حیدرآباد کی تباہی : کسے وکیل کریں کس سے منصفی چا ہیں ؟

Share

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770

قلی قطب شاہ کا بسایا ہوا تاریخی شہر صرف دو دن کی بارش میں ایسا اُجڑ گیا کہ ہر طرف تباہی اور بر بادی کے سوا کچھ اور نظر نہیں آ رہا ہے۔ 13/ اکتوبر کی رات ہونے والی مو سلادھار بارش نے 14/ اکتوبر کی صبح شہرِ حیدرآباد میں قیامتِ صغٰری برپا کردی۔ شہر کے بیشتر علاقے زیرِ آب آ گئے۔ پانی کے غصبناک بہاؤ سے ایک ایک خاندان کے دس، دس، بارہ، بارہ افراد پانی میں بہہ گئے۔ کئی خاندانوں کے افراد اب بھی لا پتہ ہیں۔ سینکڑوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ لاکھوں افراد کا روزگار ختم ہو گیا۔

گزشتہ منگل اور چہارشنبہ کی بارش سے ابھی زندگی ڈگر پر بھی نہیں آئی تھی کہ ہفتہ کی رات شہر کے جنو بی علاقہ میں تالاب کا پشتہ ٹوٹنے سے حافظ با با نگر اور اس سے متصلہ علاقوں میں طوفانِ نوح جیسا منظر جو دیکھنے میں آ یا اسے الفاظ میں بیان میں نہیں کیا جا سکتا۔ آدھی رات کے گذرنے کے بعد ہونے والے اس سانحہ نے اس علاقے کے مکینوں کی زندگیوں کی ساری رونق چھین لیں۔ تالاب کے پشتہ کو توڑنے سے یا اس کے ٹوٹنے سے تالاب کا پانی اس قدر تیزی سے ہزاروں مکانوں میں داخل ہو گیا کہ لوگ اپنے جسم کے کپڑوں سے اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ متاثرہ افراد کے پاس اب کچھ نہیں بچا ہے۔ سارا ساز و سامان پانی میں بہہ گیا ہے۔ بعض خاندانوں کے لڑکیوں کی شادی کا مکمل جہیز پانی کی نذز ہوگیا۔ کئی لوگوں کے آ ٹو بہہ گئے جب کہ یہی ان کا واحد روزگار کا ذریعہ تھا۔ ہر طرف لوگ اپنی بر بادی پر روتے ہوئے دیکھے گئے۔ حیدرآباد میں اس سے پہلے بھی بارش ہوئی لیکن اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی دیکھنے میں نہیں ملی۔ کہا جارہا ہے کہ یہ اس صدی کی سب سے زیادہ بارش ہے۔ حالات کو معمول پر لانے کے لئے کتناوقت لگے گا یہ کوئی بتانہیں سکتا۔ متاثرہ افراد کی بازآبادکاری کیسے ممکن ہوگی اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ پریشان حال لوگوں کو حکومت کی جو بھی امداد ملے گی وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہو گی۔ اعلانات تو بڑے بڑے کئے جارہے ہیں لیکن ان پر عمل آوری کیسے ہو اس کا بھی ایک تقشہِ راہ(Road Map) ہونا ضروری ہے۔ مصیبت کی گھڑی میں چند ہمدردی کے الفاظ کہہ دینے سے مصیبت زدگان کی مصیبت دور نہیں ہوتی۔ حکومت کو کم ازکم اس نازک موقع پر شہریوں کی حقیقی مدد کے انتظامات کر نے ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ شہر کی اتنی بڑی آ بادی بارش سے متا ثر ہوئی ہے۔ ابھی تک بھی کئی آ بادیوں میں لوگ پانی میں محصور ہیں۔ بڑی بڑی کالونیوں سے پانی کی نکاسی نہیں ہورہی ہے۔ آلودہ پانی کے ایک جگہ جمع رہنے سے وبائی امراض پھیلنے کے اندیشے بڑھتے جارہے ہیں۔ کورونا وائرس سے پورا شہر گذشتہ سات مہینوں سے متا ثر ہے اور اب بھی کویڈ۔