ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
حیدرآباد ۔ 9885210770
سال 2020کل رخصت ہو گیا اور آج سال 2021کی آمد ہوئی ہے۔ امید و بیم کے بیچ دنیا نے نئے سال کی صبح کا استقبال کیا ہے۔گذرا ہوا سال کئی حیثیتوں سے انسانیت کے لئے ایک کربناک سال ثابت ہوا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے ہولناک سال بہت کم آ ئے ہوں گے جہاں دنیا کی ایک بڑی آ بادی موت و حیات کی کشمکش میں اس قدر مبتلا ہوئی ہو۔ موت ایک حقیقت ہے لیکن جس انداز میں کورونا وائرس نے موت کا خوف انسانوں پر طاری کر دیا اس کی مثال بھی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔
چین کے شہر وہان سے پھیلنے والے اس جان لیوا مرض نے پوری دنیا کے کروڑوں انسانوں کو اس قدر بدحال کر دیا کہ زندگی کی ساری رنگینیاں یکلخت ختم ہو گئیں۔ حکومتیں اس وباء کے سامنے بے بس ہو گئیں اور بیماری پر قابو پانے کے سارے دعوے بے بنیاد ثابت ہو گئے۔ ترقی یا فتہ ممالک جن کو اپنی معاشی اور طبی ترقی پر غیر معمولی ناز تھا وہ اپنی عوام کو موت کے منہ سے نہیں نکال سکے۔ پوری دنیا میں آٹھ کروڑ سے زیادہ لوگ اس بیماری کا شکار ہوئے اور اٹھارہ لا کھ سے زائد لوگ لقمہء اجل ہو گئے۔ اب بھی اس بیماری کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ چین کے شہر وہان سے پھیلنے والی اس وباء نے زندگی کی رفتار کو اس قد ر کم کر دیا کہ لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ ساری سر گرمیاں ٹھپ ہو گئیں۔ تمام ملکوں کی معیشت ٹھکانے لگ گئی۔ بیروزگاری نے اپنا ڈیرہ جمالیا۔ ہزاروں لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہوگئے۔ اس جان لیوا مرض نے انسان کو اپنی حقیقت بھی بتادی۔ ایک معمولی وائرس نے وہ تبا ہی مچادی کہ اس پر قابو پانا انسانوں کے بس میں نہ رہا۔ جن لوگوں کواپنی مادی ترقی کا بڑا گھمنڈ تھا اور جو خدا پر یقین نہیں رکھتے تھے انہیں معلوم ہو گیا کہ اس کائنات کا ایک مالک ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اس وباء کا ایک مثبت اثر یہ ہوا کہ دنیا یہ جان گئی کہ ساری مادی ترقی کے باوجود قدرت کے سامنے انسان بے بس اور مجبور ہے۔ ایک معمولی سے جھٹکے سے انسان کو ہوش آ یا کہ ابنِ آدم کی ساری ترقی یکلخت ختم ہو سکتی ہے اگر قدرت اپنا کرشمہ دکھانا شروع کر دے۔ دنیا کے طاقتور ممالک نے کیا کیا جتن نہیں کئے لیکن اب بھی دنیا اس مرض سے نجات نہ پا سکی۔ نئے سال کا آغاز ہوا ہے لیکن اب بھی اس مرض سے انسان نے چھٹکارا نہیں پا یا ہے۔ سال کے ختم ہونے کے بعد بھی کویڈ۔۹۱ ایک ڈراؤنا خواب بن کر انسانیت کا پیچھا کر رہا ہے۔ حالات کی اس سنگینی میں دنیا ایک نئے سال میں داخل ہو رہی ہے۔ خوف اور دہشت کے ماحول میں ایک نئے عیسوی سال کی آ مد ہو رہی ہے۔ 2020کا پورا سال اضطراب اور بیچینی میں گذرا۔ دنیا کے کسی ملک میں سکون اور عافیت کا ماحول دیکھنے میں نہیں آ یا۔ لیکن کیا دینا اس ہولناک بیماری سے کوئی سبق لینے کیلئے تیار ہے۔ خاص طور پر وہ ممالک جو دنیا کے ٹھیکدار بنے بیٹھے ہیں کیا وہ انسانی حقوق کی بحالی اور اس کے تحفظ کے بارے واقعی سنجیدہ ہیں۔ جن ممالک میں شہریوں کی آزادی اور ان کے حقوق کو سلب کیا جا رہا ہے کیا وہ اس تباہی کو دیکھنے کے بعد بھی انصاف کے علمبردار بن کر سامنے آنا نہیں چاہتے۔ کویڈ۔۹۱ کی اس قہر سامانی کو دیکھنے کے بعد حکمرانوں کو اپنا طرزِ حکمرانی بدل دینا ضروری ہے۔ اگر وہ ظلم و زبردستی کو ہی اپنا ہتھیار بناکر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کر یں گے تو قدرت کا عتاب اس سے خطرناک شکل میں ظاہر ہوگا۔کورونا وائرس دراصل ایک وارننگ ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سوا کسی کی مرضی دنیا میں نہیں چل سکتی۔ کویڈ۔ ۹۱ نے بتادیا کہ قدرت کے سامنے ہر طاقتور بھی مجبورِ محض ہے۔ہوش رُبا سائنسی ترقی کے باوجود شہروں کے شہر قبرستان بنتے دنیا نے پہلی مرتبہ دیکھا۔
