لوگ کیا کہیں گے – – ہمارا معاشرتی اور نفسیاتی المیہ

Share

کومل شہزادی ، سیالکوٹ

کلچر لاطینی لفظ کلتورا سے ماخذ ہے جو کہ خود کو لیرے سے نکلا ہے جس کا مطلب کاشت کرنا ہے -کسی بھی معاشرے کے افراد کے طرز ندگی یا راہ عمل میں اقدار .عقائد اور رسم ورواج اور معمولات شامل ہیں -ثقافت ایک وسیع مفہوم رکھنے والی اصطلاح ہے اس میں وہ تمام خصوصیات یعنی اچھائیاں اور برائیاں شامل ہیں جو کہ کسی قوم کی پہچان ہوتی ہیں –

ثقافت انسان کی پیدا کردہ چیز ہے جسے وہ نسل در نسل سیکھتا ہے -ثقافت ہی کی وجہ سے نہ صرف معاشرتی زندگی قائم ودائم رہتی ہے بلکہ انسانی معاشرہ ترقی بھی پاتا ہے -دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ معاشرہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے اور ثقافت لوگوں کے رہن سہن کا طریقہ کار ہے -پاکستانی ثقافت معاصر اسلامی تہذیب کا حصہ ہے-اس کی اقدار اور روایات اسلام اور تابندہ اسلامی تاریخ سے اخذ ہوتی ہے-پاکستان کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جو ایک اللہ کی واحدانیت اور محمد ﷺپر ایمان رکھتے ہیں -معاشرہ کبھی ساکن و جامد حالت میں نہیں رہتا – بلکہ معاشرہ ہر دم متحرک رہتا ہے اور اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں – پرانے تصورات ..رسم ورواج اور روایات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہیں لیکن وہ بھی ساکن و جامد نہیں ہوتیں – یہ ہر وقت بدلتی اور نۓ سانچوں میں ڈھلتی جاتی ہے -دنیا کا سب سے بڑا روگ ہے لوگ کیا کہیں گے -دنیا کے ہر صوبے میں اپنی روایات کی اطاعت کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتے آرہے ہیں لوگوں کو قابو میں کرنا ایسے ضوابط انتہائی ضروری ہوتے ہیں جو سب پر لاگو ہوں کوئی ان سے انحراف نہ کر پاۓ سماجی روایات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے یہ ہی تصورات تمام انسانوں کو ایک جیسا ہونا چاہیے سب کی سوچ ایک ہویہ روایات ہی ہوتی ہیں جو تہذیب کو زندہ رکھتی ہیں -پاکستان ابتداء سے اب تک کسی ایک مخصوص ثقافت کا امین نہیں رہا اس میں طرح طرح کی قومیں جداگانہ ثقافت رکھتی ہیں سندھی ،بلوچی ،پنجابی ،سرائیکی وغیرہ ہرایک کے الگ اقدار ہیں زبان ، رہن سہن مختلف ہیں-ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم تقلید کرتے ہیں اپنی ثقافت اور ذات مجروح کرکے زیادہ دوسروں کی تقلید میں اطمینان محسوس کرتے ہیں -یہ بھی ایک نفسیاتی المیہ ہے -یہ ہی سوچ ہمارا معاشرتی المیہ بھی ہے –
”لوگ کیا کہیں گے “ اس ایک جملے نے لوگوں کی زندگی میں عجیب سی کیفیت پیدا کررکھی ہے -تقریبا ہرایک کی زندگی اس ایک جملے نے تہس نہس کردیا ہے یعنی ہمارے ذہنوں میں یہ کسی اہم سبق کی طرح بیٹھ گیا ہے -یہ ذہنی بیماری یا احساس کمتری ہے -کچھ لوگ تو یہ بھی جاننے سے قاصر ہیں کہ اُن کی اپنی ذات کس میں خوش یا ناخوش ہے بلکہ اسی پر زندگی گزارنے میں مگن ہیں کے لوگ کیا کہیں گے اگر ایسا نہ کیا تو لوگ ایسا کہیں گے اگر کچھ کر لیا تو لوگ کیسا کہیں گے -اس جملے نے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے – یہ ہی جملہ ہے جس کی وجہ سے اسلام اور اللہ کے فرمان سے بھی روگردانی کرتے ہیں -ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم اس جملے کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں باقی دین کی ہر بات کو پس پشت ڈال کر کہ اللہ کے خوف سے زیادہ (نعوذباللہ )لوگوں سے زیادہ ڈرتے ہیں کہ جیسے لوگ پسند کرتے ہیں ویسے نہ کیا تو تو لوگ کیا کہیں گے – اس جملے نے لوگوں کی نفسیات کو ہی ایسا بنادیا ہے کہ وہ ذہنی مریض بن بیٹھے ہیں –
کوئی دعوت ہے لوگ کیا کہیں گے
شادی ہے…. مسجد جارہے….لباس کیسا ہے …وہ ایسے نا کیا تو لوگ کیا کہیں گے-
ڈارھی رکھ لی لوگ کیا کہیں گے
نبی پاک کی سنت مبارک کو اپنایا تو لوگ کیا کہیں گے-
لباس اور پردہ کرلیا لوگ کیا کہیں گے
یعنی ہر ایک بات میں زیادہ خوف لوگ کیا کہیں گے -اس احساس کمتری سے جتنی جلد معاشرہ نکل آۓ گا اُتنے ہی ذہنی و نفساتی مریض کم پیدا ہوں گے -لوگ لوگ لوگ۔ کون ہیں یہ لوگ؟؟؟
جن کی وجہ سے آپ کا کھل کر سانس لینا بھی ایک ازیت بن چکا ہے؟
کون ہی یہ لوگ جن کو اللہ کے سوا آپ نے معزز اور مذل بنا لیا ہے؟
کون ہیں یہ لوگ جو آپ کی عزت اور بے عزتی کے سرٹیفیکیٹ شائع کرتے پھرتے ہیں؟
یہ لوگ اور کوئی نہیں ہم اور آپ ہی ہیں۔ ہم ہی ہیں جو یہ معاشرہ بناتے ہیں اور ہم۔ہی اس کی بگاڑ کے زمہ دار ہیں۔ ہم ہی کو خود میں تبدیلی لانی پڑے گی تاکہ معاشرہ تبدیل ہو سکے۔
ہم ہی کو کھڑا ہونا پڑے گا تاکہ لوگ لوگوں سے نہ ڈریں۔ ہم ہی کو دوسروں کو سہارا بننا ہو گا تاکہ کسی کو ہمارا ڑر نہ ہو اور وہ اپنی خوشی اور اپنی زات کی بہتری کے لئے فیصلہ کر سکیں۔
تو آئیں خود کو بدلیں تاکہ یہ معاشرہ بدل سکے۔تاکہ سب اپنی خوشی سے جی سکیں۔ تاکہ سب زندہ رہ سکیں۔ تاکہ سب برائی کے خلاف یکجا ہو سکیں۔
زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو اس بات کا خیال کئے بغیر آپ نے بس یہ سوچنا ہے کہ آپ خود کیا چاہتے ہیں۔ لوگ کیا کہتے ہیں یا کیا چاہتے ہیں اس بات سے آپ کو کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے۔ لوگ تو ہمیشہ وہی چاہتے ہیں اور کہتے جس میں ان کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔
امتحانات میں اچھے گریڈز نہیں آئے، لوگ کیا کہیں گے۔ نوکری نہیں مل رہی، لوگ کیا کہیں گے۔ شادی نہیں ہو رہی لوگ کیا کہیں گے، اولاد نہیں ہو رہی، لوگ کیا کہیں گے۔ وزن بڑھ گیا، لوگ کیا کہیں گے۔ لیکن حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے اس منفی سوچ کو بالکل پلو نہ پکڑایا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ بلکہ اس کے بجائے خود اعتمادی کے ساتھ اور بغیر سوچے کے لوگ کیا کہیں گے، اپنے خواب پورے کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں منفی سوچ مثبت سوچ میں بدلیے-

تاریکی سے ناطہ توڑ کراجالوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھائیے۔

