پہلا پتھر
مشتاق احمد یوسفی
پہلاپتھرمقدمہ نگاری کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی پڑھالکھاہو۔اسی لیے بڑے بڑے منصنف بھاری رقمیں دے کراپنی کتابوں پرپروفیسروں اورپولیس سے مقدمے لکھواتے اورچلواتے ہیں۔اورحسب منشابدنامی کے ساتھ بری ہوتے ہیں۔فاضل مقدمہ نگارکاایک پیغمبرانہ فرض یہ بھی ہے کہ وہ دلائل ونظائرسے ثابت کردے کہ اس کتاب مستطاب کے طلوع ہونے سے قبل ،ادب کانقشہ مسدحالی کے عرب جیساتھا:
”ادب“ جس کاچرچاہے یہ کچھ وہ کیاتھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ نماتھا
اس میں شک نہیں کہ کوئی کتاب بغیرمقدمہ کے شہرت عام اوربقائے دوام حاصل نہیں کرسکتی ۔بلکہ بعض معرکہ الآراکتابیں تو سراسر مقدمے ہی کی چاٹ میں لکھی گئی ہیں۔برنارڈشا کے ڈرامے (جودرحقیقت اس کے مقدموں کے ضمیمے ہیں)اسی ذیل میں آتے ہیں۔اوردورکیوں جائیں۔خودہمارے ہاںایسے بزرگوں کی کمی نہیں جومحض آخرمیں دعامانگنے کے لالچ میں نہ صرف یہ کہ پوری نمازپڑھ لیتے ہیںبلکہ عبادت میں خشوع وخضوع اورگلے میں رندھی رندھی کیفیت پیداکرنے کے لیے اپنی مالی مشکلات کوحاضروناظرجانتے ہیں۔لیکن چندکتابیں ایسی بھی ہیں جومقدمہ کوجنم دے کرخوددم توڑدیتی ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر جانسن کی ڈکشنری، جس کامقدمہ باقی رہ گیاہے۔اورکچھ ایسے مصنف بھی گزرے ہیں جومقدمہ لکھ کرقلم توڑدیتے ہیں۔اوراصل کتاب کی ہواتک نہیں دیتے- جیسے شعروشاعری پرمولاناحالی کابھرپورمقدمہ جس کے بعدکسی کوشعروشاعری کی تاب وتمناہی نہ رہی۔بقول مرزاعبدالودودبیگ،اس کتاب میں مقدمہ نکال دیاجائے توصرف سرورق باقی رہ جاتاہے۔
تاہم اپنامقدمہ بقلم خودلکھناکارثواب ہے کہ اس طرح دوسرے جھوٹ بولنے سے بچ جاتے ہیں۔دوسرافائدہ یہ کہ آدمی کتاب پڑھ کرقلم اٹھاتاہے۔ورنہ ہمارے نقادعام طورپرکسی تحریرکواس وقت تک غورسے نہیں پڑھتے جب تک انھیںاس پرسرقہ کاشبہ نہ ہو۔
پھراس بہانے اپنے متعلق چندایسے نجی سوالات کادنداں شکن جواب دیاجاسکتاہے جوہمارے ہاں صرف چالان اورچہلم کے موقع پرپوچھے جاتے ہیںمثلاً:کیاتاریخ پیدائش وہی ہے جومیٹرک کے سرٹیفکیٹ میں درج ہے؟ حلیہ کیاہے؟مرحوم نے اپنے ”بینک بیلنس “ کے لیے کتنی بیویاں چھوڑی ہیں؟بزرگ افغانستان کے راستے سے شجرہ نسب میں کب داخل ہوئے؟نیز موصوف اپنے خاندان سے شرماتے ہیں یاخاندان ان سے شرماتاہے؟راوی نے کہیں آزادکی طرح جوش عقیدت میں ممدوح کے جدامجدکے کانپتے ہوئے ہاتھ سے استراچھین کرتلوارتونہیں تھمادی؟
