ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770
بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوئے 12دن ہو چکے ہیں۔ 16نومبر کو نتیش کمار نے چیف منسٹر کا حلف بھی لے لیا ہے۔ 69سالہ نتیش کمار ساتویں مر تبہ بہار کے وزیرِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ امید کی جارہی تھی کہ بہار کے الیکشن کا نتیجہ اس مر تبہ سیکولر پارٹیوں کے حق میں آئے گا اور تیجسوی یادو چیف منسٹر بنائے جا ئیں گے۔
لیکن حیرت انگیز طور پر پھر ایک مر تبہ این ڈی اے کو بہار میں حکومت بنانے کا موقعہ مل گیا۔ یہ سرکار کتنے دن چلے گی اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کی نشستیں اس الیکشن میں کم ہوئی ہیں اور بی جے پی، جے ڈی یو سے آ گے نکل گئی ہے۔ گز شتہ معیاد میں نتیش کمار کا جو اندازِ حکمرانی تھا اب اس میں فرق آنے کا پورا امکان ہے۔ وہ چیف منسٹر کے عہدے پر براجمان ہو تے ہوئے بھی بی جے پی کے اشاروں پر چلنے کے لئے مجبور رہیں گے۔ اس کا اندازہ ان کی تشکیل کردہ کابینہ سے بخوبی ہو جا تا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد بہار کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مسلمان کو کا بینہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ بہار میں مسلمانوں کی آ بادی 16فیصد ہے۔ حالیہ انتخابات میں 19مسلم ارکانِ اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ ان میں آر جے ڈی سے 8، کانگریس سے 4، ایم آئی ایم سے 5، سی پی آئی ایم ایل سے 1، اور بی ایس پی سے بھی 1، مسلم امیدوار کا میاب ہوا ہے۔ یہ بات بھی قابلَ ذکر ہے کہ جنتا دل (یو) جس کے سر براہ خود نتیش کمار ہیں مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا لیکن کسی مسلم لیڈر کو جے ڈی یو کے ٹکٹ پر کا میابی نہیں ملی۔ یہ خود ایک بہت بڑا سوال ہے کہ بر سر اقتدار پارٹی کے کسی مسلم امیدوار کو کامیابی کیوں نہیں ملی۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ جے ڈی یو کا بی جے پی سے اتحاد ہے۔ بی جے پی نے پہلے ہی اعلان کر دیا کہ اسے مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اس سے یہ امید کرنا ہی فضول ہے کہ وہ مسلمانوں کو اسمبلی اور پارلیمنٹ میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجے۔ سیاسی پارٹیوں کے اسی رویہ نے بہار اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کو کم کر دیا۔2015میں 24مسلم امیدوار ریاست کی مختلف سیاسی پارٹیوں سے منتخب ہو کر آ ئے تھے۔ ان میں آر جے ڈی سے 12، کانگریس سے 6،جے ڈی یو سے 5،اور سی پی آئی۔ ایم ایل سے ایک نمائندہ منتخب ہوا تھا۔ اس مرتبہ مجلس کے پانچ امیدوار کامیاب ہونے کے باوجود تعداد بڑھ نہ سکی۔ بلکہ پانچ نشستوں کا نقصان ہوا۔ اس نقصان کی ذ مہ داری مجلس اتحاد المسلمین پر ڈالی جا رہی ہے۔خاص طور پر کانگریس اپنی خفت کو مٹانے کے لئے اس الزام کو بار بار دہرارہی ہے کہ سیمانچل میں مجلس کے میدان میں آ نے سے اسے بہت بڑی ناکامی کا سامنا کر نا پڑا۔ نتائج کے فوری بعد کئے جا نے والے اس پروپگنڈا نے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو بھی مخمصے میں ڈال دیا۔ لیکن جب سیاسی تجزیے سامنے آ نے لگے تو معلوم ہوا کہ مہا گٹھ بندھن کی ناکامی میں ایم آئی ایم کے فیکٹر سے زیادہ خود کانگریس کی نااہلی کا بڑا دخل ہے۔ قومی پارٹی ہونے کا دعویٰ کر کے کا نگریس کے قائدین نے بہار اسمبلی کی 243 نشستوں میں سے 70حلقوں پر اپنے امیدوار ٹہرائے لیکن پارٹی کو صرف 19حلقوں میں کا میابی نصیب ہوئی۔ کانگریس حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے مضبوط حلقوں سے ہی مقا بلہ کرتی اور زیادہ سے زیادہ نشستیں آر جے ڈی کے حوالے کر دیتی تو آج بہار کے نتائج مختلف نو عیت کے ہو تے۔ مہا گٹھ بند ھن ا ین ڈی اے سے محض 15نشستوں سے پیچھے رہا۔ جس کے نتیجے میں بہار میں سیکولر پارٹیاں حکومت بنانے میں ناکام ہو گئیں۔
اس وقت میڈیا میں اور خا ص طور پر سو شیل میڈیا پر مجلس کے حوالے سے بہار کے مسلم ووٹوں کے تعلق سے بڑی بحثیں چل رہی ہیں۔ ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ دلائل ہیں۔ واضح رہے کہ بہار اسمبلی انتخابات میں مجلس نے پہلی مر تبہ 2015 میں حصہ لیا تھا لیکن ایک بھی نشست پر اسے کا میابی نہیں ملی۔ 2019 کے ضمنی الیکشن میں مجلس کا امیدوار کشن گنج اسمبلی حلقہ سے کا میاب ہوا تھا۔ لیکن اس بار کشن گنج میں کانگریس کا امیدوار کا میاب ہوا۔ ایم آئی ایم نے بہار کے ایک مخصوص علاقہ سیمانچل سے اپنی قسمت آ زمائی۔ سیمانچل کا علاقہ، بہار کا سب سے پسماندہ علاقہ ہے۔ اس کی جغرافیائی حیثیت بھی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ علاقہ بنگلہ دیش کی سرحد سے قریب ہے اور شمال مشرقی ریاستیں اس سے لگی ہوئی ہیں۔ انتہائی درجہ کی غربت اور بے روزگاری اس خطہ کی پہچان ہے۔ یہاں چار لوک سبھا کے حلقے ہیں اور 24 اسمبلی حلقے ہیں۔ اس علاقہ کی سب سے اہم انفرادیت یہ ہے کہ یہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اس کے چار اضلاع کشن گنج، اراریہ، پورنیا اور کٹہیار میں مسلمان بڑی تعداد میں ہے۔ سیمانچل میں مسلمانوں کی زیادہ آ بادی ہے یہی اس کا قصور ہے۔ اس لئے ملک کی آ زادی کے بعد سے کسی حکومت نے اس علاقہ کی ترقی اور یہاں رہنے والوں کے مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دیکھائی۔ بہار میں طویل عرصہ تک سیکولر پارٹیوں اور بالخصوص کانگریس کی حکومت رہی۔ اس علاقہ پر حکمرانوں نے کبھی اپنی نظر التفات نہیں ڈالی۔ البتہ جب بھی الیکشن کا وقت آیا سب ہی پارٹیوں نے سیمانچل کے رائے دہندوں کو طفل تسلیاں دے کر ووٹ حا صل کر لئے۔ یہ سلسلہ 70،72 سال سے جاری ہے۔ اب اگر مجلس اتحاد المسلمین نے سیمانچل کی ترقی کو ایجنڈا بناکر اپنے 20 امیدوار انتخابی میدان میں ا تارے اور پانچ حلقوں میں اس کے امید وار کا میاب ہوئے ہیں تو اس پر سیکولر پارٹیوں کی جانب سے یلغار کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بہار کی سیکولر پارٹیاں سیمانچل کی عوام کے ساتھ معاندانہ سلوک نہ کرتیں تو ایم آئی ایم کو اس علاقہ میں قدم جمانے اور اپنی کا میابی کو یقینی بنانے کا موقع نہ ملتا۔ جمہوریت میں ہر ایک کو عوام کے سامنے جانے اور ووٹ مانگنے کا حق ہے۔ دستور نے یہ حق ہر ایک شہری کو دیا ہے۔ کسی فرقہ کی ترقی کی بات کر نا بھی کوئی فرقہ پرستی نہیں ہے۔ ایم آئی ایم کی قیادت نے اپنے اسی جمہوری حق کو استعمال کر تے ہوئے بہار کی عوام کے درمیان جا کر ان کے مسائل کے حل کے لئے انتخابی سیاست کو آ زمایا ہے اور اسے ایک زبردست کا میابی بھی ملی ہے۔ سیکولرازم کو بچانے کا نعرہ لگانے والے یہ بھی بھول رہے کہ ہیں کہ مجلس نے 243رکنی اسمبلی میں صرف 20حلقوں سے اپنے امیدوار ٹہرائے تھے۔ بقیہ 223 حلقوں میں مجلس کے امیدوار نہیں تھے۔ یہاں سیکولر امیدوار کیوں بی جے پی یا جے ڈی یو کے مقا بل نہیں ٹِک سکے؟ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بہار میں جب 16فیصد مسلمان ہیں تو پھر ان کی آبادی کے تناسب سے کیا یہ پارٹیاں مسلمانوں کو سیاسی نمائندگی دیتی رہیں۔ کوئی پارٹی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس نے مسلمانوں کو ان کی آ بادی کے لحاظ سے اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ان کا حصہ دیا ہو۔ ایک اور پہلو قابل ِ غور ہے کہ جب کوئی مسلم سیاسی پارٹی میدان میں آ تی ہے تو یہ ہوّا کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ اس سے ووٹوں کی تقسیم ہو جائے گی۔ فرقہ پرستوں کے حو صلے بڑھ جا ئیں گے۔ جب ملک میں ذات پات کی سیاست دھڑلے سے چل سکتی ہے۔ دلتوں کے نام پر کانشی رام اور رام ولاس پاسوان سیاست کے مزے لوٹ سکتے ہیں، برہمن واد تنظیمیں اعلیٰ ذات کی سیاست چمکا کر ملک کو ہندو راشٹر کی طرف ہانک سکتے ہیں تو ہندوستان کا مسلمان اپنے تشخص کے تحفظ کے لئے سیاست کے میدان میں آ تا ہے تو اسے فرقہ پرست کے لقب سے نوازنا کہاں کا انصا ف ہے؟
بہار الیکشن کے نتائج کے تناظر میں مسلمانوں کو نہ بہت زیادہ خوش گمانیوں کا شکار ہونا چاہیے نہ حالات سے خوف زدہ ہو کر بیجا اندیشوں کو اپنے دل میں بسا لینا چاہیے۔ سیاست، امکانات کا کھیل ہے۔ یہاں کوئی بات قطیعت سے نہیں کہی جا سکتی۔ مسلمانوں کے سامنے وہ طبقے بھی ہیں جو کل تک تحفظات کے سہارے جی رہے تھے لیکن آج وہ اقتدار میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ ان کو ناراض کر کے کوئی پارٹی اقتدار پر نہیں رہ سکتی۔ اس ملک کا ہر طبقہ، زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں سے آ گے نکل گیا ہے۔ مسلمان اب بھی بیساکھیوں کی تلاش میں رہیں گے تو انہیں سراب کے سوا کچھ نہ حا صل ہوگا۔ یہ مسلمانانِ ہند کی بد قسمتی رہی کہ ملک کی آ زادی کے بعد پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم قیادت کو ختم کر دیا گیا۔ برہمنوادی طاقتوں نے بڑی چالاکی سے مسلمانوں کو مسلکوں اور فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ بہار میں خود تحریکِ آ زادی کے دوران مسلم قیادت کا اہم رول رہا۔ کئی قد آور قائدین بہار سے نکل کر ملکی سیاست میں اہم رول ادا کئے۔ آ زادی کے بعد کانگریس نے ان کے قد کو کم کر دیا نتیجہ یہ نکلا کہ بہار کے مسلمان سیکولر پارٹیوں کو ہی اپنا مسیحا سمجھتے رہے۔ ایک زمانے میں بہار میں مسلم چیف منسٹر بھی رہے اور آج حال یہ ہو گیا کہ ریاستی حکومت کی کا بینہ میں کسی مسلم کو جگہ نہ مل سکی۔ مسلمان اس ملک میں سیاسی قوت بن کر ہی اپنی بات منوا سکتے ہیں اور اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ جب تک آپ کی قیادت نہیں ہو گی آپ کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جو قوم اپنی مدد کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتی ہے اس کی کوئی مدد نہیں کی جا تی۔ اس لئے خود مسلمانوں کو اپنا لائحہ عمل طے کر نا ہوگا۔ سیکولرازم کے تحفظ کا ذ مہ مسلمانوں کے کندھوں پر ڈال کر ملک کے دیگر طبقے اس سے بری الذ مہ نہیں ہو سکتے۔ جب کبھی ملک میں سیکولرازم کی بحث چھڑتی ہے مسلمانوں سے ہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس کا ثبوت دیں۔ مسلم سیاست پر بات کرنے سے پہلے سیکولرازم کی دہائی دے کر مسلمانوں کو اپنے جمہوری حق سے روک دیا جاتا ہے۔ ملک میں سیکولر روایات کو فروغ حا صل ہو لیکن اس کے لئے مسلمانوں کے مفادات کو قربان کر دینا حق و انصاف کی بات نہیں ہے۔مسلمانوں سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملی تشخص اور تہذیبی انفرادیت کو قربان کر کے قومی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ یہ قومی دھار آ خر کس چڑیا کانام ہے۔ آج ملک میں ہندوتوا کی جڑیں نہ صرف مضبوط ہو رہی ہیں بلکہ ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ اسی سال 5 / اگست کو ایو دھیا میں رام مندر کی بھومی پوجا میں حصہ لیتے ہوئے آر ایس ایس کے سر سنچالک موہن بھاگوت نے وزیراعظم نریندرمودی کی موجودگی میں کہا کہ آج رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے ملک میں ہندو راشٹرا کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ اس کھلے چیلنج کے باوجود سیکولر پارٹیاں اپنا فرض نبھا نے کے بجائے کسی مسلم جماعت کو گھیرنے کی کوشش کر تی ہیں تو یہ ملک کے جمہوری مزاج اور روایات کے خلاف ہے۔ الیکشن میں ہر سیاسی پارٹی اپنی طاقت منوانا چاہتی ہے اسے اسی لحاظ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایم آئی ایم کو ملک کی سیاست میں کلیدی رول ادا کرنے کے لئے ملک کے محروم اور مظلوم طبقوں کو بھی اپنے ساتھ لینا ہوگا تاکہ ہندوتوا طا قتوں کی شکست کو یقینی بنایا جا سکے۔اس موقع پر مسلمانوں کو اپنی قولی اور عملی شہادت کے ذریعہ اس بات کا بھی ثبوت دینا ہے کہ وہ اسلام کے علمبردار ہیں۔ ان کا کوئی عمل اسلامی تعلیمات اور روایات سے ہٹ کر نہ ہو، تب ہی وہ ملک میں قیادت کے منصب پر فائز ہو سکتے ہیں۔ یہ کردار دنیا کے سامنے نہیں آتا ہے تو یہ ساری وقتی کا میابیاں مسلمانوں کے مقام اور مرتبہ کو بڑھا نہیں سکتیں۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں یہی پیام دیا جا سکتا ہے کہ:۔تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے : ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے : ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات