مفتی امانت علی قاسمی
استاذ و مفتی دارالعلوم وقف دیوبند
سود کی حرمت قرآن و حدیث میں جس قدر بیان کی گئی ہے اس سے ہر ایمان والا واقف ہے،قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: وذرو ما بقی من الربا ان کنتم مومنین (سورہ بقرہ: ۲۷۵) ”اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو“اور جو لوگ سود سے باز نہیں آتے ان کے بارے میں اللہ تعالی نے جنگ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: فان لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللہ و رسولہ(سورۃ البقرۃ:۲۷۹)”لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ“۔اسی طرح حدیث میں سود کی قباحت کے سلسلے میں حضرت عبید اللہ بن حنظلہ کی حدیث ہے حضور ﷺ نے فرمایا: سود کا ایک درہم جو انسان جان بوجھ کر کھاتا ہے ۶۳مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے (سنن دارقطنی،کتاب البیوع،۳/۴۰۳،حدیث نمبر:۲۸۴۳) اسی طرح حضرت ابوہریرۃ ؓ کی حدیث ہے حضور ﷺ نے فرمایا: کہ سود کے ستر اجزا ہیں جن میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زناکرے(سنن ابن ماجہ، باب التغلیظ فی الربا،۳/۳۷۷،حدیث نمبر: ۲۲۷۳)
مال حرام کا حکم
مال حرام کا حکم یہ ہے کہ اگرا س کا مالک معلوم ہے او روہ بلا عوض حاصل کیا گیا ہے جیسے سود،رشوت،چوری وغیرہ کا مال تو اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری ہے۔اگر مالک وفات پاگیا ہے تو اس کے ورثہ کو لوٹانا ضروری ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو بلا نیت ثواب مستحق زکوۃ کو صدقہ کرنا ضروری ہے اور اگر وہ بالعوض حاصل کیا گیا ہے جیسے حرام ملازمت وغیرہ کے ذریعہ سے حاصل ہوا تو مالک کو واپس کرنا درست نہیں ہے؛ بلکہ اس کو بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ہی ضروری ہے۔باقی مال حرام کسی کو استعمال کے لیے دینا جائز نہیں اور نہ اس کی وجہ سے وہ مال پاک ہوگا۔ اسی طرح حرام رقم اصول و فروع کو صدقہ نہیں کرسکتے ہیں لہذا باپ بیٹے میں سے کوئی مستحق ہو تب بھی اسے حرام رقم نہیں دی جاسکتی ہے۔
سود کے مصارف
سود کے مال کا بھی علماء نے تین مصارف بیان کیے ہیں ایک تویہ کہ اگر مالک معلوم ہو تو مالک کو واپس کردیا جائے دوسرے یہ کہ اگر مالک معلوم نہ ہو یا مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو بلا نیت ثواب صدقہ کردیا جائے۔تیسرے یہ کہ بعض حضرات نے رفاہی کاموں میں بھی لگانے کی اجازت دی ہے اسی وجہ سے بعض حضرات رفاہی بیت الخلاء حتی کہ مسجد کے بیت ا لخلاء میں لگانے کی بھی اجازت دی ہے، اسی طرح سڑک بنانے، یا مسافر خانے بنانے کی بھی اجازت دی ہے؛ جب کہ بعض علماء کی رائے ہے کہ سود کی رقم کو اس طرح صدقہ کرنا ضروری ہے کہ خود صاحب مال کو اس سے کسی طرح کا انتفاع نہ ہو جب کہ رفاہی کاموں میں لگانے میں خود صاحب مال بھی اس سے منتفع ہوسکتا ہے، مسجد کے بیت الخلاء میں لگانے کی صورت میں خود بھی اس مال سے مستفید ہوسکتاہے، اس طرح مال حرام سے یا سودی مال سے فائدہ اٹھانا لازم آئے گا، خاص کر مسجد جیسے مبارک اور مقدس جگہ کے کسی حصے میں بھی ناپاک مال یا حرام مال کا لگانا مناسب نہیں ہے؛ اس لیے سودی رقم کو مسجد کے بیت الخلاء میں لگانا بھی درست نہیں ہے۔ العرف الشذی میں ہے:احدہما ائتمار أمر الشارع و الثواب علیہ، والثانی: التصدق بمال خبیث، والرجاء من نفس المال بدون لحاظ رجاء الثواب و اما رجاء الثواب من نفس المال فحرام بل ینبغی لمتصدق الحرام أن یزعم بتصدق المال تلخیص رقبتہ ولایرجوا الثواب منہ، بل یرجوہ من ائتمار أمر الشارع (العرف الشذی شرح سنن الترمذی:۱/۳۸)
بینک انٹرسٹ کا مصرف
سود کی ایک صورت بینک انٹرسٹ ہے، بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں جو پیسے جمع کیے جاتے ہیں اس پر بینک کی طرف سے جومتعین اضافہ ملتا ہے وہ بھی سود ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ بینک سے وہ اضافی رقم وصول کرلی جائے اور بلانیت ثواب صدقہ کردی جائے، البتہ اگر کسی طرح بینک کو ہی واپس کرنا پڑے جس میں بظاہر اپنا کوئی فائدہ وصول نہ کیا گیا ہو تو یہ بھی جائز ہے۔ویردونہاعلی اربابہا ان عرفوہم و الا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ(رد المحتار، کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع،۹/۵۵۳)قال شیخنا و یستفاد من کتب فقہائنا کالہدایۃ وغیرہ ان من ملک بملک خبیث ولم یمکنہ الرد الی المالک فسبیلہ التصدق علی الفقراء -قال والظاہر ان المتصدق بمثلہ ینبغی ان ینوی بہ فراغ ذمتہ و لایرجو بہ المثوبۃ(معارف السنن:ابواب الطہارۃ، ۱/۳۴)بینک سے نکالنے کے ضروری ہونے کے سلسلے میں مفتی نظام الدین صاحب لکھتے ہیں:سود کا پیسہ بینک میں چھوڑ دینے سے خطرہ بظن غالب ہے کہ وہ لوگ اپنے مذہبی کاموں کے فروغ میں خرچ کریں یا ایسے کاموں میں خرچ کریں جس سے مسلم قوم کو من حیث قوم مسلم نقصان پہونچے اس لیے بہ نیت حفاظت قوم مسلم یہ حکم دیا جاتا ہے کہ سود کے نام سے جو روپیہ ہے اس کو بینک میں نہ چھوڑا جائے؛بلکہ وہاں سے نکال کر شرعی ضابطہ کے مطابق اپنی ملک سے نکال دیا جائے(منتخبات نظام الفتاوی ۳/۹۱۱۲)
بینک سے سودی رقم نکالنے سے پہلے صدقہ کرنا
بینک کے انٹرسٹ کا حکم معلوم ہوگیا ہے کہ اس کو بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے؛ لیکن بسا اوقات آدمی اپنے اکاؤنٹ میں موجود سودی رقم کو رہنے دیتا ہے اور اپنے پاس سے اتنی مقدار بلا نیت ثواب صدقہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر سود کی رقم اکاؤنٹ میں آچکی ہے اس طور پر کہ اگر کھاتہ دار نکالنا چاہے تو بلا رکاوٹ کے نکال سکتا ہے اس صورت میں گویا اس سودی رقم پر اس کا قبضہ ہوچکا ہے؛ اس لیے بلا نکالے بھی وہ رقم صدقہ کرسکتا ہے ہاں اگر فکس ڈپازٹ کرایا ہے اور ا بھی اصل رقم بھی نہیں نکال سکتا ہے تو اس فکس ڈپازٹ کی بنا پر جو سود ملنے والا ہے جب تک اصل رقم کے ساتھ سودی رقم پر قبضہ نہ ہوجائے اس وقت تک صدقہ کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ جب تک انٹرسٹ کی رقم پر قبضہ نہیں ہوجاتا ہے اس وقت تک اس متعین رقم کا تصدق واجب نہیں ہوتا ہے اب اگر نکالنے سے پہلے تصدق کردے تو واجب ہونے سے پہلے تصدق کرنا لازم آئے گا جوکہ درست نہیں ہے اس لیے جب انٹرسٹ کی رقم اکاؤنٹ میں اس طرح منتقل ہوجائے کہ اکاؤنٹ ہولڈر اس کو نکال سکتا ہے تب تصدق کرے، اسی طرح جس کو صدقہ کرنا ہے ا س کے اکاؤنٹ میں آن لائن ٹرانسفر کردے تو بھی تصدق درست ہوجائے گا۔
انٹرسٹ کی رقم سے بچوں کی فیس ادا کرنا
بینک انٹرسٹ کی رقم کا حکم بلا نیت ثواب تصدق ہے؛ اس لیے اگر بچے کے والدین غریب مستحق زکوۃ ہوں تو ان کے بچوں کو بھی یہ رقم بلا نیت ثواب دی جاسکتی ہے جس سے وہ اپنے اسکول کی فیس ادا کریں اسی طرح اگر انٹرسٹ کا حامل شخص خود ہی فیس وصول کردے تو بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے، جس طرح زکوۃ میں رقم دینے کے بجائے کوئی سامان خرید کردے دے تو بھی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے لیکن بہتر ہے کہ خود فیس ادا نہ کرے؛ بلکہ بچوں کو دے دے تاکہ بچے یا ان کے ماں باپ اپنے طورپر فیس ادا کردیں اس لیے کہ خود فیس ادا کرنے میں کسی حد تک سودی رقم کو استعمال کرنالازم آتاہے۔اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ مال دے کر اپنا ذمہ فارغ کرلے۔
انکم ٹیکس اور ویٹ ٹیکس میں انٹرسٹ کی رقم دینا
بینک انٹرسٹ کا حکم ماقبل میں ذکر کردیا گیا ہے کہ بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے اپنے کسی مصرف میں استعمال میں لانا جائز نہیں ہے؛ اسی لیے حکومت کی طرف جن چیزوں کا فائدہ براہ راست صارف کو ملتا ہے اور اس پر حکومت کی طرف سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اس طرح کے ٹیکس میں بینک انٹرسٹ کی رقم لگانا جائز نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ اس صورت میں خودسود سے فائدہ اٹھانا لازم آئے گا جیسے ہاؤس ٹیکس، یا واٹرٹیکس وغیرہ البتہ غیر شرعی سرکاری اور غیر واجبی ٹیکس میں انٹرسٹ کی رقم دینا جائز ہے اور غیر شرعی کا معیار یہ ہے کہ ایسا ٹیکس جس کی بظاہر کوئی منفعت ہم کو حاصل نہ ہورہی ہو مثلا انکم ٹیکس، سیل ٹیکس ویٹ ٹیکس وغیرہ اس میں بینک انٹرسٹ دینا جائز ہے (الرباء،مولانا عبید اللہ اسعدی،ص: ۲۸۷) یہاں پر ایک فرق کرنا ضروری ہے کہ اس طرح کے ٹیکس میں انٹرسٹ کی وہی رقم دے سکتے ہیں جو سرکاری بینکوں سے حاصل ہوں؛ اس لیے کہ اس صورت میں مالک کو رقم واپس کرکے اپنے ذمہ کو بری کرنا لازم آئے گا یعنی اس صورت میں سرکار کا پیسہ سرکار کو ادا کرکے آدمی حرام مال سے اپنا دامن بچاتا ہے؛ اس لیے یہ صورت جائز ہے لیکن اگر پراویٹ بینک کا سود ہو تو اس صورت میں ان ٹیکسوں میں یہ رقم نہیں دے سکتے ہیں؛ اس لیے کہ یہاں پر مالک کو واپس کرنا لازم نہیں آرہا ہے؛ بلکہ اپنے کسی مفاد کے لیے غیر مالک کو دینا لازم آرہا ہے جو جائز نہیں ہے۔