کالم : بزمِ درویش – عشق روگ

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

زندگی میں اگر کبھی آپ کو موسم گرما اگست ستمبر میں شمالی علاقہ جات جانے کا اتفاق ہوتو خوشگوار ٹھنڈے موسم کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقوں کی سوغات سیب ناشپاتی آلو بخارہ آڑو اور رس بھرے انگوروں کے رسیلے جوس اور پھلوں سے ضرور فیض یاب ہو نا چاہیے‘

میں بارہ سال کو ہ مری کی قدرتی مناظر سے بھر پور وادی میں مقیم رہا جہاں پر عبادت ریاضت مراقبہ تزکیہ نفس روحانی اشغال کے ساتھ ساتھ وہاں کے موسم اور قدرتی پھلوں سے بھی بھر پور لطف اُٹھاتا رہا۔ اُس دن بھی میں اور ناصر کشمیری اِسی موڈ میں تھے اُس دیوانے مستانے کو میری خدمت خوشنودی عزیز تھی میرے آرام راحت خوشی طمانیت کے لیے وہ ہر کام کر نے پر تیار رہنا تھا سر سبز شاداب گراسی لان میں آرام دہ کرسی پر بیٹھا کر میری پاؤں کو پیار سے دھوتا ناخن اتارتا سر میں تیل لگا کر مالش کر تا ساتھ میں پتہ نہیں کہاں کہاں سے مری کی زرخیز ترین زمین سے رس بھرے پکے ہو ئے پھل لاتا جو میری کر سی کے ساتھ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیتا اب چاروں طرف بادلوں بھر ے ہوا کے تیز جھونکے آسمان پر بادلوں کا رقص وہ کبھی پاؤں دباتا کبھی سر میں مالش اِسی دوران میں پاس پڑے مختلف النواع کے سیبوں انگوروں ناشپاتیوں آلو بخاروں انگوروں پر ہاتھ صاف کر تا میری آنکھیں بند ہوتیں میں نیم مراقباتی حالت میں مدہم اُس کے ہاتھوں کے لمس کو انجوائے کر تا ساتھ میں کوئی نہ کو ئی لذت شرینی سے بھر پور پھل اٹھا کر منہ میں ڈالتا اِس طرح خو شگوار موسم اور تازہ قدرتی پھلوں کے ذائقے سے جسم و روح دونوں تروتازہ ہو تے میں اُس کا قبلہ و کعبہ تھا وہ پروانوں کی طرح میرے اطراف میں رقص کر تا اِس دوران اگر کوئی ملاقاتی آجاتا تو اُس کو پیار بھری ڈانٹ سے کہہ دیتا فلاں دن آئیں آج نہیں اُس دن میں آرام‘موسم کو انجوائے‘ہونٹوں پر خدا کا ذکر اور تازہ پھلوں کو انجوائے کر تا بار بار آسمان کی طرف دیکھ کر ملتجی نظروں سے حق تعالی کو درخواست دیتا جاتا کہ مُجھ سیاہ کار کے من کے اندھیرے کب اجالوں میں بدلیں گے ناصر میری خدمت محبت کے ساتھ ساتھ اپنے باقی کاموں پر بھی نظر رکھتااُس دن میں اُس کو شرارتی لہجے میں بتا چکا تھا کہ آج تمہاری سوتن نے بھی آنا ہے تو وہ مصنوعی ناراضگی کا اظہار کر کے بولا آپ مالک میں خادم جیسے آپ خوش ویسے ہی میں خوش‘ پھلوں کے بعد آج ہمارے کھانے میں نمکین روسٹ بغیر بیسن کے ٹراوٹ مچھلی تازہ چپاتیوں کے ساتھ تھی اِس مچھلی کو ناصر نے میرے لیے خاص طور پر پکانا سیکھا تھا بلا شبہ ٹراؤٹ مچھلی لذت اور توانائی کا لازوال خزانہ تھی جس کا ہر لقمہ ہی لذت کا نیا جہاں آشکار کر تا میں مختلف پھلوں کو بار ی باری حلق سے اتارنے کے بعد اب میری انگلیاں تسبیح کے دانوں پر گردش کر رہی تھیں میرے