فاروق طاہر
عیدی بازاری،حیدرآباد۔
,9700122826
ملک و قوم کی ترقی کا انحصار تعلیم پر ہوتا ہے۔ملک کی ترقی کی اساس اور راہیں بھی تعلیم کے ذریعے ہی متعین کی جاتی ہیں۔تعلیم کی اہمیت و افادیت پر ا ٓئے دن ہر کوئی اپنے طور بیان دینے اور تقریر کرنے سے نہیں چوک رہا ہے لیکن عملی اقدامات کی جب بات آتی ہے تو پھر تمام دعوے اور وعدے برف دان کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ہر چھوٹے اوربڑے کو احساس ہے کہ تعلیم جیسے اہم شعبے سے کہیں نہ کہیں لاپرواہی برتی گئی ہے جس کا خمیازہ ملک و قوم بھگت رہی ہے۔اعداد و شمار(statistics)کو ترقی سے تعبیر کرنے والے آج کے تعلیمی سماج کی حالت مزید ابتر ہوگئی ہے۔
جب خرابیوں،ناکامیوں اور کوتاہیوں کا ذکر چلتا ہے تو پھر بجلی توبیچارے سرکاری اساتذہ پر ہی گرے گی۔ ارباب مجاز و اختیار کاخرابیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی پر چیں بہ چیں ہونے اور اپنی خرابیوں کو اساتذہ کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے راہ فرار اختیار کرنا ایک اخلاقی کام ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اگر اساتذہ کی جانب سے لاپرواہی اور غفلت کو مان بھی لیا جائے تب یہ غفلت اس شریفانہ پالیسی سازی کے آگے کچھ نہیں ہے جس نے تعلیم کے بیڑے کو دریا برد کر دیا ہے۔آج بھی دیانت دار فرض شناس اساتذہ بھنور میں پھنسے تعلیمی بیڑے کو نکالنے میں اپنے توانائی صرف کر رہے ہیں۔ تعلیمی معیار کی گراوٹ اور سرکاری مدارس کی مقبولیت میں کمی کے بارے میں کسی ایک کو ہدف ملامت و تنقید بنانے سے بہتر ہوگا کہ نظام سے جڑی تمام اکائیوں کا منظم و مربوط کر تے ہوئے،ستائش و صلے سے بالاتر ہوکر اور عیار سرمایہ دارانہ نظام کی سازشوں سے نظام تعلیم کو پاک کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔سرکاری تعلیمی ادارے جو ماضی قریب میں علم و دانش کے معدن ہوا کرتے تھے وہ دانش گاہیں آج کل مایوسی اور احساس کمتری کے جنوں کامسکن بنی ہوئی ہیں۔ان مدارس کی خستہ و زبوں حالی کو دور کرنے اور ان کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے بلند بانگ دعوی تو ہر روز کیئے جاتے ہیں لیکن دیانت داری سے اس سمت میں آج تک ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ہے۔سرکاری مدارس اساتذہ، انتظامیہ اور بیوروکریسی کی ناکامی کی ایک منہ بولتی تصویربن گئے ہیں۔سرکاری اسکولوں میں لگے مسائل کے انبار اگر انتظامیہ کو نظر نہیں آتے ہیں تو اس کو چشم کوری سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔سنجیدگی سے ان مسائل کو دور کرنے کی کوشش کی جائے تو یقینا یہ معاشرے کے حق میں ایک نیک فال ہوگا۔اس ضمن میں محکمہ تعلیمات کے لئے سب سے بڑا ہدف و کام صد فیصد انرولمنٹ(اسکولی عمر کے بچوں کو شریک مدرسہ کرنا)،اور ترک تعلیم کے رجحان(ڈراپ آؤٹ) کی شرح پر قابو پانا ہوگا۔اس کام میں تاحال محکمہ تعلیم کی ناکامی عیاں ہے جس کی سزائیں اساتذہ کو دی جارہی ہے۔
اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات قابل تشویش ہے کہ حکومت اور محکمہ تعلیم کی مسلسل کوششوں کے باوجود تلنگانہ کے سرکاری مدارس میں ترک تعلیم ڈراپ آؤٹ کے رجحان میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ سال (2016)کے محکمہ تعلیم کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمارکے مطابق ضلع محبو ب نگر میں ہائی اسکول پہنچنے تک پچاس فیصد طلبہ ترک تعلیم کر بیٹھے ہیں۔عادل آباد 44.83%فیصدسے دوسرے،ضلع میدک 43.69%فیصد سے تیسرے اور ضلع ورنگل 41.41%فیصدسے چوتھا مقام پر ہے جبکہ سب سے کم، ترک تعلیم (ڈراپ آؤٹ)کا رجحان 28.11%فیصد ضلع رنگا ریڈی میں دیکھا گیا ہے۔محکمہ تعلیم،حکومت تلنگانہ کے مطابق ریاست میں ترک تعلیم (ڈراپ آؤٹ) رجحان کا اوسط37.56% پایاگیا ہے۔ترک تعلیم لڑکو ں میں بہ نسبت لڑکیوں کے زیادہ پایا گیا۔ لڑکوں میں ترک تعلیم کی شرح 38.76% فیصد جبکہ لڑکیوں میں ترک تعلیم کی شرح 36.31%فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔اول تا پنجم ترک تعلیم کرنے والے طلبہ 19.25%اور اول تا ہشتم جماعت ترک تعلیم کرنے والے طلبہ کی شرح 31.14%فیصد پائی گئی ہے۔اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات علم میں آئی ہے کہ ضلع محبوب نگر میں لڑکیوں میں ترک تعلیم (ڈراپ آؤٹ) کا فیصد50.33، بہ نسبت لڑکو ں کے ترک تعلیم کی شرح 49.34 سے زیادہ ہے۔ارباب مجاز اس ضمن میں نقل مقام (نقل مکانی) کو ترک تعلیم (ڈراپ آؤٹ) کی اہم وجہ گردانتے ہیں۔ارباب مجاز کی جانب سے پیش کی جانے والی یہ وجہ قابل قبول تصور نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ اگر نقل مقامی کو ایک وجہ مان بھی لیاجائے تب جہاں نقل مقام کیا گیا ہے وہاں داخلے کے شرح میں اضافہ ہونا چاہیئے جب کہ ایسا نہیں ہوا ہے۔نقل مقام کو ڈراپ آؤٹ کی واحد وجہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہ بات باعث تشویش ہے کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے صدفیصد انرولمنٹ(داخلے) اورصد فیصدترک تعلیم کے رجحان(ڈراپ آؤٹ) پر خاتمے کی ذمہ داری بھی اساتذہ پر ہی عائد کردی گئی ہے۔ ہر صورت میں اساتذہ کی گردن پر تلوار لٹکا دی گئی ہے۔کبھی ناقص نتائج کی صورت میں تو کبھی ڈراپ آؤٹ طالب علموں کی صورت میں۔ مختلف اطلاعات کے مطابق ترک تعلیم (ڈراپ آؤٹ) کے رجحان کاایک سبب اساتذہ کی عدم دلچسپی بھی بتائی گئی ہے۔جبکہ ترک تعلیم کے رجحان میں اضافہ کے لئے کئی ایک امور قابل ذکر ہیں۔ کیا صرف ا ساتذہ کو اس ضمن میں مورد الزام ٹھہرا کرسز ا دینا کہا ں تک درست ہے۔عوام کی دانست میں سرکاری اسکولوں میں انرولمنٹ میں اضافے اور ڈراپ آؤٹ پر قابو پانے کے لئے ان افسران بالا کو بھی جوابدہی کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا چاہیئے جو ایر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر ایسی پالسیاں مرتب کرتے ہیں جن کا زمینی حقائق سے دور تک کوئی واسطہنہیں ہوتا۔