افسانہ ۔ سر کٹا درخت۔ ۔ ۔از۔ فرخ ندیم

Share

1622225_10201343367613518_1314785062_n

سرکٹا درخت
فرخ ندیم

ایمرجنسی وارڈ میں جب اس کی آنکھ کھلی تو حبس اور گھٹن کا وقت تھا۔ اطراف میں بجھے چہروں کو دیکھ کر رگوں میں اضطراب دوڑنے لگا۔ اَن گنت سوالات داڑھی میں کھجلی کرنے لگے ۔ وہ تو اپنے گاؤں میں پکھی واس تھا پھر اس سڑاند بھرے ماحول میں تماشا کیسا۔۔۔… دائروں میں کھڑی سوالیہ نظروں سے پہلی بارواسطہ پڑا۔۔۔ یہ لوگ کون ہیں اور اسطرح کیوں دیکھ رہے ہیں وہ کچھ سمجھ نہ سکا۔۔۔۔ پتا نہیں وہ زندہ ہے یا مردہ۔۔۔۔ یقین کے لئے اس نے بستر سے اُٹھنے کی کوشش کی تو یک لخت سارا منظر اُس کے گرد ایسے گھوما کہ نظر دھندلا کر رہ گئی ۔ایسا لگا جیسے زلزلہ زدہ دیواروں میں اسے سر کے بل پھینک دیا گیا ہواور کسی جان لیوا مرگی کے دورے میں مرتا مرتا شہرکے ہسپتال پہنچا ہو۔ ہڈیوں کی مخ تک درد میں ڈوبا ہوا ا بوڑھا اپنے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان کبھی اپنے آ پ کو اور کبھی نامانوس وارڈ کے درودیوار دیکھتا ہے۔ سر جھٹک کر اُس نے غور کیا تو آس پاس کئی لوگ پاؤں گھسیٹتے ہوئے اس کے قریب آ رہے تھے۔ لوگوں کی آنکھوں سے جھانکتی ہمدردی اور جسم پہ لگی چوٹوں سے بے نیاز بوڑھے نے آہ بھر کے کروٹ لی اور کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ کھڑکی سے باہر ایک دیوار ہے اور دیوار کے اُس پار ایک خستہ حال سڑک ہے جو بوڑھے کی زندگی کی طرح بل کھاتی ہوئی اُس کے گاؤں کی طرف جاتی ہے۔ ٹوٹتے لفظ اور بکھرتی تصویریں ایک دوسرے میں مدغم ہونے لگیں ۔ ادھ کھلی آنکھوں کے دائیں بائیں حرکت کے ساتھ بہت سارے لفظ بھی ادھر اُدھر تیرتے ، پر کوشش کے باوجود بھی کوئی واضح تصویر نہ بن سکی۔رفتہ رفتہ تھوڑا تھوڑا کر کے غبار چھٹنے لگا اور واقعات کی کڑیاں ملتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔ لفظ تصویروں سے جڑتے ہوئے معنی واضح کرنے لگے۔ پھر اُس کے ذہن میں ایک زوردار

چیخ اُبھری جو سارے سکوت کو توڑتے ہوئے پرانے برگد کے پاس فقیروں کی کُلیوں اور جھگیوں میں گم ہوگئی۔ یہ جگہ ہمیشہ اسے بہت پر اسرار لگتی تھی۔۔شروع شروع میں تو وہ بہت خوف کھاتا تھا۔ کئی دفعہ سکول آتے جاتے جب وہ بیریوں کے پاس سے گزرتا تو سائیں جھلی کی دہشت بھری چیخیں اُس کی روح لیرو لیر کر جاتیں اور وہ ہانپتا کانپتا سڑک پر پہنچ جاتا ۔ ہر بار اُس نے قسم کھائی کہ وہ دوبارہ اس راستے پر نہیں چلے گا۔ مگر بیریوں کے بیر اور سائیں کی جھلی اسے بہت تنگ کرتے اور وہ بے اختیار پھر اسی راستے پر چل پڑتا ۔ سائیں جھلی کا منظر کسی بندریا ریچھ کے تماشے سے کم دلچسپ نہ تھا۔ وہ ہمیشہ سوچتا کہ لوگ اس کو کھڑے ہو کر کیوں نہیں دیکھتے۔۔۔؟اس سے بات کیوں نہیں کرتے۔۔؟ وہ ایسا کیوں ہے۔۔۔اور ہر وقت کس کو پکارتا رہتا ہے۔۔۔بیریوں کے گھنے جھنڈ کے درمیاں مٹی گارے سے بنا ہوا ایک کمرہ تھا جس کی چھت پہ صبح شام سائیں جھلی چکر کاٹتا نظر آتا ۔ آٹھ دس چکر لگانے کے بعد وہ ایک کونے پر رُک جاتا اور زور زور سے آوازیں لگاتا:
ہا بیری بوٹے لاندیا ماہیا
کنڈے پھائیاں نال
چھوارے وچ کلیجی کھاندیاماہیا
ہاراہوں کرائے جاندیا ماہیا
یہی نہیں وہ کچھ اور بھی کہتا تھا ۔ وہ تو ننگی ننگی گالیاں بھی دیتا تھا۔ کئی دفعہ تو وہ آتے جاتے راہ گیروں کی چال ، کپڑوں اور قد کاٹھ پہ مزے دارجملے گھڑ لیتا ۔خود ہی ہنستا اور پھر رو بھی پڑتا۔چیخ چیخ کے ہاتھ پاؤں دیواروں پہ برساتا۔ چاند ستاروں سے رات کے وقت پہروں باتیں کرتا رہتا۔ گھنٹوں خلا میں گھورتا رہتا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے اس کے بارے میں۔پر وہ اندر سے کیا تھا کوئی نہیں جانتا۔ اس کے،سائیں جھُلی کے لفظ اسے کھینچتے تھے۔وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ اس کی باتوں اور چیخوں کے کچھ معنی ہاتھ لگیں ۔ اسے یاد ہے وہ دن جب وہ شہر جا رہا تھا ۔بیریوں کے پاس پگڈنڈی پہ اسے ایسا لگا تھا جیسے اسے کوئی بلا رہا ہو۔ وہ سائیں کی ہی آواز تھی جو اونچی آواز میں گا رہا تھا۔
بیری دے بیر ماہیا دیوے بجھ گئے نے ہر پاسے انھیر ماہیا
اس کے سامنے، پرانی بات ہے، ایک دفعہ جب وہ سکول سے واپس آ رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ جھلی سائیں چیخ رہا ہے۔ ایک لڑکا جو پاس سے گزررہا تھا اس کے ہاتھ میں دو کبوتر تھے۔ بوڑھے کو آج بھی وہ الفاظ یاد ہیں۔ ہا۔ا۔ا۔ا۔ا۔ا ۔مٹی گارا کھاندیا ماہیا ہا چینا کبوتر، لکی کبوتری گٹکو گٹکوں ڈاندیا ماہیا دن ویکھے نہ رات وچارہ تو جانے تو کون میں جانا میں کون بھلیا۔۔ہا۔ا۔ا۔ا۔ا۔ا پنجواں میں بالن آئی بھلا جھولے لا لن،،،،اور وہ چھت پہ دھمال ڈالنے لگا تھا۔ وہ کچھ کہنا چا ہ رہا تھا۔ اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ لگتا تھا جیسے وہ، سائیں جھُلی، کسی گنجلک بوجھ تلے دھنستا جا رہا ہو ۔ تب ھی تو وہ چھت پہ بیٹھ گیا تھا۔ ۔۔پاؤں نیچے لٹکا کے۔۔۔پھر وہ زور سے ہنسا۔۔۔اتنے زور سے کہ اسکی بازگشت سے آس پاس کی ہرشے ہنستی محسوس ہوئی۔ بیریاں، پیپل کا گھنا اونچا درخت اور اس پہ بیٹھی چیلیں اور کوے سبھی ہنس رہے تھے، اسے یاد آیا کہ وہ بھی بہت زور سے ہنسا تھا ۔۔۔اس دن پہلی بار سائیں جھلی کے ساتھ۔ ۔ سائیں جھُلّی چھت پہ لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اور وہ ساتھ والے کھیت میں ۔ دونوں بہت دیر تک ہنسےتھے۔
