ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770
ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پر دیش میں حالیہ دنوں میں انسانیت کو شرمسار کرنے والے جو واقعات ہو ئے ہیں اس سے ہر محب وطن شہری مضطرب اور بے چین ہے۔ 14/ ستمبر کو ایک 19سالہ دلت لڑکی کی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے افراد نے اجتمائی عصمت ریزی کر کے اسے موت کے گھاٹ اتاردیا اور 30/ ستمبر کو رات کے اندھیرے میں اس کی نعش جلادی گئی۔ اس ہولناک واقعہ نے بربریت اور شقاوت کی ایک ایسی بد ترین مثال پیش کی ہے کہ اس سے ہر ایک کا دل کانپ گیا۔
اکیسویں صدی میں ایک جمہوری ملک میں جہاں دستور اور قانون کا بھی بول بالا ہے۔ انسانی حقوق کی اس قسم سے پامالی ایک ایسی شر مناک کارستانی ہے جس کی ہر سطح پر مذ مت ہونی چاہیئے اور خاطیوں کو وہ عبرتناک سزا دی جائے کہ آ نے والی نسلیں بھی اُ سے یاد رکھے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ یو پی کے چیف منسٹر اس سنگین واقعہ پر سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے من گھڑت افسانے گھڑ رہے ہیں۔ اس دلسوز واقعہ پر ہونے والے احتجاج کو بیرونی سازش کہتے ہوئے یوپی حکومت ان لوگوں کے خلاف مقدمات درج کر رہی ہے جو اس متاثرہ لڑکی سے ملنے کے لئے ہاتھرس جانا چا ہتے تھے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ہاتھرس واقعہ کو انتہائی ہولناک، صدمہ انگیز اور وحشت ناک قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود یوگی حکومت مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی کر نے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اتر پردیش میں جب سے بی جے پی کو اقتدار ملا ہے، اقلیتوں اور با لخصو ص مسلمانوں کی زندگی تو اجیرن کر دی گئی لیکن اب دلتوں پر بھی مصیبت کے پہاڑ ٹوٹنے لگے ہیں۔ حیوانیت اور درندگی کے ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں کہ اس قسم کی گھناؤنی حر کتیں جنگل میں شاید جانور بھی نہ کر تے ہوں۔ بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی بچاؤ کا نعرہ لگانے والوں کے دور میں ہندوستان کی ایک بیٹی کی عصمت تار تار ہوتی ہے۔ اس سانحہ کے بعد 15 دن تک وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہتی ہے۔ بالاخر وہ زندگی کی جنگ ہار جاتی ہے۔ مرنے کے بعد بھی اسے انصاف نہیں ملتا ہے۔ اس کے والدین اور دیگر افرادخاندان کو اس کا آخری دیدار کرائے بغیر اس کی نعش کورات کی تاریکی میں سپردِ آ تش کر دیا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد بھی انسان کے کچھ حقوق ہو تے ہیں۔ نعش کو پورے احترام سے اس کے آخری سفر پر روانہ کرنا انسانیت کا تقا ضہ ہے۔ لیکن یہاں نعش کو دیکھنے بھی نہیں دیا گیا۔ یہ ایسی شرمناک حرکت ہے جس پر شیطان بھی شرمسار ہوگیا ہوگا۔ جب معاملہ منظرِ عام پر آیا اور انسانی حقوق کے جہدکار اور سیاسی پارٹیوں کے قا ئدین مظلوموں سے اظہارَ یکانگت کرنے کے لئے ہاتھرس نکل پڑے تو راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے لوگوں کو جانے سے روک دیا گیا۔ انتہا یہ کہ ملک کی سب سے قدیم پارٹی کے لیڈر کے ساتھ یوپی پولیس بد سلوکی کرنے پر اُتر آئی۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ساتھ ہاتھرس جاتے ہوئے جو کچھ ہوا وہ ہر لحاظ سے قا بلِ مذمت ہے۔غیرجانبدار میڈیا کے ساتھ تو پویس ہاتھا پائی پر اُتر آئی۔ خواتین رپورٹرس جو اپنی جان ہتھیلی میں لے کر اس سارے معاملہ کی تحقیق میں لگی ہوئی تھیں ان کے ساتھ وردی والوں نے جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاروائیاں کیں اس سے یہ حقیقت سامنے آ گئی کہ یوپی پولیس، حکومت کے اشاروں پر کام کر تے ہوئے حقائق کو چھپانے میں لگی ہوئی ہے۔ پورے گاؤں کی ناکہ بندی کر دینا، لڑکی کے خاندان والوں کو کسی سے نہ ملنے دینا اور ان پر دباؤ ڈالنا کہ وہ خاطیوں کے خلاف کوئی بیان نہ دیں، کس بات کا اشارہ دیتا ہے؟
