آدھا اِدھر آدھا اُدھر

بے رخی کا ہے سبب آدھا اِدھر آدھا اُدھر

دیکھ غربت کی نشانی دو گھروں میں اک دیا

روز جلتا ہے غضب آدھا اِدھر آدھا اُدھر

                اور آخری شعر دیکھیے:

جس کو یکجا کر گئے ہیں آخری خطبے میں آپ

بٹ گیا ہے وہ عرب آدھا اِدھر آدھا اُدھر

                شاعرہ کا دل بہت نرم اور رقیق ہے اور اسی رقت کی بدولت وہ کسی سے اظہارِ نفرت کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا اظہار دیکھئے:

بے سبب ان سے میں،نفرت کروں کیسے زیبیؔ

کچھ تو بن جائے جواز، ان سے عداوت کے لئے

                پھر کہتی ہیں:

محبت کا جہاں میں گر محبت ہی صلا ہوتا

نہ آنکھوں سے کسی کی درد کا آنسو گرا ہوتا

یہ تیری دلنشیں دنیا بھی جنت کی طرح ہوتی

سرشت آدمی کو بس نہ اتنا شر دیا ہوتا

 جہنم پیٹ کا رکھا ہے تونے ساتھ انساں کے

سمندر خواہشوں کا جسم کو کچھ کم دیا ہوتا

ملا کیا اس کو سچائی کے رستے پر قدم رکھ کر

کہ ایسی نیک نامی کا یہاں کچھ تو صلہ ہوتا

                آخر میں دلی دعا ہے کہ اللہ ان کو سلامت رکھے اور ان کے قلم سے اشعار کی اس بارش کا سلسلہ جاری رہے۔ آمین!

افضل رضوی
زیب النسا زیبیؔ
Share
Share
Share