شہر ادب کامعزز شہری : سیّداحمد قادری

Share
ڈاکٹر سیّد احمد قادری

شفق


بعض شخصیتیں بڑی خاموشی سے دل میں داخل ہوکرچپ چاپ بیٹھ جاتی ہیں۔ بہت دنوں بعد ان کی موجودگی کااحساس ہوتاہے۔اب لاکھ یاد کرنے کی کوشش کیجئے کہ ان سے کب اورکہاں ملاقات ہوئی تھی۔ یہ دل میں کیسے داخل ہوگئے،اپنے رہنے کی جگہ بھی بنالی یاد نہیں آتا،ایسا لگتاہے وہ کہیں آئے نہیں ہمیشہ سے وہیں تھے۔
سیداحمد قادری بھی ایسی ہی شخصیت کے مالک ہیں ان سے میری ملاقات کب ہوئی،کس نے کرائی یاد کرنے کی کوشش کرتاہوں،پیچھے مڑکربہت دوردیکھ آتاہوں۔


کوئی سراغ نہیں ملتا۔قدموں کے نشانات نہیں ملتے،دھندلادھندلااتنا یاد ہے کہ شاید ان کے والد ”اندرپوری“میں پوسٹڈ تھے تب قادری سہسرام میں مجھ سے ملے تھے یاکہیں اورمگر یہ شناسائی زندگی میں سینکڑوں لوگوں سے ہونے والی شناسائی سے مختلف نہ تھی،نہ دوستی کی خواہش نہ کوئی اورتجسس،جوانی کے دن تھے،زندگی بھرپور اوررواں دواں تھی آنکھوں میں خواب تھے پلکوں پران کی تعبیر یں،ساری بلند یاں روندڈالنے کے حوصلے ہمارے تعارف کاسبب ہماراشوق مشترک تھا۔ میں بھی کہانیاں لکھتاتھا قادری بھی کہانیاں لکھتے تھے یہ بندھن سماجی اورخالص ادبی تھا، ہمیں ایک دوسرے کی ذاتیات سے کوئی دلچسپی نہ تھی قادری شادی شدہ تھے یاکنوارے،ان کی اب بھی شادی ہوئی ہے یاوہ پیدائشی شادی شدہ ہیں ہمارا موضوع ادب ہوتاکہاں
کہاں کہانیاں چھپ رہی ہیں،کون کون سے نئے رسالے نکلے ہیں ان دنوں کون سی کہانی لکھی جارہی ہے،یہ گفتگو بھی زیادہ طویل نہ ہوتی۔
جب قادری گیا میں منتقل ہوئے اورمجھے یونیورسیٹی کے کام سے گیا جاناہوتا توقادری سے ملاقاتوں کاسلسلہ بڑھا،صبح ٹرین سے جاناپھریونیورسیٹی کاکام کرنا اوراسی دن لوٹ آناایسے میں ملاقات ہوتی توگھڑی کسی سنتری کی طرح دروازے پر پہر ہ دیتی رہتی ملاقات کاوقت ختم،ٹرین کاوقت شروع،شاید اپریل کاآخری ہفتہ تھااور اتوار کادن ایک کہانی مکمل ہوئی تھی اسے صاف کرکے ”شب خون“ کوبھیجناتھا۔ کہانی مکمل کر کے گھر میں رکھنا مجھے ہمیشہ بھاری لگا،اسے اسی دن صاف کرکے بھیج دیتاہوں، مگر اس دن روشنائی ختم ہوگئی تھی اوردوات بھی خالی تھی،دن کے گیارہ بجے ہی دھوپ سخت ہوگئی تھی اوراتوار کی وجہ سے دوکانیں بند،میں کوئی کھلی ہوئی دوکان ڈھونڈ تاجی ٹی روڈ پرچل رہاتھا،اچانک ٹھنڈی ہواکاجھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا،رکشہ پروہ چہرہ ایساہی تھا،پہلی بارمجھے شاعری کے الہامی ہونے کایقین ہوا،بعض چہرے ایسے ہی فرحت بخش اورآنکھیں مدہوش کرنے والی ہوتی ہیں،میں اس ٹھنڈک کودل میں اس طرح بھرتا رہاجیسے اونٹ کوہان میں پانی جمع کرتا ہے، رکشہ اورنزدیک آگیا ٹھنڈک اوربڑھ گئی،ابھی یہ میرے پاس سے گزرجائے گااور جمع کی ہوئی ٹھنڈک بوند بوند اس کڑی دھوپ میں جل جائے گی،میں نے سوچاہی تھا کہ رکشہ سے السلام علیکم کی آواز آئی۔
تب مجھے احساس ہواکہ یہ چھاؤں دھوپ کی چادربغل میں لے کرنکلی ہے اب مجھے یاد نہیں کہ میں نے لاحول پڑھاتھا یاوعلیکم کہاتھا جب آدمی گڑبڑا تاہے تومادری زبان میں بھی غلطیاں کرجاتاہے عربی زبان توویسے بھی نادری زبان ہے جسے ہم بغیرمفہوم سمجھے بولتے ہیں۔