کورونا وائرس کی تباہی نے ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مارچ 2020سے ہی اس ہولناک وباء نے انسانوں کو ہضم کرنا شروع کر دیا۔ ہندوستان میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ اس عالمی وباء سے متاثر ہوئے اور ایک لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ افراد اس بیماری کی وجہ سے موت کی آ غوش میں چلے گئے۔ ہندوستان کی حکومت نے اس جان لیوا مرض کو روکنے میں اپنی لا پروائی کا ثبوت دیا۔ جس وقت ساری دنیا اس مرض کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی تھیں، حکومتِ ہند نے دقیانوسی طریقے اختیار کر تے ہوئے اس بیماری کو بھگانے کادعویٰ کیا۔ وزیراعظم نریندرمودی کی قیادت میں تالی اور تھالی بجا کرکورونا سے نجات پانے کی بات کی گئی۔ اکیسویں صدی میں اس قسم کے ڈھکوسلے دے کر عوام کو گمراہ کیا گیا۔ جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور ہر دن ہر شہر اور گاؤں میں کورونا سے لوگ مرنے لگے تب حکومت کو ہوش آ یا لیکن پھر بھی یہی دعویٰ کیا گیا کہ ہندوستان اس وباء پر پوری طرح قابو پانے کی طاقت اور حوصلہ رکھتا ہے۔ جب حالات انتہائی سنگین رخ اختیار کر لئے تب وزیراعظم نے ایک دن کے جنتا کر فیو کا اعلان کر دیا اور پھر بغیر کسی منصوبہ بندی کے سارے ملک میں اچانک لاک ڈاؤن کردیا۔ حکومت کے اس جلدبازی کے فیصلہ نے ملک میں ایک افراتفری پھیلا دی۔ راتوں رات سارے ذرائع حمل و نقل پر پابندی عائد کردی گئی۔ لوگ اپنے گھروں میں قید ہو گئے۔ مزدور طبقہ کو جن نا قابلِ بیان مشکلات سے گذرنا پڑا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ہزاروں محنت کش افراد بیروزگار ہوگئے۔ غریبوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ مہاجر مزدور فاقہ کشی کا شکار ہو گئے۔لاک ڈاؤن کے دوران میگرنٹ مزدور اپنے وطن واپسی کے لئے میلوں پیدل سفر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کئی مزدور اپنے وطن واپس بھی نہیں پہنچ سکے راستے میں انہوں نے دم توڑ دیا۔ کئی افراد حادثوں کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مرکزی حکومت کی نا اہلی سے کویڈ۔ ۹۱ کے دوران حالات بد سے بدتر ہو تے چلے گئے لیکن افسوس کہ زعفرانی ذہنیت رکھنے والی حکومت نے ایک عالمی وباء کو مذہبی رنگ دے کر ملک کے ایک طبقہ کو بدنام کرنے کا بھی حربہ ایسے نازک وقت استعمال کیا جب کہ ساری دنیا بِلا لحاظِ مذہب، رنگ و نسل اس کے خلاف لڑ رہی تھی۔ یہ زہر یلا پروپیگنڈا کیا گیا کہ ہندوستان میں کورونا تبلیغی جماعت کی وجہ سے آ یا ہے۔ دہلی کے مرکز نظام الدین کے نام کو کافی اچھالا گیا۔ گودی میڈیا نے بھی اس میں مرچ مسالہ لگا کر ہندوستانی مسلمانوں کو کورونا کے پھیلانے کا ذ مہ دار قرار دیتے ہوئے سارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف زبردست مہم چلائی۔ دنیا کے کسی ملک میں کسی بیماری کو کسی مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں فرقہ پرستوں نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے ملک کے مسلمانوں کو گھیرنے کی پوری کوشش کی۔ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے مرکز والوں نے لاک ڈاؤن کے فوری بعد حکومت سے بارہا اپیل کی تھی کہ انہیں ان کے مقامات تک پہنچا دیا جائے۔ لیکن حکومت نے انہیں اسی مقام پر محصور کر دیا اور پھر الزام یہ دیا جا رہا ہے کہ تبلیغی جماعت والوں کی وجہ سے ملک میں کورونا پھیلا۔ اس ضمن میں اس مذہبی جماعت کے افراد کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا گیا وہ بھی انتہائی تکلیف دہ رہا۔ ان پر مقدمات درج کئے گئے۔ ان کی ضمانتیں منظور نہیں کی گئیں۔ لیکن ملک کی عدالتوں نے ان کے ساتھ بھرپور انصاف کرتے ہوئے حکومت اور خاص طور پر پولیس کو پھٹکار سنائی۔ لیکن کم ازکم چار ماہ تک ملک کے مسلمانوں کو جو ذہنی اذیت دی گئی اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بیرونِ ملک سے بھی فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف زہریلا پروپگنڈا شروع کر دیا۔ لیکن جیسے ہی خلیجی ممالک کے بعض گوشوں کی جانب سے اس کا سخت نوٹ لیا گیا تو حکومت حرکت میں آئی اور اس مہم کو بظاہر ختم کردیا گیا۔