البتہ آج کل یہ موضوع حل طلب ہوگیا ہے اس لیے کہ مکمل طور بینک پراویٹ نہیں ہوتے ہیں؛ بلکہ اس میں حکومت کا شیئر بھی ہوتا ہے اس لیے یہ ایک دشوار موضوع بن جاتا ہے ایسی صورت میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ غلبہ کا اعتبار کرلیا جائے اگر حکومت کے شیئر زیادہ ہیں تو اس صور ت میں ایسے بینکوں کو یہ رقم دینا جائز ہوگا لیکن اگر زیادہ شیئر پراویٹ ہے تو پھر ان بینکوں کی انٹرسٹ کو مذکورہ ٹیکسوں میں دینا جائز نہیں ہوگا۔اس سلسلے میں مفتی نظام الدین صاحب لکھتے ہیں:پہلے چند فقہی ضابطے نقل کردیے جاتے ہیں انہی سے جواب خود بخود متفرع ہوجائے گا۔
(۱) والحاصل أنہ علم ارباب الاموال وجب ردہ علیہم و الا فان علم عین الحرام لا یحل لہ و یتصدق بہ بنیۃ صاحبہ(شامی ۴/ ۱۳۰)
(۲) وشمل الرد حکما لما فی جامع الفصولین: وضع المغصوب بین یدی مالکہ و ان لم یوجد حقیقۃ القبض(شامی ۵/۱۱۶)
(۳) غصب دراہم انسان من کیسہ ثم ردھافیہ بلا علم بری و کذا لو سلمہ الیہ بجہۃ أخری کہبۃ أوابداع أو شراء و کذا لو أطعمہ فأکلہ(شامی ۵۱۱۶)
(۴) ویردونہا (ای الاموال الخبیثۃ) علی أربابہا ان عرفوہم و الا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ(شامی ۵/۲۴۷)
ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ اسٹیٹ بینک یا مرکزی حکومت کے اور جتنے بینک ہیں ان سے سود کی جو رقم ملے اس کو اگر مرکزی حکومت کے کسی غیر شرعی ٹیکس میں دے دے تو ذمہ بری ہوجائے گا جیسے انکم ٹیکس وغیرہ اور اگر مرکزی حکومت کے ٹیکس کے علاوہ صوبائی یا میونسپل بورڈ وغیرہ کے کسی مقامی یا نجی غیر شرعی ٹیکس وغیرہ دیدیا جائے تو ذمہ بری نہ ہوگا؛ بلکہ ایسی صورت میں اس کے وبال سے بچنے کی نیت سے غرباء و مساکین پر تصدق کردینا لازم ہوگا۔ تصدق بغیر نیت ثواب کے علاوہ کہیں اور کام میں خرچ کردینا درست نہ ہوگا (منتخبات نظام الفتاوی: ۳/۱۲۸)
جی ایس ٹی میں بینک انٹرسٹ کی رقم لگانا
آج کل حکومت ہر چیز پر جی ایس ٹی اٹھارہ فیصد وصول کرتی ہے جو غیرشرعی ہے او رغیر واجبی ہے اس لیے کہ ہر خام مال پر جو حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے وہ علحدہ ہے پھر جب مال تیار ہوکر مارکٹ میں آجاتا ہے تو دوبارہ اس پر جی ایس ٹی کے نام سے رقم وصول کرتی ہے جس کی وجہ سے عام گاہک پر اس کا سیدھا بوجھ پڑتا ہے،کیوں کہ مال تیار کرنے والا جو حکومت کو مال پر جی ایس ٹی دیتا ہے وہ تاجروں سے وصول کرلیتا ہے پھر تاجر حضرات جو مال بیچنے پر جی ایس ٹی دیتے ہیں وہ گاہک سے لے لیتے ہیں اس طرح مال بنانے والے اور مال بیچنے والے پر اس کا اثر نہیں پڑتا ہے؛بلکہ ان کو جی ایس ٹی ریٹرن کے نام پر مزید فائدہ بھی ہوجاتا ہے اس کا اصل بوجھ استعمال کرنے والے صارفین پر پڑتاہے اس لیے اگر کوئی صارف کوئی سامان خریدے اور کمپنی کی طرف سے اس کو صراحت کردی جائے یا بل پر لکھ دیا جائے کہ یہ مال اتنے کا ہے اور اس پر اتنا جی ایس ٹی ہے تو صارف اس میں بھی بینک انٹرسٹ کی رقم دے سکتاہے اس لیے کہ حکومت کا پیسہ حکومت کو پہونچ گیا اور صارف کا ذمہ بھی بری ہوگیا تو جس طرح انکم ٹیکس میں اس کے غیر شرعی ہونے کی وجہ سے انٹرسٹ کا پیسہ دینا جائز ہے اسی طرح جی ایس ٹی کے غیر شرعی ہونے کی وجہ سے اس میں انٹرسٹ کا پیسہ دینا جائز ہے۔
