ڈاکٹر معین الدین
چوتھی کا چوڑا“ عصمت چغتائی کا مشہور افسانہ ہے شاید لحاف سے زیادہ مشہور۔۔۔۔
چوتھی کا چوڑا “ دوکرداروں کی کہانی ہے‘ کبریٰ اور اس کی ماں۔۔۔ یہ کہانی ایک ایسے گھر کی بھی کہانی ہے جو محنت کش ہونے کے باوجود غریب ہے‘ جومحلہ والوں کی ہرطرح مدد کرنے کے باوجود اکیلا ہے۔ کبریٰ کی ماں بڑی سلیقہ مند خاتون ہے۔
یہ افسانہ کبریٰ کی ماں‘ کی کپڑوں کی کترائی اور سلائی میں مہارت کے بیان سے شروع ہوتاہے۔ خصوصاً کترائی میں وہ اس قدر ماہرہے کہ ناممکن کو ممکن بنادیتی ہے۔ عصمت چغتائی نے کبریٰ کی ماں کاتعارف اس طرح کروایا ہے۔
”کاٹ چھانٹ کے معاملہ میں کبریٰ کی ماں کامرتبہ بہت اونچا تھا۔ ان کے سوکھے سوکھے ہاتھوں نے نہ جانے کتنے جہیز سنوارے تھے‘ کتنے چھٹی چھوچھک تیار کئے تھے اور کتنے ہی کفن بیونتے تھے۔ جہاں کہیں محلہ میں کپڑا کم پڑجاتا اور لاکھ جتن پر بھی بیونت نہ بیٹھتی‘ کبریٰ کی ماں کے پاس کیس لایاجاتا کبریٰ کی ماں کپڑے کی کان نکالتیں‘ کلف توڑتیں‘ کبھی تکون بناتیں‘ کبھی چوکھنٹا کرتیں اور دل ہی دل میں قینچی چلاکر آنکھوں سے ناپ تول کر مسکرا پڑتیں۔“
کبریٰ کے ابا‘کو شدید کھانسی تھی لیکن حقہ ضرور پیاکرتے۔کبریٰ کے ابااور اماں دونوں اپنی بچی کی شادی کے لئے فکر مند نظرآتے ہیں۔ کبریٰ کے اباگذر گئے اب گھر سنبھالنے کی ذمہ داری کبریٰ کی ماں پر آ پڑی تھی۔ لیکن ”جب سے ابا گزرے۔ سلیقہ کابھی دم پھول گیا۔۔۔۔“ اوراباکی موت کے بعد کبریٰ کے پیغام نہ جانے کد ھرراستہ بھول گئے۔
عصمت چغتائی نے اشارے کنائے میں کبریٰ کی ماں کا حلیہ بیان کیاہے۔ لیکن مکمل نہیں‘ کہیں اس کی ہاتھوں کاذکر ہے تو کہیں‘ آنکھوں سے ناپ تول کرمسکرانے کابیان ہے۔یا پھر وہ اپنی منہ بولی بہن بندو کی ماں سے بات کرتی نظر آتی ہے۔۔۔
عصمت چغتائی نے کبریٰ کاحلیہ افسانے میں پیش کیاہے۔
”کبریٰ جوان تھی۔ کون کہتا تھا کہ جوان تھی۔وہ توجیسے بسم اللہ کے دن سے ہی اپنی جوانی کی آمد کی سناؤنی سن کر ٹھٹھک کررہ گئی تھی۔نہ جانے کیسی جوانی آئی تھی کہ نہ تو اس کی آنکھوں میں کرنیں ناچیں نہ اس کے رخساروں پر زلفیں پریشان ہوئیں نہ اس کے سینے پر طوفان اٹھے‘ اور نہ کبھی ساون بھادوں کی گھٹاؤں سے مچل مچل کرپریتم یا ساجن مانگے وہ جھکی جھکی سہمی سہمی جوانی جونہ جانے کب دبے پاؤں اس پررینگ آئی‘ ویسے ہی چپ چاپ نہ جانے کدھر چل دی۔میٹھا برس نمکین ہوا اور پھر کڑوا ہوگیا۔“ (افسانہ چوتھی کاجوڑا )
کبریٰ کا یہ حلیہ‘ یک جوان لڑکی کاحلیہ‘ عصمت چغتائی نے بڑی چابکدستی سے تراشا ہے۔ یہ وہ کردار ہے جوغریب گھرانوں میں عام ہوتے ہیں جہاں عالم شباب جیسے ٹھٹھک کر ٹھہرجاتا ہے۔
افسانہ چوتھی کاجوڑا دراصل کبریٰ کی شادی کی علامت ہے۔ کبریٰ کی ماں نے کپڑے کاایک ایک تکڑا جماکرتے ہوئے کبریٰ کے چوتھی کاجوڑا تیار کیاہے کہ”لڑکی کاکیا ہے‘ کھیرے ککڑی کی طرح بڑھتی ہے جوبرات آگئی تو یہی سلیقہ کام آئے گا۔“
کبریٰ کی ماں کے گھر جب بھی محلہ کی عورتیں شادی کے کپڑے کترن کے لئے لاتے ہیں اور آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہیں ”کبریٰ شرم کی ماری مچھروں والی کوٹھری میں سرجھکائے بیٹھی رہتی۔۔۔“
