مفکر فریری اور مکالمے کی تکنیک

Share

محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن – واشی، نوی ممبئی۔۳۰۷۰۰۴
موبائل:9322645061

عام زبان   میں دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کو مکالمہ کہا جاتا ہے لیکن تعلیمی،سیاسی، سماجی، معاشی یا دیگر میدان میں کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے کی دو یا دو سے زیادہ لوگوں کی بات چیت کو مکالمہ کہتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق کو اگر کھنگالا جائے تو مکالمے کے تار یونان کے شہر ایتھنز سے ملتے ہیں۔ عظیم مفکر افلاطون نے اپنے استاد سقراط کے طریقہ ئ  تدریس کو اپنایا جو مکالمے پر مبنی تھی۔ یونان میں چار سو پانچ سو سال قبل مسیح تعلیم دینے کی ذمے داری (Sophist) یعنی سفسطی کی تھی۔

سوفسٹ وہ اساتذہ کہلاتے تھے جو بڑی بڑی رقمیں لے کر بڑے اور امیر گھرانوں کے بچوں کو فلسفہ اور مناظرہ پڑھاتے تھے۔ ان کے اس طریقہئ کار سے بچوں کے ذہنوں کو بنانے کے بجائے علم دماغوں میں ڈال دیا جاتاتھا۔سقراط مجسمہ بنانے والے کا بیٹا تھا اور اس نے برسوں مستری کا کام کیا تھااور وہ بڑے گھرانے سے نہیں تھا اسی لیے قیاس کیا جاتا ہے کہ اس نے بنیادی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ سوفسٹ طریقہئ کار کے خلاف تھا اسی لیے اس نے اپنا ایک تدریس کا طریقہ ایجاد کیا جو اس وقت کے آقاؤں اور سوفسٹ کو پسند نہیں آیا جس کی وجہ سے اسے زہر پینا پڑا۔
افلاطون نے سقراط کے طریقہئ کار کو اپنی اکا دمی میں شروع کیا۔افلاطون نے اپنی شروع کی تحریروں میں،جو ’ڈائلاگ‘کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں، سقراط کے طریقہئ تدریس کو بیان کیا ہے۔اس طریقے میں ایک معلم اور طالب علم سوال و جواب کے ذریعے سچ جاننے کی کوشش کرتے تھے۔ان کے درمیان کسی بھی مسئلے کو لیکر مکالمہ ہوتاتھااور اس طرح وہ ایسا علم حاصل کرتے تھے جو حقیقت اور منطق پر مبنی ہوتا تھا۔اس کے طریقہئ تدریس میں علم حاصل کرنے والوں کے دو دائرے بنائے جاتے تھے۔یہ دائرہ سقراط دائرہ (Socrates Circle)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس میں ایک اندرونی دائرہ اور دوسرا باہری دائرہ ہوتاتھا۔اندرونی دائرے والے کسی بھی موضوع پر بحث و مباحثہ کرتے تھے جبکہ باہری دائرے والے ان کے بحث و مباحثے پر اپنی رائے دیتے تھے اور مکالموں کی صحت کے بارے میں بتاتے تھے۔پھر اندرونی دائرے والے باہری دائرے میں آجاتے تھے اور باہری دائرے والے اندرونی دائرے میں چلے جاتے تھے اور پھر علمی بحث اور مکالمے شروع ہوجاتے تھے۔اس سے یہ فائدہ ہوتا تھا کہ طلبا تنقیدی نظر سے ہر چیز کو دیکھتے تھے۔ مکالموں کے ذریعے اپنے خیالات اورنظریے کو سب کے سامنے رکھتے تھے۔بحث و مباحثے کے بعد حقیقت پسندانہ علم ابھر کر سامنے آتا تھا۔
پاؤلو ریگلس نیویس فریری(Paulo Reglus Neves Freire)برازیل کا رہنے والا تھا۔وہ ۹۱ /ستمبر ۱۲۹۱؁ء کو برازیل میں پیدا ہوا تھااور دل کا دورہ پڑھنے سے ۲ / مئی ۷۹۹۱؁ ء میں اس کا انتقال ہوا۔جب وہ تیرہ سال کا تھا توا س کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔اس کی زندگی پر غریبی کا سایہ منڈلاتا رہا اسی لیے وہ غریبوں کے لیے فکر مند رہتا تھا۔اس نے تعلیم میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔وہ غریبوں اور مجبوروں کی آواز بن کر ابھرا۔حکومت کواس سے خطرہ محسوس کرنے لگی اسی لیے اسے جیل بھی جانا پڑا۔