اوپر خاص استغراقی حالت طاری ہو رہی تھی ناصر سمجھ گیا تھا اب میرا موڈ ذکر کے طرف مائل ہے وہ مجھے چھوڑ کر آگ کی طرف متوجہ ہو گیا جہاں اُس نے تھوڑی دیر بعد مچھلی کو پکانا تھا ہائے ناصر کیسا پروانہ تھا ہمہ وقت مجھ سیاہ کار احقر پر بھسم ہونے کو تیار رہتا تھا آنے والا مہمان ایک ہیجڑا مخنث تھا جس کی اداؤں کو ناصر بلکل بھی پسند نہیں کرتا تھا بلکہ اُس کی بعض ناروا حرکتوں پر اُس کے ساتھ اختلا ف کرتا اُس کے ساتھ نوک جھونک بھی جاری رہتی لیکن میری خوشی کی وجہ سے اُس کو برداشت بھی کرتا۔ آنے والا مہمان معاشرے کا ٹھکرایا ہوا طبقہ جن کے جسم مردوں کے لیکن جسم میں روح عورتو ں والی جس کی وجہ سے یہ ساری عمر بضد رہتے ہیں کہ وہ مرد نہیں عورتیں ہیں اِن کو بطور عورت تسلیم کیا جائے لیکن ہزاروں سالوں سے وہ اپنی اِس ناکام جدو جہد میں لگے ہوئے ہیں معاشرے نے اُن کو ابھی تک اُن کی مرضی کے مطابق قبول نہیں کیا وہ خود کو ہم عورتیں ہیں جبکہ معاشرہ نہیں تم مرد ہو اور تمہیں مردوں والا رویہ ہی اپنانا اور اظہار کر نا چاہیے۔ میرے پاس پہلی بار یہ مہمان دو سال پہلے آیا تفصیل تو کسی دوسری جگہ بیان کروں گا یہاں مختصر بیان کر تا ہوں اُس دن بھی بہت سارے ملاقاتی لوگ مُجھ سے ملنے آئے ہو ئے تھے کہ اِس کا روڈ سے گزر ہوا رش دیکھ کر ٹہر گیا انتظامیہ سے کہا مجھے پروفیسر صاحب سے ملنا ہے انہوں نے انتظار کر نے کا کہا کسی نے طنزیہ جملہ بھی بو ل دیا تو بھڑک اٹھا‘ بات تلخ جملوں سے ہاتھا پائی تک پہنچنے لگی تو میں نے مداخلت کر کے اشارے سے کہا اس کو میرے پاس لاؤ ہمارے معاشرے بلکہ دنیا بھر میں اِن کو پسند نہیں کیا جاتا بلکہ دھتکارا جاتا ہے اُس دن بھی لوگوں کی نظروں اور روئیے میں دھتکار سی تھی میں نے دیکھا ایک نہایت خوبصورت خدوخال کا مالک لڑکا دھاڑیں مار کر روتا ہوا میری طرف آیا اور بولا آپ کیسے درویش ہیں آپ کے آستانے پر بھی ہمارے اوپر نفرت کے انگارے برسائے جارہے ہیں درویش کا در تو سب کے لیے کھلا ہو تا ہے آپ کے لوگ کیسے ہیں جو مُجھ دکھی عورت کو اور دکھی کر رہے ہیں اُس کا اِس طرح سر عام رونا مجھے اچھا نہ لگا میں نے اُسے پیار سے پاس بلایا اور پو چھا تمہارا کیا نام ہے تو وہ بولا میرا نام شبنم ہے لوگ مجھے نک نیم باجی مورت سے پکارتے ہیں۔ باجی مورت تو وہ حیران ہو کر بولا ہم ہیجڑوں میں جو بہت خوبصورت ہو تا ہے اُس کو مورت کہتے ہیں کیونکہ میں خوبصورت ہوں اِ س لیے مجھے مورت دیوی کہاجاتا ہے میرا تعلق پشاور سے ہے میرا تعلق ایک امیر کبیر پڑھے لکھے گھرانے سے ہے کیونکہ میں تیسری نسل سے ہوں انہوں نے مجھے قبول نہیں کیا تو اپنی برادری میں آگئی ہوں اُس کا جسم لڑکوں والا تھا لیکن وہ خود کو بار بار لڑکی کہہ رہی تھی وہاں پر موجود اُس کو تضحیک آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے اِس لیے میں نے اُس کو کہا وہ اگلے دن اِس وقت میرے پاس آئے جب رش نہیں ہو گا تو میں اُس کی ساری بات پوری تفصیل سے سنوں گا پھر جو کچھ میرے بس میں ہو گا میں پوری کو شش کروں گاکہ تمہارا مسئلہ حل ہو سکے‘ تمہارے درد دکھ تکلیف کو کم کر سکوں اور مجھے تم سے پوری ہمدردی ہے تم میرے لیے باعث تماشہ نہیں بلکہ عام انسانوں کی طرح قابل احترام ہو تم اِس یقین کے ساتھ میرے پاس آیا کرو کہ میں کبھی تم پر طنز مذاق نہیں کروں گا اور تم خو دکو جو عورت بنا کر پیش کر تی ہو اِس کا بھی خیال رکھوں گا تم میرے لیے بیٹی کی مانند ہو اگر تم خود کو لڑکی سمجھتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں‘ اتنی بات کے بعد ہو مشکور نظروں سے دیکھتی ہوئی چلی گئی۔ وہاں پر موجود لوگ میرے رویے کو حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ میں اُس دھتکاری ہو ئی قوم کو اتنی محبت شفقت کیوں دے رہا ہوں اُس کو دھتکار کیوں نہیں رہا اُس کا مذاق کیوں نہیں اُڑا رہا جبکہ میرے دل میں تو عام انسانوں کی طرح اُس کے لیے بھی احترام شفقت کا رشتہ احساس تھا کہ وہ بھی تو میرے محبوب خالق کائنات کی پیدا کردہ تھی اور اگر میں اُس کی تربیت کر کے اُس کو راہ راست پر لانا چاہتا ہوں تو اُس کے طنز دھتکار لڑائی جھگڑا نہیں بلکہ احساس پیار کا راستہ ہے جس پر چل کر میں اُس کو راہ راست پر لاسکتا ہوں پھر طویل ذکر اذکار تزکیہ نفس کو چہ تصوف کے مجاہدوں کے بعد اب میرا دل نفرت بغض کینے حسد سے کافی حد تک پاک ہو چکا تھا مجھے خدا کے بعد کائنات میں بکھری ہوئی ہر اُس چیز سے پیار تھا جس کو حق تعالی نے تخلیق کیا ہو۔ پھر زمانہ طالب علمی میں سکو ل کی زندگی میں میری کلاس میں تین ایسے لڑکے بھی پڑھتے تھے جو انہی کی نسل سے تعلق رکھتے تھے میر اُن کے ساتھ رویہ فطری نرمی والا تھا اُن سے میل جول کی وجہ سے میں بہت حد تک اِن کی نفسیات اور درد کو بہت جان چکا تھا میرے اند ر ان کے لیے نفرت اور دھتکار نہیں تھی بلکہ میں اِن کے درد روگ کو محسوس کر تا تھا۔ اگلے دن عورت باجی مقررہ وقت پر میک اپ کی تہوں میں لپٹی ہار سنگار کر کے میرے دروازے پر بیٹھی تھی میں لان میں آکر بیٹھ گیا تو اُس نے آکر داستان غم ہجر رو رو کر سنانی شروع کر دی کہ کس طرح وہ کسی کے لڑکے کے عشق میں گرفتار ہوئی پھر ہماری دوستی پیار کا پودا کس طرح شجر سایہ دار بنا اور پھر کسی کے درمیان میں آنے پر اُس نے اِس سے بے وفائی کی اب وہ کسی دوسرے کا ہو چکا اِس کی طرف دیکھتا بھی نہیں اور یہ اُس کے ہجر میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے اپنا غم سنا کر چلی گئی پھر وہ دس پندرہ دن بعد میرے پاس آتی رہی چھ ماہ تک میں اُس کے اندر اللہ کے عشق کی چنگاری سلگا چکا تھا کہ اصلی حقیقی عشق صرف رب پاک سے اور اولیاء کرام سے ہو تا ہے اب وہ اپنے دنیاوی محبوب کو بھولنا شروع ہو گئی تھی خدا کے عشق کا رنگ چڑھنا شروع ہو گیا تھا۔

Share
Share
Share