ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
میں تیرا نام بتا دیتا ہوں — جو بھی خوشبو کا پتہ مانگتا ہے
ممتاز دانش ور ،لسانیات ،تدریس ،عمرانیات ،تاریخ اور اردو ادب کے یگانۂ روزگار فاضل پروفیسر عصمت اللّه خان نے ٩/ جولائی 2011ء کو زینہ ٔہستی سے اُتر کرعدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لیا ۔بے لوث محبت ،بے باک صداقت ،انسانی ہمدردی اور خلوص و مروّت کا ایک یادگار عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔علمی و ادبی تحقیق و تنقیدکی درخشاں روایات کا علم بردارفطین ادیب ہماری بزمِ وفا سے کیااُٹھا کہ وفا کے سب افسانوں سے وابستہ تمام حقائق خیال و خواب بن گئے ۔اس کے سیکڑوں مداح ہزاروں عقیدت مند اور لاکھوں شاگرد اس یگانہ ٔ روزگار فاضل کی دائمی مفارقت کی خبر سُن کر سکتے کے عالم میں آ گئے ۔
خان عصمت اللّه خان کا شمارحریت فکر و عمل کے ان مجاہدوں میں ہوتا تھا جنھوں نے زندگی بھر حرفِ صداقت لکھنا اپنا دستور العمل بنایا۔ ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر سے اُسے شدید نفرت تھی۔ انسانیت کی توہین،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کے مر تکب زمین کے ہر بوجھ پر لعنت بھیجنا اس کا شعار تھا ۔ مصلحت اندیشی کے بجائے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند رکھنے والے اس جری ادیب نے ہمیشہ لفظ کی حرمت کوملحوظ رکھا اور فسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا ۔۔نامور مقرر ، پیکر خلوص و محبّت ، لا جواب منتظم اور صاحب طرز ادیب پروفیسر عصمت اللّه خان کا شمار ایسی یگانہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن پر اظہار خیال کرتے ہوۓ قلم فخر محسوس کرتا ہے ۔ان کا سینہ بے کینہ علم کا دفینہ تھا ۔وہ ایک ممتاز شاعر اور جری ادیب تھے اور سب سے بڑھ کر ایک شائستہ اور مخلص انسان تھے مگر دشمن بنانے کے فن سے نا آشنا تھے ۔۔انہوں نے ہمیشہ دوست بنائے ۔دشمنوں اور دشمنی سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا ۔۔وہ پیار کرنے انسان تھے ۔۔۔محبّت اور انسان دوستی ان کا مسلک تھا ۔۔
پروفیسر عصمت اللّه خان ‘ پولیس انسپکٹر شوکت علی خان کے گھر مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر کے مقام بدایوں میں 15/ستمبر 1940ء کو پیدا ہوۓ ۔۔عصمت اللّه خان نے اپنی ابتدائی تعلیم ہندوستان کے ایک ماڈل اسکول سے حاصل کی ۔۔قیام پاکستان کے بعد گورنمنٹ پاکستان ماڈل ہائی سکول ریل بازار فیصل آباد (لائل پور)میں داخلہ لیا لیکن کچھ عرصہ بعد ایم سی ہائی اسکول کوتوالی روڈ فیصل آباد کو اپنی مادر علمی بنا لیا یہاں سے میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ اسلامیہ کالج لائل پور میں زیور تعلیم سے آراستہ ہوۓ۔۔اردو ادب سے گہری محبّت کی وجہ سے انہوں نے ایم-ا ے اردو کا امتحان پاس کیا ۔پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔۔یہ سب بہن بھائی ایم- اے اردو کرنے کے بعد اردو کی پہچان بنے اور اردو ہی ان کی پہلی اور آخری محبّت ٹھہری ۔۔ان کے گھر دوست و احباب اور مشاہیر کا آنا جانا لگا رہتا تھا ۔۔یوں گھر دبستان ادب ٹھہرا ۔۔جہاں شعر و سخن کی محفلیں بپا ہوتی رہیں اور بات سے بات نکلتی رہی ۔۔۔۔۔