تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
جس دن سے کرہ ارضی پر نسل انسانی کی افزائش شروع ہو ئی ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ دھرتی کے چپے چپے پر حضرت انسان خودرو جڑی بوٹیوں کی طرح اُگتا آرہا ہے موجودہ دور میں تو دنیا کا شاید ہی کو ئی کونا ایسا ہو جہاں پر منچلے حضرت انسان کے پاؤں نہ پہنچے ہوں روزانہ لاکھوں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ مٹی اوڑھ کر سو بھی جاتے ہیں‘ خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح پیدا ہو نے والے انسان کا دنیا میں آنے کا پتہ ہی نہیں چلتا وہ کب آیا افزائش نسل کا حصہ بن کر چلا گیا
لیکن اِن انسانوں میں کبھی کبھی کوئی ایسا ست رنگ مہکا ہو اپھول اِس سج دھج آن شان سے کھلتا ہے کہ وہ گو شہ مہک آلود ہواؤں سے مہک جاتا ہے یہ پھول عام پودوں سے مختلف کیوں ہو تا ہے کیونکہ اُس کے آنے سے ویرانی ختم اور بہار رنگ کھل اُٹھتے ہیں یہ عام انسان نہیں بلکہ اِس کی تخلیق اور خمیر میں عشق کی مٹی استعمال کی جاتی ہے یہ انسان جہاں بھی پیدا ہو تا ہے دوسروں سے مختلف ہو تا ہے‘ نفرت غصے انسانی برائیوں سے پاک‘ہوش سنبھالتے ہی شعوری بیداری کے ساتھ ہی کائنات کی ہر چیز سے پیار کرتا ہے پھر اِس کا ئنات کے خالق کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے یہ وہ خوش قسمت بندہ ہو تا ہے جس کو حق تعالیٰ نے اپنے عشق کے لیے پیدا کیا ہو تا ہے اِسے دھرتی کے انسانوں سے پیار کے لیے پیدا کیا ہو تا ہے اِس کی فطرت میں حق تعالیٰ سے عشق کے بعد زمین پر ہر چیز زندہ مردہ سے پیار کر نا ہو تا ہے کیونکہ اِس کے خمیر میں عشق کاآٹا استعمال ہو تا ہے۔ اِس کے باطن میں عشق کی چنگاری سلگ رہی ہو تی ہے انہیں جیسے ہی ماحول یا کوئی عشق والا بندہ مل جائے وہ چنگاری آگ کا روپ دھار کر اُس کے رزائل جسمانی باطنی خامیوں کو بھسم کر دیتی ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا کام ہی عشق ہو تا ہے۔ اِس لیے جیسے ہی یہ بلوغت کے دور میں آتے ہیں شعوری بیداری میں آتے ہیں تو عشق عشق کرتے نظر آتے ہیں اِس دور میں جیسے ہی کوئی انسان دل کو بھایا یہ اُس کے عشق میں مبتلا ہو کر تن من دھن سے اُسکا طواف شروع کر دیتے ہیں کیونکہ عشق کے جذبے سے سر شار ہو تے ہیں عشق کر نے کے لیے ہی دنیا میں آتے ہیں لہٰذا وہ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اُس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اب جس پر یہ عاشق ہو تے ہیں وہ عشق کے فطری جذبے سے مالا مال نہیں ہو تے جس آگ میں یہ سلگتے ہیں وہ اِس سے محروم ہو تے ہیں۔