جی ایس ٹی میں انٹرسٹ دینے کے سلسلے میں ایک دوسری رائے
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ فروخت کرنے والا تو جی ایس ٹی میں بینک انٹرسٹ کی رقم دے سکتا ہے لیکن صارف جو سامان اپنے استعمال کے لیے خریدنے والا ہے وہ بینک انٹرسٹ کی رقم کو نہیں دے سکتا ہے مثلا ایک آدمی آن لائن موبائل بک کرتا ہے اس کی قیمت چودہ ہزار ہے اس میں لکھاہوتا ہے کہ گیا رہ ہزار تو موبائل کی قیمت ہے اور تین ہزار جی ایس ٹی ہے اس صورت میں استعمال کے لیے خریدنے والا انٹرسٹ کی رقم سے تین ہزار ادا نہیں کرسکتا ہے؛اس لیے کہ بائع نے جو چودہ ہزار قیمت بتائی ہے وہ سب ثمن ہے اور مکمل اس سامان کی قیمت؛اس لیے اس میں سود کی رقم دینا گویاسود کو اپنے استعمال میں لانا ہے۔
لیکن یہ مسئلہ محل نظر ہے اس لیے کہ اس صورت میں بائع کے لیے بھی انٹرسٹ کی رقم دینا ناجائز ہونا چاہیے؛اس لیے کہ انٹرسٹ کی رقم غیر واجبی ٹیکس میں دیا جاتا ہے جب کہ بائع کے حق میں وہ غیر واجبی رہتا ہی نہیں ہے کیوں کہ وہ جس قدر جی ایس ٹی دیتا ہے وہ خریدار سے وصول کرلیتاہے اب اگر اس نے اپنے جی ایس ٹی میں بینک کے انٹرست کی رقم دے دی تو اس بائع کو دوگنا نفع ہوجائے گا ایک تو سرکارکی طرف سے جی ایس ٹی ریٹرن اس کو ملے گا، دوسرے یہ کہ اس نے اپنے جیب سے دینے کے بجائے انٹرسٹ کے پیسے دے دیے تیسرے یہ کہ اس نے صراحت کے ساتھ مشتری سے جی ایس ٹی کی رقم وصول کرلی جب کہ یہ بات عقل سے بالکل بعید معلوم ہوتی ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جی ایس ٹی کااصل بار مشتری پرپڑ تا ہے اس لیے غیر واجبی ٹیکس یہ مشتری کے حق میں ہے نہ کہ بائع کے اس لیے کہ بائع نے جی ایس ٹی مشتری سے وصول کرلیا جب کہ مشتری کوجو سامان گیارہ ہزار میں ملنا چاہیے تھا وہ چودہ ہزار میں مل رہا ہے گویا کہ غیر واجبی ٹیکس مشتری کے حق میں پایا جاتا ہے کیوں کہ بائع صاف کہتا ہے کہ سامان کی اصل قیمت تو گیارہ ہی ہزار ہے ہاں جی ایس ٹی کے تین ہزار آپ کو دینے ہوں گے اس لیے احقر کی رائے ہے کہ یہ غیر شرعی اور غیر واجبی ٹیکس خریدار کے حق میں ہے ہاں چوں کہ حکومت کا مشتری سے وصول کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ وہ بائع کو مکلف بناتی ہے کہ وہ مشتری سے یہ رقم وصول کرے اور حکومت کو سامان کے حساب سے جی ایس ٹی ادا کرے یہی وجہ کہ جب حکومت جی ایس ٹی کا قانون لے کر آئی او رتاجروں نے اس پر اعتراض کیا تو حکومت نے ان کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ اس میں تو تاجروں کا فائدہ ہے اس لیے کہ تاجرحضرات یہ رقم خریدار سے وصول کریں گے اور ان کے جی ایس ٹی ادا کرنے پر حکومت ان کو ریٹرن منافع کی شکل میں دے گی یہی وجہ سے تاجر حضرات صراحت کے ساتھ بلوں پر لکھتے ہیں کہ یہ سامان کی اصل قیمت ہے اور اتنا جی ایس ٹی ہے اگر مشتری سے وصول کرنا مقصود نہ ہوتا؛ بلکہ تاجروں سے ہی وصول کرنا مقصود ہوتا تو خریدار کو جی ایس ٹی بتانے کی ضرورت کیاہے؟ آخر ہر سامان پر جی ایس ٹی رقم کی صراحت کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت اصل جی ایس ٹی خریدار سے وصول کرتی ہے اس لیے اگر خریدار کو صراحت کے ساتھ معلوم ہو کہ اس سامان پر اتنا جی ایس ٹی ہے تو اس میں بینک انٹرسٹ کی رقم دینا جائز ہوگا ہاں اگر صراحت نہ ہو یا بل پر لکھا ہوا نہ ہو تو ایسی صورت میں کہا جائے گا کہ مجموعی رقم ہی اس سامان کی قیمت ہے اس صورت میں جی ایس ٹی کے نام پر انٹرسٹ کی رقم دیناجائز نہیں ہوگا۔
انٹرسٹ کی رقم کو بینک کے کاموں میں استعمال کرنا
بینک کی طرف سے بعض مرتبہ بینک کے کاموں پر چارج لیا جاتا ہے مثلا ڈی ڈی بنانے پر چارچ وصول کیا جاتا ہے، اسی طرح آن لائن ٹرانزکشن پر کچھ رقم وصول کی جاتی ہے، یا ایے ٹی ایم کے استعمال کی ایک حد ہوتی ہے کہ ماہانہ تین مرتبہ فری پیسے نکال سکتے ہیں اس کے بعد پیسے نکالنے پر ہر مرتبہ کچھ چارج دینا ہوگا اس طرح کے کاموں میں انٹرسٹ کی رقم کا استعمال کرنا درست نہیں ہے اس لیے کہ یہ چارجیز غیر واجبی نہیں ہیں اس لیے اس میں انٹرسٹ کی رقم دینا درست نہیں ہوگا(فتوی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند،فتوی نمبر:۱۶۱۲۲۹)ہاں بعض بینکوں کی طرف سے قید ہوتی ہے کہ ہر وقت اکاؤنٹ میں مثلاپانچ ہزار یا دس ہزار رکھنے ہوں گے اس میں کمی ہوجائے تو چارج وصول کیا جاتا ہے اس میں بظاہر انٹرسٹ کی رقم دینا جائز ہے اس لیے کہ اپنے پیسے کو رکھنے کے لیے پیسے کی کسی خاص مقدار کو لازم و ضروری قرار دینا بظاہر غیر واجبی عمل ہے جس میں انٹرسٹ کی رقم دینے کی گنجائش ہے۔
انٹرسٹ کی رقم بینک کے سود میں دینا
اگر کسی کا بینک میں سیونگ اکاؤنٹ ہو اور اس کو اس پر سود مل رہا ہواور اس نے بینک سے لون لیا ہے یا اس پر کسی دوسرے بینک کا سود آیا ہوا ہے تو اس کے لیے اس سود میں انٹرسٹ کی رقم دینا جائز ہے؛اس لیے کہ سرکار کا پیسہ سرکار کو واپس جاررہاہے اس لیے مال حرام کا جو حکم ہے کہ مالک کو واپس کردیا جائے اس حکم پر عمل ہورہا ہے لیکن جان بوجھ کر بلا کسی شدید عذر کے بینک سے سود ی قرض لینا یہ حرام ہے اور ایسا کرنے والا سود لینے کی لعنت و ملامت کا مرتکب ہوگا۔منتخباب نظام الفتاوی میں ہے:دوسرے یہ کہ یہ سود مرکزی حکومت سے ملتا ہے اور یہ بینک سے قرض لے کر جو سود دینا ہوتا ہے وہ بینک کو دینا ہوتاہے اور بینک بھی مرکزی حکومت کا ہوتا ہے اور ہر حرام مال کا شرعی حکم یہ ہے کہ جہاں سے ملا ہو وہاں واپس کرسکے تو واپس کردے پس اس قاعدہ شرعی کے تحت جو رقم سود کے نام پر سینٹرل گورنمنٹ سے ملی تھی اس کو بینک کے سود کے نام سے اگر چہ دیا مگر اصل میں جہاں کی وہ رقم تھی وہاں ہی پہونچادی ا س لیے یہ صورت شرعا گنجائش رکھے گی۔(منتخبات نظام الفتاوی، ۳/۱۰۶)