عظمت مصطفٰی اور امتی پر حقوق مصطفٰی

Share

محمد قمرانجم فیضی

قرآن کریم میں اِرشادِ باری تعالٰی ہے بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔تفسیر: یہ آیتِ مبارکہ رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان،مقام و منصب،امّت پر لازم حقوق اور اللہ تعالٰی کی تسبیح و عبادت کے بیان پر مشتمل ہے،

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے نبی!ہم نے تمہیں امت کے اعمال پر گواہ ،اہلِ ایمان و اطاعت کو خوشخبری دینے اور کافر و نافرمان کو اللہ تعالٰی کی گرفت اور عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو! تم اللہ تعالٰی اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی نصرت و حمایت اور تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرو۔(خازن ج4،ص103)امّت پر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق کے پہلو سے اِس آیت کریمہ کو دیکھا جائے تو اس میں اللہ تعالٰی نے حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تین (3) حقوق بیان فرمائے ہیں:ایمان، نصرت و حمایت اور تعظیم و توقیر۔ہم ان تینوں حقوق کو کچھ تفصیل سے بیان کرکے مزید چند حقوق بیان کریں گے تاکہ علم میں اضافہ اور عمل کی توفیق ہو۔(1) ایمان: محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اور یونہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنا بھی لازم و ضروری ہے جو آپ اللہ تعالٰی کی طرف سے لائے ہیں۔یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہے کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لئے رسول ہیں اور آپ کی رحمت تمام جہانوں کےلئے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے احسانات تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہیں۔جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں، اگرچہ وہ دیگر تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پرایمان رکھتا ہو۔(2) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت و حمایت: اللہ تعالٰی نے روزِ میثاق تمام انبیاء و مرسلین عَلیہم الصلوۃ والسلام سے اپنے پیارے حبیب صَلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت و مدد کا عہد لیا تھا اور اب ہمیں بھی آپ صَلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نےآپ صلی اللہ تَعالی علیہ وَاٰلِہٖ وسلم کی تائید و نصرت میں جان ، مال، وطن ،رشتے دارسب کچھ قربان کردیا۔دورانِ جنگ ڈھال بن کر پروانوں کی طرح آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم پر نثار ہوتے رہے۔فی زمانہ بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عزّت و ناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقاء و ترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے (3) رسول اللہ صَلی اللہُ تعالٰی علَیہ واٰلہ وسلم کی تعظیم و توقیر: ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبیِّ مکرم، رسول ِ محتشم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اعلٰی درجے کی تعظیم و توقیرکی جائے بلکہ آپ سے نسبت و تعلّق رکھنے والی ہر چیزکا ادب و احترام کیا جائے جیسے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ملبوسات، نعلین شریفین، مدینہ طیبہ، مسجد ِ نبوی، گنبدِ خضرٰی، اہل ِ بیت،صحابہ کرام اور ہر وہ جگہ جہاں پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پیارے پیارے قدم مبارک لگے، ان سب کی تعظیم کی جائے۔ادب و تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظ رکھے جیسے نامِ مبارک سنے تو درود پڑھے، سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو آنکھیں جھکالے اور دل کو خیالِ غیر سے پاک رکھے، گنبدِ خضری پر نگاہ اٹھے تو فوراً ہاتھ باندھ کر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرے۔
اسی ادب و تعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے گستاخوں اور بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا کلام و تقریر نہ سنے بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے اور اگر کسی کو بارگاہِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں ادنٰی سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یا استاد یا پیر یا عالم ہو یا دنیوی وجاہت والا کوئی شخص ،اُسے اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو باہر پھینکا جاتا ہے۔مذکورہ بالا حقوق کے ساتھ ساتھ علماء و محدثین نے اپنی کتب میں دیگر ’’حقوقِ مصطفٰی‘‘ کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، یہاں اختصار کے ساتھ مزید چار (4) حقوق ملاحظہ ہوں: (1)رسول اللہ صَلی اللہ تعَالی علیہ واٰلہ وسلم کی اتباع: حضونبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکمِ خداوندی ہے۔
آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے طریقے پر چلنے کو مقدم رکھتے اوراتباعِ نبوی سے ہرگز انحراف نہ کرتے۔اِس اتباع میں فرض و واجب امور بھی ہیں اور مؤکد و مستحب چیزیں بھی۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اتباع کیا کرتے تھے، اسی لئے کتبِ احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں بلکہ سنن و مستحبات اور آداب ومعاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے۔(2) رسول اللہ صلی اللہُ تعَالی علیہ والِہ وسلم کی اطاعت: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہرحکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے ، جس بات کا حکم ہو اسے بجائے لائیں، جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اُس سے رُکا جائے۔