از۔محمدقمرانجم فیضی
ایک ایسے وقت میں جب کہ سارا ملک کورونا وائرس کی مار سے پریشان و بےحال ہے کسان بھی اور غریب عوام اناج کی کمی اور مہنگائی سے پریشان ہیں ،ایسے سنگین اور خوف کے ماحول میں مرکزی حکومت کسانوں اور غریبوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے بل لائی ہے، مرکز نے اس معاملہ میں ریاستوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا،ملک بھر کے کروڑوں کسان کو حکومت مایوس کرے گی تو اس حکومت کے مستقبل کے لئے یہ یکطرفہ کارروائی مناسب نہیں ہے،
ہندوستان میں بی جے پی حکومت کی طرف سے متنازعہ زرعی قوانین پارلیمان سےمنظور کرانے کے بعد سےلےکر اب تک پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہے حالانکہ وزیراعظم ان قوانین کو کسانوں کی تاریخی کامیابی بتارہے ہیں۔ان قوانین کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا سے منظور کرانے کے دوران اپوزیشن اراکین نے زبردست احتجاج اور ہنگامہ بھی کیاتھا، جس کے نتیجے میں آٹھ اراکین پارلیمان کو ایک ہفتے کے لئے معطل بھی کردیا گیاتھا، راجیہ سبھاکے چیئرمین کے اس فیصلے کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے منگل کے روز سے ایوان کا بائیکاٹ بھی کردیاتھا۔ اور تو اور حکومت کی حلیف جماعت شرومنی اکالی دل سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر ہرسمرت کور نے ان قوانین کو کسان مخالف بتاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا اور کسانوں کی تقریباً 300 تنظیموں نے 25 ستمبر کو ملک گیر احتجاجی مظاہروں[بھارت بند] کا اعلان بھی کیاتھا اور خوب شاندار جاندار مظاہرےبھی ہوئے۔ لیکن حکومت ان زرعی قوانین کے فائدے اور خوبیاں گنوانے میں ابھی تک مصروفِ عمل ہے۔اس بڑھ کر حکومت کی بوکھلاہٹ اور کیا ہوسکتی ہے کہ آج صدرجمہوریہ رامناتھ کووند نےپارلیمنٹ کے ذریعہ منظور تین زرعی بلوں کو منظوری دے دی ہے، راجیہ سبھا نے اتوار کو بھاری ہنگاموں کے درمیان زرعی پیداواری تجارت اور تجارت (فروغ اور سہولت) بل-2020، کسانوں (امپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) پرائس انشورنس معاہدہ اور زرعی خدمات سے متعلق معاہدوں کا بل اور ضروری اشیا (ترمیمی) بل منظور کیا تھا۔ ان بلوں کو پہلے ہی لوک سبھا مں منظوری مل چکی تھی، پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں پیش کئے گئے ان تین بلوں کو لے کر پورے ملک میں کسان احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہیں اپوزیشن نے بھی ان بلوں کو پاس نہ کرنے سے متعلق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند سے ملاقات بھی کی تھی۔
جس طرح جی ایس ٹی، نوٹ بندی، لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے بعد اس کی خصوصتیں اور فائدے مرکزی حکومت گِنا رہی تھی، ایسے ہی کسان بل کے بارے میں بھی کسانوں کو یہی سبز خواب دکھا رہی ہے جب کہ ان زرعی بلوں کا پاس ہونا نکمی حکومت کی دلیل ہے جب کی مرکزی حکومت کاکہنایہ ہے کہ ان قوانین سے کسانوں کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی پیداوار کو حکومت کے زیر انتظام منڈیوں میں فروخت کرنے کی مجبوری سے آزاد ہوجائیں گے۔ وہ کسی بھی بڑے کاروباری شخص کے ساتھ معاہدے کرسکیں گے،