صغیر سنی میں ہی معروف اور قدیمی درسگاہ گورنمنٹ کالج لائل پور میں لیکچرر اردو تعینات ہوۓ اور تمام زندگی یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہاں پر Good bye Mr.Chips کے کردار Chips کی عملی تصویر بنے اور پنجاب کے اس دوسرے بڑے قدیم تعلیمی ادارے میں تین پستوں کے استاد رہے ۔۔۔38/ سال یہیں گرار کر ایک نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ قائم کیا ۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں پروفیسر عصمت اللّه خان کی تدریسی و تنظیمی خدمات کا دائرہ (11-10-1962—14-09–2000)) 38 سالوں پر محیط رہا ۔۔اور یہ خدمات انہوں نے بطور "استاد” ،سٹاف سیکرٹری ، وائس پرنسپل ،بیڈ منٹن انچارج ،منتظم ڈبیٹر،مقرر ،افسانہ نویس ،کالم نگار ،شاعر ، ادیب ،کمنٹیٹر ، ایڈیٹر ،پبلیشر مجلہ "روشنی "،تمام ادبی و دیگر تقریبات کی جان اور محفل میں کشت زعفران بن کر انجام دی ہیں ۔۔وہ مائیک اور سٹیج کے بادشاہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔جلسہ تقسیم انعامات ہو ، آٹھ دسمبر کا فنکشن ہو ،سالانہ سپورٹس کا جلسہ ہو ، کالج کانووکیشن انعقاد پزیر ہو ، مقابلہ حسن قرآت و نعت ہو ، سیرت کانفرنس ہو ۔۔۔۔۔۔مائیک پوری سج دھج کے ساتھ ہمیشہ پروفیسر عصمت اللّه خان کے ہاتھ میں ہی رہتا تھا ۔۔۔اور اس کا حق بھی انہوں نے خوب ادا کیا ۔۔۔۔۔پروفیسر عصمت اللّه خان کے شب و روز گورنمنٹ کالج فیصل آباد پر قربان رہے ہیں ۔۔۔۔خاص ایام میں بعض اوقات صبح ، دوپہر ،شام ، رات متواتر وہ کالج کیمپس میں موجود پاۓ جاتے تھے ۔۔کالج کے سالانہ فنکشنز میں وہ بڑی ریاضت سے کام لیتے تھے ۔۔۔۔۔سٹیج ،ڈائس، ہال اور پنڈال کی آرائش و زیبائش پر ان کی خاص نظر ہوتی تھی ۔۔۔
ڈاکٹر پروفیسر قاری محمّد طاہر اپنے ایک مضمون میں پروفیسر عصمت اللّه خان کے اوائل زمانہ کے بارے میں رقم طراز ہیں۔ ۔
” گورنمنٹ کالج ابھی گورنمنٹ کالج ہی تھا یہاں اقبال ہال تھا،نہ قائداعظم ہال ، نہ تکبیر بلاک، کھلے کشادہ گراؤنڈ ،کلاسیں کمروں کے بجائے درختوں ٹالیوں کے نیچے لگتی تھیں اور واقعی لگتی تھیں ۔۔۔بھلے وقتوں کی بات ہے کہ کالج کی فٹ بال گراؤنڈ میں ایک درخت کے نیچے طلبہ کا گروپ سرجھکائے بیٹھا تھا۔ایک نوجوان سامنے کھڑا کبھی کتاب پر دیکھتا ،کبھی طلبہ کی طرف ۔ لہٰذا سامنے سے گزرتے ہوئے ایک نوجوان نے اپنے ساتھی سے کہا” کمال ہے کہ کلاس کا مانیٹر ہی کلاس کو پڑھا رہا ہے "۔۔۔ساتھی بولا! بے وقوف فرسٹ ایئر فول "۔۔۔کالج میں مانیٹر نہیں ہوتے ۔۔دوسرا لڑکا بولا اگر مانیٹر نہیں ہوتے تو اس قسم کے لڑکے کو ہم پروفیسر نہیں کہہ سکتے ۔۔۔بتانے والے نے بتایا کہ یہ کلاس مانیٹر نہیں’ نئے لیکچرار ہیں اور اردو پڑھاتے ہیں ۔۔۔ان کا نام عصمت اللہ خان ہے ۔”
پروفیسر عصمت اللہ خان اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک چلتی پھرتی یونیورسٹی کے علاوہ اپنی اعلی وصف داری ، خوش گفتاری اور خوش لباسی کا مرقع تھے ۔۔
بقول حفیظ جالندھری؛
تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے ، دو چار برس کی بات نہیں