اس نے ایک کتاب لکھی جس کا نام (Pedagogy of The Oppressed) تھا جس کا مفہوم ہے کہ مظلوموں کا درس۔اس کتاب میں اس نے اپنے تعلیمی طریقہئ کار کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔
فریری نے موجودہ تعلیمی نظام کو تعلیم کے بینکاری نظام (Banking System of Education)کا نام دیا۔وہ اس نظام کے خلاف تھا یعنی اس کے مطابق تعلیم ایسی چیز نہیں ہے جسے دماغ میں جمع کرکے رکھ لیا جائے۔بینکاری کے اس نظام میں معلم علم کوجمع کرنے والا(Depositor of Knowledge) ہے۔جو طالب علم کے دماغ کو خالی سمجھ کر اس میں علم انڈیل دیتاہے۔اس کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اپنا قیمتی سامان بینک کے لاکر میں رکھ دیا جائے جس میں کسی کو چھونے کا بھی اختیار نہیں ہوتا ہے۔کہنے کامطلب یہ ہے جیسا علم معلم دے دیتا ہے طالب علم اسے ویسے ہی استعمال کرتا ہے اس میں اس کی فکر کو کوئی دخل نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح تعلیم کے بینکاری نظام میں طالب علم معلم کے دیے ہوئے علم کوبنا سوچے سمجھے استعمال کرتا ہے۔اگر ہم اپنے ملک کے تعلیمی نظام پر غور کریں تو باوجود کوششوں کے ہم بھی بینکاری نظام کی تعلیم اپنے طلبا کو دے رہے ہیں جس میں معلم اپنے لیکچروں اور نوٹس کے ذریعے منتخب علم ان تک پہنچا دیتا ہے۔
فریری کے مطابق بینکاری نظام تعلیم میں معلم طلبا کو علم حاصل کرنے والی کوئی چیز سمجھتا ہے اور اس کے غوروفکر اور عمل پر روک لگاتا ہے جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس نے اسے ایک فرسودہ نظام قرار دیا اور اس کی مخالفت کی۔اس کی جگہ اس نے تعلیم میں مکالموں (Dialogues) کو اہمیت دی۔اس نے کہا مکالموں کے ذریعے تعلیم بہت سارے مسائل حل کر سکتی ہے اورد نیا کو بدلنے اور بہتر مقام بنانے کے لیے مکالمہ لوگوں کے درمیان آلے کاکام کرتا ہے۔تعلیم میں مکالمے کے استعمال کے لیے معلم اور طالب علم کے بیچ برابری کا رشتہ ہونا ضروری ہے۔اس نے کہا مکالمے طلباکے تجربات سے شروع ہونا چاہیے یعنی طلبا سے ان کے تجربات کے بارے میں پوچھ کر بات آگے بڑھانا چاہیے۔
مکالمے کے مفہوم کو سمجھانے کے لیے اس نے’پراکسیس‘ (Praxis) لفظ کا استعمال کیا جس کا مطلب ہے کسی بھی نظریے کو عملی جامہ پہنانا۔اس نے کہا صرف مکالمہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ضروری ہے۔اس میں عمل کے ساتھ عکس بھی شامل ہے یعنی طلبا جو بھی عمل کرتے ہیں انھیں اپنے اس عمل کے بارے میں جاننا چاہیے۔انھوں نے عمل کرتے وقت کیا غلطیاں کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جن سے ان کے رویوں میں تبدیلی آئی ہے۔اس کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان جب آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر اس میں اپنا عکس دیکھتا ہے تو اسے اپنے چہرے کے تاثرات و کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔وہ اپنے خدو خال کو دیکھ کر یا تو ان کو سراہتا ہے یا پھر اسے اپنی کمزوریوں کا احساس ہوتا ہے۔