۹۱ پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ ایسے نا گفتبہ حالات میں بارش کی تباہ کاریوں سے صیحح انداز میں نمٹا نہ جائے تو یہ طرز عمل شہریوں کی زندگیوں سے کھلواڑکے مترادف ہوگا۔ حکومت کی جانب سے کئے جانے والے لیپا پوتی کے اقدامات آنے والے دنوں میں حیدرآباد کو مزید تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتہ سے جاری بارش نے سیلاب کی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ شہر کے سارے تالاب، جھیلیں اور ذخائرآب مکمل لبر یز ہو چکے ہیں۔ اب اگر مزید بارش کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ پانی آبادیوں میں پھر سے داخل ہو جائے گا۔ شہر کو اس سنگین صورت حال سے محفوظ رکھنے کے لئے جنگی خطوط پر بڑے پیمانے پر حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنا لازمی ہے تا کہ شہریوں کی جان اور مال کا تحفظ ہو سکے۔
سوال یہ ہے کہ بارش کی وجہ سے حیدرآباد میں جو نا قابلِ بیان تباہی آ ئی ہے اس کی ذ مہ داری کس کے کندھوں پر جاتی ہے۔ آ یا یہ واقعی آفاتِ سما وٰی ہے یا پھر یہ حکو متوں کی لا پروائی کا نتیجہ ہے۔ جب تک اس کا جواب نہیں ملے گا اس تباہی کا حل تلاش کرنا بھی نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ حالیہ بارش نے 1908میں موسیٰ ندی میں آئی طغیانی کی یاد تازہ کردی۔ 112سال پہلے آئی اس طغیانی نے حیدرآباد کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ حیدرآباد کے مشہور و معروف صوفی منش شاعر امجد حیدرآبادی نے بڑے درد ناک انداز میں اپنی ایک نظم میں اس دلسوز واقعہ کو بیان بھی کیا ہے۔ لیکن کیا ایک صدی گذرجانے کے باوجود حیدرآباد اتنی ترقی نہیں کر سکا کہ وہ ایسے ہولناک حالات کا مقا بلہ کر سکے۔ 112سال پہلے ٹکنالوجی اور انجینر نگ کے شعبے اتنے ترقی یا فتہ نہیں تھے۔ لیکن آج دعویٰ کیا جاتا ہے حیدرآباد اس معا ملے میں ملک کے دیگر شہروں سے کافی آ گے نکل چکا ہے۔ ہائی ٹیک سٹی یہاں آ باد ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں حیدرآباد میں قائم ہیں۔ ہر شعبہ حیات میں بامِ عروج کو چھولینے کا دعویٰ کر نے والے اپنے شہریوں کو بارش کے پانی سے نہیں بچا سکے تو یہ سارا ترقی کا پروپگنڈا بے معنی ہو جا تا ہے۔ موقر انگریزی روزنامہ: دی ہندو: نے اپنی16/ اکتوبر بروز جمعہ کی اشاعت میں ان باتوں کو بھی مسترد کر دیا کہ 14/ اکتوبر چہار شنبہ کو ہونے والی بارش حیدرآباد کی تاریخ کی سب سے زیادہ بارش تھی۔ اخبارلکھتا ہے کہ:Claims making round about Wednesday’s rainfall being the highest ever in the recorded history of Hyderabad climate may not be true: (The Hindu, October 16, 2020) علاوہ ازیں اخبار نے یہ بھی لکھا کہ اگست 2000میں حیدرآباد میں 24.2سنٹی میٹر بارش ہوئی جب کہ 14/ اکتوبر 2020کو جو بارش ہوئی وہ 19.2سنٹی میٹر رہی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے گذشتہ ہفتہ جو بارش ہوئی وہ کوئی غیر معمولی نہیں تھی۔ البتہ بارش کا جو سلسلہ جاری ہے اس سے اس بات کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے اس کے فیصد میں اضا فہ ہو گیا ہو۔ لیکن جس طرح ایک ہفتہ پہلے جو باتیں عوام میں گشت کر رہی تھیں وہ صد فیصد سچ نہیں تھی۔ ویسے بھی حیدرآباد کی یہ کہاوت مشہور ہے کہ یہاں چیل اُڑی تو بھینس اُڑی کہا جاتا ہے۔ وہ سارے عناصر جن کی کارستانیوں سے شہر کی یہ درگت بنی ہے انہوں نے یہ پروپگنڈا شروع کر دیا کہ اب جو حیدرآباد میں بارش ہوئی ہے اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دئے جب کہ محکمہ مو سمیات کے اعداد و شمار اس کی نفی کر تے ہیں۔ اسی لئے یہ کہنا غلط ہے کہ محض بارش کی وجہ سے یہ تباہی آئی ہے۔ اس تباہی و بربادی کو آفات سما وی کہہ کرحکومت اپنا پلّہ جھاڑنا چاہتی ہے۔ حکومت زمینات کی خریدو فروخت کے معاملے میں چوکس و چوکنا رہتی تو آج غریبوں کی زندگی اجیرن نہ ہوتی۔ حکومت کے عہدیداروں نے جان بوجھ کر اپنی آ نکھیں موند لیں اور کوڑیوں کے مول سرکاری زمینوں کو لینڈ گرابرس کے حوالے کر دیا۔ اس لینڈ ما فیا نے حکومت کے کارندوں کی جیب بھر کر اپنی چاندی کرلی۔ تالابوں، کنٹوں، پارکوں اور کھلی سرکاری اراضیات پر من مانی قبضے ہو تے رہے۔ یہ سلسلہ ایک دو سال یا پانچ، دس سے نہیں چل رہا ہے بلکہ بیس، پچیس سال سے رئیل اسٹیٹ کے نام پر یہ کاروبار زوروں پر ہے۔ سیاسی سر پرستی کے نتیجے میں پہلوانوں اور اور اثر و رسوخ رکھنے والوں کے لئے زمینوں کا کاروبار ایک نعمتِ غیر متر قبہ ثابت ہوا۔ دھونس، دھاندلی اور ڈرا دھمکا کر شہر کے چاروں طرف یہ لینڈ ما فیا اراضیات کو اپنے قبضے میں لے کر من مانی قیمت پر معصوم عوام کو ہتھیلی میں جنت بتا کر فروخت کر تا رہا۔ اور آج لینڈ مافیا مزے میں ہے غریب عوام پریشان ہے
حیدرآباد میں ہوئی بھیانک بارش کی وجہ سے جو تباہی آ ئی ہے اس کے لئے کسی ایک کو موردِ الزام نہیں ٹہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے جہاں حکومت کی چشم پوشی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا وہیں عوام کی معصومیت کا بھی کچھ کم دخل نہیں ہے۔ تالاب کے پشتوں اور اس کے شِکم میں میں بلا تحقیق زمین خرید نا اور لاکھوں روپئے خرچ کر کے وہاں عالیشان عمار تیں تعمیر کر نا کو نسی عقلمندی ہے۔ اس تباہی میں جن غریب افراد کے گھر تباہ ہوئے اور جو بے یارو مددگار ہو گئے ہیں ان کو سر چھپانے کے لئے اب کوئی آسرا بھی باقی نہیں رہا۔ یہ لوگ اپنی زندگی کو نئے سرے سے کیسے شروع کریں گے یہ خود ایک بڑا سوال ہے۔ ان کا سب کچھ لُٹ چکا ہے۔ سب نے اپنی آنکھوں سے یہ دلخراش منظر دیکھے کہ بارش کے پانی سے زیادہ تالابوں میں شگاف پڑنے اور اس کے پشتے ٹوٹنے سے تباہی آئی ہے۔ اس کا جب تک کوئی مستقل بندبست نہیں کیا جائے گا یہ خطرہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ یہ بات خوش آ ئند ہے کہ ایسے ہولناک وقت شہر کی بہت ساری جماعتوں اور تنظیموں نے بارش سے پریشان حال لوگوں کی مدد کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ 13/ اکتوبر کی رات سے بارش نے اپنا جو غضب دکھایا اس کے بعد ہر طرف موت رقص کر رہی تھی، وحشت اور دہشت کے اس عالم میں خدمت خلق کے جذبہ سے سر شار نوجوانوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے متاثرہ افراد کی ہر طرح سے مدد کی۔ کسی نے کشتیوں کے ذریعہ انہیں پانی میں محصور علاقوں سے نکالا، کسی نے ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ کئی مقامات پر آبادیاں زیرِ آب آ نے سے لوگ شادی خانوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔ گذشتہ ایک ہفتہ سے انسانیت کی خدمت کا یہ سلسلہ جا ری ہے۔ ہر جماعت اور تنظیم حتی المقدور ریلیف کے کام میں لگی ہوئی ہے۔ جس سے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کر گزرہی ہے۔ انفرادی حیثیت میں بھی لوگ پریشان حال افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن سرکاری مشنری کو جس سرعت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینا چاہیئے اس کی کمی دیکھی جارہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ غریب لوگ اپنے زندگی کا آ غاز کہاں سے اور کیسے کریں۔ اس وقت ان کے چہروں پر غم سے زیادہ فکر اور پریشانی دیکھائی دے رہی ہے۔ جو لوگ موت کی نیند سو چکے ہیں ان کے لواحقین مرنے والوں کا کچھ دن غم کریں گے لیکن جو زندہ ہیں ان کے پاس زندگی گذارنے کے لئے کوئی ذرائع نہیں ہیں۔ وہ اپنے مخدوش گھروں کے سامنے یاس و حسرت کی ایک تصویر بنے کھڑے ہیں۔ خاص طور پر وہ متوسط طبقہ جو اس تباہی سے متا ثر ہوا ہے نفسیاتی طور پر کافی کمزور ہو گیا ہے۔ یہ طبقہ نہ کھلے عام مدد کے لئے ہاتھ پھیلا سکتا ہے اور نہ کوئی ان کی تکلیف کو محسوس کر کے ان کی مدد کرتا ہے۔ ایسے خوددار اور غیرت مند خاندانوں کا خا ص خیا ل رکھا جائے اور ان کی مدد کی جائے۔ 1594 میں بسائے گئے اس شہر پر تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑی بڑی مصیبتیں آ ئیں لیکن یہ شہر آباد رہا۔ 1908 کی طغیانی ہو یا 2020 کا یہ ہولناک منظر ہو اس سے گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ شہر زمانے کے تھپیڑے کھاتا ہوا اپنے قیام کی چار صدیاں پوری کر چکا ہے۔حیدرآباد کا موجودہ رقبہ سات سو مربع کیلو میٹر ہوچکا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی سترّ لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ حیدرآباد کا رقبہ دنیا کے 32خود مختار ممالک سے زیادہ ہے۔ جس رفتار سے آبادی بڑھی ہے اسی انداز میں شہر کی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھا جاتا تو آج یہ خطرناک صورت حال پیدا نہ ہوتی لیکن حکمرانوں نے اس شہر کی ترقی کو پسِ پشت ڈال دیا اور فطرت سے چھیڑ چھاڑ بھی کی۔شہر کے بسانے والے بادشاہ نے بارگاہِ یزدی میں یہ دعا کی تھی کہ: میرا شہر لوگاں سے معمور کر: یہ دعا قبول ہوئی اور آج ایک دنیا اس میں بستی ہے اور یہ شہر انشاء اللہ آباد رہے گا اور مصیبت کا یہ دور بہت جلد ختم ہوجائے گا۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share