اِس لیے عاشق کوچہ عشق مجاز میں غوطے کھانا شروع کردیتے ہیں دوسرا اِس عشقیہ آنچ سے محروم ہوتا ہے عاشقوں میں شدت ہو تی ہیں جن سے یہ عشق کرتے ہیں اُن میں شدت نہیں ہوتی یہاں سے اِن کے اختلاف شروع ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا دنیاوی محبوب اِن کی گر مجوشیوں سے گھبرا جاتا ہے اور اِن دیوانوں مستانوں سے دوری اختیا ر کر لیتا ہے محبوب کی بے رخی دوری ہجر اِن کو ماہی بے آب کی طرح تڑپا تڑپا دیتی ہے محبوب کی جدائی ہجر عاشقوں سے برداشت نہیں ہو تا رواں رواں ہجر کی چتا میں سلگنا شروع کردیتا ہے پھر محبوب کو منانے اُس کے وصل قرب کے لیے کوچہ محبوب کے پھیرے لگاتے ہیں اُس سے معافیاں مانگتے ہیں اُس کے حضور جا کر ماتھا رگڑتے ہیں غلامی نوکری کرتے ہیں لیکن محبوب تو اپنی ہی بے نیازی کی چادر میں لپٹا ہوتا ہے جس کرب ہجر دکھ سے یہ گزر رہے ہوتے ہیں محبوب اُس سے آشنا نہیں ہوتا پھر محبوب کو منانے وصل ِ یار کے لیے اِیسے مایوس نامراد عاشق بابوں درویشوں کے پاس جاکر دامن مراد پھیلا دیتے ہیں محبوب کے دیدار وصل کے لیے پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح محبوب محبوب کی ضد کر تے ہیں کامل درویش اِیسے درویشوں کو گلے لگا کر ہجر کی آگ کو ٹھنڈا کر نے کی کو شش کر تا ہے کامل درویش کو پتہ ہو تاہے کہ یہ عشق مجاز سے عشق حقیقت کی پل صراط پر چل رہے ہیں اپنے قریب کر کے اُن کو تربیت میں ڈال دیتا ہے غیر محسوس طریقے سے ایسے عاشقوں کو اپنے قریب کر لیتا ہے تو جہ پیار کے بھوکے ایسے عاشق جن کی تخلیق ہی عشق کے لیے ہو تی ہے کسی کے پیار سے پکارنے پر جان قربان کر نے پر آجاتے ہیں اہل دنیا ایسے دل جلوں کو نفرت حقارت سے ٹھکرا دیتے ہیں دھتکار دیتے ہیں لیکن درویش فقراء ایسے دل جلو ں کو اپنی شفقت بھری آغوش میں پناہ دیتے ہیں تاکہ دنیاوی محبوب کا غم کم کر کے ایسے عاشق کو عشق حقیقی کی طرف موڑا جاسکے۔ میری طویل روحانی زندگی میں بہت سارے ایسے دل جلے عاشق مجازی عشق کی ٹھوکریں کھانے کے بعد جب مجھ مشت ِ غبار کے پاس آئے تو میں نے اِن سے پیار کیا اِن کو گلے سے لگایا کیونکہ یہ تو عشق کی مٹی میں گوندھے میٹھے لوگ پیارے لوگ‘ اٰیسے دیوانوں میں دو مری کے دیوانے مجھے آج بھی یاد ہیں ناصر کشمیری (مرحوم)جو اب اِس دنیا میں نہیں رہا‘ عشق مجاز کے ہچکولوں میں میرے پاس آیا چند ملاقاتوں کے بعد ہی جب میں نے اُسے کہا تم اِس عشق کے لیے نہیں بلکہ عشق حقیقی کے مسافر ہو تو اُس عظیم جانباز نے کہا سرکار آج کے بعد آپ اُس لڑکی کا نام میرے ہونٹوں سے ادا ہوتا نہیں سنیں گے پھر اُس نے واقعی یہ ثابت کیا وہ میرے اور خدا کے عشق میں اِس قدر غرق ہوا کہ منزل کو پاگیا دوسرا عاشق پشاور کا ہیجڑا باجی شبنم یا باجی مورت تھا جو دنیاوی عشق کے انگاروں پر بھسم ہو تا روتا پیٹتا آیا اور چند ملاقاتوں کے بعد اُس نے بھی سچی تو بہ کی‘ راہ فقر اور عشق حقیقی کا مسافر بنا یہ دو دیوانے مستانے جنہوں نے دنیاوی محبوبوں کو ٹھوکر مار کر عشق حقیقی کا راستہ اپنایا ایک دن دونوں میرے پاس تھے تو ناصر بولا سر کا ر یہ عشق واقعی بر باد کر دیتا ہے تو میں نے مولانا روم کی حکایت سنائی کہ انسان کے عشق حقیقی میں مبتلا ہونے کی مثال اِسطرح ہے کہ ایک مرغ بہت بڑے اونٹ کو مہمان بنا کر اپنے گھر لے آیا اونٹ اپنے پہاڑی جسامت کے ساتھ جب مرغ کے گھر میں آیا تو جیسے ہی مرغ کے گھر میں قدم رکھا سارا گھر تباہ و برباد ہو گیا یہی حال انسان کا خدا سے عشق ہے جب عشق الٰہی اونٹ بن کر آتا ہے تو خانہ مرغ جو کہ عقل و ہوش ہیں وہ فنا و ختم ہو جاتے ہیں۔