وہ بالوں کو سنوارنے کے لیے بھی اپنے عکس کو آئینے میں دیکھتا ہے۔اسی طرح جب طلبا اپنے عمل کا عکس دیکھیں گے اور انھیں اپنی خامیوں کا اندازہ ہوگا تو وہ اپنی خامیوں کو درست کریں گے اس طرح وہ نہ صرف اپنی اصلاح کریں گے بلکہ اپنی تہذیب اور سماج کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کریں گے اس طرح وہ با شعور انسان بنتے ہیں۔
فریری نے اپنے فلسفے کو ثقافتِ سکوت(Culture of Silence)کے ذریعے سمجھاتے ہوئے کہاکہ ثقافت سکوت غیر مساوی سماجی تعلقات کی دین ہے جس سے منفی، غیر فعال اور مظلوم شخصیت کا جنم ہوتا ہے۔ اس کے مطابق غیر مساوات پر مبنی سماجی رشتے لوگوں میں منفی خیالات کو جگہ دیتے ہیں۔وہ اپنے آپ کو غیر فعال سمجھنے لگتے ہیں اوران کو خود کو معذور سمجھنے والا تصور انھیں مظلوم بنا دیتا ہے جبکہ علم حاصل کرنے والوں کو باشعور ہونا چاہیے تاکہ وہ اس ثقافتِ سکوت کو سمجھ سکیں جو مظلوموں کو پیدا کرتی ہے۔طالب علم جب اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں کمتر سمجھنے لگتا ہے تو وہ خاموش ہوجاتا ہے اور اندر ہی اندر گھٹتا رہتا ہے جس سے اس کے دل و دماغ پر منفی اثرات پڑتے ہیں جو اس کی شخصیت کو نقصان توپہنچاتے ہی ہیں ساتھ ہی سماج کے لئے بھی نقصان دہ ہوجاتے ہیں۔

فریری نے تنقیدی تدریس(Critical Pedagogy) پرزور دیا۔اس نے کہا کہ تعلیم جدا گانہ عمل نہیں ہے۔تعلیم اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے۔اس نے جماعت کوصرف درس دینے والی جگہ نہیں سمجھا بلکہ جماعت کو طلبا کو با اختیار بنانے والی جگہ میں تبدیل کر دیا۔ تعلیم میں آزادی دینے سے طلبا دنیا کو رہنے کی بہترین جگہ بنا سکیں گے۔معلم کوطالب علم سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔جماعت میں باہمی تعاون، اتحاد اور ثقافتی آمیزش کاہونا ضروری ہے۔
فریری کے تعلیمی نظریے کا اہم پہلو مکالموں کے ذریعے تعلیم ہے۔اس کا کہنا تھا کہ علم کو ایک مسئلے کی طرح، مسئلوں میں الجھے مکالموں کی شکل میں پیش کرنا چاہیے۔اس سے طالب علم کو ان مسئلوں کو سلجھانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع ملیں گے۔اس نے کہا اس کے لیے ہمیں اپنی جماعتوں کو فعال جماعتیں بنانے کی ضرورت ہے۔اس نے معلم کے ذریعے دیے جانے والے علم کو یکطرفہ علم کہا۔ اس علم سے طلبا کو کچھ بھی سیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ جماعت میں طلبا کو ایک دوسرے کے سامنے آکر بحث و مباحثہ کرنا چاہیے اور ان میں علمی تصادم ہونا چاہیے اور یہ مکالموں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔جب طلبا آپس میں مکالمہ کریں گے تو وہ غور و فکر کر کے اپنی بات کہیں گے۔ سوالوں کے جواب اپنی فکر کے مطابق دیں گے۔سوچ سمجھ کر بات کریں گے۔جب سوال و جواب کے ذریعے علم دیا جائے گا تو طلبا اس میں دلچسپی لیں گے۔ان کے علم میں اضافہ ہوگا۔ان کے سوچنے کی قوت میں اضافہ ہوگا۔ان کی تنقیدی فکر و نظر میں اضافہ ہوگااور مکالموں کی وجہ سے بحث و مباحثے میں ہر طالب علم شامل ہوگا۔یہاں معلم صرف علم مہیا کرانے والا نہیں ہوگا بلکہ وہ بھی اس جماعت کا برابر کا حصے دار ہوگا۔

