پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
صدیوں کے غبار اور رفتار زمانہ نے نہ جانے کتنی تہذیبیں کھنڈر بنا ڈالیں کتنی سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں کتنے نامور خانوادوں کا نام تک نہ رہا کیسے کیسے قد آور نامور گمنام بلکہ بے نام ہو گئے صدیوں کی شان و شوکت لمحوں میں نشان عبرت بن گئی ہمالیہ جیسے قد آور لوگ پیوند خاک ہو گئے گردشِ لیل و نہار نے بڑے بڑوں کے سر چکرا دیے۔وقت کے بے راس گھوڑے نے ہمالیہ جیسے لوگ راکھ بنا کر اڑا ڈالے۔
سکندر۔چنگیز خان اور امیر تیمور جیسے بہادر خشک پتوں کی طرح وقت کی آندھیوں کی نظر ہو گئے۔ مشرق و مغرب تک پھیلی سلطنت کے مالک جو اپنے نام کے خطبے پڑھواتے تھے ان کو فاتحہ پڑھنے والا نصیب نہ ہو سکا۔ کروڑوں دلوں کی دھڑکن شہرت کی چکا چوند میں زندگی بسر کرنے والوں کو بعد از مرگ قبر پر شمع جلانے والا نہ مِل سکا۔جن کے محلوں اور حویلیوں میں رنگ و نور کی برسات ہو تی تھی جن کے چمن آباد تھے آج ان کی مٹی برباد ہے جن کے ناموں پر شہر بستے تھے آج ان کے مقبروں پر ویرانی اور تنہائی برستی ہے۔
جن کی نوبت کی صدا سے گونجتے تھے آسمان
دم بخود ہیں مقبروں میں ہوں نہ یاں کچھ بھی نہیں
ماضی اور حال کے اربوں انسانوں میں کچھ لوگ اِس کر ہ ارض پر ایسے بھی طلوع ہو ئے جو کبھی سر یر آرائے سلطنت ہو ئے اور نہ وارثان تاج و تخت ٹہرے نہ خود کو سجدے کرا ئے اور نہ ہی عالم پناہ کہلائے نہ ہی کبھی خدائی کا دعوی کیا اور نہ ہی کبھی شاہی محل کے جھروکوں میں بیٹھ کر دیدار ِ عام کروایا اور نہ ہی کبھی اپنے نام کا سِکہ جاری کیا۔ بے شک یہ لوگ سریر آرائے سلطنت نہیں ہو ئے لیکن کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ پر آج بھی حکومت انہی کی ہے تخت و تاج کے وارث تو کبھی نہ بنے مگر عقیدتوں کا خراج آج تک موصول کر رہے ہیں یہی وہ خاک نشین تھے جنہوں نے کبھی ایک نظر بھی شاہی محلات کی طرف نہیں دیکھا لیکن عوام کے حقیقی حکمران آج بھی یہی ہیں یہی لوگ تاریخ کی مراد ہیں تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں جن پر تاریخ ناز کر تی ہے۔ میں جب بھی کسی اولیا اللہ کے بارے میں لکھنے لگتا ہوں تو سوچتا ہوں ایسا زور دار قلم اور انداز تحریر کہاں سے لاں کہ اِن کی عظمت کا حقیقی اظہار ہو سکے آج بھی جس عظیم ترین حیران کن اہل حق کا ذکر حاصل محفل ہے اس کے بارے میں لکھتے وقت بھی الفاظ کہیں کھو جاتے ہیں۔ جس طرح آپ کسی خوشبو یعنی عطار کی دوکان پر پہنچ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ کونسی خوشبو خریدیں کیونکہ چار سو خوشبو کے جھونکے آپ کے مشام کو مست اور خوشبو کے سمندر میں عرق کر دیتے ہیں کہ ایک پر دوسرے کو فوقیت دینا اور بے شمار ورائٹی میں سے ایک کا انتخاب کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے اِسی طرح کسی عظیم اور پہلو دار شخصیت پر گفتگو کر نا اورمقالا لکھنا بہت مشکل کام ہو تا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے نامور صوفی بزرگ حضرت سید علی ہجویری کی شان اور عظمت کے بارے میں لکھنا بھی بہت مشکل کا م ہے آپ کی تعریف سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے اولیا اور صوفیا کی پوری جماعت میں جو شہرت اور محبوبیت سید علی ہجویری کے حصے میں آئی ہے وہ یقینا کسی اور کا مقدر نہیں بنی۔ جنہیں صدیوں کی الٹ پھیر ابھی تک صفحہ عزت اور لوح شہرت سے محو نہ کر سکی۔