اس دھوپ میں چہل قدمی؟ قادری رکشہ سے نیچے اترآئے تھے۔
روشنائی کی تلاش میں نکلاہوں مگرآپ۔
ہم آپ ہی کے گھر جارہے ہیں۔
لفظ ہم سے مجھے زیادہ خوشی ہوئی،ٹھیک ہے آپ گھر چلئے میں آرہاہوں۔
آگرہ میں جوحیثیت تاج محل کی ہے، سہسرام میں وہی شیر شاہ کے مقبرے کی ہے، دونوں مقبرے ہیں،ایک محبت کی دوسرابہادری کی یادگار،تاج محل سنگ مرمر سے بنا ہے، محبت کی تعمیر میں نفاست نزاکت اورچکنائی ضروری تھی،شیر شاہ کامقبرہ کھردرے مضبوط گندمی پتھروں سے ایک جری دلیر انسان کے مضبوط ارادوں کے شایان شان ہم اہل سہسرام اپنے مہمانوں کوبڑے فخر سے یہ مقبرہ دکھاتے ہیں مقبرے کے چاروں طرف پھیلاہواوسیع تالاب،تالاب کے کنارپختہ سڑک، پھر پارکنگ ہریالی،دورکیمور پہاڑی سلسلہ،آسمان میں منڈلاتاہوا کبوتر وں کاغول اور کپڑوں پرسر سراتی ملائم ہوا۔
ہم دیر سے پانی کے قریب سیڑھیوں پربیٹھے ہیں قادر کی کہانیوں کی باتیں کررہے ہیں،ان کی بیگم لہروں پرنظر یں جمائے ہیں جہاں سے کبھی کبھی کوئی چاندی جیسی مچھلی تڑپ کرفضامیں بلند ہوتی ہے پھر واپس لہروں میں سماجاتی ہے، بچپن میں میں بھی یہ کھیل بڑے شوق سے دیکھتا تھا تالاب پرمنڈلانے والی وہ اجلی سی لمبی چونچ والی چڑیاجب ان مچھلیوں کوچونچ میں دباکر اڑجاتی ہے تو بہت دکھ ہوتا۔
دفعتاً،میرے گیان کی آنکھیں کھلیں میں اس رومانی ماحول میں وہ سفید سی چڑیا بن گیا تھاجورنگین لمحات کوچونچ میں دبائے سرپر منڈلارہی تھی۔
قادری صاحب کیامیں کچھ دیر کے لئے ٹل جاؤں۔
کیوں؟انہوں نے مجھے حیرت سے دیکھا۔
یہ رومانی ماحول،دلوں کوگدگداتی ہوئی یہ لہریں،میرامطلب ہے زندگی میں کچھ مزید رنگین لمحات کااضافہ۔
ارے نہیں بھائی اب یہ سب کہاں۔قادری نے عام شوہروں والی بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔
اچھا توکچھ دیر کے لئے آپ ہی ٹل جائیے؟ میں نے بیگم قادری کی طرف دیکھا۔
آپ بڑے چالاک ہیں،وہ گلابی ہوگئیں اورقادری ٹھٹھار مارکرہنسے تھے۔میں نے بچپن میں یہ لفظ ٹھٹھاسناتھا ہم توزور سے ہنسنے کوقہقہہ پڑھتے اورلکھتے رہے ہیں، پھرٹی وی سیریلوں اورفلموں میں ویلنوں کوظلم وستم اورقتل وغارت گری کے مناظر میں قہقہے لگاتے دیکھے ہیں، ہذیانی قہقہے،وحشیانہ قہقہے گولیوں کے قہقہے آگ کے قہقہے بچارہ عام آدمی ان قہقہوں کے خلاف ہنسنااورمسکرانابھول کراندرہی اندر سہما جارہاہے، اب قہقہے زندگی کی نہیں موت کی علامت بن گئے ہیں۔
مگرقادری کے دل کھول کرہنسنے کے انداز کے لئے اس سے بہتر کوئی لفظ نہیں ہو سکتا۔خدا نے انہیں ہنستا ہواچہرہ دیا ہے وہ بات کہنے سے پہلے مسکراتے ضرور ہیں اور ہنسنے کی بات میں کنجوسی نہیں کرتے اس شام وہ بہت خوش تھے میں نے ان کی بیگم کو گیامیں بھی دیکھاتھا مگرسسرال کی موجودگی میں عورت نہ صرف جسم چھپائے رہتی ہے بلکہ ساری خوبیاں چرائے رہتی ہے،یہاں بیگم قادری پوری رعنائیوں کے ساتھ کوئی دوسری عورت نظرآرہی تھیں۔میں نے اتنے دھیرے سے کہ ان کی بیگم سن لیں، قادری سے پوچھاتھا۔