ان پالسیوں پر عمل درآٓمد کے وقت پالیسی کی خرابیوں سیصرف نظر کرتے ہوئے وہ عمل درآمد کے طریقوں کو صرف ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ حکومت کا منشامقصد اور مشن بہت ہی اعلی ہے کہ بہر صورت نئی نسل کو تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔لیکن مشن کی تکمیل کے لئے اپنائے جانے والا انداز کارکردگیبڑا ہی تشویشناک ہے۔تمام تر سختیاں اساتذہ پرعائد کی جارہی ہیں اور ہدف ملامت بنا یا جارہاہے۔ہر کس و ناکس کے غصہ اور ناراضگی کا منبع و محور بھی یہی لوگ ہیں جبکہ افسران بالا ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر سیٹوں کا مزہ لیتے ہوئے اپنا تما م غصہ اور ناراضگی بھی اساتذہ پر ہی اتارتے ہیں۔ماہرین تعلیم اور سینئر اساتذہ کے مطابق حکومت اگر سو فیصد انرولمنٹ کا ہدف پورا کرنا چاہتی ہے تواساتذہ کی عزت نفس کو بحال کیا جانا چاہیئے اور اگر سو فیصدڈراپ آؤٹ ریٹ ختم کرنا چاہتی ہے توزمینی حقائق کا پتہ لگاتے ہوئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ نئی نسل اپنے مزاج اور طلب کے مطابق تعلیم یافتہ بن سکے۔ پرائمری،اپر پرائمری اور ہائی اسکول میں ڈراپ آؤٹ رجحان کی متعدد وجوہا ت سامنے آئی ہیں (جن پر اس مضمون کے ذریعہ روشنی ڈالی گی ہے)لیکن ان وجوہات پر قابو پانے میں محکمہ تعلیم تا حال ناکام نظر آتا ہے۔ترک تعلیم کے رجحان پر قابو پانے کے لئے ایک مبسوط اورمستحکم تعلیمی پالیسی کی سخت ضرورت ہے۔
غربت و افلاس:
غربت اور افلاس کے ماروں کو اگر چاند بتا کر پوچھا جائے کہ چاند کیسا لگتا ہے تب بھوکوں کا اولین جواب ہوگا کہ چاند بھی روٹی کی طرح نظرآتا ہے۔سرکاری مدارس میں بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایک وقت یعنی دوپہر کا کھانا مڈ ڈے میل کے نام پر تمام ایام کار میں فراہم کیاجاتا ہے۔یہ بچوں کو دوپہر کی بھوک سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری بھی ہے تاکہ طلبہ یکسوئی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے اولیائے طلبہ جو اپنے بچوں کو چھوٹی موٹی دکانوں پر کام پر لگا کر اپنا اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کا سامان کرتے ہیں۔معصوم بچے جب والدین کی کفالت کرنے لگ جائیں تب ان کی تعلیم کا کون کفیل ہوگا۔حکومت بچوں کو دوپہر کے کھانے کے علاوہ صبح کا ناشتہ اور ماہانہ تعلیمی وظیفہ کم از کم پانچ سو روپے ہر بچہ،مقرر کردے تب پانچ تا تیرہ سال کے بچے جو اول تا پنجم جماعتوں میں ترک تعلیم کر بیٹھتے ہیں،اس کا تدارک ہوجائے گا اور ملک و معاشرہ صرف اگلے بیس سالوں میں خوش حالی اور آسودگی کو گلے لگائے گا۔سرکاری مدارس میں طلبہ کو درسی کتب بھی مفت دی جاتی ہیں ان کے ہمراہ اگر نوٹ بکس بھی فراہم کردیئے جائیں تو غریب والدین کے لئے یہ عمل مژدہ جانفزا ہوگا۔یونیفارم کی کوالٹی رنگ اور پیٹرن بھی خانگی مدارس کی طرح اپناجائے تو بچوں کو اسکول کی جانب راغب کرنے میں سہولت ہوسکتی ہے۔ یونیفارم کی فراہمی،درسی کتب اور دیگر تعلیمی اشیاء کی بروقت فراہمی کو یقینی بنا کر ڈراپ آؤٹ کے ریٹ پر قابو پانے کے علاوہ سرکاری مدارس کے داخلوں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔.
