گستاخ رسول صلى الله عليه وسلم کی سزا قرآن و حدیث کی روشنی میں

Share

مفتی محمد ضیاءالحق فیض آبادی

اگر کبھی ایمان کی پختگی کے ساتھ قرآن مجید و حدیث پڑھا ہو تو معلوم ہو کہ گستاخی رسول کی کیا سزا ہے صرف اور صرف نام نہاد اسکالروں کی باتیں سن کر یہ کہہ دینا کہ قرآن مجید و حدیث طیبہ میں کہیں بھی گستاخ رسول اللہ صلی تعالیٰ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ذکر نہیں ملتا یہ بہت بڑی نادانی ہے ہم اپ کے سامنے قرآن مجید کی ایات کریمہ سے گستاخ رسول کا واجب القتل ہونا ثابت کرتے ہیں ۔
اللہ عزوجل سورہ فرقان پارہ ۱۹ ایات نمبر ۲۷تا ۲۹ میں ارشاد فرماتا ہے اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا لے گا کہ ہاے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی واۓ خرابی میری ہاے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا (کنزالایمان )

اللہ عزوجل سورہ توبہ ایت نمبر ۱۲ میں ارشاد فرماتا ہے کہ اور اگر عہد کرکے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر منہ آئیں تو کفر کے سرغنوں سے لڑو بے شک ان کی قسمیں کچھ اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیں
(کنزالایمان)

ان ایات سے صاف ظاہر ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و توقیر مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزء ہے اور علمائے اسلام دور صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے لے کر آج تک اس بات پر متفق رہے ہیں کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والا آخرت میں سخت عذاب میں تو مبتلا ہی ہوگا لیکن اس دنیا میں عشاق نبی اس کی گردن اس کے تن سے جدا کر کے واصل جہنم کر دیتے ہیں۔

خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اسلام کے بے شمار دشمنوں کو (خصوصا فتح مکہ کے موقع پر)معاف فرمادینے کے ساتھ ساتھ ان بدبختوں کے بارے میں جو نظم و نثر میں آپ ﷺکی ہجو اور گستاخی کیا کرتے تھے، فرمایا تھا کہ:

اگر وہ کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے بھی ملیں تو انہیں واصل جہنم کیا جائے

یہ حکم (نعوذباللہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی انتقام پسندی کی وجہ سے ہرگز نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو حضرت عائشہ اور صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی شہادت موجود ہے کہ آپﷺ نے کبھی بھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا، بلکہ اس وجہ سے تھا کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کے دلوں سے عظمت وتوقیر رسول ﷺ گھٹانے کی کوشش کرتا اور ان میں کفر و نفاق کے بیج بوتا ہے۔ اس لئے توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تہذیب و شرافت سے برداشت کرلینا اپنے ایمان سے ہاتھ دھونا اور دوسروں کے ایمان چھن جانے کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ نیز ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ہر زمانے کے مسلمان معاشرہ کا مرکز و محورہیں اس لئے جو زبان آپﷺ پر طعن کیلئے کھلتی ہے، اگر اسے کاٹانہ جائے اور جو قلم آپﷺ کی گستاخی کیلئے اٹھتا ہے اگر اسے توڑانہ جائے تو اسلامی معاشرہ فساد اعتقادی و عملی کا شکار ہوکر رہ جائیگا۔
حدیث شریف میں ہے

حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور برا کہتی تھی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئی ، تو رسول الله تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کے خون کو ناقابل سزا قرار دے دیا
(ابوداؤد شریف باب الحکم فی من سب)

حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جو کسی نبی کو برا کہے اسے قتل کیا جاے اور جو صحابہ کو برا کہے اس کو کوڑے لگا دے جائیں
(المسلول ص ۹۲/۲۹۹)