گورنمنٹ کالج فیصل آباد (فیصل آباد) کے در و دیوار’ ان کی بصیرت ، پر خلوص شخصیت اور علمییت کے شاہد ہیں ۔۔شہر فیصل آباد کا شاید ہی کوئی پڑھا لکھا شخص ہو جو ان سے نا واقف ہو ۔۔۔۔دوستوں کے دوست ، حتی کہ اپنے بچپن کے دوستوں سے ناطہ نہ توڑنا ان کا وصف خاص تھا ۔۔عصمت اللّه خان کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ پہلی ہی ملاقات میں ملنے والے کا من باتوں میں موہ لیتے تھے ۔۔کردار کے پختہ تھے اس لیے دوسروں کے دل کا سودا کرتے تھے لیکن اپنا دل کبھی کسی کے حوالے نہیں کرتے تھے ۔۔یہی وجہ تھی کہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے ہر گروپ کا ہر فرد پروفیسر عصمت اللّه خان کو اپنا سمجھتا تھا ۔اور ان سے محبّت کرنے لگ جاتا تھا ۔۔۔۔خان عصمت اللّه خان کے مداحین کی ایک بڑی کھیپ سرمایہ داروں کی بھی تھی ۔۔
ادب ،تاریخ ،معاشرت ، تہذیب ،واقعات عالم اور دینی معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے ۔۔پروفیسر عصمت اللّه خان نے اسلامیہ کالج لائل پور سے رول آف آنرز حاصل کیا تھا۔ فن تقریر میں اتنے باکمال اور چوق و چوبند اور حاضر دماغ کہ ان کو سننے کے لیے لوگ بیتاب رہتے ۔۔ان کا گھر مختلف ٹرافیوں اور انعامی کتب سے بھرا ہوتا تھا ۔۔اپنے زمانہ درس و تدریس میں وہ گورنمنٹ کالج لائل پور میں بیڈ منٹن کے انچارج رہے ۔ضلعی ڈویژنل اور پنجاب سطح پر عہدے دار بنے اور Trip incharge بھی رہے اور طلبا کا ٹؤر (Tour) کروانے بنگلہ دیش تک بھی گئے ۔۔ان کے ان گنت شاگرد پاکستان اور بیرون ممالک تک پھیلے ہوۓ ہیں ۔۔
طبیعت میں سادگی اور درویشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔بظاہر مغربی لباس پہنا کرتے تھے مگر قلب و نظر حرمین و شریفین تک محدود رہتا تھا ۔۔ذکر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا تو ان کی آواز بھر آتی تھی۔اور آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں ۔
نثر نگاری آپ کا میدان خاص رہا ۔آعلیٰ پاۓ کے انشاء پرداز اور کالم نگار مگر کتابیں چھپوانے کی جستجو پروان نہ چڑھ سکی ورنہ کئی کتب کے مصنف ہوتے ۔۔
زندگی اس ڈھب سے گزاری کہ پچھتاوا کا لفظ کبھی استعمال نہیں کیا ،۔۔زندگی کے بیسیوں موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا ملکہ تھا اور بڑی معنی خیز اور چشم کشا باتیں سننے کو ملتی تھیں ۔۔
اپنے ایک انٹرویو میں قیام پاکستان کے وقت مسلم آبادی میں تعلیم کی صورتحال کے بارے میں پروفیسر عصمت اللہ خان مرحوم یوں کہتے تھے ۔۔
"”مسلمان طلباء سکولوں میں نہ ہونے کے برابر تھے مثلا ہمارے اسکول میں ہیڈ ماسٹر اور ایک تاریخ کے استاد مسلمان تھے۔۔میں اپنی کلاس میں مسلم طالب علم تھا باقی سبھی ہندو یا سکھ طالب علم تھے۔۔تعصب اقربا پروری کے جرائم ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے ہمارے کنوؤں سے تو وہ پانی پی سکتے تھے مگر ہماری کیا مجال تھی کہ ہم ان کے کنوؤں کے قریب بھی جا سکیں ۔۔ مگر ہماری زندگانی سے وہ لوگ متاثر تھے ۔میرے استاد اشرفی لعل کہتے تھے کہ مسلمان سے اچھا کریکٹر کسی کا ہو ہی نہیں سکتا۔افسوس ہم نے وہ گوہر بھی کھو دیا اور بیسیوں خرافات ہمارے اندر داخل ہو گئیں جو سرا سر غیر اسلامی ہیں””
۔ہمارا نظام تعلیم طالب علموں میں نظریہ پاکستان کی افادیت اور مقصدیت اجاگر کر سکا ہے یا نہیں کے جواب میں وہ بڑے کرب سے کہا کرتے تھے ۔
