محمد قمرانجم قادری فیضی
آج اخباروں کے ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ ممبئی کے پولیس کمشنر پرمبیر سنگھ نےدشمن عناصر ٹی وی ریپبلک چینل اور اسکے علاوہ دیگرگودی میڈیا کی ٹی آر پی کے مذموم و مقہور کھیل کا سنسنی خیز انکشاف کیاہے وہ قابل تعریف ہے جس کے بعد ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ (ٹی آر پی)زیر بحث رہاہے ،جمعرات کے روز ممبئی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں پولیس کمشنر پرمبیر سنگھ نے کہا کہ ممبئی کرائم برانچ نے ایک نئے ریکیٹ کا خلاصہ کیا ہے۔ اس ریکیٹ کا نام ‘فالس ٹی آر پی ریکیٹ’ ہے۔ پولیس ٹی آر پی میں ہیری پھیری سے جڑے گھوٹا لے کی جانچ کر رہی ہے ۔ آئیے جانتے ہیں کہ ٹی آر پی کی حقیقت کیا ہے اور چینل نمبر ون بنانے میں اس کا کیا اہم کردار رہا ہے،
کیا ہوتی ہے ٹی وی چینل کی ٹی آر پی؟
ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ یا [ٹی آر پی] ایک ایسا ٹول ہے جس کے ذریعہ یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ کونسا پروگرام یا ٹی وی چینل سب سے زیادہ دیکھا جا رہا ہے ۔ ساتھ ہی اس کی وجہ سے کسی بھی پروگرام یا چینل کی مقبولیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ، یعنی ، لوگ کسی چینل یا پروگرام کو کتنی بار اور کتنے وقت سے دیکھ رہے ہیں اور سب سے زیادہ پسندیدہ چینل کون سا ہے، اور اس پروگرام کا ٹی آر پی سب سے زیادہ ہونے کا مطلب سب سے زیادہ ناظرین اس پروگرام کو دیکھ رہے ہیں،
ٹی آر پی کا ڈیٹا اشتہار دینے والوں کے لئے بہت مفیدثابت ہوتا ہے ، کیوں کہ اشتہار دینے والے صرف ان پروگراموں کو اشتہار ہی دینے کے لئے منتخب کرتے ہیں جن کی ٹی آر پی زیادہ ہوتی ہے ۔ بتا دیں کہ ٹی آر پی کی پیمائش کے لئے کچھ جگہوں پر کچھ میٹر لگائے جاتے ہیں۔ اس کو ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ کچھ ہزار ناظرین کو انصاف اور نمونے کی صورت میں سروے کیا جاتا ہے اور ان ہی ناظرین کی بنیاد پر ان تمام ناظرین کو سمجھا جاتا ہے جو ٹی وی دیکھ ر ہے ہوتے ہیں ۔یہ پیپل میٹرز طئے کرتے ہیں کہ کون سا پروگرام یا چینل کتنی بار دیکھا جارہا ہے ۔
کیسے طے کی جاتی ہے ٹی آر پی ؟
اس میٹر کے ذریعہ ، ٹی وی کی ہر منٹ کی جانکاری کو مانیٹرنگ ٹیم ، انڈین ٹیلی ویژن ناظرین کی پیمائش (INTAM ) تک پہنچا دیا جاتا ہے ۔ یہ ٹیم پیپل میٹر سے ملی جانکاری کا تجزیہ کرنے کے بعد طے کرتی ہے کہ کس چینل یا پروگرام کی ٹی آر پی کتنی ہے ۔ اس کا حساب کتاب کرنے کے لئے ناظرین کے ذریعہ باقاعدگی سے دیکھے جانے والے پروگرام اور وقت کو باقاعدگی سے ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر اس ڈیٹا کو 30 سے گنا کر کے پروگرام کا اوسط ریکارڈ نکالا جاتا ہے ۔ یہ پیپل میٹر کسی بھی چینل اور اس کے پروگرام کے بارے میں مکمل جانکاری نکال لیتا ہے ۔
کیا ہے ٹی آر پی کا اثر؟
ٹی آر پی میں اضافہ یا کمی براہ راست ٹی وی چینل کی آمدنی کو متاثر کرتی ہے جس میں وہ پروگرام آرہا ہوتا ہے۔ جتنے بھی ٹی وی چینلز ہیں ، جیسے سونی ، اسٹار پلس ، زی چینل وغیرہ تمام اشتہار کے ذریعے پیسہ کماتے ہیں ۔اگر کسی پروگرام یا چینل کی ٹی آر پی کم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگ اسے کم دیکھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اس پروگرام میں اشتہار کے زیادہ پیسے نہیں ملیں گے یا پھر بہت کم اشتار دینے والے ملیں گے ۔ لیکن اگر کسی چینل یا پروگرام کی ٹی آر پی زیادہ ہوگی ، تو اس کو زیادہ اشتہارات ملیں گے اور اشتہار دینے والوں کے ذریعہ زیادہ پیسے بھی ملیں گے ۔
اس سے صاف ہے کہ ٹی آر پی نہ صرف چینل پر بلکہ کسی ایک پروگرام پر بھی منحصر ہے۔ مثال کے طور پر ، اگر کسی رائزنگ اسٹار پروگرام کی ٹی آر پی دوسرے پروگراموں سے زیادہ ہے تو اشتہار دینے والے اپنااشتہار اس میں پروگرام میں دکھانا چاہیں گے اور زیادہ پیسے بھی دیں گے ۔