بنیادی سہولتیں:
بنیادی سہولتوں کی جب بات آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری مدارس میں جو درکار سہولتیں تعلیمی ماحول پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں اس کی کمی یا فقدان پایا جاتا ہے۔اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 6874اسکول پینے کے پانی کی سہولت سے عاری ہیں۔ 17332اسکول میں بیت الخلاء نہیں ہیں۔سپریم کورٹ معائنہ کمیٹی کے مطابق 7945اسکولوں میں لڑکیوں کے لئے علحدہ بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے۔14884اسکولوں میں لڑکوں کے لئے بیت الخلاء کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔لڑکیوں کے لئے بنائے گئے 7881 علحدہ بیت الخلاء ناکارہ یا پھر استعمال کے لائق نہیں پائے گئے اسی طرح لڑکوں کے لئے بنائے گئے 3952بیت الخلاء بھی یا تو ناکارہ یا پھر استعمال کے لائق نہیں ہیں۔11334اسکولوں میں کھیل کے میدان ہی نہیں ہیں اور اتنے ہی مدارس برقی کی سربراہی سے بھی عاری ہیں۔تعلیمی انفرااسٹراکچر کی فراہمی کے بغیرآج کے مسابقتی دور میں جہاں کارپوریٹ اور خانگی ادارے انہی سہولتوں کے بل پر بچوں کو اپنی جانب راغب کر رہے ہیں داخلوں میں اضافے کی شرح کو بڑھا نے اور ترک تعلیم کے رجحان پر قابو پانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوگا۔ہر مدرسہ میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی جیسے درجوں کے حساب سے بہتر حالت میں کمرۂ جماعت کی فراہمی،کھیل کا میدان،اسکول کے اطراف چہار دیواری،گیٹ،صاف و شفاف پینے کا پانی،برقی کی سربراہی،کمپیوٹرلیاب،سائنس لیاب اور لائیبریری(کتب خانہ)ضروری ہے۔مذکورہ سہولتوں سے نہ صرف معیار تعلیم میں اضافہ ہوگا بلکہ بچوں کو سرکاری مدارس کی جانب راغب کرنے کے ساتھ ترک تعلیم کے رجحان پر قابوپایا جاسکتا ہے۔کرائے کی عمارتوں میں چلنے والے مدارس کے کرایوں کی بروقت ادائیگی سے بھی اسکولوں کو بند ہونے سیبچایاجاسکتا ہے۔حکومت کروڑ ہا روپیہ کرایوں کے نا م پر خرچ کرنے کے بجائے سرکاری عمارات کی تعمیر کی جانب توجہ مبذول کرے تو سرکاری خزانہ پر عائد ہونے والا بوجھ بھی کم ہوسکتا ہے۔سرواسکھشا ابھیان میں صرف سرکار ی زمینات پر ہی عمارات کی تعمیر کی شق رکھی گئی ہے اگر اس میں ترمیم کرتے ہوئے جہاں اراضیات دستیاب نہیں ہے وہاں خانگی املاک کو خریدتے ہوئے اسکولی عمارات کی تعمیر کو بھی شامل کیا جائے تو بہتر ہوگاکیونکہ شہر حیدرآباد اور بڑے شہروں میں زمین کی بہت قلت پائی جاتی ہے۔ایسی صورت میں خانگی جائیدادوں کو خرید کر مدارس کی تعمیر کرتے ہوئے معیاری تعلیم اور خوشحال مستقبل کی جانب جست لگائی جاسکتی ہے۔
تدریسی و مانٹیرنگ عملہ کی کمی:
