ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہئ اردو
گورنمنٹ ڈگری کالج سِدّی پیٹ۔۳۰۱۲۰۵،ریاستِ تلنگانہ،ہند
موبائل:9346651710
ماریہ آپی کی شادی تھی،برقی قمقمے سے شادی خانہ سجا ہوا تھا،دولہے کا اسٹیج غباّروں سے سجایا گیا تھا،جسے دیکھ کربچوں کا جی للچارہا تھا،وہ غبّاروں کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے تھے،اگر ان کا بس چلتا اور بڑے اس کی اجازت دیتے تووہ غبّارے نوچ کران سے کھیلنا شروع کر دیتے،لیکن اس کا موقع تو انہیں نہیں ملا۔بارات آنے میں تاخیر ہو رہی تھی،گویا نوّے کی بارات ہو،مغرب سے عشاء کا وقت ہوگیا،بچوں کی بیزاری دیکھ کر موجود مہمانوں میں ناشتے کے پیکٹ تقسیم کئے گئے،بچّے بڑے سب کے ہاتھوں میں ایک ایک پیکٹ تھما دیئے گئے،
بچّوں نے خوشی خوشی ناشتہ کیا،ناشتہ کے بعد بچّے ان ہی پیکٹوں سے کھیلنے لگے،جب کھیلتے کھیلتے تھک گئے تو انہیں نیند آنے لگی،اب بھی نوّے کی بارات آنے کا نام نہیں،لہٰذا بچّوں کے ساتھ بڑوں کو بھی کھانا کھانے کے لئے ڈائننگ ہال بھیج دیا گیا۔
جب بچّے کھانا کھا چکے تو نوّے کی بارات دھیرے دھیرے الگ الگ گاڑیوں میں شادی خانہ پہنچی،دولہے میاں کی گاڑی مزید آدھا گھنٹہ تاخیر سے ساڑھے گیارہ بجے پہنچی،باراتیوں کو ٹھنڈا شربت پلانے اور ناشتہ کرانے کے بعد نکاح خوانی کا سلسلہ شروع ہوا،مہمانوں کو کھاناکھلاتے اور سونے پڑنے کا انتظام کرتے کرتے رات کے دو بج گئے،،اب صرف عورتوں کا کام باقی رہ گیا تھا، دولہے میاں کو اندر بلا کر شادی کی کچھ فضول رسمیں ہونی تھیں،یہاں مردوں کا کوئی کام نہ تھا،تقریباً سب ہی مرد حضرات سو چکے تھے، ابّو سارا انتظام کر کے تھک چکے تھے،جب انہوں نے دیکھا کہ میرا کوئی کام نہیں ہے تو وہ بھی سونے کے لئے شادی خانہ کے مردانہ ہال چلے گئے،تمام مہمانوں نے گدّا،تکیہ اور چادر پر قبضہ جما لیا تھا،ابّو کو کوئی تکیہ اور چادر نہیں مل سکی،ابّو بغیر تکیہ اور چادرکے سو گئے،لیکن بغیر تکیہ اور چادر کے ان کو نیند نہیں آئی،مچھّر کاٹ رہے تھے،رات بھر بے چین رہے۔
ابھی شادی کی رسم جاری تھی کہ چھوٹی فاکہہ کو اپنے ابّو کا خیال آیا،وہ یسریٰ آپی کو ساتھ لے کرنیچے مردانہ میں میں آئی،ڈھونڈتے ہوئے ابّو کے پاس پہنچی،ابّو کو دیکھ کر اس کی زبان سے نکلا،ہائے اللہ!ابّو بغیر تکیہ اور چادر کے سو رہے ہیں،جھٹ اوپر جاکر تکیہ اور چادر لے آئی،ابّو کو چوں کہ نیند نہیں آئی تھی،انہوں نے فاکہہ کی آواز سن لی،فاکہہ نے ابّو کو چادر اوڑھا دی،اور سر کے نیچے تکیہ رکھ دیا،،تب کہیں جا کر ابّو کو نیند آئی۔
ابّو کے دل میں فاکہہ کی بڑی قدر ہوئی کہ آٹھ سالہ چھوٹی بیٹی نے شادی کی بھیڑاور رسم و تماشہ کی گہما گہمی میں بھی اپنے ابّو کو یاد رکھا،اور ان کے آرام کے لئے تکیہ اور چادر کا انتظام کیا۔واقعی بیٹی رحمت ہوتی ہے،بیٹیوں کی اچھی پرورش،تعلیم و تربیت اور شادی کرنے پر جنّت کی خوش خبری دی گئی ہے،امّید ہے کہ یہی بیٹیاں کل قیامت کی بھیڑ میں اپنے والدین کو تلاش کرتی ہوئی آئیں گی،اور اللہ تعالیٰ سے ان کو جنّت میں بھیجنے کی سفارش کریں گی۔