عظمت علی
مبارک پور
موبائل نمبر: 9517269196
فرانس میں جو کچھ ہوا، پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ واقعہ رونما ہوچکا ہے۔ ۵۱۰۲ ء میں فرانس کے ایک جریدہ میں مسلمانوں کے آخری رسول اور تمام انبیاکے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کا گستاخانہ خاکہ شائع ہواتھا۔ اس وقت بھی احتجاجات ہوئے۔ فرانس کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں مگر کچھ دن بعد سب اپنے معمول پر آگیا۔ اگر اسی وقت کوئی محکم فیصلہ ہوگیاہوتا تو آج پھر یہ نوبت نہ آتی۔ آزادی اظہار کے نام پر ایک استاد، مسلمانوں کے الٰہی رہنما کا نامناسب خاکہ دکھاتا ہے اور پھر ہوتا یوں ہے کہ وہی طالب علم اپنے استاد کو آزادی اظہار کادوسرا رخ بھی پیش کردیتا ہے جس پر پوری دنیا برہم ہوجاتی ہے اور پھر فرانس کب خاموش رہتا۔
حکومت فرانس تو پہلے سے ہی مسلمانوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے۔ حجاب پر پابندی بھی فرانس نے لگائی۔ مسجدوں پر تالے بھی فرانس میں لگائے گئے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں بھی فرانس نے رسول اسلام کے خلاف فلم دکھانے کی بات کہی تھی مگر اس وقت سلطان عبد الحمید ثانی نے خاطر خواہ جواب دے کر دشمن کے سارے منصوبوں کو نقش بر آب کردیا۔ یہ ایک دو ٹوک فیصلہ تھا جس پردشمن کو منھ کی کھانی پڑی۔
آج پھر اس نے اپنے گستاخانہ عمل کی تکرار کی ہے۔ اگر ہم پہلے ہی دن اتحاد دکھاتے اور پھر ایک ہوکر دوٹوک جواب دیتے تو آج یہ صورت حال دیکھنے کو نہ ملتی۔ خیر اب جو ہوگیا سوہوگیامگر سوال یہ کہ کیا آزادی بیان کے نام پر کسی رہنما کی ہتک حرمت کی جاسکتی ہے؟کیا ہم آزادی کے نام پر کچھ بھی کرسکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے کیوں کہ فرانس کی تاریخ میں ہولوکاسٹ پر تحقیق جرم ہے۔قانون کی یہ دو رخی نہایت بد نما داغ ہے فرانس پر۔ اگر غلطی کوئی خاص فردکرتا ہے تو جواب میں صرف اسی کو سزا ملنی چاہئے، پوری قوم کے مذہبی جذبات سے کھیلنا، آئین کے خلاف ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس عمل کی مذمت کی ہے اور کہاہے کہ آزادی خیال کے نام پر کسی مذہبی رہنما کی توہین برداشت نہیں۔
اس وقت دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غصہ پایاجاتا ہے اور کئی ممالک نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ترکی، پاکستان، مختلف عرب ممالک اور ایران نے سخت اقدامات کئے ہیں۔ ہندوستان میں بھی فرانس کے خلاف شدید احتجاجات جاری ہیں اور مختلف مسالک کے مذمتی بیان آرہے ہیں لیکن سب الگ الگ ہیں۔ متحد ہوکر، او آئی سی کی جانب کوئی کانفرانس یا اسلامی ممالک کا ایک ہوکر کوئی محکم فیصلہ نہایت ضروری ہے۔ اگر آج رسول کے نام پر متحد نہیں ہوئے تو پھرکب ہوں گے؟ چیونٹی بھی دبنے پر کاٹ لیتی ہے۔ اس لیے اب کوئی ٹھوس فیصلہ لینا ناگزیر ہے تاکہ آئندہ کوئی ملک اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہمت نہ کرسکے۔آج پھر سے سلطان عبد الحمید ثانی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اسی کو اتحاد کی طاقت کہتے ہیں۔ صرف ایک سلطنت تھی مگر ایک بیان سے پوری دنیا کانپ اٹھتی تھی۔ اب پچاسوں سلطنتیں ہیں مگر دنیا ہمیں ہی ڈراتی رہتی ہے اورہم الگ الگ ہوکر ڈرتے رہتے ہیں اور آپس میں لڑتے رہتے ہیں جبکہ ہمیں دشمن سے مقابلہ کرنا ہے۔ ہمیں جنگ نہیں کرنی ہے، دفاع کرنا ہے۔ہمیں دشمن کو اسلام کی صحیح معرفت سے روشناس کرانا ہے کیوں کہ اگر لوگ اسلام کے صحیح تعلیمات کو سمجھ جائیں گے تو گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