تدریسی عملہ کی قلت کی وجہ سے تعلیمی معیار کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔تدریسی عملہ کی قلت کی بناء ہی سرکاری مدارس عوامی اعتماد سے محروم ہوئے ہیں۔ریاست کے تقریبا 18000اسکولوں میں ایک یا دو ٹیچرس ابتدائی پانچ جماعتوں کی (اول تا پنجم) تدریس انجام دے رہے ہیں۔ایک ٹیچر جب کسی ایک جماعت کے طلبہ کو درس دیتاہے تب دیگر جماعت کے طلبہ خالی بیٹھے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بچے اوب جاتے ہیں اور ترک تعلیم کا رجحان جگہ بنانے لگتا ہے۔تدریسی معیار کو ہمہ جماعت (کثیر جماعتی) تدریسی کی وجہ سے بے انتہا نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔تقریبا گزشتہ دو دہائیوں سے جاری اس عمل کی وجہ سے جو بچے سرکاری اسکول سے فارغ یا ترک تعلیم کرچکے ہیں وہ اپنے بچوں کو سرکاری مدرسہ بھیجنے سے ہچکچا رہے ہیں۔تمام سرکاری مدارس میں انگریزی کو لازم قرار تو دیا گیا ہے لیکن انگریزی کی تدریس کے لئے انگریزی زبان کے اساتذہ کی پرائمری مدارس میں تعیناتی آج تک عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ زبان سے نا واقف حضرات ہی زبان کی تعلیم میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے معیار میں گراوٹ آئی ہے۔جس طرح سے ہائی اسکول میں مضمون واری اساتذہ کے ذریعہ معیاری تعلیم کی فراہمی کی کوشش کی جاری ہے اسی طرح کے عملی اقدامات اگر پرائمری سطح پر کی جائیں تو نہ صرف تعلیمی میعار میں اضافہ ہوگا بلکہ جوق در جوق طلبہ سرکاری مدارس کا رخ کرنے لگیں گے اور ڈراپ آؤٹ پربھی قدغن لگائی جاسکتی ہے۔مضبوط و مستحکم بنیاد کے بغیر عمارت ہمیشہ خطرات کے دائرے میں ہی رہتی ہے۔ پرائمری سطح کو بہتر بنائے بغیر ہائی اسکولس کی بہتری کو کوشش میں ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔مختلف اساتذہ انجمنوں کی جانب سے جاری قانونی رسہ کشی کی وجہ سے اعلی عہدے مخلوعہ پڑے ہیں ان عہدوں پر ترقی گزشتہ پندرہ سالوں سے لیت و لعل کا شکار ہوچکیہے جس کی وجہ سے مانٹیرنگ کا کام بھی مشکلات کا شکار ہوچکا ہے۔444منڈل ایجوکیشن آفیسرس (MEO)اور 44ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر کے عہدے خالی پڑے ہیں نتیجتا تدریسی معیار میں گراوٹ اور سرکاری مدارس میں طلبہ کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔مخلوعہ عہدوں پر اگر فوری اثر کے ساتھ تقررات عمل میں لائے جائیں تو یہ بات سرکاری مدارس اور تعلیمی معیارکی ترقی کا باعث ہوگی۔ حالیہ عرصہ میں اساتذہ کی کمی اور عدم تقرر پر ریاستی حکومت پر سپریم کورٹ نے بھی کڑی تنقید کی ہے۔
استاد،طلبہ کا تناسب(Teacher-Student Ratio) اورعمل معقولیت(Rationalisation):
منطقی طور پر دیکھا جائے تو استاد اور طلبہ کے تناسب کی بات جب آتی ہے توکمرے جماعت میں طلبہ کی زیادہ سے زیادہ اتنی ہوکہ وہ استاد کے کنٹرول سے باہر نہ ہونے پائے اور میری دانست میں استاد۔طلبہ کا 1:30کا تناسب بھی اعظم ترین حد کے لئے متعین ہے نہ کہ اقل ترین حد کے لئے۔ استاد اور طلبہ کا تناسب اعظم ترین حد کے لئے مقرر کیاجاناہی انصاف بر مبنی اقدام نظر آتا ہے۔ قانو ن حق تعلیم (RTE)کی بات کی جائے تو استاد اور طلبہ کے تناسب کو 1:30بتایا گیا ہے اور یہ کمرۂ جماعت کی اعظم ترین حد ہی تصور کی جائے گی نہ کہ اقل ترین حد لیکن اس تناسب کو طلبہ کی بہتری کے لئے استعمال کیئے جانے کے بجائے اساتذہ کی تعداد گھٹانے کا ہتھیار بنا لیا گیا ہے۔