” ہم نے تو تعلیم کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے۔ہر سال نصاب سازی ہو رہی ہے ۔اس میں تغیروتبدل ہوتا رہتا ہے۔ حکومت کی کبھی کوئی پالیسی، کبھی کوئی ، آج تک یہ اصول وضع نہ کر سکے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور نوجوان نسل کی کس انداز میں ذہن سازی کرنا ہے۔””
پروفیسر عصمت اللہ خان فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں چودہ اگست کی اہمیت و افادیت کا علم ہی نہیں ہے ،جب ہم چھوٹے تھے تو یہ دن باقاعدہ منایا جاتا تھا لڈو بانٹے جاتے تھے۔ سخت گرمی میں بھی جذبہ شوق ماند نہ پڑتا تھا ۔محب پاکستان میں سب لوگ یک زبان تھے ۔ایک ہی سلوگن ہندوستان میں گونجتا تھا۔
” لے کے رہیں گے پاکستان ۔۔۔۔بن کے رہے گا پاکستان "
پروفیسر عصمت اللّه خان کہا کرتے تھے کہ 1947ء کے واقعات یاد آتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھوں سے اشکوں کی بارش شروع ہو جاتی تھی اور آواز بھر آتی تھی ۔۔۔۔ہجرت کے حوالے سے وہ کہا کرتے تھے کہ مرد و زن اور بچوں کے جسم دیکھے ۔عورتوں کی بے حرمتی دیکھی۔ وہ دن جب یاد آتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے پروفیسر عصمت اللہ خان بڑے کرب سے بتایا کرتے کہ ہر سال 14 اگست کو میں تو سو نہیں سکتا ہم نے قائد اعظم کو بھلا دیا ہم نے ان کی خدمات اور قائدانہ صلاحیتوں کو فراموش کر دیا ۔۔۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے گھر میں قائد اعظم کی قد اور تصویر لگی ہوئی ہے کہ آپ نے کسی اور گھر میں ایسی تصویر دیکھی ہے ،ہم بھول گئے ہیں ۔اپنے سبق کو ۔۔ ہم نے قرآن و حدیث کا مطالعہ نہیں کیا ۔اسلام سے دوری کی ہمیں سزا مل رہی ہے، ہم نے اسلام کی محدود اور غلط تعبیریں کیں ۔۔اسلام صرف ماننے کا نام نہیں بلکہ اس میں پورے کے پورے داخل ہونے والے کو ہی علم کہتے ہیں ۔۔۔۔یہ پرہیزگاری کا نام ہے لیکن ہمارے ہاں انداز تبدیل ہو گیا ۔۔جھوٹ فیشن بن گیا ۔۔دغا بازی عادت بن گئی ۔۔۔کرپشن ہماری رگوں میں سرایت کر گئی ۔۔۔اگر کوئی آپ کی جیب سے پرس نکال لے اور آپ اسے دیکھ لیں تو وہ الٹا کہے گا کہ میں تو آپ کے ساتھ مذاق کر رہا تھا ۔”
پروفیسر عصمت اللّه خان نے اپنے ایک انٹرویو میں ایک سوال کہ جوانی سے آج تک آپ کو کیا تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں” کے جواب میں کہا تھا کہ ۔۔۔
” کہ میرے والد گرامی کی عمدہ ملازمت کی وجہ سے آسودگی اور آسائش بہت دیکھی ۔۔۔پھر تنگی کا دور دورہ ہوا ، جس کو آج تک محسوس کر رہا ہوں ۔۔پھر ایک بزرگ نے دعا دی کہ ” خدا تجھے اتنا دے کہ رکھ رکھ کر بھول جاۓ ۔۔۔۔۔اب اسباب کا انبار ہے ، پاکستان نے ہمیں نہال کر دیا لیکن ہم لوگوں نے پاکستان کو بے حال کر دیا ۔””
ہر مکتبہ فکر بزرگان سے بھی ان کے روابط رہے ۔مولانا سردار احمد صاحب ، مفتی یونس صاحب ،محمّد صدیق ،مفتی سیاح الدین کاکا خیل سے ان کی ملاقاتیں رہیں ہیں ۔۔
اپنے اساتذہ کے بارے میں پروفیسر عصمت اللّه خان یوں کہا کرتے تھے کہ میرے اساتذہ تو بہت ہیں ۔۔اسکول ایام میں چراغ حسن ، چودھری محمّد حسین ، سید حاکم علی ،نے بڑا متاثر کیا ۔۔حاکم صاحب اس زمانے میں دس روپے میں ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے ۔۔۔میرا دل چاہا کہ میں بھی ان سے ٹیوشن پڑھوں مگر رقم نہ تھی ۔۔۔۔استاد جی سے ذکر۔ کیا تو فرمانے لگے تم سے پیسے کس نے مانگے ہیں ؟ یوں مفت میں مجھے پرھاتے رہے ۔۔بلکہ اپنی گرہ سے چنے اور گڑ بھی کھلاتے رہے کہ اس سے طاقت آتی ہے ۔””
