شعبہ اردو‘یونیورسٹی آف حیدرآباد میں اردو کے نامور محقق اور نقادڈاکٹر تقی عابدی کا توسیعی لیکچر
اظہر جمال
ایم فل اسکالر‘ یونیورسٹی آف حیدرآباد
”موجودہ دور میں روحانی طاقت کو بڑھانے کے لیے کلام اقبال کو پڑھا جاے۔انسانیت کے فروغ کے لیے کلام اقبال حاضر ہے۔طلبا و نوجوانوں میں اخلاقیات کے درس کے لیے کلام اقبال کا مطالعہ کیا جاے۔موجودہ حالات میں کلام اقبال کاخصوصی طور پر مطالعہ کی ضرورت ہے۔“ ان خیالات کا اظہارنامور محقق اور نقادڈاکٹر تقی عابدی نے شعبہ اردو یونی ورسٹی حیدرآباد کے زیر اہتمام اقبال کے یوم ولادت کے موقع پر ایک آن لائن توسیعی لیکچرجو9نومبر 2020ء بروز پیر بوقت 11 بجے دن انعقاد عمل میں لایاگیاتھا‘ کے موقع پر کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب کا آغاز علامہ اقبال کے اس شعر سے کیا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
انھوں نے کہا کہ ”وہ اقبال جنھوں نے اپنی مختصر سی عمر میں اردو کے چار بڑے شاعروں میں یعنی میر تقی میر، مرزا غالب، میر انیس اور محمد اقبال شامل ہیں۔ وہ اقبال جس نے تقریبا اردو اور فارسی اور کچھ انھوں نے پنجابی میں بھی شعر کہا اگر انھیں ملائے جائیں باقیات کے ساتھ تو تقریبا سترہ اٹھارہ ہزار شعر ہوتے ہیں۔ وہ اقبال جن کے آٹھ فارسی میں مجموعے ہیں اور چار اردو میں مجموعے ہیں اور ایک مجموعہ فارسی اور اردو کا ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا“
ڈاکٹر تقی عابدی صاحب نے کہا کہ ہم اقبال کو کیوں پڑھیں، ہم اقبال کے اشعار کو کیوں پڑھیں، ہم اقبال کے 1495خطوط جو مطبوعہ ہیں‘ ان کا مطالعہ کیوں کریں۔ ہم اقبال کے ملفوظات کو کیوں پڑھیں، ہم اقبال کی کتابوں، مقدموں اور مضمون سے کیا استفادہ کرسکتے ہیں انھوں نے کہا کہ ان کے کلام کو پڑھنے سے اخلاق میں اضافہ ہوتاہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے علامہ اقبال کے اردو اور فارسی کلام سے بیسوں اشعار کا حوالہ دیا اور ان اشعار کو موجودہ دور سے جوڑتے ہوے ان کی اہمیت اور معنویت کو اجاگر کیا۔ایک گھٹہ پُر مغز لیکچر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ڈاکٹر محمد کاشف‘ پروفیسر عبدالرب استاد اور دیگر احباب نے مختلف مگر دلچسپ سوالات کیے جس کا تفصیلی جواب ڈاکٹر تقی عابدی نے دیا۔
پروفیسر فاطمہ پروین سابق وائس پرنسپل آرٹس کالج جامعہ عثمانیہ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔انہوں نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے صدر شعبہ اردو کا پروگرام میں مدعو کرنے پر شکریہ ادا کیا پھر کہا کہ ”اگر ہم آج اقبال کو سمجھنا چاہے تو زندگی ہماری ختم ہوجائے تو سمجھنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال نے اپنے شعری سفر کو شروع کیا تو تبھی ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے انسانیت، آدمیت، آفاقیت کے ساتھ بات شروع کی۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
پروفیسر فاطمہ نے مزیدکہا کہ اقبال ہر چیز پر غوروفکر کرتے ہیں دنیا اور زندگی سے اور کائنات سے اس کا رشتہ جوڑ تے ہیں اور انسانی زندگی کو اس کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔“ انھوں نے کہا کہ”اس زمانے میں اردو کا بہت چلن تھا عربی اور فارسی سے لوگ بہت واقف تھے لیکن آج عربی فارسی تو چھوڑئے آج کا طالب علم تو اردو کو پوری طریقے سے نہیں جانتا تو اس کو بھلا کلام اقبال تک کیسے پہنچایا جائے تو اس کے لئے ہمیں ڈاکٹر تقی عابدی جیسے اشخاص کی ضرورت ہے تاکہ اس کے راز ہمیں بتاسکیں اور ہمارے ذہن تک پہنچاسکیں اور یہ کام وہ بڑے خلوص دل سے انجام دے رہے ہیں میں ان کی نہایت ہی ممنون و مشکور ہوں اور آپ کے شعبے کی بھی مشکور ہوں کہ انھوں نے اتنا اچھا موقع دیا“
