اے کاش! کہ ہر دل فرہاد کا دل ہوتا

Share

تحریر: ثنا صفدر – بہاول نگر

فرہاد احمد فگارؔ

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”سب انسان مردہ ہیں زندہ وہ ہیں جو علم والے ہیں۔“
میں نے آج جس ہستی کو موضوعِ تحریر بنایا ہے وہ نہ صرف علم والی بلکہ عمل والی بھی ہیں۔ ایک ایسے اردو دان جنھوں نے اردو کی دنیا میں نام کمایا اور اردو ادب کی خدمت کے لیے ہمہ تن مصروفِ عمل ہیں۔ آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد سے تعلق ہے اور اردو دنیا میں فرہاد احمد فگارؔ کے اسم سے شناخت رکھتے ہیں۔

فرہاد احمد فگارؔ علم و ادب کے میدان میں خود رو پودے کی طرح پھوٹے اور پھر ان کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں اب وہ ایک پھل دار درخت کی مانند ہیں جس سے ہزاروں ادب کے بھوکے مستفید ہیں۔کئی سال سے ادبی موضوعات پر کالم لکھ رہے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف کالم نگاری میں اپنا لوہا منوایا بلکہ شاعری، افسانہ نگاری، تحقیق، تنقید اور سفرنامہ نگاری کے ساتھ ساتھ تدریس کا کام بھی خوش اُسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ ۶۱مارچ۲۸۹۱ء کو لوئر چھتر،مظفر آباد میں عبدالغنی اعوان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ اعوان قبیلے کی گوت گلکان سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت علیؓ کی غیر فاطمی اولاد سے ہیں۔
فرہاد احمد فگارؔ صاحب نے بنیادی تعلیم او پی ایف مشعل اسکول مظفر آباد سے حاصل کی۔ تیسری جماعت کے بعد علی اکبر اعوان ہائی اسکول میں چلے گئے یہ ادارہ مظفرآباد کے بہترین تعلیمی اداروں میں گِنا جاتا ہے آپ نے سائنس مضامین کے ساتھ سکینڈری تک کی تعلیم اسی ادارے سے مکمل کی۔ انٹرمیڈیٹ میرپور بورڈ سے بہ طور پرائی ویٹ امیدوار اور گریجویشن علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے پاس کی۔ بعد ازاں ۲۱۰۲ء میں نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز(نمل) اسلام آبادکا رُخ کیا جہاں سے ۴۱۰۲ء میں ایم اے اردوکا امتحان پاس کیا۔ ادب سے وابستگی تو بہت ابتدا سے تھی تاہم باقاعدہ شروعات اسی دور سے ہوئیں۔ابتدا میں معاشرتی پہلوؤں پر کالم لکھے بعد ازاں آپ نے تحقیقاتی کالم لکھنے شروع کیے۔ ایم اے کی سطح پر”احمد عطااللہ کی غزل گوئی“ کے موضوع پرمقالہ لکھا جو ۰۲۰۲ء میں روہی بکس فیصل آباد کے زیرِ اہتمام کتابی شکل اختیار کر چکا ہے۔ایم اے کے بعد ۷۱۰۲ء میں ایم فل بھی اسی ادارے سے ”آزاد کشمیرمیں منتخب غزل گو شعرا“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر مکمل کیا۔دمِ تحریر نمل ہی سے اردو زبان و ادب میں ڈاکٹریٹ کے لیے مقالہ رقم کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔


علم و ادب سے ان کی محبت اس بات سے واضح ہے کہ زلزلے کے بعد ملبوں کے ڈھیر سے کتابیں جمع کرتے پائے گئے اور آمدنی کا بیشتر حصہ کتب کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ فگارؔ صاحب سے کسی نے ان کی ادبی زندگی کے متعلق پوچھا تو کہتے ہیں:”کالم نگاری کاآغاز آج سے دس سال قبل کیا جب میں اپر چھتر میں فرینڈ فوٹو اسٹیٹ کے نام سے دُکان چلاتا تھا تب وہاں شاہین کالج چھتر برانچ کے پرنسپل اور معروف صحافی و افسانہ نگار شوکت اقبال آئے۔ شوکت صاحب نے میرے ادبی ذوق کو دیکھ کرحوصلہ افزائی فرمائی اور لکھنے کا مشورہ دیا تب پہلی بار کشمیر لٹریری سرکل کی نشست میں جانا ہوا اور اس کی رپورٹ مرتب کی۔“
آپ نے ماہ نامہ”خاص بات“ اسلام آباداور روزنامہ”صبح نو“ مظفرآباد میں لکھاری کے ساتھ ساتھ رپورٹنگ کے فرائض بھی انجام دیے۔ اردو زبان اور ادب کی غلطی آپ برداشت نہیں کرتے اور فوراً اصلاح فرما دیتے ہیں۔ جدید اردو غزل کے نام وَر لکھاری ظفر اؔقبال اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ
”ہمارے دوست فرہاد احمد فگارؔؔ نے جگر ؔمراد آبادی والی غزل کے حوالے سے درستی کی ہے کہ وہ غَزل واقعی بہزادؔ لکھنوی کی ہے جس کی تصدیق شاعری کی مختلف کتابوں سے ہوتی ہے۔ سو اس سلسلے میں ہماری معذرت اور فرہاد احمد فگارؔ صاحب کا دلی شکریہ“ (روزنامہ دنیا ۸ااکتوبر ۷۱۰۲ء)
فگارؔ صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے نِقاب کشائی کرنے کے ارادے سے راقمہ نے ان کے کچھ قرابت داروں سے رابطہ کیا۔آپ کے ایک پرانے دوست راجا عثمان قاسم صاحب سے جب ان کی شخصیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اپنی رائے کچھ یوں پیش کی۔
”فگارؔ نہایت مخلص اور خوش اَخلاق شخصیت کا مالک ہے۔ اس کی خوبیاں بیان کرنا آسان نہیں ہماری دوستی کوقریب بیس برس ہو چکے ہیں اس عرصے میں کبھی ہماری ناراضی نہ ہوئی ہاں وہ ایک حساس انسان ہے اس لیے اکثر و بیشتر خفا ہو جاتا ہے۔ اس نے زندگی میں سخت مشقت کی اور اس مقام تک پہنچا۔“
فگارؔ صاحب کی جدوجہد بیان کرتے ہوئے عثمان صاحب نے کہا”انھوں نے ۴۰۰۲ء میں انٹر کے بعد تعلیم چھوڑ دی اور فوٹوا سٹیٹ کی دکان چلانے لگے جو قریباً اٹھ سال تک آپ کے پاس رہی اور آٹھ سال کے وقفے کے بعد آپ نے دوبارہ تعلیمی میدان میں قدم رکھا اور یکے بعد دیگرے ہر جماعت میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد اب پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پی ایچ ڈی کی کلاس لینے روزانہ مظفرآباد سے پانچ کلاسیں پڑھا کر اسلام آباد جانا اور وہاں سے روزانہ واپس مظفرآباد آناآسان نہ تھا مگر میرے دوست نے اس مشکل کام کو کیا۔یاد رہے ہر روز نو گھنٹے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ موسمِ سرما میں مری میں برف باری کے باعث سٹرک بند بھی ہوتی تب بھی فگارؔ پُر دم رہتا۔“
راجا عثمان قاسم صاحب نے فرہاد احمد فگارؔ کے اخلاق و اقدار کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ:
”فرہاد ایک کنواں ہے جو پیاسوں کو سیراب کرتا ہے چاہے کوئی علم کا پیاسا ہو یا مالی امداد کا طالب۔ فرہاد نے کسی کو منع نہیں کیا جہاں جس کی مدد کر سکتے تھے کی اور جس طرح بھی ممکن ہوا آسانیاں پیدا کیں۔ جب بھی کسی نے مالی امداد کے لیے کہا تو خود کے پاس اگر رقم نہ بھی ہو تو دوسروں سے ادھار لے کر دے دیتے۔ مستحق طلبہ کے لیے فیس کا بندوبست کرنا،کسی کی جائز ضرورت کو پورا کرنا یہ اپنا فرضِ اولیں سمجھتے ہیں۔ ان کا اَخلاق بہت ہی اچھا ہے والدین سے لے کر دوستوں تک سب سے محبت کرتے یہاں تک کہ اپنا کاروبار بھی ایک دوست کے سپرد کیا جس سے مکمل رقم نہ لی۔“
