بہار اسمبلی نتائج ۔ سیکولر پارٹیاں جیت کر بھی ہار گئیں

Share

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770

بِہار میں اس مرتبہ بھی بَہار کی امید بَر نہیں آئی۔ خزاں کے جھو نکوں نے بادِ نسیم کو آ تے آ تے روک دیا۔ نتائج سے قبل جاری کئے گئے سارے اگزت پول غلط ثابت ہو گئے۔ تمام سیاسی پیش قیاسیاں فضاء میں بکھر کررہ گئی۔ 243/ رکنی بہار اسمبلی میں این ڈی اے نے 125 نشستوں پر کا میابی حا صل کر کے واضح اکثریت حا صل کرلی ہے۔ لیکن لالو پرساد یادوکے 31سا لہ بیٹے تیجسوی یادونے وزیراعظم نریندر مودی اور ریاست کے گھاگ سیاستدان اور چیف منسٹر نتیش کمارکو جس انداز میں چیلنج کیا وہ ہندوستانی سیاست کا ایک اہم باب ثابت ہوگا۔

اتنی کم عمری میں تیجسوی یادو نے مہا گٹھ بندھن کو 110حلقوں میں کا میابی دلائی، اس سے یہ امید بندھتی ہے کہ بہار میں این ڈی اے کے بر سر اقتدار آ نے کے با وجود بی جے پی کو من مانی کرنے کا موقعہ نہیں ملے گا۔ ملک کی سب سے قدیم پارٹی اگر اپنی ساکھ بہتر بناتی اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرتی تو بہار کی سیاسی صورتِ حال مختلف ہوتی۔ کانگریس نے اس مرتبہ 70نشستوں پر مقا بلہ کیا تھا لیکن اسے صرف 19نشستوں پر کا میابی ملی۔ 2015کے الیکشن میں کانگریس نے 41اسمبلی حلقوں سے مقا بلہ کیا تھا اسے 27نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ لیکن اس مر تبہ زیادہ حلقوں سے مقا بلہ کرنے کے با وجود کم نشستوں پر قسمت جا گی۔ کانگریس کے اس نا قص مظاہرہ نے مہا گٹھ بندھن کو اقتدار پر آنے سے روک دیا۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ تیجسوی یادو کے زیر قیادت عظیم اتحاد کو کانگریس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوا۔ عظیم اتحاد میں شامل بائیں بازو کی پارٹیوں نے اپنی بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کر تے ہوئے 16نشستوں پر کا میابی حا صل کی۔ بہار کی اہم اپوزیشن آر جے ڈی نے بی جے پی اور جے ڈی یو سے کانٹے کا مقابلہ کر تے ہوئے 75نشستوں پر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ آر جے ڈی، تیجسوی یادو کی قیادت میں 100سے زائد حلقوں میں کامیابی سے ہم کنار ہوگی۔سیما آنچل میں آر جے ڈی کوغیرمعمولی نقصان ہوا۔ جے ڈی یو کے علاوہ ایم آئی ایم نے یہاں میدان مار لیا۔ یہ علاقہ روایتی طور پر آر جے ڈی اور کانگریس کا گڑھ رہا۔ اس مسلم اکثریتی علاقہ میں کانگریس اور آرجے ڈی بہتر مظاہرہ کر تی تو عظیم اتحاد کو اقتدار میں آنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ لیکن سیماآنچل کے نتائج نے مہا گٹھ بندھن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور اس اتحاد کے ہاتھوں میں اقتدار آ تے آ تے چلا گیا۔ اس مخصو ص صورت حال کے علاوہ عوام کا یہ رجحان تھا کہ کویڈ۔۹۱ سے سب سے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں وہ بہاری مزدور ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی نے اچانک ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا اس کی وجہ سے بہار کے غیر مقیم مزدور جو ملک کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں، لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں فاقہ کشی میں مبتلا ہوگئے۔ ہزاروں مزدور اپنے سروں پر سامان رکھے پیدل اپنے آ بائی مقامات کو جا نے کے لئے نکل پڑے۔ کئی افراد اپنے وطن کو لوٹنے سے پہلے موت کی آ غوش میں چلے گئے۔ ان سب مصیبتوں کو جھیلنے کے باوجود بہار کی عوام نے بی جے پی کو ووٹ کیسے دیا اس پر سیاسی حلقے شسدر ہیں۔ کیا یہ محض بی جے پی کے نام نہاد قوم پرستی کے نعروں کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ بہار میں این ڈی اے کی اقتدار پر دوبارہ واپسی کے کوئی آ ثار نہیں تھے۔اس غیر متوقع کا میابی کے پیچھے آخر وہ کون سے عناصرکار فرما رہے اس پر آنے والے دنوں میں تبصرے ہو تے رہیں گے۔ گودی میڈیا، بی جے پی حکومت کے قصیدے پڑھتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کر ے گا کہ
