امانت علی قاسمی
ابن خلدون کے فکری کارناموں پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں ان کی شخصیت کے تین مختلف جہات نظر آتی ہیں اول مؤرخ کی حیثیت سے دوم فلسفہ تاریخ کے بانی کی حیثیت سے سوم عمرانیات میں امام و پیشروہونے کی حیثیت سے لیکن ابن خلدون کا کمال یہ ہے کہ ان تینوں موضوعات پر امام کی حیثیت رکھنے کے باوجود مختلف موضوعات پر انہوں نے کلام کیا ہے، وہ فقیہ اور مؤرخ بھی ہیں اور اسلامیات اور علم کلام پر بھی ان کی گہری نگاہ ہے؛
چنانچہ انہوں نے اپنے مقدمہ میں الفصل العاشر فی علم الکلام کا قائم کیا ہے اور انہوں نے اسباب کی تاثیر کے سلسلے میں اشاعرہ کے موقف کی وضاحت کی ہے۔ذیل میں اسی فصل کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جس سے اسباب کے سلسلے میں اشاعرہ کے موقف کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ خیال رکھنا چاہیے کہ اسباب کے سلسلے میں اشاعرہ کا جو موقف ہے وہ جمہور متکلمین سے بالکل مختلف ہے لیکن اشاعرہ اسباب کا بالکلیہ انکار نہیں کرتے ہیں؛بلکہ یہ موقف انہوں نے ان فلاسفہ کے خلاف قائم کیا تھا جو اسباب کو مؤثر بالذات اور موثر حقیقی تسلیم کرتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ کائنات اسباب کے تابع ہے اس میں اللہ تعالی کا کوئی عمل نہیں ہے جب کہ اشاعرہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسباب کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری سبب اور ایک حقیقی سبب۔ کوئی چیز بھی اس کائنا ت میں وجود میں آتی ہے اس کے پیچھے دونوں ہی اسباب ہوتے ہیں اللہ کی عادت یہ ہے کہ اللہ نے اشیاء کو اسباب کے تابع بنایا ہے لیکن ہر حرکت کا مؤثر سبب اللہ تعالی کی ذات ہے۔ جاہلیت کے زمانہ میں کافروں کا عقیدہ یہ تھا کہ بارش فلاں نچھتر کی وجہ سے ہوئی آپ ﷺ نے اس کی تردید فرمائی اور فرمایا کہ بارش اللہ کے حکم سے ہوتی ہے ستاروں کے نچھتر کی وجہ سے نہیں۔ اس پس منظر میں اگر اشاعرہ کے موقف کو پڑھا جائے تو ذہنی خلجان دور ہوجائے گا۔ ابن خلدون کہتے ہیں:علم کلام ایسا علم ہے جس کا مقصد عقلی دلائل سے اسلامی عقائد کا دفاع اور عقائد کے باب میں اہل سنت والجماعت سے منحرف ہونے والے بدعتی فرقوں کا رد ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایمانی عقائد کا راز اور اس کی بنیاد توحید پر ہے۔ ابن خلدون کی تحقیق یہ ہے کہ کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کے لیے اسباب کا ہونا ضروری ہے ہر واقعہ سے پہلے کوئی سبب ہوتا ہے جو واقعہ کو وجود میں لاتا ہے اسی طرح سبب کے اوپر بھی سبب ہوتا بالآخر اسباب کا یہ سلسلہ مسبب الا سباب اور خالق الاسباب اللہ رب العزت پر جاکر منتہی ہوتا ہے،یہ اسباب مختلف حیثیتوں سے وجود میں آتے ہیں جن کے ادراک میں عقل انسانی حیران ہے ان کا احاطہ، علم ِ محیط کرسکتا ہے،جو علم باری کا نام ہے، اس لیے کہ موجودات کے اسباب میں سے ایک اہم سبب قصد و ارادہ ہے،اور یہ قصد و ارادہ بھی ایسی چیز ہے جو ذہن و دماغ میں موجود سابقہ تصورات سے پیدا ہوتے ہیں اور ان سابقہ تصورات کے بھی کچھ نامعلوم اسباب ہوتے ہیں جن کا ادراک عقل انسانی نہیں کرسکتی ہے،اسی لیے شریعت اسلامی نے خاص طور پر عقائد کے باب میں اسباب میں غور و خوض سے منع کیا ہے اور براہ راست مسبب الاسباب یعنی خالق کائنات کے وجود کو اوران کی صفات کو ثابت کیا ہے۔ اسی سے صفت توحید دل میں جاگزیں ہوتی ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: و من مات یشہد ان لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ یعنی جو شخص اس حال میں اس دنیا سے جائے کہ اس کا یقین یہ ہو کہ کائنات میں اللہ کی ذات کے علاوہ کسی کو تصرف کا اختیار نہیں ہے اور اللہ کے حکم کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آتی ہے تو وہ کامل ایمان والا ہے اور جنت میں داخل ہوگا۔