اپنی پیداوار کو کسی بھی تاجر یا کارپوریٹ کمپنی کو اور ملک میں کہیں بھی فروخت کر سکیں گے، جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔ کسانوں کا ردعمل کسان رہنما تاہم اسے جھوٹ اور فریب قرار دے رہے ہیں۔ آل انڈیا کسان سبھا کے قومی جنرل سکریٹری اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو اردوکے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کی مودی حکومت کسانوں کومسلسل دھوکے دے رہی ہے،” اس نے عوام کو سچائی بتائے بغیر،جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے کسان مخالف بل منظور کرالیئے ہیں۔” اتول کمار انجان کا کہنا تھا کہ حکومت کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے نام پر بھی دھوکے دے رہی ہے۔کیوں کہ اب کسانوں کی پیداوار منڈیوں میں فروخت ہونے کے بجائے اونے پونے داموں پربڑے کاروباری خریدلیں گے۔ ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹنگ کمیٹی قانون بھارت میں تقریباً 55برس پرانے ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹنگ کمیٹی قانون کی رو سے کسان اپنی پیداوار کو ملک کی 7000 سے زائد سرکاری منڈیوں میں کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں، اس کا مقصد انہیں بڑے ادارہ جاتی خریداروں کے استحصال سے بچانا ہے۔ حکومت کی دلیل یہ ہے کہ کمیشن ایجنٹوں کا خاتمہ ہوجانے سے کسانوں اور صارفین دونوں کو فائدہ ہوگا۔ تاہم زرعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں کیوں کہ جہاں بھی اس طرح کا تجربہ کیا گیا ہے، وہاں کسانوں کا ہی نقصان ہوا ہے۔ نقصان کیسے؟ ہند کسان نیوز چینل کے چیف ایڈیٹر ہرویر سنگھ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اس طرح کا نظم صرف بہار میں ہے۔ لیکن اس نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ مکئی کے 1765روپے فی کوئنٹل کم از کم سرکاری قیمت کے مقابلے میں بہار کے کسانوں کو مکئی کی اپنی فصل 900 روپے فی کوئنٹل فروخت کرنی پڑی۔” ہرویر سنگھ کہتے ہیں کہ اگر بھارت میں اپنی مصنوعات خود فروخت کرنے کا یہ نظام مثالی ہوتا تو بہار کے کسان ہر سال برباد نہیں ہوتے۔ کسانوں میں غربت بھارت میں تقریباً 85% فیصد کسان کافی غریب ہیں۔ ان کے پاس پانچ ایکڑ سے بھی کم زمین ہے اور ان کے لئے اپنی پیداوار کو فروخت کرنے کے سلسلے میں بڑے خریداروں سے معاملہ طے کرنا مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ موجودہ نظام میں کمیشن ایجنٹ مشکل گھڑی میں کسانوں کی مالی مدد کرتے ہیں تاہم بڑی کمپنیوں سے اس طرح کسی انسانی ہمدردی کی امید رکھنا فضول ہے۔ بھارت میں حکومت زرعی پیداوار کی ہر سال ایک کم از کم قیمت (ایم ایس پی) طئے کرتی ہے، جس سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوتا ہے۔ مودی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایم ایس پی ختم نہیں کرے گی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے زرعی قوانین میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ کسانوں کی طرف سے ان قوانین کی مخالفت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔ ماہرین کی رائے زرعی امور کے ماہر ہرویر سنگھ کہتے ہیں، "ایم ایس پی لفظ کا اس قانون میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے۔ میری پچھلے دنوں وزیر زراعت سے بات چیت ہوئی تھی، ان کا کہنا تھاکہ ایم ایس پی کوئی قانون نہیں ہے۔ یہ ایک اسکیم ہے۔” ہرویر سنگھ کے مطابق چونکہ یہ ایک اسکیم ہے اس لئے حکومت جب چاہے کسی اسکیم کو صرف دو سطری حکم سے ختم کرسکتی ہے۔ 130کروڑ آبادی والے بھارت میں تقریباً پچاس فیصد افراد زراعت پر منحصر ہیں۔ ہرویرسنگھ کا کہنا تھا کہ لوگ فی الحال زراعت کو اپنا کام سمجھ کر کرتے ہیں لیکن جب بڑی کمپنیاں اس کاروبار سے وابستہ ہوجائیں گی تو ان لوگوں کی حیثیت یومیہ مزدور جیسی ہوجائے گی۔ یہ بھارت کے سوشل سکیورٹی اور فوڈ سکیورٹی دونوں کے لئے باعث ہلاکت خیز ہوگا۔ تاریخی اقدام تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی زراعت سے متعلق ان قوانین کو تاریخی حیثیت کا حامل قراردے رہے ہیں لیکن اس سے پہلے بھی انہوں نے بڑے کرنسی نوٹوں پر پابندی(نوٹ بندی)، اشیاء اور جی ایس ٹی اور پھر کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون کو تاریخی بتاتے ہوئے، ان کے بیشمار فائدے گنوائے تھے لیکن ان سب کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ مودی حکومت نے ان زرعی قوانین کوگزشتہ جون میں آرڈی ننس کی شکل میں نافذ کردیا تھا لیکن اب انہیں باضابطہ قانونی شکل دیدیاگیاہے۔ پارلیمان سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد یہ باضابطہ قانون کی شکل اختیار کرچکی ہے،
جب کہ اس بل سے کسانوں کابہت ہی زیادہ نقصان ہونےوالا ہے مودی حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پیش کردہ نئے زرعی بل سے کسان بہت پریشان ہیں اور سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پنجاب کے مکتسر ضلع میں اس بل کے خلاف زبردست مظاہرہ چل رہا ہے۔ اس دوران جمعہ کے روز ایک 70 سالہ کسان نے بل سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے زہر کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی جسے فوراً اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔آج اس کسان کی علاج کے دوران موت واقع ہو گئی ہے۔ کسان کی موت کے بعد مکتسر میں مظاہرہ کر رہے کسانوں کی ناراضگی مزید بڑھ گئی ہے۔میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق زہر کھانے والے کسان کی حالت جمعہ کے روز ہی بہت زیادہ بگڑ گئی تھی۔ بادل گاؤں باشندہ اس کسان کو پہلے گاؤں کے ہی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا، لیکن حالت سنگین ہونے پر اسے بھٹنڈا کے میکس اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں کسان کی علاج کے دوران موت ہو گئی۔
واضح رہے کہ بادل گاؤں سابق وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کا آبائی گاؤں ہے جہاں کسان چھ دن سے مرکزی حکومت کے ذریعہ لائے گئے تین زرعی بلوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ مظاہرہ سابق وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کے گھر کے ٹھیک باہر چل رہا ہے۔ خبروں کے مطابق 70 سالہ کسان نے جمعہ کی صبح ساتھی کسانوں کو زہریلی شئے کھانے کے بارے میں بتایا۔ پتہ چلنے پر کسانوں نے فوراً ایمبولنس کو فون کیا اور مظاہرہ کی جگہ پر تعینات پولس افسران کو بھی خبر دی۔ پولس فوراً اسپتال لے گئی۔
کسان کی موت کی خبر پھیلنے کے بعد بھارتیہ کسان یونین ایکتا اُگراہاں کے ریاستی سکریٹری شنگارا سنگھ مان نے کہا کہ لوک سبھا میں زرعی بل کے پاس ہونے سے کسان پریشان ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ بل سے کسانوں کو نقصان ہوگا۔ دوسری طرف ہندوستانی کسان یونین کے جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مہلوک کسان کی فیملی کو معاوضہ دیا جائے کیونکہ وہ مقروض تھا اور اسی لیے اس نے خودکشی جیسا سخت قدم اٹھایا،
[صراحی کا بھرم کُھلتا نہ میری تشنگی ہوتی]
[ذرا تم نے نگاہِ ناز کو تکلیف دی ہوتی]