یہ واقعی آپ کی بیگم ہیں؟ پچھلی بارتو دوسری بیگم آپ کے ساتھ تھیں۔
قادری چلتے چلتے رک گئے،ان کی بیگم کے چہرے کارنگ بدلا تھا،اورقادری بال پڑے، خداکی قسم بہت خطرناک مذاق ہے یہ سچ مان جائیں گی۔
پھرقادری کئی بار سہسرام آئے،کبھی انٹرویولینے،کبھی یوں ہی ملنے،کبھی کسی کام سے،کبھی کسی شادی میں،ایک شادی میں وہ خصوصی مہمان تھے اورہوٹل میں ان کے ٹھہرنے کاانتظام تھامگروہ میرے یہاں آگئے،میں نے ہوٹل کی یاد دلائی توکہنے لگے، آج ہوٹل میں ٹھہرگیاتوکل آپ اپنے گھر میں گھسنے نہیں دیں گے؟
اوربہت سی طویل ملاقاتوں کے بعد مجھے احساس ہواکہ شخصیت کے اعتبار سے سے سید احمد قادری،پیازنہیں خربوزہ ہیں۔بعض لوگ پیاز ہوتے ہیں خصوصیت کی تلاش میں انکی پرتیں اتارتے جائیے آخرمیں کچھ ہاتھ نہیں آتا،قادری کومیں نے خربوزہ اس لئے کہاہے کہ نہ جانے کیوں انہیں دیکھ کرخربوزے کاخیال آتاہے۔ چھلکااتارئیے اندرسے میٹھے اورخوشبودار قادری برآمد ہوں گے،کہیں تصنع اور بناوٹ نہیں،کوئی نقاب نہیں جوکچھ اندر ہیں وہی باہربھی ہیں۔اسی لئے قادری ادبی حلقے میں پسندیدہ شخص ہیں،کسی کوقادری کے ادب سے اختلاف ہوسکتاہے مگران کے اچھا آدمی ہونے سے ان کے دشمن کوبھی انکار نہیں۔ہم پہلے آدمی سے ملتے ہیں پھرادیب سے، افسوس تب ہوتاہے جب ہم نامی گرامی ادبی شخصیت سے ملتے ہیں اور اسے انسانی کمزوریوں کامرکب پاتے ہیں،تکبر،کینہ پروری،خوشامد پرستی اورپسندی، ضد،ہٹ دھرمی اور بڑاادیب؟ جوشخص اچھا انسان نہیں وہ اچھا مفکر اورادیب کیسے ہوسکتاہے مگر اب شہرت اورنام وری کے لئے اچھا انسان اوراچھا ادیب ہونے کی نہیں، اچھا سیاست داں ہونے کی ضرورت ہے، جوڑتوڑ کی مہارت،گروپ بندی کاسلیقہ اور ارباب اقتدار سے مراسم ہیں توسارے اعزاز وانعامات ساری عظمت اوربلندی اس کا مقدرورنہ کمرے میں بیٹھ کر کاغذ سیاہ کیجئے،کون گھاس ڈالتاہے۔
قادری نے میری کہانی”مہم“کاتجزیہ کیااور لکھنے کی دھن میں کئی باریک غلطیوں کے مرتکب ہوئے،میں نے خط لکھ کرنشاندہی کی تو انہیں احساس ہوااور معذرت کرلی۔ ادب بحث وتمحیص کاگہوارہ ہے اورکوئی تحریرحرف آخرنہیں،قادری ہٹ دھرمی پراترآتے تومیں ان کاکیابگاڑ لیتا،زیادہ سے زیادہ کسی خط یاتبصرے میں اس کی گرفت کرتا،وہ اپنی حمایت میں دس گواہ لے آتے،اب سچ کے کم اورجھوٹ کے گواہ زیادہ آسانی سے ملتے ہیں،وہ کوشش کرتے کے بحث آگے بڑھے تاکہ وہ دیر تک نیوز میں رہیں مگروہ ایک سلجھے ہوئے انسان ہیں اسی لئے سچ سچ سمجھااوربا ت ختم ہوگئی۔
قادری نے ادب کے لئے بہت محنت کی،ادب کوانہوں نے اوڑھنابچھونا بنالیاوہ ہفتہ واربودھ دھرتی کے مدیر ہیں اور غوثیہ پبلی کیشنز کے کرتادھرتا،انہوں نے غیاث احمد گدی کی کتابیں بھی مرتب کی ہیں وہ ناقد،صحافی اورافسانہ نگار بھی ہیں اگرچہ اتنی توجہ اپنی بیگم پردیتے توگھر گل گلزار ہی نہیں مرغ زار بھی بن جاتا اورہرشاخ سے گانے کی آواز آتی، مان مرااحسان ارے نادان۔