جماعت واری اساس پر اساتذہ کی فراہمی سے معیار تعلیم بلند کرنے کے علاوہ ڈراپ آؤٹ کی شر ح پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔جماعت واری اساتذہ کی فراہمی کے بجائے طلبہ کی تعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اساتذہ کی فراہمی کے رجحان نے تعلیمی ماحول کو تباہ کن صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ پہلے حکومت نے عمارات کی کمی اور مخدوش حالات کے پیش نظر ایک عمارت میں کئی کئی اسکول منتقل کردیئے اور سرکاری اسکولوں کو رفتہ رفتہ تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ معقولیت پسندی کے عمل نے سرکاری مدارس کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔معقولیت پسندی کے عمل کی وجہ سے جماعت واری تدریسی کے بجائے کثیر تدریس کا رجحان عام ہوگیا اور تعلیمی معیار بھی روبہ زوال ہونے لگا۔جب معیار پر نقب لگی تو بچے بھی سرکاری مدارس سے منہ موڑنے لگے جس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں کے داخلوں میں کمی کے علاوہ ترک تعلیم کے رجحان نے جگہ بنالی۔قانون حق تعلیم کے رو سے ہر ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر پرائمری،تین کلو میٹر کے فاصلہ پر اپر پرائمری اور پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہائی اسکول کا قیام لازمی قر ار دیا گیاہے۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ یہ فاصلہ کم آبادی والے علاقوں کا احاطہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ جہاں آبادی زیادہ ہو وہاں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مدارس کا قیام ضروری ہے۔شہر حیدرآباد میں ہر گلی میں چھوٹے چھوٹے سرکاری مدارس جو دویا تین کمروں میں کام انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی اسکول میں خاطر خواہ طلبہ کی تعداد نہیں پائی جاتی ہے۔ آبادی کی ضروریات کے پیش نظر مدارس کو رکھتے ہوئے باقی مدارس کو ایسے علاقوں میں منتقل کیا جائے جہاں مدارس نہیں پائے جاتے ہیں تب یہ تعلیم کو عام کرنے میں اہم پیش رفت ہوگی۔تاخیر اور منظوری کے طویل کام کے بجائے باضابطہ محکمہ تعلیم کسی بھی اسکول کی بنیادی ضروریات کا تعین کرے اور باقاعدہ فنڈ جاری کرے۔
خانگی مدارس کی بھر مار:
ہر گلی میں خانگی اسکولوں کے وجود نے بھی سرکاری مدارس میں طلبہ کے داخلوں پر بہت برا اثر ڈالاہے۔خانگی مدارس کے قیام کی منظوری میں حکومت کو نہایت سنجیدگی سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم کو سامان تجارت بنانے سے بچایا جاسکے۔حکومتی سطح پر نہ جانے کیوں اس شعبے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے اور پرائیو یٹ اداروں کو پھلنے پھولنے کا موقعہ دیا جارہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خانگی مدارس کے اساتذہ سرکاری اساتذہ کی بہ نسبت کم قابلیت رکھنے کیباوجودسخت محنت سے اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔جس کی وجہ سے خانگی تعلیمی اداروں کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسکولوں کے قیام کے رہنمایانہ خطوط میں جو فاصلہ اور آبادی کے تناسب کا خیال رکھا گیا ہے ان قوانین سے خانگی مدارس کو اجازت دیتے وقت رو گردانی عام بات ہے جس کی وجہ سے سرکاری مدارس میں طلبہ کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ خانگی مدارس بھی مالیہ کے بحران کا شکار ہوکر آئے دن نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔والدین پہلے تو اپنے بچوں کو بخوشی خانگی مدارس میں داخلہ دلا دیتے ہیں لیکن بعد میں اپنی معاشی حالات کا رونا روکر یا تو خانگی مدارس کو بدنام کرتے ہیں یا پھر بچوں کو اسکول بھیجنا بند کر دیتے ہیں۔