پارلیمنٹ میں اب جمہوری روایات کا تحفظ اور اس کا نام ونشان مٹتا دکھائی دے رہا ہے ۔ ایوان کی کارروائی اور کسی بھی قانون یا آرڈیننس کی منظوری کے لئے جب حکمراں طاقت اپنی ہٹ دھرمی اور تاناشاہی کا مظاہرہ کرے تو پھر یہ واقعہ بدبختانہ کہلائے گا ۔ زرعی اصلاحات بل کے مسئلہ پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے ہنگامہ کر کے آرڈیننس کی منظوری کو روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی ۔ اس کی وجہ حکمراں بی جے پی نے ملک کے ہر اہم شعبہ کو بڑی طاقتوں کے حوالے کرنے کا عمل تیز کردیا ہے ۔ کسانوں کا بھی کنٹرول اب خانگی اداروں کے سپرد کردینے والے اس بل کی شدید مخالفت ہورہی ہے ۔ سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ آخر بی جے پی حکومت کا یہ نیا سسٹم کس طرح کام کرے گا ۔ حکومت نے پوری تیاری اور مستعدی کے ساتھ تمام 3 بلوں کو پارلیمنٹ سے منظور کرایا اور اس حکومت کا واحد نکاتی مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر اپنی پالیسیاں تاناشاہی کے ذریعے ہر ایک فرد پر مسلط کرنا چاہتی ہے ۔ حکومت نے ان بِلوں کے تعلق سے کہا کہ اس کی یہ کوشش کارگر سرمایہ کاری کے ذریعہ غیرکارگر امور کو ہٹا دینا ہے ۔ ان بلوں سے آزادانہ تجارت کی راہ ہموار ہوگی ۔ اور بڑی کمپنیوں کو چھوٹے چھوٹے کسانوں سے رابط کرنے کا موقع ملے گا ۔ گویا کسان کا پیدا کردہ اناج اب بڑے بیوپاری خریدیں گے ۔ کنٹراکٹ فارمنگ بل سے کسانوں کو بڑے بیوپاریوں سے معاہدہ کرنے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ لیکن اس طرح کی کنٹراکٹ فارمنگ کے لیے زرعی مارکٹ میں رجسٹریشن کروانے کی ضرورت ہوگی ۔ یہ عمل کسانوں کے لیے اس قدر نقصان دہ ہوگا کہ آگے چل کر غریب کسان آسانی سے بڑے بیوپاریوں کے جال میں پھنس جائیں گے ۔ سرکاری محکموں میں رشوت خوری کی وجہ سے اگر کسان اپنا اناج وقت پر بیوپاریوں کے حوالے کرنے سے قاصر ہوں یا کنٹراکٹ کی خلاف ورزی ہوجائے تو پھر یہاں کسانوں کے ساتھ جو مسائل اور پریشانیاں ہوں گی اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا ۔ سیاسی طاقت ہمیشہ بڑے بیوپاریوں کا ساتھ دے گی ۔ کسانوں سے بظاہر ہمدردی دکھانے والے وقت آنے پر اگر کسان کو پریشانی میں ڈھکیل دیں تو اس سے بہت بڑا دھکہ پہونچے گا ۔ اس سلسلہ میں ایک مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ گذشتہ سال ہی ایک بڑی خانگی کمپنی نے گجرات کے کسانوں پر ایک کروڑ روپئے کا ہرجانہ مقدمہ دائر کردیا تھا کیوں کہ ان کسانوں نے اس کمپنی سے کئے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے آلو کی کاشت دوسروں کو فروخت کردئیے تھے ۔ یہ حربے اس وقت سیاسی رنگ لاتے ہیں جب سیاسی حکمراں پارٹی ہمدردی دکھاتے ہوئے مداخلت کرتی ہے ۔ گجرات میں بھی ریاستی حکومت نے کسانوں کے ایک کروڑ ہرجانہ کے کیس میں مداخلت کر کے معاملہ رفع دفع کردیا ۔ اس مرحلہ کی تکمیل تک کسانوں کو جو مسائل سے دوچار ہونا پڑا اس کا سدباب نہ تو حکومت کرتی ہے اور نہ ہی بڑے بیوپاری کرتے ہیں ۔ زرعی شعبہ میں بڑے سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرنے کا مقصد اب اس شعبہ کے غریب کسانوں کو بے سہارا کردینا ہے ۔ اس لئےہندوستان کے تمام کسان سمیت کئی اپوزیشن قائدین نے بھی بل کی مخالفت کی ہے ۔ یہ زرعی اصلاحات بل سراسر کسانوں کے لیے موت کا پروانہ ہے ۔ کسانوں نے بل کے خلاف احتجاج شروع کردیاہے ۔اب تمام اپوزیشن پارٹیاں اس مسئلہ پر متحد ہو کر پارلیمنٹ کی کارروائیوں کو من مانی طریقہ سے چلانے اور بلوں کی منظوری میں اصولوں اور روایات کو بالائے طاق رکھنے کا نوٹ لے کر حکومت کی غلطیوں پر آواز اٹھانے کی ضرورت محسوس کرتی ہیں تو یہ غریب عوام کے حق میں انصاف فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
مضمون نگار۔روزنامہ شان سدھارتھ سدھارتھ نگر کےصحافی ہیں ۔رابطہ-6393021704