فرہاد احمد فگارؔ صاحب کے بارے میں راجا عثمان صاحب نے مزید بتایا کہ:
”فرہاد کو سیر و سیاحت کا بہت شوق ہے جب بھی وقت نکلتا ہے سیر کے لیے جاتا ہے مظفرآباد سے اسلام آباد تک کئی اسفار ہم نے اکھٹے کیے اس کے علاوہ مظفرآباد سے فیصل آباد،ملتان،کوئٹہ اور زیارت کا ہمارا سفر یادگار تھا۔ اس کے پاس رقم کم بھی ہو تو نکل پڑتا ہے کہ اللہ کی مدد شامل حال ہوگی۔ تاریخی مقامات پر جانا زیادہ پسند کرتا ہے اور شاید ہی پاکستان کی کوئی جگہ ایسی ہو جس کی سیاحت کے لیے گیانہ ہوں یا جس جگہ پر تحقیق نہ کی ہو۔۔ وہ کسی بھی جگہ کی سیر کے لیے جاتا تو جگہ کہ پہچان کے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی ضروری سمجھتا کہ اس کا یہ نام کیوں رکھا گیا؟اس طرح انھوں نے اپنے علم میں اس قدر اضافہ کیا کہ آج وہ زیادہ تو جگہوں کے متعلق آسانی سے بتا سکتاہے کہ اس جگہ کا یہ نام کیوں پڑا؟ کب پڑا؟ وغیرہ۔ میں اکثر اس کے حافظے پر اور اس علم پر حیران ہو جاتا ہوں۔مجھے فرہاد احمد فگارؔ کی دوستی پہ ہمیشہ فخر رہا ہے۔“
فرہاد احمد فگارؔ صاحب کے برادرَ نسبتی انجینئراحسن ارشادقریشی صاحب سے جب ان کی شخصیت اور مشاغل پر بات ہوئی تو وہ کچھ یوں گویا ہوئے:
”فرہادبھائی کو اردو ادب سے بے حد لگاؤ ہے۔ ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے گھر پرایک اچھی خاصی لائبریری بنا رکھی ہے جہاں کئی طرح کی ہزاروں کتب موجود ہے۔ وہ اپنے طلبہ اور دوستوں کو کتاب مستعار دینے میں بھی حجت نہیں کرتے ہیں تاکہ دوسرے بھی مستفید ہو سکیں۔ ان کے کالموں میں عاجزی کا پہلو نظر آتا ہے بلا شبہ وہ بہت عاجز اور مخلص انسان ہیں۔۔ ان میں رعب جیسی کوئی خامی موجود نہیں نہ ہی علم و ادب کا رعب جھاڑتے ہیں بلکہ ان کامَزاج سراپا عاجزی ہے منکسر المزاجی ان کی ایک نمایاں خاصیت ہے۔ خدمت ِخلق کے جذبے سے ہمیشہ سرشار رہتے ہیں غریب طلبہ کی مدد ہر ممکن مددکرتے ہیں اور ہر صورت کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکے۔“
اس کے علاوہ احسن صاحب نے کشمیر کے لیے فگارؔ صاحب کے جذبات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کشمیر کی آزادی کے معاملے میں جذباتی ہیں اور دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ آزادی کس طرح حاصل ہوئی۔ اس کی مثال اس بات سے لگا لیں کہ خواجا غلام احمد پنڈت مرحوم کی کتاب ”کشمیر آزادی کی دہلیز پر“ جو نایاب ہو چکی اور اس کی دست یابی مشکل ہے اسے دوبارہ چھپانا چاہتے ہیں تاکہ نئی نسل کشمیر کے عقائد و حقائق جان سکے۔“
سوشل میڈیا پر ان کی مصروفیات کے حوالے سے انجینئر صاحب بیان کرتے ہیں کہ:”سوشل میڈیا پر ان کا کام دوسروں کی اصلاح کرنا خاص کر وہ شعر جن کو غلط پڑھا جاتا ہو یا غلط شاعر کے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہو تو اپنے علم کی روشنی سے تاریک اذہان کو منور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دیگر کتب کے حوالے پیش کرتے ہوئے شعر اور شاعر کے بارے میں اصلاح کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں یہ ان کی اردو سے محبت ہے ان کی تحقیق سے دل چسپی اور گہرا مطالعہ اس سے عیاں ہے۔“


