ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
انسان گناہ کرسکتا ہے، مگر بہترین انسان وہ ہے جو گناہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرلے۔ سچی توبہ کے لئے گناہ پر نادم ہونے کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہونا چاہئے۔ سچی توبہ کے بعد بھی انسان غلطی کرسکتا ہے مگر ہمیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ لہذا ہمیں بار بار اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے۔ ہاں یہ ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ ایسی حالت میں ہماری موت نہ آجائے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہم سے ناراض ہو۔
بالی ووڈ ادا کارہ اور بگ باس 6 فیم ثنا خان کا فلم انڈسٹری کو الوداع کہنے کا اعلان یقینا اُس اللہ کے خوف کی وجہ سے ہے جس کے سامنے ہمیں بھی اپنی دنیاوی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔ ثنا خان اور اس سے قبل زائرہ وسیم کی فلم انڈسٹری سے توبہ جہاد سے کم نہیں کیونکہ سب سے اہم جہاد انسان کا اپنے نفس سے ہے۔ انسان عموماً شہرت اور دولت کا حریص ہوتا ہے، مگر ثنا خان نے دنیاوی وقتی شہرت اور دولت کے بجائے اخروی ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی کے حصول کے لئے یہ اہم فیصلہ لیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی توبہ پر موت تک قائم ودائم رکھے۔ ہم مبارک باد پیش کرتے ہیں بہن ثنا خان کو کہ انہوں نے دنیاوی چکاچوند والی زندگی چھوڑ کر تقوی اور پاکیزگی والی زندگی گزارنے کا اعلان کیا۔ بہن ثنا خان کی طرح ہماری عقلمندی بھی اسی میں ہے کہ ہم بھی اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کریں اور بے حیائی کے کاموں سے باز آجائیں۔ توبہ مستقل عبادت ہے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اگر گناہ کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے مثلاً نماز وروزہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا ان اعمال کو کرنا جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مثلاً شراب پینا اور زنا کرنا، تو توبہ کے لئے تین شرطیں ہیں: 1) گناہ کو چھوڑنا۔ 2) کئے گئے گناہ پر شرمندہ ہونا۔ 3) آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا۔ لیکن اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو ان تین شرطوں کے علاوہ مزید ایک اہم شرط ضروری ہے کہ پہلے بندہ سے معاملہ صاف کیا جائے، یعنی اگر اس کا حق ہے تو وہ ادا کیا جائے یا اس سے معافی طلب کی جائے۔ غرضیکہ بندوں کے حقوق کے متعلق کل قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا اصول وضابطہ بیان کردیا کہ پہلے بندہ کا حق ادا کیا جائے یا اس سے معافی طلب کی جائے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کے لئے رجوع کیا جائے۔
توبہ کے معنی لوٹنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے فرمانبرداری کی طرف لوٹنا شریعت اسلامیہ میں توبہ کہلاتا ہے۔ حقوق اللہ میں کوتاہی کی صورت میں توبہ کے صحیح ہونے کے لئے تین شرطیں اور بندے کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر توبہ کے لئے چار شرطیں ضروری ہیں۔ لہٰذا ہمیں جس طرح اللہ کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کرنا چاہئے، اسی طرح بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں ادنیٰ سی کوتاہی سے بھی بچنا چاہئے۔ بندوں کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر کل قیامت کے دن محسن انسانیت ﷺکے فرمان کے مطابق اعمال کے ذریعہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی جائے گی، جیساکہ فرمان رسول ﷺ ہے: میری امت کا مفلس شخص وہ ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا، مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حق داروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم)
