کالم : بزمِ درویش ۔ درویش کی دعا

Share

اپروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

میرے سامنے ملتان شہرسے آئے ہو ئے کامیاب ذہین ترین وکیل بیٹھے روحانیت تصوف عشق الٰہی پر بھرپور گفتگو کر کے اب میرے پوچھنے پر اِس بات پر آگئے تھے کہ وہ کس طرح روحانیت کی طرف آئے کیونکہ کامیاب انسان جو پیسہ کمانے کا آرٹ بخوبی جانتا ہو جس کے خاندان کے دنیاوی بااثر لوگوں کے ساتھ اتنے مضبوط تعلقات تھے کہ اُن تعلقات کے بل بوتے پر آسانی سے جسٹس بن کر کامیاب بھر پور زندگی گزار سکتا ہو لیکن موقع دستیاب ہونے کے باوجود اُس نے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ وکالت چھوڑ کر فقیر نگری کا رخ کیا پھر کبھی مڑ کر بھی اُس طرف نہیں دیکھا

اِس دنیا کی یہ پرانی ریت ہے کہ جو اِس دنیا میں کامیابی کا ہنر سیکھ گیاوہ بھی کوچہ تصوف کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتا وہ پھر دولت کے انبار لگانے کے ساتھ اقتدار کی راہداریوں میں اقتدار کے جھولے جھولتا نظر آتا ہے لیکن یہ شخص دنیاوی نعمتوں کو ٹھو کر مار کر کوچہ درویش فقر روحانیت میں ڈیرہ لگا بیٹھا تھا پھر کبھی مُڑ کر پرانی زندگی کو نہیں دیکھا وکیل صاحب فرمانے لگے پروفیسر صاحب میرا تعلق ملتا ن کے قریب ہی زمیندار گھرانے سے ہے ہم صرف دو بھائی ہیں بڑا بھائی امریکہ میں سیٹل ہے کبھی کبھار سالوں بعد پاکستان آتا ہے اُس کی زمینیں بھی میرے پاس ہیں دولت کی دیوی مُجھ پر اس قدر مہربان تھی کہ اپنی زمینوں کے ساتھ ساتھ بھائی نے بھی اپنی زمینیں میرے حوالے کر دی تھیں اِسطرح میں اتنا کچھ کما لیتا تھا کہ کامیاب خوشحال عیاشی والی زندگی گزار رہا تھا زمیندار پس منظر کی وجہ سے علاقے میں سیاسی لوگوں کے ساتھ بہت اچھے مراسم تھے میں خودکبھی الیکشن میں حصہ نہیں لیتا تھا لیکن اپنے گاؤں کے ووٹوں کا میں مالک تھا گاؤں والوں کے ووٹ کا فیصلہ بھی میں ہی کرتا تھا جدھر میں کہہ دیتا سارا گاؤں اُس امیدوار کو ووٹ دے دیتا مقدر اور دولت میں دونوں حوالوں سے قابل رشک حد تک خو ش قسمت تھا جوان ہوا تو وکالت کا شعبے پسند کیا مقدر کی خوش نصیبی یہ بھی تھی کہ بہت ذہین تھا وکالت کی تعلیم حاصل کر نے کے بعد چند سالوں میں ہی قانون کے نازک پیچ در پیچ رموز کو اچھی طرح جان گیا پھر اپنی خاندانی دولت اور ذاتی قابلیت کے بل بوتے پر بااثر لوگوں سے تعلقات بنانے اور پھر اُن تعلقات کو نبھانے کا آرٹ بھی سیکھ گیا تھا بااثر لوگوں کو تحائف دے کر اپنے قریب کرنا اچھی طرح جانتا تھا اِس طرح ذاتی قابلیت اور تعلقات کی بنا پر میری وکالت کا ستارہ بھی ساتویں آسمان پر پور ی آب و تاب سے چمکنے لگا میں جو کیس بھی پکڑ لیتا ذاتی ذہانت تعلقات اور مقدر کی وجہ سے جیت جاتا جب میں لگا تار مشکل اور ہارنے والے کیس جیتتا چلا گیا تو میری شہرت دور دراز تک پھیل گئی مجھے کیس دینے کے بعد لوگ سمجھتے تھے کہ ہم کیس جیت گئے ہیں اپنا کام بڑھ گیا کہ میں نے بہت سارے ماتحت رکھ لیے یہاں تک کہ دوسرے شہروں سے بھی کیس میرے پاس آنا شروع ہو گئے میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے میں مغرور ہو گیا تھا اب اپنی مرضی سے کیس لیتا تھا تو لوگ سفارشیں کرا کہ ایڈوانس پیسے دے کر مجھے کیس دیتے تھے میں رات کو جب گھر جاتا تھا میری ساری جیبیں نوٹوں سے بھری ہو تی تھیں لوگ میرے انکار پر بھی پیسے میری میز پر پھینک کر چلے جاتے تھے لوگ میرے بارے میں کہتے تھے کہ میرے اوپر کیسوں اور نوٹوں والی بارش ہو تی ہے میں اپنی لگا تار کامیابیوں اور دولت کی برسات پر مست تھا کیونکہ میرا نام کامیابی اور فتح کا نشان تھا غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے مشکل ترین قانونی نکات پر میری انگلیوں پر ہو تے تھے میں جس جج کے سامنے پیش ہو تا تھا وہ میری قانونی ذہانت سے خوفزدہ ہو تا تھا یہاں تک کہ میری بار میں آنے والا ہر جج عدالت کے بعد فون کر کے مُجھ سے قانونی راہنمائی لیتا تھا شہرت دولت اور تعلقات میرے گھر کی لونڈیاں تھیں۔ میں کامیابی کے نشے میں تھا جب بہت ساری دولت اور فتوحات سمیٹ لیں تو میری توجہ اپنے گھر کی طرف گئی کیونکہ میری شادی کو دس سال ہو گئے تھے میں اولاد کی نعمت سے محروم تھا تعلقات اور دولت کے بل بوتے پر میں پاکستان کے بڑے ڈاکٹروں سے علاج کے بعد غیر ممالک سے بھی اپنا علاج کروا چکا تھا ڈاکٹر بھی حیران تھے کہ ہم دونوں میاں بیوی بلکل صحت مند تھے لیکن پتہ نہیں اولاد کیوں نہیں ہو رہی تھی میں کامیابی کی سڑک پر دوڑ رہا تھا لیکن جب بے اولادی کا روگ سامنے ا ٓتا تو دکھ کی لہریں جسم میں دوڑنے لگتیں جب میں نے دنیا جہاں کے علاج کروا لیے تو دوستوں کے مشورے پر دوسری شادی کر لی۔ تین سال بعد تیسری شادی بھی دولت کے بل بوتے پر کر لی دس سال اور گزر گئے اب تین خو بصورت جوا ن بیویوں سے بھی اولاد نہ تھی یہ وہ واحد روگ تھا جو مجھے اداس کر دیتا میرے بے پناہ دلت زمینیں اور کامیابی کے ذائقے کو پھیکا کر دیتا میں ڈاکٹروں سے تو علاج کر وارہا تھا لیکن منکرین روحانیت بابوں درویشوں کے بہت خلاف تھا جب تین بیگمات سے بھی اولاد کی خوشخبری نہ ملی تو ایک دن میری خالہ میرے گھر آئیں جن کا میں ماں کے انتقال کے بعد بہت زیادہ احترام کر تا تھا وہ بھی بہت دکھی تھیں کہ میرے گھر اولا د کی نعمت ابھی تک کیوں نہیں آئی۔میں بھی بہت پریشان ہوا تو خالہ سے کہاآپ دعا کرو تو وہ بولیں تمہاری ماں نے تمہارے لیے فلاں بزرگ کے مزار پر جاکر دعا مانگی تھی تم بھی اُس مزار پر جاکر دعا کرو کوئی اور مجھے کسی مزار پر جا کر دعا کر نے کا کہنا تو میں کبھی نہ مانتا لیکن میں اپنی والدہ سے بہت عشق کر تا تھا اُن کی بات سن کر خالہ سے وعدہ کیا جاؤں گا تو خالہ نے کہا تمہاری ماں وہاں جا کر لنگر بانٹتی تھی بھوکوں کو کھانا کھلاتی تھی تم بھی لنگر بانٹنا تمہاری ماں خوش ہو گی لہٰذا میں اگلے دن ہی اُس مزار پر گیا اور دعا کرنے کے بعد بہت ساری دیگیں بھو کے لوگوں میں بانٹ دیں وہیں پر مجھے ایک پھٹے پرانے کپڑوں والا فقیر ملا جس نے میر ا دامن پکڑ لیااور بولا تم نے بھوکوں کو کھانا کھایا ہے جا اللہ تم کو تینوں بیویوں سے اولاد دے گا اُس مفلوک الحال بزرگ کے منہ سے تین بیویوں کا ذکر اور اولاد کی بات سن کر میں حیران رہ گیا کہ اِس کو کس طرح پتہ چلا۔میں نے زندگی میں پہلی بار بھوکوں کو کھانا کھلایا تھامجھے بہت اچھا لگا اگلی جمعرات پھر لنگر بانٹنے گیا تو اُس بوڑھے درویش کو تلاش کیا جو ایک کونے میں دنیا سے بے فکر بیٹھا تھا میں نے جا کر ادب سے لنگر پیش کیا اور بولا باباجی میرے حق میں اور اولاد کے لیے دعا کردیں تو بابا پھر بولا تم کو دعا تو میں پچھلی جمعرات دے چکا ہوں آج ایک اور دعا ہے کہ تم جیسے ہی صاحب اولاد ہو گے دنیا چھوڑ کر فقیری کا راستہ اپناؤ گے اور تم کو تینوں بیویوں سے اولاد ہو گی تو مان لینا فقیر کی دعا اللہ نے سن لی ہے اب میری ملاقات تم سے نہیں ہو گی تین سال گزر گئے میری تینوں بیویوں پر اللہ کا کرم ہو چکا تھا میں نے دیوانہ وار اُس بابا جی کو بہت تلاش کیا لوگوں سے پوچھا بھی لیکن اُس سے ملاقات نہ ہو ئی پھرمیں تین بچوں کا باپ بنا تو فقیری درویشی اولیا اللہ کا دیوانہ ہو ا صاحب اولاد ہو نے کے بعد پانچ سال ایک مجذوب صاحب حال کی خدمت کی۔وکالت چھوڑ دی زندگی خدمت خلق اور فقیری درویشی میں وقف کر دی اب پاکستان اور بھارت کے مزارات پر جاتا ہوں ان کے حالات پڑھتا ہوں کلمہ شریف کا ورد رکر تا ہوں آپ جیسے لوگوں سے ملتا ہوں‘ میں دنیا داری جھوٹ وکالت چھوڑ کر اِس تلاش میں رہتا ہوں کہ کوئی درویش ملے اور میں اُس کے پاس جاکر وقت گزار سکوں درویش وکیل ڈھیر ساری باتیں کر کے چلے گئے اور میں سوچھنے لگا خوش قسمت ہو تے ہیں وہ لوگ جن کو خدا اپنی طرف کھینچ کر راہ حق کا مسافر بنا تا ہے یقینا وکیل کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت عشق کے لیے چن لیا تھا۔

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
Share
Share
Share