چنانچہ اس موقع سے جائزفائدہ اٹھاتے ہوئے اپنامختصرساخاکہ پیش کرتاہوں:-
نام: سرورق پرملاحظہ فرمائیے۔
خاندان: سوپشت سے پیشہ آبا،سپہ گری کے علاوہ سب کچھ رہاہے۔
تاریخ پیدائش: عمرکی اس منزل پرآپہنچاہوں کہ اگرکوئی سن ولادت پوچھ بیٹھے تواسے فون نمبربتاکرباتوں میں لگالیتاہوں۔
اوریہ منزل بھی عجیب ہے۔بقول صاحب ”کشکول“ ایک وقت تھاکہ ہماراتعارف بہوبیٹی قسم کی خواتین سے اس طرح کرایا جاتا تھاکہ فلاں کے بیٹے ہیں۔فلاں کے بھانجے ہیں۔اوراب یہ زمانہ آگیاہے کہ فلاں کے باپ ہیں اورفلاں کے ماموں!اورابھی کیاگیاہے۔عمررسیدہ پیش روزبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے آگے مقامات آہ وفغاں اوربھی ہیں۔
پیشہ : گوکہ یونیورسٹی کے امتحانوں میں اول آیا،لیکن اسکول میں حساب سے کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔اورحساب میں فیل ہونے کوایک عرصے تک اپنے مسلمان ہونے کی کی آسمانی دلیل سمجھتارہا۔
اب وہی ذریعہ معاش ہے!حساب کتاب میں اصولاًدواوردوچارکاقائل ہوں،مگرتاجروں کی دل سے عزت کرتاہوں کہ وہ بڑی خوش اسلوبی سے دواوردوکوپانچ کرلیتے ہیں۔
پہچان: قد: پانچ فٹ ساڑھے چھ انچ (جوتے پہن کر)
وزن: اوورکوٹ پہن کربھی دبلادکھائی دیتاہوں۔عرصے سے مثالی صحت رکھتاہوں-اس لحاظ سے کہ جب لوگوں کوکراچی کی آب
وہواکوبراثابت کرنامقصوہوتواتمام حجت کے لیے میری مثال دیتے ہیں۔
جسامت: یوں سانس روک لوں تو٨٣ انچ کابنیان بھی پہن سکتاہوں۔بڑے بڑے لڑکے کے جوتے کانمبر٧ہے جومیرے بھی فٹ آتاہے۔
حلیہ: اپنے آپ پرپڑاہوں۔
پیشانی اورسرکی حدفاصل اڑچکی ہے۔لہذامنہ دھوتے وقت یہ سمجھ میں نہیں آتاکہ کہا ں سے شروع کروں۔ناک میں بذاتہ قطعی نقص نہیں ہے۔مگربعض دوستوں کاخیال ہے کہ بہت چھوٹے چہرے پرلگی ہوئی ہے۔
پسند: غالب ،ہاکس بے ، بھنڈی۔
پھولوں میں،رنگ کے لحاظ سے،سفیدگلاب اورخوشبووں میںنئے کرنسی نوٹ کی خوشبوبہت مرغوب ہے۔میراخیال ہے کہ سبرسبزتازہ تازہ اورکرارے کرنسی نوٹوں کاعطرنکال کرملازمت پیشہ حضرات اورانکی بیویوں کومہینے کی آخری تاریخوں میں سنگھایاجائے توگرہستی زندگی جنت کانمونہ بن جائے۔
پالتوجانوروں میں کتوں سے پیارہے ۔پہلاکتاچوکیداری کے لیے پالاتھا۔اسے کوئی چراکرلے گیا۔اب محض بربنائے وضع داری پالتاہوں کہ انسان کتے کابہترین رفیق ہے۔ بعض تنگ نظراعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کتوں سے بلاوجہ چڑتے ہیں۔حالانکہ اسکی ایک نہایت معقول وجہ موجودہے-مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں۔اوروہ کسی ایسے جانورکومحبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کرکے کھانہ سکیں۔