(3) رسول اللہ صَلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم سے سچی محبت: امّتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کراپنے آقا و مولا، سید المرسلین، رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کرے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے (4) رسول اللہ صلی اللہ تَعَالی عَلیہ والہ وسلم کا ذکر مبارک و نعت: ہم پر یہ بھی حق ہے کہ سرورِ موجودات، باعث ِتخلیقِ کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مدح و ثنا، تعریف و توصیف، نعت و منقبت ، نشر ِ فضائل و کمالات، ذکرِ سیرت وسنن و احوال وخصائل و شمائل ِ مصطفٰی صَلی اللہ تَعالی عَلیہ واٰلہ وسلم اوربیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے پسند بھی کریں اور اِن اذکارِ مبارکہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔قرآنِ پاک رسولِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کےفضائل و محاسن اور شان و مرتبہ کے ذکر مبارک سے معمور ہے، تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و فضیلت بیان فرماتے رہے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کےلئے ذکر و نعتِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم وظیفۂ زندگی اور حرزِ جان تھا۔دورِ صحابہ کرام رضی اللہ تعَالی عَنْہم سے آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے خوش نصیب مداحوں نے نظم ونثر کی صورت میں اتنی نعتیں لکھ دی ہیں کہ اگر انہیں ایک جگہ کتابی صورت میں جمع کیا جائے تو بلا مبالغہ یہ ہزاروں جلدوں پر مشتمل ،دنیا کی سب سے ضخیم کتاب ہمیں ملے گی۔عظمتِ مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
ترجمۂ کنز العرفان۔اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا پھر تمہارے پاس وہ عظمت والارسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو گاتو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ (اللہ نے) فرمایا :(اے انبیاء!) کیا تم نے (اس حکم کا) اقرار کرلیا اور اس (اقرار) پر میرا بھاری ذمہ لے لیا؟ سب نے عرض کی،’’ ہم نے اقرار کرلیا‘‘ (اللہ نے) فرمایا، ’’ تو(اب) ایک دوسرے پر (بھی) گواہ بن جاؤ اور میں خود (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔ پھرجو کوئی اس اقرار کے بعدروگردانی کرے گاتو وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔ تفسیر صراط الجنان۔ اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا۔} حضرت سیدنامولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہ السلام اور ان کے بعد جس کسی کو نبوت عطا فرمائی ، ان سے سیدُ الانبیاء، محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق عہد لیا اور ان انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی قوموں سے عہد لیا کہ اگر ان کی حیات میں سرورِ کائنات صَلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوں تو وہ آپ صَلی اللہُ تعالی عَلیہ وَآلہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی مددو نصرت کریں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ہمارے آقا و مولا، حبیب ِ خدا، محمد مصطفٰی صَلی اللہُ تعالی عَلیہ والِہ وسلّم تمام انبیاء عَلیہم الصلٰوۃ والسلام میں سب سے افضل ہیں۔اس آیت مبارکہ میں نبی کریم صَلی اللہُ تعالی علیہ والہ وسلم کے عظیم فضائل بیان ہوئے ہیں۔ علماء کرام نے اس آیت کی تفسیر میں پوری پوری کتابیں تصنیف کی ہیں اور اس سے عظمت ِ مصطفی صَلہ اللہ تعالی عَلیہ والہ وَسلّم کے بے شمار نکات حاصل کئے ہیں۔ چند ایک نکات یہ ہیں :
(1) حضور پرنور صَلی اللہ تَعالی علیہ والہ وسلّم کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ محفل قائم فرمائی۔
(2)۔خود عظمت ِ مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کیا۔ (3) عظمت ِ مصطفٰی صَلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سامعین کیلئے کائنات کے مقدس ترین افراد انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصلوۃ والسلام کو منتخب فرمایا۔
(4) کائنات وجود میں آنے سے پہلے حضور اقدس صَلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر جاری ہوا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا بیان ہوا۔(5) آپ کو تمام نبیوں کا نبی بنایا کہ تمام انبیاءکرام کو بطورِ خاص آپ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کا حکم دیا۔(6) انبیاء کرام کو مخاطب فرمانے کے بعد باقاعدہ اس کا اقرار لیا حالانکہ انبیاء ِکرام کسی حکمِ الہٰی سے انکار نہیں کرتے۔ (7) انبیاء کرام علیہم السلام نے اس اقرار کا باقاعدہ اعلان کیا۔
(8) اقرار کے بعد انبیاء ِکرام علیہم الصلوۃ والسلام کو ایک دوسرے پر گواہ بنایا۔ (9) اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ تمہارے اس اقرار پر میں خود بھی گواہ ہوں۔(10) انبیاء کرام سےاقرار کرنے کے بعد پھر جانا مُتَصَوَّر نہیں لیکن پھر بھی فرمایا کہ اس اقرار کے بعد جو پھرے وہ نافرمانوں میں شمار ہوگا۔ اس آیتِ مبارکہ پر انتہائی نفیس کلام پڑھنے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان رضی المولی عنہ کی تصنیف لطیف ۔تَجَلِّیُ الْیَقِین بِاَنَّ نَبِیَّنَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِین (یقین کا اظہار اس بات کے ساتھ کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام رسولوں کے سردار ہیں )کا مطالعہ فرمائیں۔‎اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کا نام مبارک "مُحَمَّدصلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم رکھا اوراس کو اپنے نام مبارک کے ساتھ کلمہ طیبہ میں شامل فرمادیا, آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ و سیرت مبارکہ کا ایک ایک پہلو عظمت توحید و حقانیت اسلام کی شہادت دیتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ و سیرت طیبہ کی قسم یاد فرمائی : ’’لَعَمْرُكَ‘‘ اے حبیب ! آپ کی مبارک زندگی کی قسم,

مضمون۔نگار ۔روزنامہ شان سدھارتھ سدھارتھ نگر سے وابستہ ہیں۔رابطہ نمبر-6393021704

محمد قمرانجم قادری فیضی
Share
Share
Share