اردو میں نثر اور نظم دونوں کی تدریس ڈرامے کے ذریعے بھی کی جاتی ہے۔ڈرامے کے ذریعے تدریس کرنے کی خاص وجوہات یہ ہیں کہ اس سے زیادہ سے زیادہ طلبا عمل کے ذریعے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔دوسرے اس میں کسی بھی مسئلے کو مکالموں کے ذریعے سلجھایا جاتا ہے۔طلبا کو ڈرامے کے مختلف کردارادا کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔انھیں مکالمے ادا کرنے میں مہارت حاصل ہو جاتی ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس وقت ہمارے یہاں کتنے اداروں میں ڈرامے کے ذریعے تعلیم دی جارہی ہے۔دوسرے اگر ڈرامے ہوتے بھی ہیں تو سال میں کتنے۔تیسرے ڈرامے میں وقت کتنا برباد ہوتا ہے۔ چوتھے کیا جماعت کے تمام طلبا مکالمے کے عمل میں شامل ہوتے ہیں۔دراصل یہ ڈرامے کی تکنیک کو اپنانے کی عملی دشواریاں ہیں۔اگر ہم اپنے اداروں کوسچ کے آئینے سے دیکھیں تو ہمارے یہاں وہی فرسودہ طریقے کا استعمال کیا جاتا ہے کہ جس میں معلم اپنے علم کو تختہ سیاہ پر لکھ دیتا ہے یا پھر اگرجدید دور کی بات کریں تووہ جو تکنیک اپناتا ہے وہ پاور پوانٹ پیش کش ہے۔آج بھی ہمارے اداروں کی ایک بہت بڑی تعداد طلبا کو کسی چیز سے زیادہ نہیں سمجھتی ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات تک ہمارا حال یہی ہے۔ ہمارے طلبا میں سوال و جواب کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے کیوں کہ ان کو اس کے لیے اکسایا ہی نہیں جاتا ہے بلکہ حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔یہی نہیں انھیں بحث و مباحثے کے بہت کم مواقع ملتے ہیں اس کی وجہ جماعت کا نصاب کامکمل کرانا ہے۔جب طلبا بحث و مباحثے، سوال و جواب کے عادی ہوں گے تو ان میں آپس میں مکالمے خود بہ خود شرو ع ہو جائیں گے۔اور یہی طریقہ کار فریری کا طریقہئ کا ر ہے۔
فریری نے مکالموں کو رائج کرنے کے لیے چند باتوں کو مد نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا جو اس طرح ہیں:
۱۔حُب:۔مکالمے کے لیے حب ایک بنیادی شرط ہے۔آج ہمارے سماج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہی ذات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔اپنی خواہشات، اپنی ضروریات سے آگے کچھ سوچتے ہی نہیں ہیں نتیجتاً انسان میں بے پناہ خود غرضی آگئی ہے جس سے سماج اور دنیا دونوں کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔اگر ہمیں سماج اور دنیا کو بچانا ہے تو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر سوچنا پڑے گا۔ ہمیں اپنے طلبا کو اس بات سے باور کرانا ہوگا کہ وہ اپنے دلوں میں دنیا اورسماج کی محبت کا جذبہ اجاگر کریں۔ان کے لیے سماج میں رہنے والے تمام انسانوں اور دنیا سے گہری محبت کا اظہارکرنا ضروری ہے تبھی وہ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ قریب آنے کا

فطری ردّعمل مکالمے کی شکل میں سامنے آئے گا۔اگر ان میں دنیا اور سماج کے لیے محبت کا جذبہ نہیں ہے تو وہ کبھی بھی مکالمہ نہیں کر سکتے۔