پروفیسر عصمت اللّه خان بڑے کرب سے لمبی آہ بھر کر کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد لوگوں کی نیتیں خراب ہو گئیں ۔۔۔۔اب دولت کی ریل پیل ہے مگر ہم نے ناشکری کی انتہا کر دی ہے ۔۔سچی بات کہتے ہوۓ خوف آتا ہے بلکہ بسا اوقات ہم ڈر کے مارے خاموش ہو جاتے ہیں ۔۔۔
پروفیسر عصمت اللّه خان کے اسلامیہ کالج لائل پور کے اساتذہ میں سید ماجد علی شاہ ،میں حمید الدین قریشی ،سعید احمد خان کی شخصیت نے ان کو بہت متاثر کیا ۔۔۔گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں زیڈ – اے قریشی ، خان حشمت اللہ خان کی شخصیت نے بھی انہیں بڑا متاثر کیا ۔۔۔پروفیسر عصمت اللّه خان کہا کرتے تھے کہ گورنمنٹ کالج لائل پور کے سابق پرنسپل اور استاد سید کرامت علی جعفری کی باغ و بہار شخصیت ” چراغ رخ زیبا ” لے کر بھی نہیں ملتی ۔۔وہ معروف ماہر نفسیات ، علم و فضل کے پیکر اور مونس و ہمدرد انسان تھے۔ اور ہمیشہ طالبا کی ضروریات پوری کرنے میں کوشاں رہتے تھے ۔۔اپنی جیب سے کئی ایک کی فیس ادا کرتے تھے ۔۔پرنسپل مختار محمود قریشی بھی بہت خوبیوں کے مالک تھے ،۔قریشی صاحب ان کی خوش لباسی اور عطر کے بہت گرویدہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ کاش میں بھی تمھاری طرح عطر لگا کر رکھوں ۔۔۔پروفیسر سید وقار عظیم اور ڈاکٹر سید محمّد عبدالله نے بھی انھیں بے حد متاثر کیا ۔۔۔۔۔عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں والی کیفیت ہو گئی ہے ۔،۔وہ نابغہ روزگار شخصیات جنھوں نے پروفیسر عصمت اللّه خان کی شخصیت سازی کی ، پاکستان اور اردو کی پہچان کروائی ۔۔۔۔اس پاۓ کے لوگ اب کہاں نظر آتے ہیں ۔بس دور قحط الرجال ہے، اقدار بدل گئیں ، زاویے بدل گئے ۔””
مختلف تقاریب میں تقاریر کرنا پروفیسر عصمت اللّه خان کا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔۔اس میدان میں انھیں شورش کشمیری ،مرد درویش اور عشق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبا ہوا شخص بہت پسند تھے ۔۔یہ انہیں بطور خاص روزنامہ "چٹان" کے دفتر میں مل کر آئے تھے ۔۔۔وہ سادہ لباس پہننے والے تقریر و تحریر میں الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے نظر آتے تھے اور وہ قرینے اور سلیقے سے انھیں استمال کرتے جاتے تھے ۔۔۔۔پروفیسر عصمت اللّه خان کا حبیب جالب سے بھی بہت تعلق خاطر رہا ۔۔۔غربت و افلاس کے باوجود جالب نے اپنی عزت نفس کا سودا نہ کیا ۔۔۔۔۔۔پروفیسر عصمت اللّه خان کو فیصل آباد سے متعلقہ نابغہ روزگار شخصیات کے بچھڑنے کا بہت صدمہ اور غم رہتا تھا ۔۔۔۔۔خلیق قریشی اعلی پاۓ کے تخلیق کار تھے ۔۔عبیر ابو زری کو گمنامی سے شہرت کی بلندیوں پر چند لوگوں نے پہنچا دیا ۔۔۔۔۔۔فن خطابت کے شہنشاہ امیر الملت سید عطاء اللّه شاہ بخاری کا تو کوئی نعم البدل دکھائی نہیں دیتا ۔۔وہ ساری رات تقریر کرتے رہتے ، مجال ہے کوئی جلسہ گاہ چھوڑنے کا سوچتا ۔""
ان کے ہم عصروں میں ان کے بھائی عظمت اللّه خان اور حشمت اللّه خان اچھے مقرر تھے ۔۔۔
پروفیسر عصمت اللّه خان اپنے زمانہ میں تقریروں کے دوران کسی یادگار واقعہ یا لمحہ کے بارے میں بتاتے تھے کہ
” اس زمانے میں انعام و اکرام کسی کی صلاحیت اور خوبی پر دیا جاتا ہے ۔۔حسب نسب کا اس سلسلے میں دخیل نہ تھا ۔۔میری تقریر سے متاثر ہو کر کچہری بازار فیصل آباد کے ایک تاجر نے مجھے نقد انعام دیا تھا ۔۔۔یہ روایتیں اب دم توڑ گئی ہیں ۔۔بزم دوستاں میں کئی داغ مفارقت دے گئے۔ایک لمبی فہرست ہے۔۔قاری اکبر صاحب ،وکلا حضرات میں چودھری امین ،چودھری صفدر علی ،شیخ تاج دین ،چودھری رفیق حسین ،پروفیسر امین حق نواز خان اور ڈاکٹر غلام سردار خان نیازی یاد آتے رہتے تھے ۔محمّد صابر آف انگلینڈ ، خورشید عالم اور فیاض حسین آف کراچی دل میں بس رہے ہیں "”
بزم اغیار ہے اور ڈر ہے نہ خفا ہو جاۓ
ورنہ ایک اہ کھینچوں تو ابھی وا ہو جاۓ
اسی لیے بزرگان دین نے کہا ہے کہ "اللّه ھو "کا ورد کرو ،بردباری ہو جاۓ گی ۔۔اللّه ھو کھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”””
اللّه سے بھلائی مانگو ، صابر کلیر والے بزرگ بھی یہی وظیفہ اللّه ھو والا کیا کرتے تھے ۔ایک دن جلال میں آ گئے تو جدھر نظر ڈالی ، درخت جل گئے ۔””
پروفیسر عصمت اللّه خان نے اس سوال کے جواب میں کہ لائل پور سے فیصل آباد شہر تک سفر آپ کی آنکھوں کے سامنے طے ہوا” کے ضمن میں فرمایا تھا کہ پرانا شہر پر سکوں ، خوبصورت اور امن پسند تھا۔بھائی چارہ اور اخوت تھی ۔اب وہ چیزیں نظر نہیں آتیں ۔۔پرانا تشخص ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ہم نے نئے نئے شہر نہیں بسائے بلکہ پرانے شہروں کی پلیٹیں تبدیل کر دی ہیں ۔انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوا رہے ہیں ۔میں نے تجویز دی تھی کہ پرانے شہر کا نام لائل پور ہی رہنے دو ۔چند کلو میٹر پر ایک بستی فیصل آباد کے نام سے بنا لو ۔مگر کسی نے توجہ نہیں دی ۔۔سر گنگا رام ہسپتال بنایا جو آج تک قائم ہے ۔””
اپنے ایک پیغام میں پروفیسر عصمت اللّه خان اپنے شاگردان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے ۔۔
"" میرے شاگرد میرا سرمایا حیات ہیں ۔میں نے دادا پوتا کو پڑھایا ہے ۔ان گنت شاگرد اطراف و اکناف میں پھیلے ہوۓ ہیں ۔میں نے نسلوں کی آبیاری کی ہے ۔میں سمجھتا ہوں ہماری تعلیم نامکمل ہے ۔۔جب تک ہم قران مجید کو باترجمہ نہیں پڑھتے ۔تب تک ہمارے رویوں میں مثبت تبدیلی نہیں آئے گی ۔۔ایمان داری کی طرف رجوع نہیں کریں گے تو ہم بے وقار رہیں گے ۔""
فیصل آباد کے نابغہ روزگار استاد اور محقق ڈاکٹر ریاض مجید’ پروفیسر عصمت اللّه خان کو خراج عقیدت پیش کرتے رقمطراز ہیں کہ
"” پروفیسر عصمت اللّه خان اساتذہ کے اس دور سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے ” کاز ” کے ساتھ مخلص ہوں اور ہمیشہ ایک مشن کے تحت کام کرتے ہوں ۔اب ایسے عہد ساز اساتذہ کا دور آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے ۔انہوں نے گورنمنٹ کالج فیصل آباد (پاکستان)میں اڑتیس برس تک مسلسل خدمات سر انجام دیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔۔یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے ۔جسے اب شاید ہی کوئی دوسرا حاصل کر سکے۔””
