کالم : بزمِ درویش ۔ عاشق رسول ﷺ

Share

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

سرور کا ئنات ﷺ کے نور کی تخلیق سے قبل نور عشق ِ الہی اپنے ہی گرد طواف میں مگن رہتا تھا کیونکہ اِ س نور کے اندر اس محبو ب ﷺ کا نور جھلکتا تھا یہ سلسلہ صدیوں تک اسی طرح جا ری و ساری رہا اس وقت کا ئنات کے ایک سرے سے دوسرے تک عمیق اور بعید حدوں تک صرف خدائے واحد کی واحدانیت کے نغمے چہا ر سو بکھرے ہو ئے تھے اور پھر خدائے بزرگ بر تر نے اپنے ہی نور سے اپنے محبوب کے نور کو وجود بخشا حضرت ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں جب ودود نے اپنے محبوب ﷺ کا نور پیدا فرمایا تو کہا۔

یعنی اے میرے حسنِ ازلی کے مظہر اور میری قدرت کے شاہکار محبوب ﷺ آپ میرے عشق ہیں اور میں آپ ﷺ کا عشق ہو ں۔ پھر آنے والی کئی صدیوں تک اپنے محبوب ﷺ کے نورانی جلوں میں ڈوبا رہا۔ اور پھر نور عشقِ الہی نے اپنے محبوب ﷺ کے نور حسن سے قرار پکڑا تو اٹھارا ہزار عالمین کی مخلوقات اور کائنات کے ذرے ذرے پر الم نشرح ہو گیا کہ کا ئنات کی تخلیق کی وجہ محبوب خدا ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے اگرمالک ِ بے نیاز اول آخر کے روبرو محبوب ِ خدا کی ذات نہ ہو تی تو کبھی بھی افلاک اور کائنات کی تخلیق نہ کر تا۔ چونکہ محبوب ذات نہ ہو تی تو کبھی بھی افلاک اور کا ئنات کی تخلیق نہ کر تا۔ چونکہ محبوب خدا ﷺ کا نور اللہ تبارک تعالی کے نور کا ہی جز ہے تو بلا شبہ اللہ ذولجلال والاکرام کے بعدمقدس اور محبوب ترین ہستی سرتاج الانبیا ﷺ ہی کی ہے۔ کا ئنات کی تخلیق اور ہر چیز کے خمیر میں محبت ِ عشق رسول ﷺ رکھ دی گئی ہے اب اِس سے خدا تعالی محبت کر تا ہے اسی طرح کائنات کی ہر چیز بھی رسول کریم ﷺ سے محبت کر تی ہے لہذا خدا کی رضا اور محب کے لیے شافع ِ دو جہاں ﷺ کی محبت بھی لا زمی ہے تو ثابت یہ ہوا کہ تمام محبتوں کا مرکز آقائے دو جہاں ﷺ کی ذات ہے آپ ﷺ سے خا لق کائنات محبت کر تے ہیں بلکہ ہر انسان کے خمیر اورروح میں آپ ﷺ کی محبت رکھ دی گئی ہے انسانوں کے علاوہ ملائکہ عرش فرش جنات پہاڑ نباتات اشجار چرند ے پرندے ہوائیں فضائیں چاند تارے خدا کی ہر تخلیق محبت کر تی ہے۔ مالک کا ئنات آپ ﷺ پر درود سلام بھیجتا ہے ملا ئکہ کو بھی یہی حکم ہے اور مومنین کو بھی کر ہ ارض پر اربوں انسانوں میں سے خو ش قسمت ترین وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی نے ہدا یت نصیب کی ایمان کی دولت سے مالا مال کیا مسلمان ہی وہ مقدس جماعت ہے جن کے خمیر میں عشقِ رسول ﷺ کی چنگاری مو جود ہے زمانے کی گہما گہمی میں یہ محبت کم تو ہو سکتی ہے لیکن یہ ختم نہیں ہو تی تا ریخ کی ورق گردانی کر کے دیکھ لیں جب بھی کسی ظالم نے ناموس ِ رسولت ﷺ کو دھندلانے کی کو شش کی تو مسلمانوں کے اندر دبی عشقِ رسول ﷺ کی چنگاری آگ کا بھا نبھڑ بن گئی اور پھر گستاخ رسول ﷺ کو جلا کر خا کستر کر دیا۔ اہل مغرب مسلمانوں کو تنگ اور عشق ِ رسول ﷺ کے جذبات کم کر نے کے لیے جب بھی کو ئی حما قت یا گستاخی کر تے ہیں تو مسلمانوں کے خمیر میں دبے عشق ِ رسول ﷺ جذبات سراپا احتجاج بن کرکائنات کے چپے چپے پر پھیل جاتے ہیں۔ نا موس ِ رسالت کے لیے بچے نو جوان اور بو ڑھے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آجا تے ہیں۔کر ہ ارض پر بسنے والے ہر مسلمان کی یہ دلی خو اہش ہے کہ وہ کو ئی ایسی عبا دت ریاضت مجاہدہ کر ے کو ئی ایسا عمل کر ے جو با رگاہ ِ الہی میں قبول ہو، تا کہ جنت کا پروانہ مل سکے۔ اِس جنت کی تلا ش میں عابدوں زاہدوں مفتیوں عالم دینوں نے نجانے کتنے فاصلے طے کئے لو گ با رگاہ ِ الہی میں سرخرو ہو نے کے لیے پیشانیاں رگڑتے رہے سر پٹختے رہے دنیا سے کنا رہ کش ہو کر دریا ں سمندروں کے کناروں پر آبا د ہو ئے جنگلوں صحراں پہاڑوں میں صرف اللہ کو راضی کر نے کے لیے لاکھوں سجود میں غرق رہے لاکھوں صوفی درویش و ملا وقف دعا رہے پر ہیز گا روں نے تزکیہ نفس کے کٹھن مراحل خو شی خو شی طے کئے خدا کو منانے اور جنت پا نے کے لیے کیا کیا پا پڑ بیلے عبا دت ریا ضت مجا ہدوں کے پل صراط سے گزرے یقینا خدا اِن سب کی محبت عبادت ریا ضت قبول کر ے گا لیکن شان دیکھیں ان عاشقان ِ رسول ﷺ کی جنہوں نے نہ چلا کیا نہ مجاہدہ نہ عمرہ نہ حج نہ لمبی چوڑی عبا دت ریا ضت نہ کسی بڑے مکتب میں داخلہ لیا نہ کسی عظیم خا نقاہ میں تصوف کے اسرار و رموز سے آگا ہی حاصل کی نہ کشف المحجوب عارف ِ المعارف رسالہ قشیریہ فتوحا تِ مکیہ کا مطالعہ کیا نہ فصوص الحکم کے رموز سے آشنا ئی حاصل کی نہ حبسِ دم نہ ریاضت نہ مجاہدے نہ اسم اعظم کی لمبی ریا ضتیں نہ قصیدہ غوثیہ پر کا مل عبور اور نہ ہی حزب البحر کا ورد نہ ہی فلسفہ و منطق سے آشنا ہو ئے نہ مسجد کی لو ٹے بھرے نہ کسی حلقہ تربیت میں اپنی تربیت کے تبلیغی گشت میں حصہ لیا نہ ہی پا کبازی کا خبط سوار ہوا نہ علما دین کے پاس زیادہ وقت گزارا نہ ہی اہل علم کے سامنے بیٹھے نہ ہی لا ئبریریوں میں دن رات غرق رہے۔ خدا معلوم کتنی لمبی چوڑی ریا ضت کے بعد خواجہ معین الدین چشتی اجمیری بابا فرید گنج شکر شیخ عبدالقادر جیلانی اِس کر ہ ارض پر سورج کی طرح طلوع ہو ئے لیکن چشم فلک اور اہل دنیا نے حیرت سے دیکھا جب ایک بڑھئی کی دوکا ن سے غازی علم دین اٹھتا ہے اور ایک ہی قدم میں صدیوں کے فاصلوں کو طے کر جا تا ہے۔ شاعرِ مشرق علا مہ اقبال کو جب غا زی علم الدین کے بارے میں بتا یا گیا کہ ایک اکیس سالہ ان پڑھ اور مزدور پیشہ نو جوان نے گستاخ رسول راج پا ل کو بہت ہمت جرات اور پھرتی سے قتل کر دیا تو علامہ اقبال نے رشک اور حیرت سے فرمایا۔
اسی گلاں ای کر دے رہ گئے تے تر کھانا ں دا منڈا با زی لے گیا (ہم با تیں ہی بنا تے رہ گئے اور بڑھئی کا بیٹا با زی لے گیا) یقینا حضرت علامہ اقبال نے اِسی موقع کے لیے کہا تھا۔
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اِس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھامیں نے
جس زمانے میں غازی علم الدین نے یہ عظیم کا ر نامہ سر انجام دیا گستاخ ِ رسول کو واصل جہنم کیا یقینا اس دور میں لا ہور میں بہت سارے اہل علم دانشور اور علما دین تحریروں تقریروں میں لگے ہوں گے ادیبوں خطیبوں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہا ر کیا ہو گا تقریروں اور تحریروں اور لفاظی سے بہت کچھ کہا ہو گا۔ لا کھوں لوگوں نے اپنے اپنے طریقے سے تنقید بھی کی ہو گی۔ لیکن شاتم رسول کو جہنم واصل کر نے کی سعادت اِ ن میں سے کسی کو بھی حا صل نہ ہو ئی یہ سعادت کسی عالم دین دانشور شاعر خطیب صوفی کسی امام ادب و انشا کسی سیاسی راہنما کے حصے میں نہ آئی بلکہ ایک معمولی مزدور کے حصے میں جو ممتاز دانشور یا اہل علم نہ تھا معمولی کا ریگر عام مزدور جس کی پیشانی پر لمبے سجدوں کے نشان نہ تھے نہ ہی علم و فضل کے گہرے آثار بلکہ ہا تھوں میں لو ہے کے اوزار تھے خدا معلوم وہ پکا نمازی تھا یا نہیں لیکن حقیقی اور اصلی نمازی نکلا غازی علم الدین شہید کو دیکھ کر کم از کم یہ تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مالک بے نیاز کسی کی عبا دت کے طول و عرض پر نہیں جا تا بلکہ کسی کے بے غرض جذبے کو شرف قبولیت بخش کر اسے قیا مت تک امر کر دیتا ہے وہ خدا کسی کے ما تھے کا محراب نہیں دیکھتا بلکہ قلب و روح کا اضطراب اور حقیقی جذبہ دیکھتا ہے۔ غازی علم الدین نے 21برس کی عمر میں صدیوں کا سفر اِس شان سے کیا کہ اس کی گردِ سفر کا ایک ایک ذرہ عاشقان رسول ﷺ کے لیے نشان راہ بن گیا۔ قیامت تک جب بھی ناموس رسالت ﷺ پر حرف آئے گا تو غا زی علم الدین یا ممتا ز قادری صرف ایک قدم اٹھا ئے گا جس کا دوسرا قدم جنت الفردوس میں ہو گا قیامت تک کر ہ ارض پر ایسے غازی سورج کی طرح طلوع ہو تے رہیں گے۔

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
Share
Share
Share