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی بار بار ہمیں توبہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اختصار کے پیش نظر صرف دو آیات پیش ہیں:اے مؤمنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (سورۃ النور 31) اے ایمان والو! اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو۔ بہت ممکن ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہ معاف کرکے تمہیں جنت میں داخل کردے۔ (سورۃالتحریم 8) پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ توبہ کرنے والے کامیاب ہیں، دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ سچی توبہ کرنے والوں کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں اور ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! اللہ کی بارگاہ میں تم توبہ واستغفار کرو۔ میں دن میں سو سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ (مسلم) اسی طرح فرمان نبی ﷺ ہے: اللہ کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے ایک ایک دن میں ستر ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں۔ (بخاری) ہمارے نبی اکرم ﷺ گناہوں سے پاک وصاف اور معصوم ہونے کے باوجود روزانہ سو سو مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے، اس میں امت مسلمہ کو تعلیم ہے کہ ہم روزانہ اہتمام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں، اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے، جیسا کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص پابندی سے استغفار کرتا رہے (یعنی اپنے گناہوں سے معافی طلب کرتا رہے) اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنادیتے ہیں۔ ہر غم سے اسے نجات عطا فرماتے ہیں۔ اور ایسی جگہ سے روزی عطا فرماتے ہیں کہ جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (ابوداود)
سچے دل سے توبہ کرنے پر بڑے سے بڑے گناہوں کی بھی معافی:حدیث کی مشہور ومعروف کتابوں میں نبی اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے سنایا ہوا ایک واقعہ مذکور ہے: تم سے پہلی امت میں ایک آدمی تھا جو 99 آدمیوں کو قتل کرچکا تھا۔ اس نے کسی بڑے عالم دین کا پتہ دریافت کیا تو لوگوں نے اسے ایک (عیسائی) راہب کا پتہ بتایا۔ یہ شخص اس راہب کے پاس گیا اور کہا کہ میں 99 آدمیوں کو قتل کرچکا ہوں، کیا اب بھی میرے لئے توبہ کا امکان ہے؟ راہب نے کہا: نہیں۔ تو اُس شخص نے راہب کو بھی قتل کرڈالا اور اس طرح 100 قتل پورے کردئے۔ (لیکن وہ اپنے کئے ہوئے گناہ پر بہت زیادہ شرمندہ تھا اور اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنا چاہتا تھا۔) پھر لوگوں سے بڑے عالم دین کا پتہ دریافت کیا تو لوگوں نے اس کو ایک اور عالم کا پتہ بتایا۔ یہ شخص ان کے پاس گیا اور کہا میں سو آدمیوں کو قتل کرچکا ہوں، کیا اب بھی میرے لئے توبہ کا امکان ہے؟ اس نے کہا: ہاں، ضرور ہے۔ اور بھلا اللہ کے بندہ اور توبہ کے درمیان کوئی چیز رکاوٹ ہو سکتی ہے؟ تم فلاں بستی میں چلے جاؤ۔ وہاں اللہ کے کچھ نیک بندے اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہیں۔ تم ان کے ساتھ رہ کر اللہ کی عبادت میں مصروف ہوجاؤ۔ یہ شخص (توبہ کرکے) اس بستی کی جانب چل دیا۔ آدھا راستہ طے کیا تھا کہ موت آگئی۔ اس کی روح کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوچکا ہے، لہٰذا ہم اس کی روح لے کر جائیں گے۔ عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے ابھی تک کوئی نیک عمل نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ شخص رحمت کا مستحق نہیں ہے۔ اللہ کے حکم سے ایک فرشتہ انسانی شکل میں ان کے سامنے آیا۔ دونوں فریق نے اس کو اپنا حکم بنالیا۔ اس انسان نمافرشتہ نے کہا کہ دونوں سرزمینوں (گناہ کی بستی اور عبادت کی بستی) کی پیمائش کرلو، جس علاقہ سے یہ قریب ہو اسی علاقہ کے لوگوں میں شامل کردو۔ چنانچہ انہوں نے زمین کی پیمائش کی، اُس علاقہ سے قریب تر پایا جس میں عبادت الٰہی کے ارادہ سے وہ جارہا تھا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے بدکاری کی سرزمین کو حکم دیا کہ تو دور ہوجا اور نیکوکاری کی سرزمین کو حکم دیا کہ تو قریب ہوجا،اور اس طرح نیکی کی سرزمین ایک بالشت قریب نکلی چنانچہ اس کی مغفرت کردی گئی۔