گانے سے بھی عشق ہے۔اسی وجہ سے ریڈیونہیں سنتا۔
چڑ: جذباتی مرد،غیرجذباتی عورتیں،مٹھاس،شطرنج۔
مشاغل: فوٹوگرافی ،لکھناپڑھنا۔
تصانیف: چندتصویربتاں،چندمضامین وخطوط۔
کیوں لکھتاہوں: ڈزریلی نے اس کے جواب میں کہاتھاکہ جب میراجی عمدہ تحریرپڑھنے کوچاہتاہے توایک کتاب لکھ ڈالتاہوں۔رہایہ سوال کہ یہ کھٹ مٹھے مضامین طنزیہ ہیں یامزاحیہ یااس سے بھی ایک قدم آگے- یعنی صرف مضامین،تویہاں اتناعرض کرنے پراکتفاکروں گاکہ وار ذرا اوچھا پڑے، یابس ایک روایتی آنچ کی کسررہ جائے تولوگ اسے بالعموم طنزسے تعبیرکرتے ہیں،ورنہ مزاح
ہاتھ آئے توبت،ہاتھ نہ آئے توخداہے
اوریہاں یہ صورت ہوتوخام فن کارکے لیے طنزایک مقدس جھنجلاہٹ کااظہاربن کررہ جاتاہے اورچنانچہ ہروہ لکھنے والاجو سماجی اورمعاشی ناہمواریوں کودیکھتے ہی دماغی باوٹے میں مبتلاہونے کی صلاحیت رکھتاہے،خودکوطنزنگارکہنے اورکہلانے کاسزاوارسمجھتاہے۔لیکن سادہ وپرکارطنزہے بڑی جان جوکھوں کاکام۔بڑے بڑوں کے جی چھوٹ جاتے ہیں۔اچھے طنزنگارتنے ہوئے رسے پراترا اتراکرکرتب نہیں دکھاتے بلکہ
رقص یہ لوگ کیاکرتے ہیں تلواروں پر
اوراگرژاں پال سارترکی مانند”دماغ روشن ودل تیرہ ونگہ بیباک “ ہوتوجنم جنم کی یہ جھنجلاہٹ آخرکارہربڑی چیزکوچھوٹی کرکے دکھانے کاہنربن جاتی ہے۔لیکن یہی زہرغم جب رگ وپے میں سرایت کرکے لہوکوکچھ اورتیزوتندوتواناکردے تونس نس سے مزاح کے شرارے پھوٹنے لگتے ہیں۔عمل مزاح اپنے لہوکی آگ میں تپ کرنکھرنے کانام ہے۔لکڑی جل کرکوئلہ بن جاتی ہے ۔اورکوئلہ راکھ۔لیکن اگرکوئلے کے اندرکی آگ باہرکی آگ سے تیزہوتوپھروہ راکھ نہیں بنتا،ہیرابن جاتاہے۔
مجھے احساس ہے کہ ننھے سے چراغ سے کوئی الاوبھڑک سکااورنہ کوئی چتادہکی۔
میں تواتناجانتاہوں کہ اپنی چاک دامنی پرجب اورجہاں ہنسنے کوجی چاہاہنس دیا۔اوراب اگرآپ کوبھی اس ہنسی میں شامل کرلیاتواس کواپنی خوشی قسمتی تصورکروں گا۔میرایہ دعویٰ نہیں کہ ہنسنے سے سفیدبال کالے ہوجاتے ہیں۔اتناضرورہے کہ پھراتنے برے نہیں معلوم ہوتے۔بالفعل،اس سے بھی غرض نہیں کہ اس خندہ مکرّرسے میرے سواکسی اورکی اصلاح بھی ہوتی ہے یانہیں۔ہنسنے کی آزادی فی نفسہ تقریرکی آزادی سے کہیں زیادہ مقدم ومقدس ہے۔میراعقیدہ ہے کہ جوقوم اپنے آپ پرجی کھول کرہنس سکتی ہے وہ کبھی غلام نہیں ہوسکتی۔