تاریخ جتنی با ربھی نئی کروٹ لے اس کی ہر کروٹ سے علی ہجویری کی شخصیت پہلے سے بھی زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے زمانہ چاہے جتنی بار گردش کھائے ہر گردش سے فیض عالم کی تصویر پہلے سے زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہے۔ وقت چاہے جتنے پہلو بدلے اس کے ہر پہلو سے سید علی ہجویری نیا جنم لیتے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ ہر دور میں آپ کا وجود اہل حق کے لیے چشمہ معرفت اور بادِ بہاری رہا ہے۔ اپنے مرشد کے حکم پر جب آپ لا ہور تشریف لا ئے تو اس وقت لاہور صنم کدہ بنا ہوا تھا بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ اس وقت پنجاب کا حکمران رائے راجو تھا۔ رائے راجو سفلی عملیات کا ماہر تھا اور بہت ساری شیطانی قوتوں کا مالک تھا اِسی وجہ سے لوگ اِس کو راجو جوگی کے نام سے پکارتے تھے ایک دن سید علی ہجویری اپنی مسجد کے دروازے پر کھڑے تھے کہ ایک ہندو عورت سر پر دودھ کا مٹکا اٹھا ئے گزری آپ نے اسے مخاطب کیا ور کہا کہ تھوڑا سا دودھ ہمیں بھی فروخت کر دو تو عورت بولی ہم یہ دودھ جوگی کو دینے پر مجبور ہیں اگر ہم جوگی کو دودھ نہ دیں تو ہمارے جانوروں کے تھنوں سے دود ھ کی بجائے خون جاری ہو جا تا ہے جوگی اپنے سفلی عملیات میں اتنا ماہر ہے کہ کو ئی بھی اس کی مخالفت اور انکار کی جرات نہیں کر سکتا۔ سید علی ہجویری نے فرمایا اب ایسا نہیں ہو گا تم تجربہ کر کے دیکھو لو اس کے سفلی عملیات اب تم پر اثر نہیں کریں گے۔ ہندو عورت علی ہجویری کی گفتگو اور روحانی شخصیت سے بہت متاثر ہو ئی اور دودھ کا مٹکا آپ کو فروخت کر دیا۔ شام کو عورت اور اس کے قبیلے نے حیرت انگیز منظر دیکھا جب وہ جانوروں کا دودھ دوہنے لگے تو گھر کے سارے برتن دودھ سے بھر گئے لیکن تھنوں میں ابھی بھی دودھ ختم نہیں ہو ا تھا۔ پھر یہ خبر قرب و جوار میں بھی پھیل گئی۔ اب غریب لوگوں نے قطار در قطار آپ کے حضور دودھ دینا شروع کر دیا جب گھر جا کر دوبارہ دود ھ دوہتے تو لگتا جیسے تھنوں سے دودھ کے چشمے ابل پڑے ہیں آخر لاہور کے تمام گوالوں نے جو گی کو دودھ دینا بند کر دیا۔ اب رائے جوگی غصے میں پھنکارتا ہوا سید علی ہجویری کے پاس آیا اور کہا تم نے میرا دودھ بند کرا دیا ہے اب تمھاری خیرنہیں، اب کو ئی کمال دکھا، سید علی ہجویری نے مسکرا کر کہا میں کو ئی شعبدہ باز جادوگر نہیں کہ تمھیں شعبدے دکھاں میں تو اللہ تعالی کا عاجز بندہ ہوں جو اپنے جسم کی حرکات پر بھی قادر نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اسی مالک بے نیاز کے حکم سے ہو رہا ہے جو حقیقی پرستش کے لائق ہے جو اول آخر ظاہر باطن اور واحد ہے ہاں اگر تم کو شوق ہے تو اپنا کو ئی کمال یا جادو دکھا رائے جو گی کو اپنے جادو اور سفلی قوت پر بہت ناز تھا جب اس نے سید علی ہجویری کے سامنے اپنی قوت اور فن کا اظہار کر نا چاہا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا جسم پتھر کے مجسمے میں تبدیل ہو گیا اور و ہ اپنی تمام منفی قوتوں اور کمالات سے محروم ہو چکا ہے رائے جوگی بڑی دیر تک کو شش کر تا رہا آخر سید علی ہجویری کے روحانی مقام اور تصرف کو مانتے ہو ئے اپنا سر آپ کے سامنے زمین پر رکھ دیا اور اپنے اباو اجداد کے مذھب بت پرستی سے تائب ہو کر مسلمان ہو ا۔ حضرت علی ہجویری کے دست حق پر بیعت ہو نے والا یہ پہلا مسلمان تھا۔