سال 2020کو کورونا کے قہر سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہندوستان اور بھی نازک حالات سے دوچار ہوا ہے۔ آج بھی ملک کے کسان حکومت کے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس معاملے میں جلدبازی سے کام لیتے ہوئے تین ایسے زرعی قوانین کو منظوری دے دی ہے جس سے مستقبل میں کسانوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ تادمِ تحریر کسانوں نے اعلان کر دیا ہے کہ جب تک حکومت ان قوانین سے دستبردار نہیں ہوتی وہ اپنے احتجاج کو ختم نہیں کریں گے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ قوانین میں ترمیم کرنے تیار ہے لیکن ان قوانین کو کسی بھی صورت میں منسوخ نہیں کرے گی۔ دونوں فریقوں کے اس اٹل موقف سے فوری کوئی حل نکلنے کے آثار نہیں دیکھائی دے رہے ہیں۔ کورونا کی بَلا کے دوران حکو مت کسانوں کو راحت دینے کے بجائے ان کی روزی روٹی چھیننے کی کوشش کر تی ہے تو یہ کسانوں کے ساتھ کھلی نا انصافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سارے ملک کے کسان حکومت کی کسان دشمن پالیسی کے خلاف احتجاج پر اتر آئے ہیں۔ سال 2020تعلیمی شعبہ کے لئے بھی انتہائی تکلیف دہ سال رہا۔ کویڈ۔ ۹۱ کی وجہ سے ملک میں تعلیمی بحران پیدا ہو گیا اور ابھی تک ملک کے سارے تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ تعلیمی سال 2020-21کو صفر تعلیمی سال قرار دے دیا جائے۔ اس پورے تعلیمی سال میں طلباء ایک دن بھی اسکول یا کالج نہیں جا سکے۔ ساری تعلیم گذشتہ چند مہینوں سے آن لائین ہو رہی ہے۔حکومت نے تعلیمی شعبہ کے اس بحران کو ختم کر نے میں کوئی دلچپی نہیں دیکھائی۔ البتہ ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کو ملک میں نافذ کرنے کی تیاری کی گئی۔ ایک ایسے وقت جب کہ ملک بحرانی دور سے گذررہا ہے حکومت ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کے نام پر اپنے مخصو ص ایجنڈے کو روبہ عمل لانے میں لگی ہوئی ہے۔ اس تعلیمی پالیسی کے ذریعہ ملک میں ایک مخصوص دھرم کی تعلیمات کو عام کرنے کا منصوبہ بنا یا جا رہا ہے۔ اس کا اظہار ابھی دو دن پہلے آسام کی بی جے پی حکومت کی جانب سے دینی مدارس کو سرکاری اسکولس میں تبدیل کرنے کے فیصلہ سے سامنے آیا۔ 28/ ڈسمبر کو آسام کی قانون ساز اسمبلی میں بل منظور کرتے ہوئے تمام دینی مدارس کو بند کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ یہ اقدام دراصل ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تعلق سے مسلمانوں کے بعض حلقوں میں جو خوش فہمیاں پائی جارہی ہیں اب اس کی کوئی معنویت باقی نہیں رہی۔2020کے حوالے سے ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔ لیکن مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے سال 2020بڑاآزمائشی رہا۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جو احتجاج2019میں شروع ہوا تھا وہ اہم مرحلہ میں قدم رکھ رہا تھا کہ کوروناوائرس کی تباہی نے ساری دنیا میں ایک کہرام مچا دیا۔ اس کے نتیجہ میں اس احتجاج کو بھی انسانیت کے تقا ضہ کے تحت ختم کر دینا پڑا۔ لیکن حکومت کی سوچ میں تبدیلی نہیں آ ئی آج بھی وہ اس قانون کو ملک میں نافذ کرنے کی بات کررہی ہے۔ اسی طرح لَو جہاد کاغلط پروپگنڈا کر کے تبدیلیِ مذہب کے خلاف بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کی جانب سے قوانین بنانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ حالات کے اس تناظر میں یہی کہا جاسکتا ہے سال 2020کی طرح سال2021میں بھی آزمائشیں آتی رہیں گی لیکن بحرحال امید پر دنیا قائم ہے اسلئے نئے سال سے نئی توقعات وابستہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن حالات میں تبدیلی لانے کے لئے اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کویڈ۔۹۱ کو اپنے لئے نشان عبرت مانتے ہوئے دنیا کے تمام انسانوں کو اپنے طور طریقے بدلنا ہوگا ورنہ 2021کا سال 2020سے زیادہ دنیا کی تباہی کا سبب بنے گا۔