مفتی محمد ضیاءالحق فیض آبادی
ایک چوہا کسان کے گھر میں بل بنا کر رہتا تھا، ایک دن چوہے نے دیکھا کہ کسان اور اس کی بیوی ایک تھیلے سے کچھ نکال رہے ہیں،چوہے نے سوچا کہ شاید کچھ کھانے پینے کا سامان ہے-
خوب غور سے دیکھنے پر اس نے پایا کہ وہ ایک چوهادانی تھی-
خطرہ کا اندازہ ہوتے ہی اس نے گھر کے پچھلے حصے میں جا کر کبوتر کو یہ بات بتائی کہ گھر میں چوها دانی آ گئی ہے-
کبوتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا غم ؟ مجھے کون سا اس میں پھنسنا ہے؟
مایوس چوہا اس بات کی خبر مرغ کو دینے گیا-
مرغ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ جا بھائی یہ میرا مسئلہ نہیں ہے-
مایوسی کے عالم میں چوہا جا کر دیوار سے بندھے ہوئے بکرے کو یہ بات بتائی … اور بکرا چوہے کی بات کو سن کر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا-
اسی رات چوهےدانی میں كھٹاك کی آواز ہوئی جس میں ایک زہریلا سانپ پھنس گیا تھا-
اندھیرے میں اس کی دم کو چوہا سمجھ کر کسان کی بیوی نے اس کو نکالا اور سانپ نے اسے ڈس لیا-
طبیعت بگڑنے پر کسان نے حکیم کو بلوایا،
حکیم نے اسے کبوتر کا سوپ پلانے کا مشورہ دیا،
کبوتر ابھی برتن میں ابل رہا تھا
خبر سن کر کسان کے کئی رشتہ دار ملنے آ پہنچے جن کے کھانے کے انتظام کیلئے اگلے دن مرغ کو ذبح کیا گیا
کچھ دنوں کے بعد کسان کی بیوی مر گئی … لوگوں کی میزبانی کے لئے بکرا کے گوشت کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ……
چوہا دور جا چکا تھا … بہت دور …………
کہتے ہیں کسی شخص کی دو بیٹیاں تھیں ۔ اس نے ایک کی شادی کسان سے تو دوسری کی شادی ایک کوزہ گر سے کر دی۔ سال بعد بیٹیوں سے ملنے کا دل کیا تو سب سے پہلے اس بیٹی کے گھر گیا جس کی شادی کسان سے کر دی تھی۔
پوچھا: بیٹی کیسی ہو، کیا حالات ہیں، تمہارے میاں کی روزی اور روزگارکیسے ہیں؟
بیٹی نے کہا؛ ابا، قرضہ لیکر زمین ٹھیکے پر لی ہے، جان توڑ کر محنت سے کھلیان اور کھیتی بنائی ہے اور اب قرضہ اٹھا کر بیج ڈال دیا ہے۔ بس آپ دعا کر دیں کسی طرح بارش ہو جائے۔ اگر بارش ہو گئی تو ہمارے وارے نیارے، اور اگر بارش نا ہوئی تو ہم برباد ہو جائیں گے۔۔۔!!
باپ بیٹی کو دعا دیکر دوسری بیٹی سے ملنے کیلئے روانہ ہوگیا۔ وہاں دوسری بیٹی جس کی شادی کوزہ گر سے کی تھی اس سے جا کر ملا اور پوچھا؛ بیٹی کیسی ہو، کیا حالات ہیں، کیسی ہے تمہارے میاں کی روزی اور روزگار؟
بیٹی نے کہا: ابا قرضہ لیکر مناسب مٹی اٹھوائی تھی، جان توڑ کر دن رات کر کے مال تیار کیا ہے اور اب سکھانے کیلئے باہر رکھ دیا ہے۔ اب اگر اگلے چند دن بارش نہیں ہوتی تو ہمارے وارے نیارے، اور اگر بارش ہو گئی تو ہم برباد ہو جائیں گے۔
باپ بیٹی کو دعائیں دیتا واپس گھر چلا گیا۔ گھر میں ممتا کی ماری اس کی بیوی بھاگ کر آئی اور اپنے خاوند سے اپنی بیٹیوں کا حال و احوال پوچھا؛ خاوند نے کہا؛ بس سب ٹھیک ہیں، اگر بارش ہو جاتی ہے تو الحمد للہ پڑھیو اور اگر بارش نہیں ہوتی تو بھی الحمد للہ پڑھ لیجیے
کچھ ایسے ہی حالات اج کل کے کسانوں کاہو چکا ہے ۔ جو تجھے مناسب نہیں لگ رہا ہے ۔۔ وہ کسی دوسرے کیلئے انتہائی مناسب ہوتا ہے۔۔۔
جو کچھ مقصود ہوتا ہے اسے سمجھا نہیں جا رہا ہے
اج کل ہمارے وطن عزیز میں زندگی بسر کرنے والے غریب کسانوں کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے ایک طرف کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری سے دو چار ہو کر معیشت کے میدان میں بہت پیچھے چلے گئے تو دوسری جانب غریب کسانوں کی حق تلفی کی جارہی ہے۔
اگر کوئی شخص غریب کسانوں کے مسئلہ کو اپنا مسئلہ نہ سمجھے اور آپ کو لگے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے بلکہ وطن عزیز کے غریب کسانوں کا مسئلہ ہے تو وقت کا انتظار کیجئیے اور دوبارہ سوچیں …. ہم سب خطرے میں ہیں ….
سماج کا ایک عضو، ایک طبقہ، ایک شہری خطرے میں ہے تو پورا ملک خطرے میں ہے ۔
ذات، مذہب اور طبقے کے دائرے سے باہر نكليے-
خود تک محدود مت رہیے- دوسروں کا احساس کیجئے لہذا وقت اور حالات پر نظر رکھتے ہوئے پر امن طریقے سے اپنے حق کو حاصل کریں تاکہ وطن عزیز میں امن شانتی کی فضا ہموار رہے