کبریٰ ایک محنتی لیکن خاموش لڑکی ہے اسے اپنی ناداری اور ماں کی مجبوری کااحساس ہے وہ اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے لیکن ایک بجھی ہوئی آگ کی طرح‘عصمت چغتائی نے افسانے کے ابتدائی حصہ میں کبریٰ کی ماں‘ اس کے آبا اور گھر کی حالت کا بیان مکمل طورپر کیا ہے۔ یہاں تک افسانے پر ایک قسم کی یاسیت کی فضا طاری معلوم ہوتی ہے لیکن جب راحت کے پویس کی ٹرینیگ کے لئے آنے کی اطلاع ملتی ہے تو یہ گھر یکسر بدل جاتاہے۔ راحت‘ کبریٰ کے منجلے ماموں کا بڑا لڑکا ہے۔ اس اطلاع سے کبریٰ کی ماں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔عصمت نے ماں کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے۔
”بی اماں کوتو بس جیسے اکدم گھبراہٹ کا دورہ پڑگیا۔ جانوچوکھٹ پر برات آن کھڑی ہوئی اور انہوں نے ابھی دلہن کی مانگ کی افشاں بھی نہیں کتری۔ ہول سے تو ان کے چھکے چھوٹ گئے۔“
(افسانہ چوتھی کاجوڑا )
لیکن راحت میاں‘ چھ ماہ رہنے کے بعد مہمان نوازی کاشکریہ ادا کرتا ہواانجان اورلاتعلق بنے اپنے وطن جلا جاتاہے کہ اس کی شادی کی تاریخ طے ہوچکی ہے۔ راحت کے جانے کے بعدکبریٰ کامرض دق سے انتقال ہوجاتاہے۔
کبریٰ اور کبریٰ کی ماں کی خاموش کوششیوں میں ایک خوش گوار نغمہ کی طرح عصمت چغتائی نے حمیدہ کاکردار تراشا ہے۔حمیدہ کبریٰ سے چھوٹی ہے لیکن ہشیار ہے‘ لوگوں کو سمجھتی ہے‘ وہ اپنی ماں کی مجبوری اور بہن کبریٰ کی لاچاری کوبھی جانتی ہے۔ وہ اپنی بہن کبریٰ کے بارے میں سونچتی ہے۔
”کیا میری آپا مرد کی بھوکی ہے؟ نہیں وہ بھوک کے احساس سے پہلے ہی سہم چکی ہے۔ مرد کاتصور اس کے ذہن میں ایک امنگ بن کرنہیں ابھرا بلکہ روٹی کپڑے کا سوال بن کر ابھرا ہے۔ وہ ایک بیوہ کی چھاتی کابوجھ ہے۔ اس بوجھ کوڈھکیلنا ہی ہوگا۔
ان کابس چلتا تو زمین کی چھاتی پھاڑکر اپنے کنوار پنے کی لعنت سمیت اس میں سماجاتیں۔“(افسانہ چوتھی کاجوڑا )
حمیدہ شریر کردار تو نہیں لیکن افسانے میں دلچسپی برقرار رکھنے والا کردار ضرورہے کبریٰ کی ماں کے گھر راحت کے آنے کے بعد حمیدہ ہی افسانے میں نمایاں نظرآتی ہے اور اسی کے وسیلے سے راحت کی بے حسی اور کبریٰ کے خاموش جذبات سامنے آتے ہیں۔عصمت چغتائی نے اس افسانے کی ابتداء میں کبریٰ کی ماں کی کپڑے کترنے میں مہارت کابیان کیاہے اور افسانے کااختتام بھی اسی کردار پر کیاہے۔ افسانے کے اختتام کی تین سطریں دیکھئے۔
”بی اماں نے آخری ٹانکا بھر کے ڈورہ توڑلیا۔ دوموٹے موٹے آنسوان کے روئی جیسے نرم گالوں پر دھیرے دھیرے رینگنے لگے۔ ان کے چہرے کی شکنوں میں سے روشنی کی کرنیں پھوٹ نکلیں اور وہ مسکرادیں۔ جیسے آج انھیں اطمینان ہوگیا کہ ان کی کبریٰ کاسوہا جوڑا بن کرتیار ہوگیا ہو اور کوئی دم میں شہنائیاں بج اٹھیں گی۔“
(افسانہ چوتھی کاجوڑا )
کبریٰ کی ماں اپنی مہارت کے باوجود اپنی بیٹی کے لئے چوتھی کے جوڑے کاانتظام نہ کرسکی۔ ”کترن میں مہارت اور آخری ٹنکابھر کر ڈورہ توڑ“لینے میں اس کہانی کی روح چھپی ہوئی ہے۔ ایک بیوہ ماں جو اپنی جوان لڑکی کی شادی کے ہمیشہ خواب دیکھتی ہے راحت کے آنے پر اس کی خاطر مدارت میں اپنی باقی پونجی ختم کردیتی ہے اسی ماں کوچوتھی کے جوڑے کے بجائے اپنی جوان بیٹی کے کفن کو بیتنا پڑتا ہے آخری ٹنکا دینا پڑتاہے۔ افسانے کے آخر سطر میں کبریٰ کی ماں کا اطمینان اور مسکرانا۔ دراصل یہی دو کیفیتں ہیں جو اس المیہ افسانے کو معراج کمال عطا کرتے ہیں۔
افسانے کے مطالعہ کے بعد یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے چوتھی کاجوڑا‘ کبریٰ کی ماں کاالمیہ ہے‘ کبریٰ کی ٹرایجیڈی ہے یا آج کے سماج کا بھی المیہ ہے۔۔۔!
٭٭٭