فرہاد احمد فگار ؔصاحب کے عزیز دوست ساجد عباس جن کا کبیر والا سے ہے اور نمل میں ساتھ ساتھ رہے۔ساجد صاحب سے جب متذکرہ ہستی کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ:”فرہاد احمد اپنی دنیا کا وہ فگار ہے جو اپنے ذاتی تیشۂ عزم و توکل سے جوئے علم بہانے کی صلاحیت و حوصلہ رکھتا ہے وہ نہ صرف خود محنتی اور متحرک ہے بلکہ دوسروں کو بھی محنت وجستجو کی ترغیب دینا اور رہنمائی سے نوازنا اس کاذوق ہے۔ فرہاد احمد فگارؔ انسانوں کے اس قبیل سے ہیں جو کائنات ِارضی کے سینے سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں یعنی اخلاص و محبت کے حامل افراد۔ فرہادحسد سے کوسوں دور محبت بانٹنے کا مزاج رکھنے والا خوب صورت نوجوان ہے جو جذبہ ئ سوزِ دروں کوبے کراں کرتے رہنے کا عزم لیے سوئے منزل گام زن رہتا ہے۔ کوبہ کو اردو زبان وادب کے چراغ روشن کرنا اس کا خاص حوالہ ہے۔ کتاب اور انسان دوستی اس کے نمایاں اوصاف ہیں۔
مہر و ماہ کی عظمتیں چھین کر ٹوٹے جھونپڑوں کو رفعت آشنا کرنا اس کا طریق ہے۔ جہالت کے ظلمت کدوں کو علم کے نور سے ضوفشاں کرنا اس کی زندگی کا مقصدِ اولیں ہے۔ فرہاد احمد فگارؔ کشمیر کی حسین و جمیل وادی کا وہ فرزند ہے جو بلاشبہ اپنی جنم بھومی کی پہچان کا خوب صورت حوالہ ہے۔ (۷۱ نومبر۰۲۰۲ء)
میں سمجھتی ہوں کہ فرہاد صاحب ایک مثالی انسان ہیں جنھوں نے اپنی ناکامی کو کام یابی میں بدلا اپنی زندگی کو تگ ودو سے بنایا اور خوش حالی کی جانب گام زن ہوئے۔ یہ سچ ہے کہ ابھی ان کو ان کی من چاہی منزل نہیں ملی اور وہ ہوا کے جھونکے کی طرح چلتے جا رہے ہیں۔ اگر ان کی ادبی خدمات کی طرف نظر دوڑائیں تو وہ ایک کام یاب ادیب اور میرے جیسوں کے لیے مثالی نمونہ ہیں۔
ان کے کام پر ان کو جو ایوارڈ ملے انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی میں ابھی بہت آگے جائیں گے۔ حال ہی میں ۱۳،اکتوبر۰۲۰۲ء کو زم زم ویلفیئر سوسائٹی،مظفر آباد کی جانب سے سال ۰۲۰۲ء کی بیسٹ اچیومنٹ ایوارڈ ملا، فیبا کمیونیکیشن پاکستان نے بھی اردوزبان کی خدمت کے صلے میں ۶،اکتوبر ۰۲۰۲ء کو ایوارڈ سے نوازا۔ ۱۱ جون ۰۲۰۲ء کو بزمِ غالب۔پاکستان نے ادبی،علمی،ثقافتی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں سندِ امتیاز سے نوازا۔اس کے علاوہ بہترین استاد کے طور پر ایوارڈ ملا۔ المختصر یہ کہ محترم فرہاد احمد فگارؔ صاحب نے جو ادبی مقام حاصل کیا ہے اسے ایک کالم میں مکمل طور پر بیان کرنا ممکن نہیں۔ جس عمر میں نوجوان معاشرے میں گندگی پھیلاتے نظر آتے ہیں اسی عمر میں فگارؔ صاحب معاشرے کی غلاظت کو صاف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر ہر نوجوان فرہاد احمد فگارؔ بن جائے تو یقیناً یہ ملک ترقی کی راہ پر رواں دواں ہو جائے اور معاشرہ علم و ادب کا گہوارہ بن جائے۔ اردو زبان کو وہ مقام حاصل ہو جائے جس کی وہ حق دار ہے۔ معاشرہ اخلاقی اقدار سے ہر گزمحروم نہ رہے۔اے کاش!کہ ہر دل فرہاد کا دل ہوتا
علامہ اقبال کے اس شعر کے ساتھ رخصت چاہتی ہوں:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

ثنا صفدر

Share
Share
Share