پروفیسر عصمت اللّه خان ایک جامع الصفات شخصیت تھے ۔آپ اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے کہ جو آپ سے وابستہ ہوا نیک نام کہلایا آپ نے گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں درس و تدریس کے پہلو بہ پہلو ہم نصابی سرگرمیوں کو جلا بخشی اور طلبہ کو ذوق شعر وادب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم سے بھی آشنا کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے فروغ میں آپ کی دلچسپی اور نظم و ضبط ہر قیمت پر قائم رکھنے کا احساس بھی آپ کے جگمگاتے ہوئے کردار کا تابندہ پہلو ہے ۔جہاں تک آپ کی ہمہ صفت موصوف شخصیت کا تعلق ہے تو آپ تو مجھ سمیت بے شمار محبت کرنے والے اہل نظر کے دلوں میں جاگزیں ہیں اس شان کے ساتھ کہ جب چاہتے ہیں احساسات کو جنبش دے کر دل کے خلوت کدوں میں آپ سے ملاقات کر لیتے ہیں ۔۔
بحیثیت انسان پروفیسر عصمت اللہ خان نے اپنی زندگی میں ہمیشہ ایک حوصلہ مند انسان ہونے کا ثبوت دیا ۔غیض و غضب کی کسی بھی کیفیت میں دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا سامنا کیا ۔اس کے اپنے حوصلہ مند دل پر سوچ کی گہرائی میں جنم لینے والے کی الفاظ اس کی بردباری کا ثبوت ہیں ۔۔پروفیسر عصمت اللہ خان ہمیشہ اپنے پرخلوص جذبے کی وجہ سے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے گورنمنٹ کالج فیصل آباد اور پاکستان کے بہترین فرزندان کے دوش بدوش رہے ۔۔ان کا حوصلہ کبھی کوئی مشکل پسپا نہ کر سکی وہ اپنے طلبا اور مادر وطن کی محبت سے ہمیشہ لبریز رہے۔۔انہوں نے زندگی میں ہمیشہ اعلی روایت کا ساتھ دیا۔۔ تحمل اور بردباری کا ہرلمحہ مظاہرہ کیا ۔۔مصائب و ابتلاء کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی جرآت ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔۔پروفیسر عصمت اللہ خان کی شرافت اور وضعداری کمال کی تھی وہ فرض شناش ، مشفق اور درد دل رکھنے والے انسان تھے ۔وہ معتدل بھی تھے اور اہل دل بھی ۔۔۔نگار وطن کی حرمت کے لیے انہوں نے پاکستان کے ایٹمی دھماکے کو بیان کرنے کے لیے "یوم تکبیر "کا نام تجویز کیا جو اہل شہر فیصل آباد اور اہل گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز رہا ہے ۔۔عصمت اللہ خان ٹھنڈے مزاج والے بے حد صلح پسند آدمی تھے، باتیں کتنی بھی اشتعال انگیز ہوں ، حالات کتنے بھی ناسازگار ہوں ، وہ کبھی برہم نہ ہوتے تھے اور نہ بد گو ۔۔۔میں نے ان کو کبھی طیش میں نہ دیکھا تھا ۔اور نہ کسی کا شکوہ شکایت کرتے سنا تھا ۔۔ان کے دل کی گہرائیوں میں لاکھ ہیجان برپا ہوتے چہرے پر برہمی یا پریشانی کی کوئی لکیر نظر نہیں آتی تھی ۔۔ان کا ظرف کتنا وسیع تھا سمندر کی لہریں لاکھ طوفانوں کی آماجگاہ ہوں لیکن اس کی سطح پر سکون رہتی ہے۔ یہ حیثیت یہ عظمت کم کم لوگوں کے نصیب میں آتی ہے ۔وہ ایک سچے پاکستانی تھے ۔اس شخص نے ہمیشہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد کی عظمت و تکریم اور بھلائی کو سامنے رکھا تھا۔ یہی بندہ عصر ، مرد صحرا اور پیکر انسانیت پروفیسر عصمت اللہ خان تھے ۔۔۔میں اگر صرف اتنا ہی لکھ دوں کہ پروفیسر عصمت اللّه خان ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جس کا تصور ذہن میں آتے ہی ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے ۔۔