سورہ اخلاص میں بھی اللہ تعالی نے اپنی وحدانیت کے ساتھ قادر مطلق ہونے اور تنہا نظام کائنات کے مالک ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ابن خلدون یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہماری عقل پوری کائنات اور اس کے حوادث کے اسباب کا احاطہ کرسکتی ہے،کیوں کہ ہر چیز کا وجود انسان کی اپنی عقل کے مطابق ہوتا ہے حالاں کہ بعض دفعہ حق اس کے برخلاف ہوتا ہے مثال کے طور پر بہرے آدمی کے نزدیک صرف حواس اربعہ سے وجود ثابت ہوگا؛کیوں کہ حاسہ سمع سے وہ محروم ہے، اسی طرح اندھے کے نزدیک حاسہ بصر مفقود ہونے کی وجہ سے وہ بھی صرف چار حواس سے ہی وجود کو ثابت کرسکے گا، اسی طرح سمجھیں کہ جس کے پاس جتنی بڑی عقل ہوگی اسی کو وہ عقل کل سمجھے گا اور پوری دنیا پر حکم لگائے گا لہذا ایمانیات کے باب میں اپنی عقل کو ناقص سمجھیں اور اپنی شرعی احکام کی پیروی کریں؛ اس لیے کہ شریعت کا دائرہ ہمارری عقل سے اوپر ہے۔اس لیے بھی کہ شریعت ہماری سعادت کی زیادہ خیرخواہ اور ہمارے نفع و ضرر و کو زیادہ جاننے والی ہے اور یہ پیروی ہمارے عقل کو نقصان بھی نہیں پہچائے گی بلاشبہ عقل ایک صحیح ترازو ہے اس کے احکام یقینی ہوتے ہیں لیکن عقل کی ترازو میں توحید، نبوت،صفات باری اور آخرت کے مسائل کو نہیں تولنا چاہیے۔اس کی مثال ایسی ہے، کہ آپ سنار کے ترازو میں پہاڑ کے تولنے کا ارادہ کررہے ہیں۔اور یہ بھی سمجھ لیں کہ اسباب جب ہمارے دائرہ عقل سے باہر ہوجاتے ہیں تو ہماری عقلیں ان کا صحیح ادراک نہیں کرسکتی اور ان پر صحیح حکم نہیں لگاسکتی ہیں۔اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ توحید اصل میں اسباب کے ا دارک سے عاجزی کا نام ہے اور اس کو خالق حقیقی کی طرف پھیر دینے کا نام ہے۔
حوادث فعلیہ کی دنیا فکر سے حاصل ہوسکتی ہے
کائنات اصلا عناصر اور ان کے تین بنیادی اجزا معدنیات، نباتات اور حیوانیات پر مشتمل ہے، کائنات سے متعلق اللہ تعالی کی مشیتیں انہیں چیزوں سے متعلق ہوتی ہیں، ان میں سے کچھ مرتب ہو تے ہیں اور کچھ غیر مرتب ہوتے ہیں، انسانی افعال مرتب ہوتے اور حیوانی افعال غیر مرتب ہوتے ہیں، اس لیے کہ انسان حوادث کے درمیان فطری طورپر یا وضعی طورپر ایک ترتیب قائم کرلیتا ہے،اور اسی ترتیب کے مطابق وہ چیز وجود میں آتی ہے،انسانی کاموں میں ترتیب اس طرح قائم ہوتی ہے کہ انسان شروع میں اپنے ذہن سے کام کا خاکہ بناتا ہے،چنانچہ گھر بنانا ہو تو پہلے ذہن میں گھر کا نقشہ بناتا ہے مثلا وہ پہلے چھت پر غور کرتا ہے پھر دیوار پر پھر بنیاد پر تو گویا بنیاد فکر کا آخری مرحلہ ہوتاہے، پھر جب وہ کام شروع کرتا ہے تو بنیاد سے شروع کرتا ہے اور چھت تک پہونچتا ہے تو گویاچھت آخر ی عمل ہے اور فکر کا پہلا زینہ ہے،اسی لیے کہا گیا اول العمل آخر الفکرۃ و اول الفکرۃ آخر العمل پہلا کام وہ فکر کا آخری مرحلہ ہے اور اور فکر کا پہلا مرحلہ کام کا آخری مرحلہ ہے تو اس طرح سے انسانی افعال فکر کے ذریعہ سے مکمل ہوتے ہیں،
چوں کہ جانور بھی اپنے حواس سے ہی واقعات کو انجام دیتے ہیں اس لیے ان کے افعال بھی حواس کے ذریعہ ہی وجود میں آتے ہیں البتہ ان کے پاس ا یسی فکر نہیں ہوتی جو اشیاء میں ترتیب قائم کرسکے، اسی لیے ان کے ا فعال غیر مرتب ہوتے ہیں او روہ انسان کے تابع ہوتے ہیں، انسان کی یہ فکر ہی اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے، اور انسانی فکر میں جس قدر سبب اور مسبب کے درمیان ترتیب قائم کرنے کی صلاحیت ہوگی اسی اعتبار سے اسی اعتبار سے اس کی انسانیت بھی ظاہر ہوگی اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا ولقد کرمنا بنی آدم و حملنا ہم فی البر و البحر و رزقنہم من الطیبات و فضلناہم علی کثیر ممن خلق تفضیلا