ڈاکٹر سید احمد قادری
سر سید احمد خاں (17/ اکتوبر 1817ء۔ 27 / مارچ 1898ء)نے ایک بڑی اور معیاری یونیورسٹی کا جو خواب کبھی دیکھا تھا، اس خواب کی تعبیر کے لئے انھوں نے1875ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی داغ بیل ڈالی تھی اور جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا تھا۔اس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو تعلیم کے میدان میں تاریخ ساز کارناموں کے لئے عالمی شہرت حاصل ہے۔
سر سید احمد خاں کی اس عظیم دانش گاہ سے کیسی کیسی اہم اور معتبر شخصیات نے سیاسی، سماجی، سائنسی، صحافتی، ادبی، کھیل کود اور فلموں کے میدان میں اپنی قابلیت و صلاحیت سے شناخت قائم کی،ایسی شخصیات کی بہت لمبی فہرست مرتب کی جا سکتی ہے ۔پھر بھی مختلف میدان عمل کے چند نام بے اختیار ذہن کے پردے ابھرتے ہیں۔ان میں سیاست کی دنیا کے درخشاں نام خان عبدالغفار خاں،شیخ محمد عبداللہ، ایوب خان، فضل الٰہی چودھری،خواجہ ناظم الدین،لیاقت علی خاں، ملک غلام محمد، محمد امین دیدی،محمد منصور علی، ذاکر حسین،محمد حامد انصاری،رفیع احمد قدوائی صاحب سنگھ ورما وغیرہ ان کے علاوہ ادب، صحافت آرٹ،تاریخ،فلم،اسپورٹس وغیرہ کے میدان عالمی شہرت رکھنے والے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغین میں سعادت حسن منٹو، اسرارا لحق مجاز،راہی معصوم رضا، ظفر علی خاں (زمیندار)، خواجہ احمد عباس، علی سردار جعفری،حبیب تنویر،مظفر علی، نصیر الدین شاہ،جاوید اختر،عرفان حبیب،اشوری پرساد،دھیان چند،لالہ امر ناتھ، ظفر اقبال وغیرہ جیسی اہم اور نامور ہستیوں نے پوری دنیا میں سر سید کے خواب کو پورا کرنے میں کامیاب رہے۔ایک یونیورسٹی کی اتنی بڑی اور تاریخی کامیابی دیکھنے کے بعد اور عہد حاضر میں مسلمانوں کی زبوں حالی کے بڑھتے تلخ حقائق کے منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے اس امر کا احساس شدت سے ہو رہا ہے کہ کاش مغل حکمراں، اس ملک کے اندر بڑی بڑی تاریخی عمارتوں کی بجائے اپنے عہد میں سر سید کی طرح مدارس، درس گاہ یا دانش گاہوں کی تعمیر کراتے،تو اس وقت یہاں کے مسلمان جس طرح تعلیم کے معاملے بہت پیچھے چھوٹتے جا رہے ہیں، شائد ایسا نہ ہوتا۔ ایسے حالات میں سر سید کی ایسی شاندار کوششوں کی جتنی تعریف کی جائے اورجس قدر شکر گزار ہوا جائے، وہ بھی بہت کم ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سر سید احمد خاں نے غیر منقسم بھارت کے مسلمانوں کو بہتر تعلیم کی جا نب متو جہ کرانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنے اس اہم مقصد کے حصول کے لئے وہ تحریر و تقریر کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں ایک بڑی تعلیمی تحریک لے کر اترے اور بڑی مخالفتوں کے باوجود انھوں نے ہمّت ہاری اور نہ ہی اپنا حوصلہ کھویا۔ سخت آزمائشوں سے گزرتے ہوئے،اپنے جنون اور جد و جہد سے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئے، جن کی بدولت ملک و بیرون ممالک کے مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان بڑھا اور وہ نہ صرف باوقار زندگی گزارنے کے لائق ہوئے بلکہ اپنے تشخص اور اپنی پہچان بنانے میں بھی کامیاب ہوئے ۔ سر سید کا قائم کردہ اس قدیم تعلیمی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اپنی ایک شاندار تاریخ ہے۔اس کے ماضی کے اوراق پلٹیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ مغل حکومت کا خاتمہ، ان کی پسپائی، انگریزوں کا بڑھتا تسلط اور خاص طور پر ملک کے مسلمانوں پر جبر واستبداد، اس دور کے لئے لمحہئ فکریہ تھا۔ یہاں کے مسلمانوں کے حوصلہ، جرأت، ہمّت، وقعت اور عزت وناموس کو انگریزوں نے ان سے اقتدار چھین کر پارہ پارہ کر دیا تھا۔ایسے حوصلہ شکن اور ناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ ان کا تدارک کن نہج پر ہو۔ ان امور پر امّت مسلّمہ کے لئے درد رکھنے اور فکر کرنے والے دانشور، مدبر اور محب وطن پریشان تھے اور وہ ان مشکل حالات کا سامنا کرنے کے لئے اپنے اپنے افکار وخیالات اور لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ سامنے آئے۔ ان میں سر سید احمد خاں کا نام نمایاں تھا۔ ان کے دل ودماغ میں انسانی درد اور فلاح امّت مسلّمہ کے احساسات و جزبات سے بھراتھا اور وہ ملک کے مسلمانوں کے بہترمستقبل کے لئے بے حدفکر مند تھے اور کچھ کر گزرنے کے لئے وہ بے چین تھے۔ سر سید کی دور اندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اگر یہی نا مساعد حالات رہے تو یہاں کے مسلمانوں کا مستقبل کس قدر تاریک اور بے وقعت ہوگا۔ اس فکرکے تحت وہ مسلمانوں کے لئے عصری تعلیمی مشن کو لے کرعملی میدان میں آئے اور بہت ساری مخالفتوں کے باوجود وہ اپنے تعلیمی مشن کو لے کر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن جس طرح سے اس زمانے میں ان کے اس تعلیمی مشن کی مخالفت ہو رہی تھی اس وقت سر سید کے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ عوام تک اپنے اس تعلیمی مشن کے افکار و خیالات کی دور تک رسائی کے لئے بہترین ذریعہ صحافت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے خاردار اور پر خطر راستے کا انتخاب اپنے ابتدائی دور میں ہی کیا اور بھارت کے مسلمانوں کو تعلیمی، معاشرتی اور تہذیبی طور پر ایک مکمل اور بہتر طرز زندگی کی جانب راغب کرانے کے لئے نیز ان کی معاشی بدحالی دور کرنے، سیاسی و سماجی شعور پیدا کرنے اور سماجی پسماندگی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کھوئے ہوئے وقار وعظمت کو بحال کرنے کے مقصد اور مشن کو کامیاب بنانے کے لئے صحافت کا بھی سہارا لیا۔
ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ کوئی بھی شخص جب کوئی بڑے منصوبہ اور مقصد کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے بہت سارے مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ اپنے ان خاص مقاصد کے حصول کے لئے سر سید نے جنوری 1864 ء میں ”سائنٹفک سوسائیٹی“ غازی پور میں قائم کی۔ پورے دو سال تک اپنی سرگرمیوں کو بڑھانے کے بعد 1866 ء میں اسی نام سے ایک اخبار علی گڑھ سے جاری کیا۔ چونکہ سر سید کو انگریزی اور اردو کو ساتھ لے کر چلنا تھا اور دونوں ہی زبان کے لوگوں کو مخاطب کرنا تھا، اسی لئے اس کا دوسرا نام”علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ“ رکھا۔ اس میں ایک کالم اردو اور دوسرا انگریزی میں ہوتا تھا ابتدأ میں یہ ہفتہ وار تھا، لیکن بعد میں یہ سہ روزہ ہو گیا۔
اس طرح اب ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ سر سید نے تعلیمی،سماجی، اور معاشرتی تبدیلی کا سفر، صحافت سے کیا اور ایک طرف جہاں انھوں نے اپنے گہرے مطالعہ ومشاہدہ اور تجربہ سے اردو صحافت میں گرانقدر اضافے کئے، وہیں دوسری جانب سر سید کو اردو صحافت نے ان کے مقاصد کے حصول اور ان کے افکار ونظریات کی تبلیغ وترسیل کے لئے راہ ہموار کیا۔ سر سیدنے اپنے دونوں اخبارات میں ہمیشہ تعلیمی مسئلے کو فوقیت دی۔جس کے بین ثبوت ان کے وہ ادارئے ہیں۔ جن میں انھوں نے بڑے خوبصورت اور سلیس انداز میں اپنی باتوں کو پیش کرتے ہوئے لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کی چند مثالیں دیکھئے…..
” افسوس ہے کہ بنگالہ کے مسلمانوں نے جو تدبیر مسلمانوں کی ترقی کی اختیار کی ہے۔ اس سے ہم کو اختلاف کلی ہے۔ ان کی تدبیر، جس پر وہ مختلف طریقوں سے زور دے رہے ہیں۔ یہ ہے کہ گورنمنٹ کی مسلمانوں کے لئے خاص رعایت مبذول ہو۔ سابق میں بھی اس مطلب سے انھوں نے بہت زبردست درخواست پیش کی تھی، اور حال میں نواکھالی کے مسلمانوں نے اس قسم کی درخواست پیش کی ہے۔ ہم اس تدبیر کو پسند نہیں کرتے…ہمارا اصول“سلف ہیلپ“ پر مبنی ہے۔ ہم چاہتے ہیں مسلمان خود اپنی ترقی کے لئے آپ کوشش کریں“۔
(Eminent Mussalmans page-15)
”میری یہ سمجھ ہے کہ ہندوستان میں دو قومیں ہندو اور مسلمان ہیں اگر ایک قوم نے ترقی کی اور دوسری نے نہ کی تو ہندوستان کا حال کچھ اچھا نہیں ہونے کا۔ بلکہ اس کی مثال ایک کانڑے آدمی کی سی ہوگی۔ لیکن اگر دونوں قومیں برابر ترقی کرتی جاویں تو ہندوستان کے نام کو بھی عزت ہوگی اور بجائے اس کے کہ وہ ایک کانڑی اور بڈھی بال بکھری، دانت ٹوٹی ہوئی بیوہ کہلاوے، ایک نہایت خوبصورت، پیاری دلہن بن جاوے گی“۔
(اخبار ’سائنٹفک سوسائٹی، علی گڑھ، 3 /جون1873ء)
”جو تعصبات کہ آپس کی محبت اور ارتباط کے مخل ہوتے ہیں ان کو دور کرے اوران کے دلوں میں ایسا عمدہ کرے کہ وہ تمام قوم جسمانی بلکہ روحانی بھلائی و بہبودی کے بڑے بڑے کاموں میں اپنے آپ کو بھائی بھائی سمجھیں“۔
( سائنٹفک سو سائیٹی، علی گڑھ ، 19/ اپریل ٗ1867 ء)
سر سید کے تحریر کردہ اداریوں کے یہ اقتباسات سر سید کی ذہانت،دانشوری، دوراندیشی اور ان کے نظریات و خیالات کے مظہر ہیں اور ہر اداریہ ایک طویل تشریح و تفسیر کا متقاضی ہے۔ سر سید نے بھارت کے مسلمانوں کوکامل درجہ کی تہذیب اختیار کرنے، ان کا شمار دنیا کی معزز اور مہذب قوموں میں کرانے کے خاص مقصد کے تحت24 / دسمبر 1875 ء سے ایک رسالہ بھی نکالا تھا۔ اس کے بھی دو نام تھے، اردو میں ”تہذیب الاخلاق“ اور انگریزی میں ”دی محمڈن سوشل ریفارمر“۔ ان رسالوں کے مختلف شماروں میں ایسے ایسے اہم، بامقصد اور مؤثر مضامین شائع ہوئے کہ بعض ناعاقبت اندیشوں کی نیندیں حرام ہونے لگیں اور ”تہذیب الا خلاق“ کی بڑھتی مقبولیت اور کامیابی کی جانب بڑھتے ہوئے سر سید کے قدم نے قدامت پسند لوگوں اور سر سید کے مخالفوں کی نیندیں اڑا دیں۔سر سید کی رہنمائی میں بڑھتے تعلیمی کارواں کے سامنے انھیں اپنا وجود خطرہ میں نظر آنے لگا تھا۔ لیکن الطاف حسین حالی جیسی جید شخصیت، جوسر سید کی تحریر و تحریک کی بڑی مداح تھی۔ ’ انھوں نے ’تہذیب الا خلاق“ کی اشاعت کے بعد اس کی بڑھتی مقبولیت اور مخالفت کو دیکھتے ہوئے لکھا تھا کہ ’اس کی اشاعت کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہے کہ ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ قائم ہو گیا، جو آج تعلیم کا سب سے بڑا مرکز بن کر ’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ کے نام سے ہمارے سامنے ہے‘۔
اس مختصر جائزہ کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سر سید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کر بھارت کے مسلمانوں کے اندر تعلیمی صلاحیت اور لیاقت پیدا کر، نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیاب ہونے بلکہ سماجی، سیاسی اور معاشرتی و تہذیبی اقدار کو سمجھنے اور عمل کرنے کا رجحان بھی پیدا کیا ہے۔ یہ سر سید کی ہی دین ہے ملک کے کئی گوشوں میں سیر سید کی طرز پر تعلیمی مراکز کا قیام عمل میں لا کر مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر، ان کے اندر خود اعتمادی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ جو دِل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ سر سید کی قائم کردہ یونیورسٹی نے جس طرح یہاں کے مسلمانوں کو تعلیمی، سماجی، معاشرتی اور سیاسی شعور اور فہم و ادراک پیدا کر باوقار زندگی گزارنے کا جو حوصلہ دیا ہے۔ اس سے بعض متعصب او رفرقہ پرست لوگوں کی پریشانیاں بڑھی ہوئی ہیں۔ اس یونیورسٹی کی مخالفت وہی لوگ زیادہ کر رہے ہیں، جو منظم اور منصوبہ بند سازش کے تحت یہاں کے مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈال کر انھیں تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر بے وقعت اوربے دست و پا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ سر سید کاتعلیمی مشن کبھی ختم نہیں ہوگا اور سر سید کے تعلیمی مشعل کی روشنی دور بہت دور تک نسل در نسل پہنچتی رہے گی، جن سے امت مسلمہ ہمیشہ فیضیاب ہوتی رہے گی اور سر سید کے دیکھے ہوئے خواب کی نئی نئی تعبیر یں سامنے آتی رہینگی۔
Contact No. 8969648799