۲۔ شائستگی:۔مکالمہ کرنے کے لیے شائستگی لازمی شرط ہے۔ہم نے اکثر طلباکو لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔لڑتے وقت ان کا
غصّہ عروج پر ہوتا ہے اور اس غصّے کی وجہ سے انھیں اپنی زبان اور اپنی جسمانی قوتوں پر بھی اختیار نہیں رہتا اور وہ کچھ بھی کر بیٹھتے ہیں جس کے نتیجے میں ان میں آپس میں رنجش بڑھتی ہے جس کی وجہ دنیا اور سماج کے تانے بانے بکھر جاتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ طلبا کا رویہ ایک دوسرے کے لیے شائستگی پر مبنی ہو اور یہ شائستگی انھیں ہر سطح پر دکھانی ہوگی۔تعلیمی اداروں میں معلم اور طالب علم کے رشتے شائستگی پر ٹکے ہوناچا ہیے۔جب طلبا میں شائستگی ہوگی تو وہ ایک دوسرے سے ہم کلام ہوں گے یا الفاظ دیگر مکالمہ کریں گے اور مکالمہ ہی کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کا ہتھیار ہے۔
۳۔عاجزی:۔ شائستگی اور عاجزی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اگر کسی بھی طالب علم میں عاجزی کے عنصر نہیں ہیں تو مکالمہ ممکن نہیں ہے۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ مکالمے کے دوران اگر ایک بھی طالب علم بد مزاجی کا اظہار کرتاہے تو بد مزگی پھیل جاتی ہے ایسی صورت میں مکالموں کا ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔اس ایک طالب علم کی وجہ سے دوسرے طلبابیزار ہو جاتے ہیں اور بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ پھرجس مسئلے کو حل کرنے کے لیے طلبا مکالمہ کرتے ہیں وہ مسئلہ حل نہیں ہو پاتا ہے۔ کوئی بھی طالب علم کتنا بھی شائستگی اور عاجزی کا مظاہرہ کیوں نہ کرے لیکن جب اس کے وقار کا سوال آ جاتا ہے تو وہ اس کی برداشت سے باہر ہوجاتاہے اس لیے ضروری ہے کہ جب طلباآپس میں کسی بھی مسئلے کو لے کر مکالمہ کریں تو مکالمے میں شامل ہر طالب علم کو عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ طلبا میں شروع سے ہی صبر و تحمل کی عادت ڈالنا چاہیے۔
۴۔یقین:۔ہر طالب علم کو اپنی صلاحیتوں پر کامل یقین ہونا چاہیے۔اسے یہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی دوسرے طالب علم کے ساتھ مکالمہ کر سکتا ہے۔اسے اس بات کا بھی یقین ہونا چاہیے کہ مکالمہ کر کے ہی کسی مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔جہاں اس میں یہ یقین پیدا ہوگیا کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر اپنی صلاحیتوں کے بنا پر مسئلے کا حل نکال لے گا تو اس کا یہ یقین ہی اسے کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔
۵۔امید:۔مکالمے کے لیے امید کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مکالمہ مسائل کو حل کرنے کا ایک ذریعہ یاطریقہ ہے۔جب طلباکسی مسئلے کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں تو نہ جانے کتنی وجوہات کی بنا پر کامیابی دور ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ایسے میں وہ نا امید ہونے لگتے ہیں۔اگر انھوں نے نا امید ہو کر مسئلے کو حل نہیں کیا یا گھبرا کر بیچ میں ہی چھوڑ دیا تو ان کا یہ فعل ذمے داریوں سے بھاگنے کے مترادف ہوگا۔