مولانا فرماتے ہیں دنیاوی شراب میں وہ جوش و خروش نشہ سرشاری کہاں ہے جو عشق صادق کے نشے میں ہے کیونکہ عاشق وحدت کا غوطہ خو ر ہے جس میں ہمہ وقت غو طے لگاتا ہے جس طرح انجیر ہر پرندے کی غذا نہیں ہو تا اِسی طرح عاشق بھی زمانے سے نرالے مختلف ہو تے ہیں جو ہر وقت محبوب پر فنا ہو نے کے بہانے تلا ش کر تے ہیں ناصر اور باجی مورت بھی ایسے ہی دیوانے مستانے تھے جنہیں مرشد اور خدا کا عشق دیوانہ بنائے رکھتا ہر وقت ایک ہی خواہش کو شش ٹو ہ کہ محبوب کو راضی کیسے کیا جائے یہ اُس جنون میں مبتلا ہو تے ہیں جن کو عام انسان سمجھ ہی نہیں سکتا جس جنوں جذبے دیوانگی مستانگی سے یہ گزرتے ہیں عام لوگ اُس لذت آشنائی سے محروم ہوتے ہیں کیونکہ عشق وہ بیماری ہے کہ اپنی بجائے محبوب کی خوشی ہر لمحہ عزیز ہو تی ہے ہمہ وقت کسی کی رضا کا احساس‘ کسی کے ابروئے چشم پر جان وارنے کا حوصلہ عاشقوں میں ہی ہو تا ہے یعنی اپنی پروا ہ بلکل نہیں محبوب کی پروا ہ‘ وہ کیسے راضی ہو وہ کیسے خوش ہو میں کس طرح اُس پر قربان ہو جاؤں یہ لازوال جذبہ صرف اور صرف عاشقوں کی رگوں میں خون کی جگہ دوڑتا ہے عاشقوں کے سرتاج مولانا روم عاشق بے مثال مجنوں کی مثال دیتے ہیں کہ ایک بار مجنوں بیمار ہو گیا عشق کی شدت نے خون میں ابال پیدا کر دیااُس کے خون کے دباؤ کو کم کر نے کے لیے کٹ لگانے کا فیصلہ ہوا تا کہ جوشیلا خون جسم سے نکالا جاسکے اِ س کام کے ماہر کو بلایا گیا جب وہ کٹ لگانے لگا تو مجنوں نے رونا شور مچانا شروع کردیا کہ مجھے کٹ نہ لگاؤ میں مر جاؤں گا ختم ہو جاؤں گا مجھے مت مارو تو لوگوں نے پو چھا تم جنگلوں ویرانوں میں اکیلے پھرتے ہو کبھی درندوں سے نہیں ڈرتے تو اِس چھوٹے سے کٹ سے کیوں ڈر رہے ہو درندوں کو تمہارے وجود سے انسانی خون کی بو نہیں آتی اِس لیے تم پر حملہ نہیں کر تے تمہارے عشق کی بو سونگھ کر وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو مجنوں بولا میں کٹ لگانے سے نہیں ڈرتا کیونکہ میرا صبر تو پہاڑ سے بھی بڑا ہے اور ساری عمر زخم کھانا تو میری عادت رہی ہے نہ ہی زخم کھانے سے مجھے درد ہو تا ہے بلکہ زخم کھانے سے تو میرے جسم کو آرام ملتا ہے اچھا لگتا ہے میں تو خود کو لیلیٰ کے وجود میں فنا کر چکا ہوں مجنوں تو صفر ہو گیا بھسم ہو گیا اب میں نہیں ہوں اب میرے جسم میں لیلیٰ موجود ہے تو میں کٹ لگوا کر لیلیٰ کو کیسے زخمی کر لوں اپنی جان کو زخم لگتا نہیں دیکھ سکتا میں اب میں مجنوں نہیں بلکہ لیلیٰ ہوں یہی جذبہ دیوانے مستانے ناصر اور باجی مورت میں تھا۔