مودی حکومت کی پالیسیوں سے متاثر ہوکر بہار کے رائے دہندوں نے مودی کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ حالیہ الیکشن میں بی جے پی نے جے ڈی یو سے زیادہ نشستوں پر کا میابی حا صل کی۔ اسے 74نشستوں پر کامیابی ملی جب کہ جے ڈی یو کو43نشستوں پر اکتفا کر نا پڑا۔ اب نتیش کمار، بی جے پی کے رحم وکرم پر آ گئے ہیں۔ تادمِ تحریر انہیں ہی بہار کے چیف منسٹر بنانے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ لیکن سیاست میں پانسہ پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ بی جے پی حلقوں سے یہ آواز اُ ٹھ سکتی ہے کہ وہ اب عمر کی اس منزل میں آ گئے ہیں کہ ایک مضبوط اور نوجوان اپوزیشن کا مقابلہ نہیں کر سکتے لہذا انہیں چوتھی مر تبہ چیف منسٹر کا تاج نہ پہنایا جائے۔ اگر یہ مطالبہ زور پکڑتا جائے تو نتیش کمار کاسیاسی مستقبل داؤ پر لگ سکتا ہے۔ ویسے نتیش کمار نے تیجسوی یادو کے جلسوں میں عوام کی بھیڑ کو دیکھ کر انتخابی مہم کے دوران اس بات کا بھی اعلان کر دیا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا آ خری الیکشن ہے۔ اس کے بعد وہ سیاست سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ انہوں نے مایوسی میں یہ بیان دیا تا کہ عوام کی ہمدردی حا صل کی جا سکے۔ اب جب کہ ان کی قیادت میں جے ڈی یو نے بی جے پی سے کم نشستیں حاصل کی ہیں تو بی جے پی آج نہیں تو دو سال بعد نتیش کمار کو گّدی سے اُتارنے میں کا میاب ہو جائے گی تا کہ 2024میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں وہ زیادہ سے زیادہ پارلیمانی حلقوں میں کا میاب ہو سکے۔ بی جے پی کے قائدین بہار میں این ڈی اے کی کا میابی کو مودی جی کی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ بہار انتخابات میں بی جے پی کی عددی طاقت میں اضافہ ہوا اس لئے وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کر ے گی۔ وقت آ نے پر نتیش کمار کو مودی کا پیادے بننے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ 2015کا الیکشن نتیش کمار نے سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر لڑا تھا۔ بعد میں وہ اقتدار کے خاطر بی جے پی کے خیمے میں چلے گئے اور پانچ سال حکومت کئے۔ اب جو حالات بہار میں پیدا ہو رہے ہیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پھر تیتش کمار کیا پینترا بد لنے والے ہیں۔ لوک جن شکتی پارٹی کے چراغ پاسوان نے بھی جے ڈی یو کے خلاف امیدوار ٹہرا کر نتیش کمار کے ارادوں کو کا میاب ہونے نہیں دیا۔ وہ یہ رٹ لگائے ہوئے تھے کہ وہ نریندرمودی کو اپنا لیڈر مانتے ہیں لیکن بہار میں وہ نتیش کمار کو چیف منسٹر بننے نہیں دیں گے۔ لوک جن شکتی پارٹی نے اگر چکہ ایک ہی نشست پر کا میابی حا صل کی ہے۔ لیکن اس نے جنتا دل (یو) اور آر جے ڈی کو بھاری نقصان پہنچا یا ہے۔ یہ باور کیا جارہا ہے کہ چراغ پاسوان نے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کے اشاروں پر ہی جے ڈی یو اور خاص طور پر نتیش کمار کے خلاف محاذ کھو لا تھا۔ اس طرح بی جے پی نے ڈبل گیم کھیلتے ہو ئے نتیش کمار کو اپنے قابو میں رکھنے کا میاب سیاسی چال چلی ہے۔ نتیش جی چیف منسٹر کے منصب پر فائز بھی ہو جائیں تو انہیں بی جے پی کے ایجنڈے پر کام کر نا پڑے گا۔ اگر وہ اس معاملے میں اپنی پیشانی پر بَل لا تے ہیں تو کبھی بھی اقتدار ان سے چھین لیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اب پانچ سال تک بہار میں این ڈی اے کے نام پر بی جے پی کی حکومت رہے گی۔ نتیش کمار کی قسمت آ خری وقت جا گی تو ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتاکہ وہ آ ئندہ پانچ سال میں بہار کی عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں کا میاب ہو سکیں گے۔ 15سالہ دور اقتدار میں وہ عوام کو ہر طرح سے مایوس کر چکے ہیں۔ ان کے دورِ حکومت میں ریاست میں بے روزگاروں کی ایک فوج تیار ہوئی ہے۔ پڑھے لکھے افراد بھی نوکریوں سے محروم رہے ہیں۔ بہار کی عوام تبدیلی کے لئے ووٹ دی تھی۔ امید کی جارہی تھی عوام حکومت کو بدلنے میں کا میاب ہو جائیں گے۔ پھر ایک مر تبہ این ڈی اے کے بر سر اقتدار آ نے سے بہار کے نوجوانوں میں مایوسی کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔ اب پانچ سال تک صرف وعدوں اور دلاسوں کی بنیاد پر سیاست چلائی جائے گی۔