رفعت اقبال نے سچ ہی کہا ہے ۔۔
” لہجے میں شائستگی، مقصد میں وارفتگی، تکلم میں شفقت ، خیالات میں ندرت ، افعال میں پرکاری ، ہمہ وقت جانثاری ان تمام عناصر کو یکجا کریں تو پروفیسر عصمت اللّه خان صاحب کی شخصیت کا خاکہ ابھرتا ہے ۔””
ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز ہوئے پرورش لوح و قلم کو زندگی کا نصب العین بنانے والے حریت فکر کا مجاہد یہاں سے بہت دور چلا گیا ہے ۔یہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آیا۔۔ گل چین نے گلشن ادب سے وہ پھول توڑ لیا جس کی عطر بیزی گزشتہ چھ عشروں سے چمن زار وطن کو مہکا رہی تھی۔ان کے جانے سے وطن کے دیوار و در پر حسرت و یاس کا عالم ہے ۔۔ان کی وفات سے تاریخ ادب کا ایک درخشندہ باب اپنے اختتام کو پہنچا۔۔ تاریخ پاکستان کا ایک چشم دید گواہ اور تحریک پاکستان کا سرگرم مسافر راہی ملک عدم ہو گیا ۔۔انسانیت کے وقار اور عظمت کو اپنے افعال و کردار سے آسمان کی بلندیاں عطا کرنے والا استاد دانشور اور ماہر لسانیات پیوند زمین ہو گیا ۔ان کی زندگی درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت کی شاندار مثال تھی ۔۔اعلان روزگار کے مہیب پٹھوں میں بسنے والے مجبور و مظلوم اور بے بس و لاچار انسانیت کے مسائل پر وہ تڑپ اٹھتے تھے ۔گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں دوران تعلیم راقم(اظہار احمد گلزار) کا درجہ چہارم کے ایک ملازم اللہ رکھا مرحوم سے تعلق خاطر پیدا ہو گیا تھا ۔ایک ہی محلہ میں رہتے ہوئے ان سے دوستی ہوگئی تھی۔۔اللہ رکھا مجھے اکثر بتایا کرتا تھا کہ پروفیسر عصمت اللہ خان اسے اپنے بیٹوں کی طرح شفقت کرتے ہیں اور اس کے ہر آڑے وقت میں پروفیسر عصمت اللہ خان خاندان کے ایک بزرگ کی طرح اس کی ڈھال بن کر کھڑے ہوتے تھے ۔۔یہ میں نے اس کے خوشی اور غمی کے کئی اجتماعات میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔۔پروفیسر عصمت اللّه خان اس کا دوست ہونے کے حوالے سے میرے ساتھ بھی خاصا بے تکلف ہو گئے تھے اور خصوصی حال و احوال دریافت کرتے رهتے۔ دوسروں کے دکھ درد بانٹنا پروفیسر عصمت اللّه خان کا شیوا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی دونوں بیٹیاں فرخندہ عصمت خان اور رخشندہ عصمت خان فیصل آباد کے ایک کالج میں انگریزی زبان و ادبیات کی استاد ہیں اور بیٹا ذیشان احمد خان وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ہیں ۔۔۔۔پروفیسر عصمت اللہ خان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر 2000ء میں ان کی اڑتیس سالہ کامیاب تدریسی خدمات کے اعتراف میں گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی نے ایک ضخیم یاد گار ” پروفیسر عصمت اللہ خان خصوصی نمبر ” شائع کر کے ” لفظوں کے پھول ” کے عنوان سے ان کو سلام عقیدت پیش کیا تھا ۔۔
جب تک دنیا باقی ہے _ان کا نام زندہ رہے گا ۔حریت ضمیر سے جینے کی تمنا کرنے والوں کے لئے ان کا کردار ہمیشہ لائق تقلید رہے گا ۔۔۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سو گئے داستان کہتے کہتے
تحریر : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
فیصل آباد ۔۔پاکستان