ہاتھرس کا یہ بد بختانہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب اس ملک میں ہر اس طبقہ کو نشانہ بنایا جائے گا جو اعلیٰ ذات کے نظریات سے اتفاق نہ رکھتا ہو۔ یہ محض ذات پات کا جھگڑا بھی نہیں ہے۔ اسے صرف دلتوں پر ہوئے ہوئے ایک دردناک واقعہ کی حیثیت سے بھی نہیں دیکھنا چا یئے۔ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ آج اگر دلت، اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے جبر اور ظلم کا شکار ہورہے ہیں تو کل کوئی اور طبقہ ان کے رحم وکرم پر زندگی گذارنے پر مجبور ہو جائے گا۔ یوپی حکومت کی بد دیانتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے اب ببانگ دہل کہا جا رہا ہے کہ اس دلت لڑکی کی عصمت ریزی ہی نہیں ہوئی۔ اتر پردیش حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواہر لعل نہرو میڈ یکل کالج کے ڈپارٹمنٹ آف فارنسک میڈ یسن کی جانب سے جاری کردہ سر ٹیفکٹ کو اپنے حلف نامے کے ساتھ سپریم کورٹ میں داخل کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ رپورٹ کے مطابق لڑکی پر جنسی حملے کی کوئی علامتیں نہیں پائی گئیں اور اس کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے کہ لڑکی کی عصمت ریزی کی گئی ہے۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مانند یوپی پولیس کا ادعا ہے کہ متاثرہ لڑکی کو خود اس کے بھائیوں نے مارا پیٹا جس سے وہ زخمی ہو گئی اور دوران علاج اس کا انتقال ہو گیا۔ یہ ایسا جھوٹ ہے کہ اسے کوئی بھی انسانیت کا ہمدرد قبول نہیں کر تا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے مفاد عامہ کی ایک درخواست قبول کر تے ہوئے اس واقعہ کو وحشتناک اور صدمہ خیز قرار دیا ہے۔اگر یہ واقعہ اتنا بھیانک نہ ہوتا تو کیا سپریم کورٹ اس قسم کا ریمارک کر تی؟ یوگی حکومت مسئلہ کی سنگینی کو کم کرکے بتانے میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن جو کچھ حقائق سامنے آ ئے ہیں اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ متاثرہ لڑکی کو اس کے خاندان والوں نے زدوکوب کیا ہے اور اسی کی وجہ سے اس لڑکی جان گئی ہے تو پھر پولیس کو اتنی حیرانی اور پریشانی کیوں تھی کہ وہ لڑکی کی نعش بھی خاندان والوں کو دینے کی ہمت نہیں کر سکی بلکہ اپنی نگرانی میں انہوں نے اسے جلادیا۔ 14ستمبر کو یہ واقعہ پیش آیا۔ لڑکی اس بربریت اور وحشیانہ حرکت کو برداشت نہ کرسکی اور بیمار ہوگئی۔ بھائیوں نے اس پر ظلم کیا تھا تو کیا 15دن تک وہ یہ بات پولیس کو نہیں بتا سکی؟ پولیس نے آ خر اس دوران ایف آئی آر کیوں نہیں درج کیا؟ کیوں پولیس اس کی اپنی کہانی کے مطابق منیشاء کے بھائیوں کو گرفتار نہیں کر سکی؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولس، ریاست کے سربراہ کے حکم کی تعمیل میں لگی ہوئی ہے۔ ہردن ایک نئی کہانی کے ساتھ عوام کو گمراہ کر نے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ مظلوموں کو انصاف دلانے اور ظالموں پر قانون کا شکنجہ کسنے کے بجائے یوپی حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ اس سارے واقعہ کو بیرونی سازش قرار دے کر ان افراد کے خلاف کاروائی کر نے میں لگی ہے جو اس لڑکی کو انصاف دلانے کے لئے احتجاج پر اُ تر آ ئے ہیں۔یوپی حکو مت سپریم کورٹ کو بھی یہ باور کرا رہی ہے کہ ہاتھرس واقعہ پر میڈیا میں غلط بیانی سے کام لیا جا رہا ہے اور داستانیں گھڑی جا ر ہیں ہیں۔ حکومت یہ الزام بھی لگا رہی کہ مفادات حا صلہ اس سا نحہ کا استحصال کر تے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کر نا چاہتے ہیں۔ یوگی حکومت عوامی احتجاج کو یہ کہہ کر مسترد کر رہی ہے کہ اس سے غیر ضروری طور پر ملک میں سنسی پھیل رہی ہے۔ حکومت کی اس بے حسی سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کی بیٹیوں کی بے دردانہ ہلاکت پر بھی خاطیوں کے تئیں اپنے دل میں نرم گو شہ رکھتی ہے۔ ایک 19سالہ لڑکی دردندوں کی ہوس کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کی لاش کو جلادیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یوگی حکومت اسے ایک معمولی واقعہ قرار دیتی ہے تو اس سے یوگی حکومت کی بے ضمیری کا اندازہ لگ جا تا ہے۔ رام اور سیتا کی کہانیاں سناکر عورتوں کے تقدس کو بیان کر نا آسان ہے لیکن بی جے پی کے دور میں عورتوں کی عفت اور عصمت کی حفاظت ممکن نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک اس نوعیت کی وحشیانہ حر کتیں ہو تی رہیں گی؟ آخر کب تک اس ملک کے کمزور اور پسماندہ طبقے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ظلم کو برداشت کر تے رہیں گے۔ ظلم کی اس ناؤ کو اسی طرح چلنے دیا جائے گا تو ایک دن وہ آ ئے گا کہ ملک کا کوئی طبقہ بھی اس آندھی کا مقا بلہ کر نے کے مو قف میں نہ رہے گا۔دلت گذ شتہ دو سو سال سے ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ دستورِ ہند کے معمار ڈاکٹر بی۔ آر۔ امیڈ کر نے اس استبدادی نظام کے خلاف زبردست جد وجہد کی تھی۔ Annihilation of Casteڈاکٹر امیڈکر کی وہ شہرہ آفاق تصنیف ہے جس میں انہوں نے ہندوؤں کے ذات پات کے نظام کی دھجیاں اُڑا کر رکھدی۔ ہندوستانی سماج کے ذات پات کے نظام کو ختم کرنا ان کا مشن رہا۔ ڈاکٹر امیڈکر خود اس غیر فطری اور غیر انسانی نظام کا شکار ہوئے تھے، اسی لئے انہوں نے اس کے خلاف مہم چلائی۔ آج دلت طبقہ کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ منووادی نظام میں اسے جینے کے کوئی سامان نہیں ہیں۔ ہندوؤں کا اعلیٰ طبقہ دلتوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر تا رہا۔ ریزویشن کے نام پر کچھ بھیک اس طبقہ کو دے دی گئی لیکن سماج میں وہ جس اعزاز و اکرام کے مستحق تھے وہ انہیں آج بھی حا صل نہ ہو سکا۔ کوئی دلت، کسی اعلیٰ ذات کی مندر میں جا کر پوجا نہیں کر سکتا اور نہ وہ کسی برہمن کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ اس کی دو سو سال پہلے جو سماجی حیثیت تھی وہ اب بھی جوں کی توں باقی ہے۔ انتخابی سیاست کی مجبوری کے خاطر الیکشن کے وقت ان کے وارے نیارے کئے جاتے ہیں اور بعد میں وہی سلوک کیا جاتا ہے جو ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ واقعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ سو شیل میڈیا کا دور ہے اس لئے اس انسانیت سوز واقعہ پر اس قدر ردّ عمل سا منے آ رہا ہے۔ نجانے آج بھی کتنی دلت لڑ کیاں اپنی عصمتیں لُٹانے پر مجبور ہیں۔ اب تو اعلیٰ ذات والوں کو حکومتوں کی سر پرستی بھی حا صل ہے اس لئے وہ دندناتے ہوئے مجبوروں اور بیکسوں پر ظلم ڈھاتے جا رہے ہیں۔ انتہائی شرمناک حر کتیں کر نے کے باوجود ان کو کوئی لگام دینے والا نہیں ہے۔ ہر بھیانک واقعہ کے بعد کچھ دن تک اس کے خلاف احتجاج ہوتا ہے اور اس کے بعد ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ملک میں 2019 میں 3,486 عصمت ریزی کے واقعات ہوئے۔اس کا شکار ہونے والوں میں اکثریت دلتوں کی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف 32فیصد مجرم ہی قانون کی شکنجہ میں ا ٓ سکے۔ ہاتھرس میں جس لڑکی کی عصمت ریزی کی گئی اور جسے قتل کر کے جلادیا گیا اس کے افراد کو حکومت کی ایجنسیاں یہ کہہ کر ڈرا رہی ہیں کہ: میڈیا چلا جائے گا، صرف ہم ہی تمہارے ساتھ رہنے والے ہیں: یعنی ہم جو کہیں گے وہی تم کو کہنا ہوگا۔ یہ ویڈیو، سو شیل میڈیا پر وائرل بھی ہوا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کی تحقیقاتی ایجنسیاں کس طرح متاثرہ افرادپر دباؤ ڈالتے ہوئے حقائق کو چھپانا چا ہتی ہیں۔ اسی لئے قتل کرنیوالے، عصمتوں کو لوٹنے والے اور دہشت گردی کرنے والے جیلوں میں نہیں بلکہ ملک کی پارلیمنٹ اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں براجمان ہیں۔ قانون کو اپنے پیروں تلے روندنے والے قانون ساز اداروں کے رکن بن جائیں اور وزارتیں حاصل کریں تو اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا اس پر سوچنا ہمارا قومی فرض ہے۔ ہاتھرس کا واقعہ درندگی اور بہیمیت کی انتہا ہے۔ جب تک ملزمین کو گرفتار کر کے انہیں کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا انصاف کے تقا ضے پورے نہیں ہوں گے۔ اس لئے ہر انصاف پسندشخص کو حق کا علمبردار بن کر اٹھنا ہوگا اور دنیا کو بتانا ہو گا کہ حکومت کفر کی بنیاد پر پھر بھی چل سکتی ہے لیکن ظلم کی بنیاد پر ہر گزنہیں چل سکتی۔ اگر آج یہ آواز نہ اٹھائی جائے تو ظالم کا ظلم بڑھتا ہی جائے گا۔ کچھ نہ کہنے سے بھی چِھن جاتا ہے اعزازِ سخن : ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