مذکورہ بالا احادیث سے یہ ثابت ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) نازیبا الفاظ کہنے والے کی سزا موت ہے
گستاخ نبی کی ایک سزا ،
سر تن سے جدا سر تن سے جدا
غیر مقلدوں کے امام ابن تیمیہ کے نزدیک بھی گستاخ نبی کی سزا موت ہے دلیل دیتا ہے کہ وہ ساری امت کو گالی دینے والا ہے اور وہ ہمارے ایمان کی جڑ کو کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کا ایمان اور غیرت بچانے کیلئے ہجو نگاروں کی گستاخیوں کی پاداش میں ان کا قتل روا رکھا۔ ان میں سے ایک ملعون کا نام ابن خطل تھا۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف شعر کہتا اور اس کی دو لونڈیاں یہ غلیظ شعر اس کو گاگا ،گا گا کر سناتیں۔ فتح مکہ کے دن وہ حرم مکہ میں پناہ گزیں تھا ابوبرزہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسے وہیں جہنم رسید کردیا۔ دوسری روایت کے مطابق
فتح مکہ کے دن نبی پاک نے حویرث بن نقید کو قتل کرنے کا حکم دیا اور یہ ان لوگوں میں سے تھا جو نبی اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو ایذا پہنچایا کرتے تھے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا
(اصح السیر)

نبی رحمت صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم عام طورپر غزوات اور جنگوں میں حکم دیتے تھے کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے، لیکن توہین رسول ﷺاسلامی شریعت میں اتنا سنگین جرم ہے کہ اگر اس کی مرتکب عورت بھی ہو تو قابل معافی نہیں۔ چنانچہ آپﷺ نے ابن خطل کی مذکورہ دو لونڈیوں کے علاوہ دو اور عورتوں کے بارے میں بھی جو آپﷺ کے حق میں بدزبانی کیا کرتی تھیں، ان کے قتل کا حکم جاری کیا تھا‘ اس طرح مدینہ میں ایک نابینا صحابی کی ایک چہیتی اور خدمت گزار لونڈی جس سے ان کے قول کے مطابق انکے موتیوں جیسے دو بیٹے بھی تھے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور بدزبانی کا ارتکاب کیا کرتی تھی۔ یہ نابینا صحابی اسے منع کرتے مگر وہ باز نہ آتی۔ ایک شب وہ بدزبانی کررہی تھی کہ انہوں نے اسکا پیٹ چاک کردیا۔ جب یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپﷺ نے فرمایا لوگو! گواہ رہو اس خون کا کوئی تاوان یا بدلہ نہیں ہے۔ (ابوداﺅد، نسائی)

جب حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے گستاخ رسول ﷺ کے نابینا قاتل کے بارے میں پیارسے کہا دیکھو اس نابینا نے کتنا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا، اسے اعمیٰ (نابینا) نہ کہو، بصیر و بینا کہو کہ اسکی بصیرت و غیرت ایمانی زندہ و تابندہ ہے اور جب ایک اور گستاخ ملعونہ اسماء بنت مروان کو اس کے ایک اپنے رشتہ دار غیرت مند صحابی نے قتل کیا تو آپﷺ نے فرمایا لوگو! اگر تم کسی ایسے شخص کی زیارت کرنا چاہتے ہو جو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی نصرت و امداد کرنے والا ہے تو میرے اس جانثارکو دیکھ لو۔ یہ غیرت مند صحابی عمیر بن عدی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جب اس ملعونہ کے قتل سے فارغ ہوئے تو ان کے قبیلہ کے بعض سر کردہ افراد نے ان سے پوچھا تھا کہ تم نے یہ قتل کیا ہے؟ انہوں نے بلاتامل کہا، ہاں اور اگر تم سب گستاخی کا وہ جرم کرو جو اس نے کیا تھا تو تم سب کو بھی قتل کردوں گا۔ (الصارم المسلول )

قرآن و حدیث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گستاخ نبی کی سزا قتل ہے تو جو بدنصیب اللہ عزوجل کے محبوب کی شان میں گستاخی کرے ایسے شخص کو قتل کرنا کیوں کر جائز نہ ہوگا ۔جب فساد کی سزا قتل ہے تو پھر اس سے بڑھ کر فسادی کون ہو سکتا ہے جو نبی رحمت صلی الله تعالی علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرکے امت مسلمہ کا چین و سکون برباد کرے توہین رسالت کا جرم سب سے بڑا جرم ہے لھذا توہین رسالت کا مرتکب واجب القتل ہے

اللہ عزوجل ہم سب کو اقا علیہ السلام کے مراتب و درجات سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے امین یارب

محمد ضیاءالحق قادری
Share
Share
Share