تبصرے کے لئے انہیں اچھی بری مفید اورغیر مفید کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں اس لئے جہاں ان کی ادبی معلومات اپٹوڈیٹ ہیں وہیں علمیت میں بھی اچھابرااضافہ ہوتا رہتاہے اب کوئی ادبی سوپئر اس ٹوکری کی صفائی کرے گا تومعلوم ہوگا کہ اس میں کتنی چیزیں کام کی ہیں اورکتنی فالتو۔
قادری کی دوتنقیدی کتابیں ہیں ”فن اورفن کار“اور ”افکار نو“ شائع ہوچکی ہیں، دو افسانوی مجموعے ”ریزہ ریزہ خواب“ اور”دھوپ کی چادر“ منظرعام پرآچکے ہیں۔ان کہانیوں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ سید احمد قادری نے شروع سے تخلیقی بیانیہ کواپنے افسانوی اظہار کاوسیلہ بنایا،جدید یت کے دنوں میں بھی وہ بیانیہ کہانیاں لکھتے رہے ایسا لگتاتھا علامتیں ان کی بس کی نہیں اسی لئے وہ دوسرے جدید افسانہ نگاروں کی طرح علامتی اور تمثیلی کہانیاں نہیں لکھتے مگر یہی رویہ سلام بن رزاق کاتھا، جب جدیدیت عروج پرتھی سلام،پریم چندکی اسٹائل اپنائے رہے دراصل جس کے پاس کہنے کوبہت کچھ ہوتاہے اوروہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی بات قاری سے کہناچاہتاہے وہ ڈائمنشن کے نام پرقاری کوبھٹکنے کے لئے نہیں چھوڑتا،ممکن ہے اس سے کہانی اکہری ہوجاتی ہو، لیکن خالق کوتخلیقی سکون ضرور ملتاہے اوراگرکہانی پسند کی جاتی ہے توگویایہ اس کے یقین کی فتح ہے اس سے اپنے افکار پراس کااعتماد پختہ ہوتاہے۔
موضوع کے اعتبار سے قادری کے افسانے وسیع انسانی مسائل کے ترجمان ہیں جوذات سے شروع ہوکر عصر میں اپنی شاخیں دراز کرتے ہیں اورآنگن سے بازار پھر سیاست کے اونچے ایوانوں تک پہنچتے ہیں اس راہ میں ظلم،جبر،تشدد، استحصال مایوسی و نامرادی کے عفریت بھی ملتے ہیں اورمتوسط اور پست طبقے کے افراد کے ارمانوں کی چتائیں بھی،قادری بڑے موضوعات کی تلاش میں نہیں بھٹکتے بلکہ اپنے اردگرد پھیلی کہانیوں سے جھولی بھرتے ہیں۔
بہت کم ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں فوراًان کی محنت کاثمرہ ملتاہو، قادری کے فکروفن پرترسیل،گیا اورسہیل گیانے دوخصوصی شمارے شائع کئے اور اب ان کے فن ا ورشخصیت کی اشاعت کیلئے فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ نے شیریں اخترکو تعاون دیاہے۔
حکومت ہند کے محکمہ ثقافت نے انہیں فیلوشپ ایوارڈ سے سرفراز کیااور ہندوستان ٹائمز گروپ کے کے برلا فاؤنڈ یشن نے ان کی صحافتی کارگذاریوں کوتسلیم کرتے ہوئے فیلوشپ ایوارڈدیا۔ یہ کامیابیاں یقیناقابل ستائش ہیں۔
اب علامتی افسانے کادور ختم ہوااور اسے مردود گردانا گیا،کہانی بیانیہ کی طرف واپس ہوئی توقادری زیادہ سرخروہوئے گویا ان کی راہ ہی راہ مستقیم تھی۔
میں سوچتا ہوں قادری کی ان کامیابیوں کی مبارک باد کامستحق کون ہے؟
ان کی کامیابیوں کاساراکریڈٹ میں ان کی بیگم کودیتاہوں۔نیک اورخوبصورت خاتون کو، مردبیچارہ کیا۔تاریخ گواہ ہے کہ یہ عورت ہی ہے جومرد کوجہاں چاہتی ہے پہنچادیتی ہے، قبرمیں جیل میں یاپھرشہرت کی بلندی پر…………………………..
اورقادری آج شہر ادب کے معزز شہری ہی نہیں ادبی مہاجن بھی ہیں ۔
(بشکریہ جدید اسلوب:۳)
٭٭٭

Share
Share
Share