نا امید ی کی صورت میں انھیں جدوجہد کرنا چاہیے اور کسی بھی حال میں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔معلم کو سیکھنے والوں کو یہ بتانا چاہیے کہ نا امیدی سے ہی امید کی کرن نکلتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے جب کسی مسئلے کو سلجھایا جاتا ہے اور اس درمیان مکالمہ کرنے والوں میں کچھ ان بن ہو جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے دل برداشتہ ہوکر اس مسئلے یا بات کو وہیں چھوڑ دیتے ہیں جبکہ انھیں پرا میدہو نا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے پھر ہم کلام ہو کر مسئلے کا حل تلاش کر لیں گے۔
۶۔ہمت:۔یہاں ہمت سے مراد قوت نہیں ہے۔جب طالب علم کوئی بھی کام کرنے جاتا ہے تو اسے ہمت و عزم برقرار رکھنا چاہیے اس سے مراد یہ ہے کہ طالب علم کو ذہنی طور پر بہت مضبوط ہونا چاہیے۔اس کے اندر اتنی ہمت ہونا چاہیے کہ کسی بھی طرح کے حالات سے مقابلہ کر سکے۔اسے اس بات کا خوف نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے عمل پر سخت کارروائی ہوسکتی ہے۔مکالمہ کرنے والے کو بے خوف و خطر اپنی بات دوسروں تک پہنچانا چاہیے۔
آج طلبا میں پھیلی ہوئی بے چینی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری تعلیم ان کی خواہشات و ضروریات کے مطابق نہیں ہے۔انھیں گھرپر وہ کرنا پڑتا ہے جو والدین چاہتے ہیں اور اسکول میں وہ کرنا پڑتا ہے جو اساتذہ چاہتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام کی

خرابی یہ ہے کہ ہم طلبا کو بچپن ہی سے ان کی ذمے داریوں کا احساس نہیں دلاتے ہیں۔انھیں ہم فیصلے لینے کے لایق نہیں بناتے ہیں۔اپنی عمر کے چھوٹے حصے میں بچہ ماں باپ اور استاد کے کہنے کے مطابق کام کرتا ہے یا یہ کہیں کہ ہم انھیں اپنے مطابق کام کرنے کا عادی بنا دیتے ہیں اور ہم مستقبل میں وہی دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں جس کا ہم نے بچے کو عادی بنا دیا ہے جبکہ بچہ جب بڑا ہونے لگتا ہے تو وہ عین اپنی فطرت کے مطابق کام کرتا ہے اور یہ بات نہ تو والدین اور نہ ہی اساتذہ کو گوارا ہوتی ہے اس صورت میں تصادم پید ا ہوتاہے۔ دیکھا یہ گیاہے کہ والدین اور اساتذہ یا تو بچے سے مکالمہ ہی بند کر دیتے ہیں یا زبردستی اپنی مرضی اس پر تھوپتے ہیں جو بچے کے مستقبل کے لیے مفید نہیں ہے۔والدین اور اساتذہ دونوں کوکسی بھی صورت میں بچے کے ساتھ مکالمے کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔

حواشی:
  1. Freire, P. (1972) Pedagogy of the Oppressed, Hardmondsworth: Penguin
  2. Freire, P. (1995) Pedagogy of Hope. Reliving Pedagogy of the Oppressed, New York: Continuum.
  3. Freire, P. (1995) Letters to Cristina. reflections on my life and work, London: Routledge
  4. Gadotti, M. (1994) Reading Paulo Freire. His Life and Work, New York: SUNY Press.
  5. https://www.britannica.com/biography/Socrates
  6. https://www.britannica.com/biography/Plato
    7.https://infed.org/mobi/paulo-freire-dialogue-praxis-and-education/
محمد قمر سلیم
Share
Share
Share