بہار اسمبلی کے ان نتائج کے تعلق سے اپوزیشن پارٹیوں کو اس بات کا بھی شبہ ہے کہ اس میں مبینہ طور پر اُلٹ پھیر بھی ہوئی ہے۔ کانگریس اور آر جے ڈی نے الزام لگا یا کہ بی جے پی اور جے ڈی یو نے سرکاری مشنری کے بیجا استعمال کے علاوہ کئی اسمبلی حلقوں میں دھاندلیاں کی ہیں۔ بڑے پیمانے پر این ڈی اے سے عوامی ناراضگی کے باوجود پھر اسی کے ہاتھوں میں اقتدار کا آنا رائے دہندوں کو مختلف اندیشوں میں ڈال دیتا ہے۔ جب سارے اگزٹ پولس عظیم اتحاد کو بھاری اکثریت سے کا میابی ملنے کے دعوے کئے تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہواکہ مہا گٹھ بندھن صرف 110 نشستوں پر آکر سمٹ گیا۔ ای وی ایم مشینوں کے تعلق سے ہمیشہ شکایت رہی ہے۔کیا اب بھی عوام کے ووٹ کو بازو رکھتے ہوئے ای وی ایم کے ذریعہ اپنی کامیابی کو این ڈی اے نے یقینی بنایا ہے۔ اس وقت یہ سوال اہم ہے کہ آ یا بہار میں ہونے والی اس جیت سے کیا ملک کی دیگر ریاستوں میں بی جے پی کا اثر بڑ ھے گا اور پھر یہ سلسلہ تین سال بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات تک چلتا رہے گا۔ بہار کے ان انتخابی نتائج نے ملک میں سیکولرازم کے مستقبل کے تعلق سے کئی سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ ان نتائج نے سیکولر قوتوں کو یہ بتا دیا ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں جس منظم انداز میں آ گے بڑھ رہی ہیں ان کا مقا بلہ کر نے کے لئے انہیں اور زیادہ مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑا چیلنج کانگریس کے لئے ہے۔ وہ پارٹی، جس نے جدوجہدآ زادی کے دوران پورے ملک کی عوام کو ایک پرچم تلے جمع کرکے انگریزوں کے خلاف تحریک چلا کر ملک کو آزاد کرایا تھا۔ ملک کی آزادی کے بعد بھی جس نے ملک کی تعمیرِ نو میں قابلِ قدر رول ادا کیا تھا آج کیوں سمٹتی جا رہی ہے؟ اس کا اثر و رسوخ دن بہ دن ملکی سیاست میں گھٹتا کیوں جا رہا ہے؟ آج کی کانگریس علاقائی پارٹیوں سے بھی زیادہ کمزور ہو گئی ہے۔ جب تک کانگریس کے قائدین اپنا محا سبہ نہیں کریں گے کانگریس اپنے کھوئے ہوئے مقام کودوبارہ حاصل نہیں کر سکتی۔ بہار، ایک زمانے تک سیکولر پارٹیوں کا مضبوط قلعہ رہا۔ یہاں کے تمام طبقات نے متحدہ طور پر کام کر تے ہوئے سیکولر اقدار کو ریاست میں پروان چڑھایا۔ لیکن آج وہاں سیکولرازم ہچکولے کھا رہا ہے۔ یہ بہار ہی ہے جہاں سے رام منوہر لوہیا اُ ٹھے تھے، جنہوں نے فرقہ پرستی کے خلاف زبردست محاذ آرائی کی۔ لالو پرساد یادو، نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان و غیرہ نے منوہر لوہیا کو اپنا گرو مانتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا تھا۔ جب 1975میں اندراگاندھی نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے سارے ملک میں ایمرجنسی نا فذ کردی تھی اس وقت بھی بہار سے اس مطلق العنانی کے خلاف آواز اٹھی۔ جئے پرکاش نارائن کی قیادت میں جنتا پارٹی نے ہندوستان کی آزادی کے بعد پہلی مر تبہ 1977 میں کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ یہی بہار ہے جہاں لالو پر ساد یادو نے لال کشن اڈوانی کی رتھ یاترا کو روک کر اڈوانی کو گرفتار کرلیاتھااور اس کے نتیجہ میں 1990 میں بابری مسجد شہید ہونے سے بچ گئی تھی۔آج اسی بہار میں فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کے لئے ساری سیکولر پارٹیوں کو متحد ہونا ضروری ہے۔ عظیم اتحاد کو ناکامی ہوئی ہے لیکن جتنی سیٹیں اسے ملی ہیں اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مہا گٹھ بندھن ریاست میں ایک مضبوط اپوزیشن کا رول ادا کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔ تیجسوی یادو کے لئے ابھی وقت بہت ہے۔ 31سال کی عمر میں انہوں نے جس جارحانہ انداز میں مہم چلاتے ہوئے ریاست کی عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کوشش کی ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بہار کا نوجوان عظیم اتحاد کو اقتدار نہ ملنے کے باوجود ان کا گرویدہ رہے گا اور جب تک فرقہ پرستوں کے خلاف وہ ڈٹے رہیں گے ریاست میں فرقہ پرستی پنپ نہ سکے گی اسی سے بہار اور ملک کو ترقی مل سکتی ہے۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share