جس ٹی آر پی گھوٹالہ میں ‘ریپبلک نیوز’ سمیت تین ٹی وی چینلوں کا نام سامنے آیا ہے، امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مزید کچھ اور ٹی وی چینل اس معاملے میں پھنس سکتے ہیں۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق اس تعلق سے ابھی تک 4 ملزمین کی گرفتاری ہوئی ہے جنھیں جمعہ کے روز ریمانڈ کے لئے عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ ان چاروں ملزمین کو عدالت نے 13 اکتوبر تک پولیس حراست میں بھیج دیا ہے۔ پولیس ان سبھی سے اب پوچھ تاچھ کرے گی اور یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ کیا اس گھوٹالہ میں مزید کون ٹی وی چینلز شامل ہیں۔ ان سے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات لینے کے ساتھ ساتھ ٹی آر پی گروہ سے جڑے دیگر ملزمین کی جانکاری بھی اکٹھا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
جن ملزمین کو پولس حراست میں بھیجا گیا ہے ان کے نام وشال بھنڈاری، بومپیلی راؤ مستری، شریس ستیش پٹن شیٹی اور نارائن شرما ہیں۔ ممبئی کرائم برانچ کے ذریعہ داخل ریمانڈ کاپی کے مطابق ونے ترپاٹھی نامی شخص نے وشال بھنڈاری نام کے شخص کو 5 گھروں میں ‘انڈیا ٹوڈے’ چینل کو کم سے کم 2 گھنٹے دیکھا جائے، اس لئے فی گھر میں 200 روپے مہینہ دیا گیا، جب کہ وشال کو 5000 روپئےبطور کمیشن دیا گیا۔ وشال بھنڈاری نے تیجل سولنکی نام کی خاتو سے ملاقات کی اور 2 گھنٹے دن میں ‘انڈیا ٹوڈے’ دیکھنے کو کہا۔وشال بھنڈاری کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ نومبر 2019 سے مئی 2020 تک ہنسا کمپنی سے جڑا تھا اور اپنے عہدہ کا غلط استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی کام کرنے لگا۔ ریمانڈ کاپی کے مطابق ملزم وشال بھنڈاری نے پوچھ تاچھ میں یہ قبول کیا کہ وہ بومپیلی راؤ مستری کے لیے کام کرتا ہے اور اس سے 20 ہزار روپے لیتا ہے۔ اس کے عوض میں 10-8 گھروں میں جہاں بیرومیٹر لگا ہو وہاں جا کر ‘فقط مراٹھی’ اور ‘باکس سنیما’ دیکھنے کو کہتا تھا جس کے بدلے ان گھروں کو 400 روپے مہینہ دیتا تھا۔
ریمانڈ کاپی میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ وشال بھنڈاری کے مطابق راکی نامی شخص ‘ریپبلک نیوز’ چینل زیادہ سے زیادہ دیکھنے کے لیے پیسے دیا کرتا تھا۔ پولیس کے مطابق ‘بارک’ سے جب اس معاملے میں پوچھ تاچھ کی گئی تو انھوں نے ‘ریپبلک ٹی وی’ کے مشتبہ ناظرین ہونے کے ثبوت دیئے ،ملزم نمبر 2-بومپیلی راؤ مستری نے پوچھ تاچھ کے دوران بتایا کہ ریپبلک ٹی وی، فقط مراٹھی اور باکس سنیما کو دیکھنے کے لیے شریس ستیش پٹن شیٹی اور نارائن شرما اسے پیسے دیا کرتے تھے۔ کرائم برانچ کے ذریعہ شریس ستیش پٹن شیٹی اور نارائن شرما سے پوچھ تاچھ کے بعد مزید ثبوت ملے اور پھر انھیں گرفتار کیا گیا۔اور ریپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ارنب گوسوامی کی مشکلیں اب بڑھنے والی ہیں، اور ہاں یہ وہی ارنب گوسوامی ہے جو کہ چیخ چیخ کر کہتاتھا کہ تبلیغی جماعت والوں کی ہی وجہ سے ہندوستان میں کورونا پھیلا ہوا ہے، اور اب ہاتھرس معاملے پر بھی اس کا وہی رویہ ہے، اس کا کہنا ہے کہ ہاتھرس معاملے میں عصمت دری ہوئی ہی نہیں ہے، لہذا ایسے فیک نیوز اور گھٹیا صحافت کے سوداگروں کا معاشرے سے بائیکاٹ کرنا چاہئے اور ان کی چینلوں کو بھی دیکھنا بند کردینا چاہیے ،
پیڈ نیوز اور فیک نیوز’ کے بعد یہ دور’ ٹی آر پی جرنلزم’ کا ہے ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں کبھی پیڈ نیوز اور فیک نیوز ہوا کرتا تھا ، اب ٹی آر پی کا نام ہی جرنلزم ہوتا ہے میڈیا کے ذریعہ ٹی آر پی کے غیر ضروری دباؤ کو روکنا ہوگا، ایک نہ ایک دن انہیں خود میں سدھار کر نا ہوگا،مقبولیت کی پیمائش کرنے کے لئے ایک عمل ہونا چاہئے ، لیکن اشتعال انگیز خبریں دکھانا صحافت نہیں ہے۔گودی میڈیا آزادی صحافت پر بلکل یقین نہیں رکھتی ہے۔ یہ سب کا حق لینا چاہتی ہے، لیکن پرنٹ میڈیا کو ذمہ دار ہونا چاہیئے اور میڈیا کو خود ہی یہ کام کرنا چاہئے۔ پرنٹ میڈیا کے لئے ضابطہ طے کر نے والے ادارے پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی)کا کچھ ٹی وی چینلز کو نظم وضبط دینے کے لئے ایک تنظیم تشکیل دی تھی،مگر وہ بھی صرف نام کے لئے،لیکن یہ کتنا کارگر ثابت ہوا ہے ؟یہ آج سب کے سامنے ہے،
مضمون نگار۔روزنامہ شان سدھارتھ سدھارتھ نگر سے وابستہ ہیں۔رابطہ نمبر-6393021704