یقین کیجئے ،اس سے اپنے علاوہ کسی اورکی اصلاح وفہمائش مقصودہوتوروسیاہ۔کارلائل نے دوسروں کی اصلاح سے غلورکھنے والوں کوبہت اچھی نصیحت کی تھی کہ ”بڑاکام یہ ہے کہ آدمی اپنی ہی اصلاح کرلے۔کیونکہ اس کامطلب یہ ہوگاکہ دنیاسے کم ازکم ایک بدمعاش توکم ہوا۔“میری رائے میں(جوضروری نہیں کہ ناقص ہی ہو)جس شخص کوپہلاپتھرپھینکتے وقت اپناسریادنہیں رہتا،اسے دوسروں پرپتھرپھینکنے کاحق نہیں۔
مخدومی مکرمی جناب شاہد احمددہلوی کاتہ دل سے سپاس گزارہوں کہ انھوں نے یہ مضامین ،جو اس سے پہلے مختلف رسائل میں شائع ہوچکے تھے،پڑھواکربکمال توجہ سنے ۔اورنہ صرف اپنی گمبیھر چپ سے کمزورحصوں کی نشاندہی کی،بلکہ جولطیفے بطورخاص پسندآئے ان پرگھرجاکربہ نظرحوصلہ افزائی ہنسے بھی۔ اگراس کے باوجودوہ زبان وبیان کی لغزشوں سے پاک نہیںہوئے(اشارہ مضامین کی طرف ہے)تواس میں ان کاقصورنہیں۔یوں بھی میں قبلہ شاہداحمدصاحب کی باوقارسنجیدگی کااس درجہ احترام کرتاہوں کہ جب وہ اپنالطیفہ سناچکتے ہیں تواحتراماً نہیں ہنستا۔لیکن ایک دن یہ دیکھ کرمیراایک مضمون پڑھ کے”الٹی ہنسی“ (جس میں ،بقول ان کے ،آوازحلق سے باہرنکلنے کی بجائے الٹی اندرجاتی ہے) ہنس رہے ہیں، میںخوشی سے پھولانہ سمایا۔
پوچھا:”دلچسپ ہے؟“
فرمایا:”جی!تذکیروتانیث پرہنس رہاہوں!“
پھرکہنے لگے:”حضرت!آپ پنگ پانگ کومو نث اورفٹ بال کوکوندکرلکھتے ہیں!“
میں نے کھسیانے ہوکرجھٹ اپنی پنسل سے فٹ بال کومو نث اورپنگ پانگ کومذکربنادیاتومنہ پھیرپھیرکر”سیدھی“ہنسی ہنسنے لگے۔
دوستوں کاحساب گودل میں ہوتاہے،لیکن رسماًبھی اپنی اہلیہ ادریس فاطمہ کاشکریہ ضروری ہے کہ
”خطا“شناس من است ومنم زباں ودانش
ان مضامین میں جوغلطیاں آپ کونظرآئیں،اوروہ جواب بھی نظرآرہی ہیں،ان کاسہرا بالترتیب ان کے اورمیرے سر ہے۔ اس سے پہلے وہ میرے مطبوعہ مضامین میں کتابت کی غلطیاں کچھ اس انداز سے نکالتی تھیں گویالیتھومیں نے ہی ایجادکیاہے۔یہ واقعہ ہے کہ اس کتاب کوآفسیٹ پرچھپوانے میں مکتبہ جدیدکی ترغیب وتحریص سے زیادہ ان کے طعن وتعریض کودخل ہے۔ رخصت ہونے قبل مرزاعبدالودودبیگ کاتعارف کراتاجاوں۔یہ میراعمزادہے۔دعاہے خدااس کی عمرواقبال میں ترقی دے۔
کراچی
٥ فروری ١٦٩١ئ مشتاق احمدیوسفی
پس لفظ : ان مضامین اورخاکوں کوپڑھ کراگرکوئی صاحب نہ مسکرائیں توان کے حق میں یہ فال نیک ہے کیونکہ اس کامطلب ہے کہ وہ خودمزاح نگارہیں۔