پروفیسرسید فضل اللہ مکرم نے اپنے صدارتی کلمات میں سب سے پہلے ڈاکٹر تقی عابدی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ہماری درخواست پر ایک پُر مغز توسیعی لیکچر دینے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کہا آج کے پروگرام میں کشمیر سے لے کر کیرلا اور مہاراشٹرا سے مغربی بنگال کی مختلف یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالر ز وطلبہ ہم سے جڑے رہے جب کہ دیگر ملکوں کے اقبال کے شیدائی بھی اس توسیعی لیکچر سے استفادہ کیا۔ خصوصا کینیڈا کے جناب سردار علی نظر آئے صاحب بھی یہاں موجود تھے یہ آپ تمام لوگوں کی اقبال سے محبت کا ثبوت ہے اور انھوں نے مزیدکہا کہ میرے پیش نظر ہمیشہ طلبا رہے ہیں۔ طلبا کے لئے جو کچھ بھی فائدہ مند ہو تا ہے وہ کام کرنے کے لئے میں ہمیشہ آگے رہتاہوں آج علامہ اقبال کی یوم پیدائش ہے اس دن یوم اردو منایا جاتاہے تو مجھے لگا کہ اس ماحول میں ہمارے طلبا سے مخاطب کرنے کے لئے علامہ ڈاکٹر تقی عابدی سے بہتر شاید ہی ہم کو کوئی ملے۔ کبھی کبھی ڈاکٹر تقی عابدی جب شعر کہتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبال ان پر نازل ہوگئے ہیں۔“صدر شعبہ نے مزید کہا کہ ”علامہ اقبال یقینا ایک بہت ہی آسان شاعر ہیں اور بہت ہی مشکل شاعر ہیں ہم جس حوالے سے ان کو پڑھتے جائیں گے وہ حوالے اور ماخذات ہمیں ملتے جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ میرا پنا خیا ل ہے کہ جب تک ہم خشوع و خضوع سے اقبال کو نہیں پڑھیں گے اقبال ہم پر نازل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہم اقبال کے فکروفن کی حد تک پہنچ پائیں گے“ اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوے انہوں نے کہا کہ ”موجوددور خصوصا Depression کا دور ہے۔ ہر طرف مایوسی ہے تناؤ ہے ایسے میں کلام اقبال ہماری بڑی رہنمائی کرتاہے ہمارے نوجوان روزگار کو لے کر بہت فکر مند ہیں بہت سے مایوس نظر آتے ہیں ظلم یہ ہے کہ بعض اساتذہ بھی مایوسی کی باتیں کرتے ہیں ان کی رہنمائی کرنے یا دلجوئی کرنے کے بجائے الٹا مایوسی کی باتیں کرتے ہیں میں اس حوالے سے علامہ اقبال کا ایک ہی شعر جو مجھے اچھا لگتا ہے:
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
اور کہا کہ یہ Competitionکا دور ہے اور مقابلے کا دور ہے آپ اردو ادب پڑھ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مارکیٹ میں ہیں آپ اپنے آپ کو پیش کیجئے مارکیٹ جو ڈیمانڈ چاہتاہے جو ڈیمانڈ کرتا ہے اس کے مطابق خودکو ڈھالئے۔آج کے اس مقابلہ جاتی دور میں ہم کو اپنے آپ کو Update کرنا ہے ’آپ کو مقابلے کے لئے تیار کرنا ہے پھر آپ کے لئے نہ کوئی روزی کا مسئلہ ہے اور نہ روزگار کا مسئلہ رہے گا ہرمسئلے خود بہ خود حل ہوجائیں گے جب آپ وقت اور حالات کے لحاظ سے خود کو قابل بنائیں گیاور اس کے لئے علامہ اقبال سے بہتر شاید ہی کوئی شاعر ہماری رہنمائی کرے۔علامہ اقبال کو ایک مولوی بھی استعمال کرتاہے، ایک مولانا بھی اس کو استعما کرتے ہیں، اسکول کا مدرس بھی اس کا استعمال کرتا ہے، جامعات کا پروفیسر بھی استعمال کرتاہے، حتی کہ Business کرنے والے بھی اس کا استعمال کرتے ہیں سیاسی لیڈر بھی انہیں استعمال کرتے ہیں۔ یہ علامہ اقبال ہیں جو ہر ایک کے کام آتے ہیں اور جب ہم کو ضرورت محسوس ہوتی ہے تو ہم اقبال کو اتنا ہی استعمال کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اقبال کو استعمال کرلیا ہے۔“
اس پروگرام کی نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر نشاط احمد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے سپرد تھی جس کو انہوں نے دلچسپ انداز میں پیش کیا اور ان ہی کے شکریہ پر پروگرام اختتام کو پہنچا۔
۔۔۔۔
اظہر جمال (ایم فل)
شعبہ اردو، یونی ورسٹی آف حیدرآباد