اس واقعہ کی تایید قرآن وحدیث سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ الزمر آیت 53 میں ارشاد فرماتا ہے: کہہ دو کہ ”اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کررکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتاہے۔ یقینا وہ بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔“ فرمان رسول ﷺہے: اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ دن میں گناہ کرنے والا رات کو توبہ کرے اور دن کو اپنا دست قدرت پھیلاتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے والا دن کو توبہ کرے۔ (مسلم) اللہ تعالیٰ دنیا میں شرک جیسے بڑے گناہ کو بھی سچی توبہ کرنے پر معاف کردیتا ہے۔ لہٰذا ہمیں گناہوں کی کثرت کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، لیکن فرمان رسولﷺ (عقلمند شخص وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرتا رہے اور مرنے کے بعد کے لئے عمل کرتا رہے۔اور بے وقوف شخص وہ ہے جو اپنی خواہش پر عمل کرے اور اللہ تعالیٰ سے بڑی بڑی امیدیں باندھے) (ترمذی وابن ماجہ) کے مطابق ہمیں گناہ کرنے کی جرأت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ توبہ کی توفیق ملنے سے قبل ہی ہماری روح جسم سے پرواز کرجائے۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وقت بھی معاف کرنے کے لئے تیار ہے، لہٰذا فوراً گناہوں سے معافی مانگ کر اچھائیوں کی طرف سبقت کریں۔ کل، جمعہ یا رمضان پر اپنی توبہ کو معلق نہ کریں۔ بلکہ ابھی گناہوں سے بچ کر اپنے کئے ہوئے گناہوں پر شرمندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں۔ ان شاء اللہ ہمارے بڑے بڑے گناہوں کو بھی اللہ تعالیٰ معاف کرنے کے لئے تیار ہے۔ اگر توبہ سے قبل ہماری روح ہمارے جسم سے دور ہونے لگے تو پھر خون کے آنسو بہانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر ہم نے بندوں کے حقوق میں کوتاہی کی ہے تو پہلی فرصت میں حقوق کی ادائیگی کرکے یا معافی طلب کرکے بندے سے اپنا معاملہ صاف کرلیں ورنہ قیامت کے دن اعمال کے ذریعہ حقوق کی ادائیگی کی جائے گی جیساکہ ہمارے نبی نے بیان کیا ہے۔ جہاں تک دنیاوی زندگی میں مشغولیت کا تعلق ہے تو ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر انسان کو ایک وادی سونے کی مل جائے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو قبر کی مٹی ہی بھرے گی اور توبہ کرنے والے کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے۔ (بخاری ومسلم)
بڑے بڑے گناہوں سے مستقل توبہ کرنا ضروری ہے، اگرچہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مغفرت کے لئے استغفار پڑھنا بھی کافی ہے۔ اسی لئے علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ ہمیں ہر نماز کے بعد اور صبح وشام استغفار پڑھنا چاہئے۔ انسان کے ساتھ شیطان، اپنا نفس اور معاشرہ لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے انسان گناہ سے سچی توبہ کرنے کے باوجود اس گناہ کو دوبارہ کر بیٹھتا ہے، لیکن انسان کو ہمیشہ اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ توبہ کرتے رہنا چاہئے اور اس بات کی دن رات فکر کرنی چاہئے کہ فلاں گناہ سے کیسے نجات حاصل کی جائے، جیسا کہ مذکورہ بالا واقعہ میں 99 قتل کرنے کے بعد وہ شخص سچے دل سے توبہ کرنا چاہتا تھا۔ اگر گناہ سے بچنے کا پختہ ارادہ ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس شخص کو گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