کچھ ہم ہی شب گزیدہ اجالوں سے ڈر گئے

"What will pepole say “اور یقین جانیے ان چار لفظوں نے نوے فیصد لوگوں کی زندگی خراب کر چھوڑی ہے،،،، تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ باقی دس فیصد لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں لوگوں کی پرواہ نہیں اور اصل میں بس وہ کہتے ہی ہیں-ایک قدیم قصہ ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ سفر پر نکلا تو ایک راہ گیر نے انہیں دیکھ کر کہا جب پاس گھوڑا ہے تو پیدل کیوں چل رہے ہو – بوڑھا گھوڑے پر بیٹھ گیا کچھ آگے جاکر ایک راہ گیر پھر ملا تو اُس نے کہا کہ بیٹا پیدل چل رہا ہے اور باپ گھوڑے پر سوار ہے – باپ نے بیٹے کو بیٹھا دیا اور خودپیدل چلنا شروع کردیا -کچھ ہی آگے ایک اور راہ گیر کہنے لگا شرم نہیں آتی لڑکے کو جو باپ پیدل چل رہا ہے اور خود سواری پر بیٹھا ہے -دونوں باپ بیٹے نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم دونوں ہی گھوڑے پر سوار ہوجاتے ہیں -اس پر بھی ایک راہ گیر نے کہا کہ آپ لوگوں کو احساس نہیں اس جانور کایعنی اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہےکہ ہر ایک کی راۓ الگ اور دیکھنے کا انداز الگ اور جتنی زبانیں اُتنی ہی باتیں الگ سننے کو ملتیں انسان کو اپنی راۓ اور آسانی کو دیکھتے ہوۓ اپنی طر ز زندگی اختیار کرے -عزت کی خواہش کی خاطر وہ ہمیشہ لوگوں کی باتوں کو ذہن میں رکھتا ہے عزت کی جو آرزو اپنے دل سے نکال دے یہ جراثیم جتنی جلد نکل جائیں کہ عزت لوگ نہیں دیتےیہ لوگوں کا نفسیاتی المیہ ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کے حصول کو چھوڑ کر یہ فکر کرنی چاہیے کہ اللہ کیا کہے گا-
معیار زندگی لوگوں کی سوچ نہیں بلکہ شریعت ہونی چاہیے.اب چاہے اس عمل پہ لوگ برا بھلا ہی کہیں تو اللہ تعالی شریعت پہ چلنے کی برکت سے دل میں ایسا حوصلہ و طاقت عطا کردیں گے کہ انسان کو لوگوں کی پرواہ نہ ہوگی.. ورنہ ہر وقت پریشانی ہی پریشانی ہو گی -لوگ کیا کہیں گے ؟ یہ ایسی گھٹیا سوچ ہے جو اللہ کا ڈر نکال کر لوگوں کا خوف ذہن پہ غالب کردیتی ہے ،،،لوگ کبھی کہنا نہیں چھوڑتے اس لیے لوگوں کی سننا چھوڑ دینی چاہیے ۔۔۔ اپنی زندگی پے لوگوں کو اختیار دینا صرف ناکامی اور غلامی ہے اور غلاموں کی کوئی حثیت نہیں ہوتی ۔۔ہماری ذات صرف اللہ کو جواب دہ ہونی چاہیے ۔۔۔لوگ کیا کہیں گے اس کی پیروی کر کے بھی آپ لوگوں کو خوش نہیں کرسکتے -اپنے مطابق جس میں آپ اور اللہ کی ذات خوش اُسی میں زندگی بسر کیجیے -وہ کریں جو اللہ اور اُس کے احکام کے مطابق ہو -المختصر،وہ کیجے جس میں آپ کے لیے آسانیاں ہیں اور اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزاریے لوگ کیا کہیں گے اس سوچ سے نکل کر بہت کچھ ہے جو آپ کو ذہنی اطمینان میں رکھ سکتا ہے -اللہ کیا کہے گا ہمارے اعمال کے متعلق اس کا سوچیے ..فی امان اللہ ورسولہ الکریم ﷺفرمان رسول ﷺ:
“دنیا کی رسوائی برداشت کرنا آخرت کی رسوائی سے آسان ہے“-

Share
Share
Share