ایک دو سال انگریزی میڈیم میں تعلیم دلاکر پھر سے سرکاری اسکول کا رخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے تعلیمی انجمادکا شکار ہوجاتے ہیں۔
ڈراپ آؤٹ پر قابو پانے میں اساتذہ کا کردار؟:
ابتدائے افرینش سے اساتذہ کے وقار اورعظمت کے ڈنکے بجائے جار ہے ہیں۔مسائل کا رونا رونے کے بجائے اساتذہ اپنے حصے کا کام انجام دیتے ہوئے کماحقہ ڈراپ آؤٹ ریٹ پر نہ صرف قابو پاسکتے ہیں بلکہ اس کے سدباب کو ممکن بنا سکتے ہیں۔بات ہے اب عزم اور حوصلے کی۔استاد جب اپنے آپ کو معمار اور مربی کی مسند پر فائز دیکھنا پسند کرتا ہے تو اسیمسائل کا بہانہ کرکے اشک شوئی کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔اساتذہ کی ایک قلیل تعداد اپنی لاپرواہی،کام چوری،فرائض سے پہلوتہی بلکہ فرارکی وجہ سے پیشہ تدریس کو داغدار کر رہی ہے۔ تساہل پسند اور تدریسی فرائض سے اعراض برتنے والے،وقت پر حاضر ی کو کسر شان سمجھنے والے،نونہالوں کے مستقبل بلکہ ملک و قوم کے مستقبل کو تاریک کرنے والے اساتذہ پر گرفت لازمی ہے۔ حکومت نے اساتذہ کو وقت پر حاضر ہونے کے لئے بائیو میٹرک حاضری کے نظام کو متعارف کرتے ہوئے ایک احسن کام کیا ہے تاخیر سے مدرسہ پہنچنے والے اساتذہ کو وقت پر مدرسہ لانے میں نہایت کارگر ثابت ہوگا۔اساتذہ محبت،شفقت اور جانفشانی سے کام لیتے ہوئے طلبہ کو نہ صرف ترک تعلیم سے روکنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں بلکہ ملک و قوم کے روشن مستقبل کی راہیں بھی استوار کرسکتے ہیں۔اساتذہ ارباب مجاز کی کوتاہیوں کو فرائض سے پہلوتہی برتنے کے لئے ایک بہانے کے طور پر استعمال نہ کریں۔مسائل کے سدباب کے لئے اساتذہ انجمنیں اپنا کردار پیش کریں۔دو یا تین ٹیچر کے اسکول پر تعینات اساتذہ کے کندھوں پر عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی محنت شائقہ سے طلبہ کی علمی آبیاری و سیرابی کا کام انجام دیں۔ محکمہ تعلیم اساتذہ کو سیناریٹی کے اساس پر ترقی دینے کے بجائے قابلیت و کارکردگی کی بناء پر ترقی دے تو اساتذہ بھی دلجمعی اور جانفشانی سے اپنی خدمات انجام دینے لگیں گے۔اساتذہ بہر صورت یاد رکھیں کہ وہ کیسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ وہ ایک فرض شناس یا پھر لاپرواہ،بے ایمان اور بددیانت معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔اس کا
فیصلہ اساتذہ ہی کو کرنا ہوگا اور اس کی عملی تربیت طلبہ کو انھیں اپنے اقوال، افعال و اعمال سے دینی ہوگی۔فرض شناس،دیانت دار،معاون و مددگار معاشرے کی تشکیل ہی ملک کو ترقی کی سمت لے جاسکتی ہے۔ اس خوش حالی میں دیگر ابنائے وطن کے ساتھ اساتذہ برادری کی آنے والی نسلیں بھی اپنا حصہ پائے گی۔