ماضی سے جڑے قہقہے جب سالوں کا سفر طے کر کے حال کی پوڑھی پسلیوں میں پھڑ پھڑانے لگے تو آس پاس کے لوگوں کو بوڑھے کی حالت پر تشویش ہونے لگی ۔ دور کھڑے ایک آدمی نے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ” اس کے اوپر کوئی چادر کمبل ڈال دیں یہ بوڑھا کانپ رہا ہے”۔ پاس سے گزرتی ایک عورت نے نقاب سے جھانکتے ہوئے کہا ” اللہ رحم کرے…آثار تو کم ہی ہیں…”۔طرح طرح کی آوازیں اس کی سماعت سے ٹکرا کر روح کے پار ہو گئیں۔ ایک مریض جو ادھیڑ عمر خان صاحب تھے، ‘پ’ کو ـ ـ’ف’ اور ‘ف’ کو’ پ ‘ سے تبدیل کر دیتے ، پاس ہی لیٹے تھے۔ چاول لینے کے لیے ٹرک کے ساتھ اس علاقے میں آئے تھے کہ ملیریا نے پکڑ لیا۔۔۔ ، بوڑھا ف اور پ کو جوڑنے لگا، ہاں یاد آیا اس کا دوست رحیم خاں جو اس کی کہانی سن کر اکثر ایک شعر بولتا،
یہ دنیا ہے فیارے یہاں غم کے مارے
تڑٖفتے رہے ہیں تڑفتے رہیں گے
ملیریا والے خان صاحب بوڑھے کے پاس کھڑے کچھ بول رہے تھے،پھر ادھر ادھر دیکھ کر پوچھنے لگے ۔۔۔۔ "سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ رات کو وہاں کیا کر رہا تھا۔۔۔؟ وہ بتا رہے تھے کہ ان لوگوں نے بہت مارا ہے اسے۔۔۔ہڈی فسلی ایک کردی مار مار کے۔۔۔ ۔کو ئی دشمن تو ہو گا نا اسکا۔۔۔ اپنے بارے میں یہ سوال جواب سن کر ” بوڑھے کو ایک دم جیسے جواب مل گیا ہو اور وہ پھر سے ماضی میں سائیں جھلی کے پاس جا پہنچا ۔” ہاں دشمن ۔۔۔نہ بیریوں کے بیر کھانے گیا تھا نہ ہی سائیں جھلی کا تماشا دیکھنے ۔۔۔۔وہ تو کب کا مرچکا ۔۔۔ان لوگوں کو کیا بتاؤں کیا سمجھاؤں۔ "ہمیں کیا معلوم جی یہ بابا وہاں کیا کرنے گیا تھا”، وارڈ کے ایک کونے سے آواز آئی۔ "مجھے سمجھ آگئی ۔۔۔انسان سائیں جھلی کیوں بنتا ہے” ۔ اس نے، بوڑھے نے اتنی خاموشی سے جواب دیا کہ بات اس کے کانوں سے پار نہ جا سکی۔ "بس مقدر کا کھیل ہے جی”،ایک اور آواز آئی "نہ نہ ۔۔۔ یہ قسمت کا ہیر پھیر نہیں۔۔۔ہم جیسوں کی بے بسی کے پیچھے ایک سے بڑھ کر ایک دشمن ۔۔۔سب چکر اے۔۔۔وڈّے دشمن ہیں یہ چور یہ ٹھگ۔۔۔ان کو، ان لوگوں کو، بوڑھے نے سوچا کیا پتا کہ میں رات کے گھپ اندھیرے میں بیلے سے ہوتا ہوا فقیروں کے پچھواڑے کیسے پہنچا۔۔۔ میں تو اپنے بچے کھچے مال کو بچانے گیا تھا۔۔۔پروہ کون تھے۔۔۔؟۔ ” لگتا ہے کہ بوڑھا مسافر ہے اور ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ گیا”پھر ایک سوال۔ "ہاں….لوگ پہلے لوٹتے ہیں پھر مارتے ہیں….”جیسے اس کو جواب مل گیا تھا ۔ "لعنتی لوگ ہیں جی اب کیا بتائیں ہمارے علاقے میں کیا ہو رہا ہے، اچھے خاصے شریف گھروں کے لڑکے بندوقیں لے کر گھومتے رہتے ہیں” ایک آواز دروازے کی طرف سے آئی۔ "ہائے لعنتیو،،،۔تم بھی بڑے چوروں سے مل گئے ۔۔کہاں گئے وہ لمبے لمبے خطبے،،،،ہمارا کیا قصور تھا،،،سارا محلہ ہی خالی ہو گیا،،،، کیا بنے گا تمھارا۔۔۔ سب کچھ ٹیڑھا میڑھا ویسے ہی نہیں”۔۔۔”اندھی کھلواڑ ہے اور بٹوارہ ہے ہمارے مال کااور بٹواروں میں یہی ہوتا ہے، بٹوارہ ، ہمارے حق کا۔۔۔ان گِدھوں کے سامنے ہمارا حق کرنگ کی طرح ہے”۔۔۔۔دیوار سے ٹیک لگائے ایک آدمی نے اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔” بوڑھے کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے، "پھر بھی نصیب کے چکر مکر میں ہمیں ہی ڈالا جاتا ہے۔ ٭بسنتر نالے کی طرح ۔۔۔ یہ سب ٹیڑھا میڑھا ایسے ہی نہیں ہو گیا۔۔۔گہری چالوں کا جال ہے۔۔۔” کچھ لوگوں کے پاوں میں چکر ہوتا ہے، دن دیکھتے ہیں نہ رات اسی لئے مار بھی کھاتے ہیں”،اسی عورت نے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"سائیں جھلی کے چکروں کے پیچھے کیا چکر تھا۔۔۔ کوئی نہ سمجھ سکا۔۔۔ سنا ہے جماندرو پاگل نہیں تھا، وہ بھی شہر گیا تھا، میری طرح، گیا تھا نوکری کرنے۔ نوکری ملی۔ ۔۔چوکیدار بھرتی ہوگیا تھا ۔۔۔میری طرح مرتے مرتے گاؤں پہنچا اور جھلی تان لی ۔۔سب چکّرہے۔۔۔چکّر پیچھے چکر۔۔۔ چھت کے پنکھے کے چکر کے پیچھے بھی بجلی کا چکر ہے، پر۔۔۔۔یہ لوگ کون ہیں اور مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ بوڑھے نے اچانک ہوش میں آ کر ارد گرد لوگوں کو کھڑے دیکھا ۔۔۔؟؟کیا چکر ہے ۔۔۔؟؟ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں ….بٹربٹر؟۔۔۔سائیں جھلی کی طرح کچھ اونچا تو نہیں کہ دیا میں نے۔۔۔۔؟؟ ان ہی پسلیوں میں اب دل تڑپنے لگا تو آس پاس کے لوگ مزید فکر مند ہوئے۔
اتنی دیر میں وارڈ بوائے اونچی آواز میں بولتا ہوا کمرے میں داخل ہوا ” بھئی اس کا کوئی آگے پیچھے بھی ہے یا میری ہی طرح ہے”۔ اس بات پر مریضوں سمیت کئی افراد کی گردنیں اس کی طرف مُڑگئیں۔”آ گے پیچھے کوئی ہوتا تو آج نظر بھی آتا۔۔۔کوئی پولیس کیس لگتا ہے بھائی صاحب۔ابھی پولیس آئے گی تو دیکھنا ۔۔۔۔جیڑھا بولے ۔۔۔اوہوئی کنڈی کھولے”۔ اس مقامی شخص کے الفاظ بوڑھے پر بجلی بن کر گرے۔ کھلی آنکھوں سے اس نے دیکھا کہ پرندوں کی ایک ڈار درختوں سے اُڑی اور پھر دُور آسمان کی لا متناہی وسعتوں میں کھو گئی۔ اس کی نظر سامنے والے درخت پر جب پڑی جو وقت سے پہلے بوڑھا ہو رہا تھا۔ ”مریضوں کی صحبت میں رہتے ہوئے اسے بھی کھانسی ہوتی ہوگی، دورے پڑتے ہوں گے۔ تب ہی تو یہ الف ننگا ہو چکا ہے۔ اس کے آس پاس کوئی اور ہے بھی تو نہیں….نہ اس کا کوئی سایہ نہ پھل….نہ شاخیں ….پتانہیں ٹاہلی ہے یا کیکر ….کلری مٹی کے کلر ے بوٹے….میری طرح جھڑنا ہی تھا ۔ میری طرح۔ اپنے گھر کی طرح۔جس کی چھت ایسے تھی جیسے سائیں کی جھُلّی۔پھٹی پرانی۔اُدھڑی اُدھڑی۔ ”اس بوڑھےکا گھر گاؤں کے دوسرے گھروں سے کا فی ہٹ کر تھا۔کچی مٹی اور گارے سے بنا ایسا گھر جو موسموں کی سختیاں جھیلتا جھڑتا چلا گیا۔ سامنے والے اس درخت کی طرح جس کی جگہ جگہ سے اُدھڑتی جلد بوڑے کی آنکھوں میں گر رہی تھی۔۔ ذہنی کرب کی شدت نے اسکے چہرے کے خدو خال ایسے واضح کر دیے جیسے کسی مجسمہ ساز کی انگلیاں گیلی مٹی پر نقش تراشتی ہیں۔ یا کسی اوڑھ لگی زمین میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ ایک بار اجڑا تو وہ گھر پھر کبھی آباد ہو نہ سکا۔بہت پہلے اس نے بہت سے خواب دیکھے تھے۔ ایسے جیسے عام لوگ دیکھتے ہیں۔ انہی دنوں ایک سال کے اندر اندر وہ دونوں مر گئے جن کو اس کے گھر بسنے کا انتظار تھا۔ حکم تھا کہ یہ گاوں چھوڑ دو کیونکہ وہ کوئی اور کلمہ پڑھتے تھے۔ صدمے سے مر گئے۔ پورے ایک سال اُسے یہ سمجھ ہی نہ آ سکا ۔ گھر کو تالے پڑ گئے۔ سکول تو کب کا ختم ہو چکا تھا کیونکہ وہ نسلاً کمی تھے۔ کمی کام کاج نہ کریں تو کھائیں کیسے۔گھر کا چولہا کیسے چلے ۔ کئی سال وہ شہر مزدوری کرتا رہا اور پھر خواب دیکھنے لگا۔ مگر جب واپس پلٹا تو عزیز رشتے دار بکھر چکے تھے۔ وہ خالی ہاتھ پلٹا تھا اس لئے جو موجود تھے انہوں نے جان پہچان سے انکار کر دیا۔ جو اس کے پاس تھا اس کے اس نے ایک گائے خریدی اور ایک بکری۔ اس طرح تھوڑے عرصے بعد اس کا بے زبان خاندان اسکا سہارا بھی بنا اور اس کا جی بھی بہلانے لگا۔
اس کے بعد اس نے نہ تو خواب دیکھے نہ تکمیل کے سہارے ڈھونڈے۔ اسکا حال دیکھ کر لوگوں نے اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دیا۔ سامنے والے بوڑھے درخت کی طرح سوکھتا چلاگیا۔ نہ کوئی آگے نہ کوئی پیچھے۔ وارڈ بوائے کے پیچھے سفید کپڑوں میں ملبوس گلوکوز کی بوتل اُٹھائے اس وارڈ کی واحد نرس تھی جس کے قدموں کی آواز ہی بعض مریضوں کو شفا بخش دیتی۔ اپنی ذمہ داری اور مریضوں کے زخموں کی پرواہ کیے بغیر وارڈ بوائے نے بوڑھے کے جسم پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا ” لوگ اسے ہسپتال میں ایسے چھوڑگئے ہیں جیسے کوئی ڈاکیا بیرنگ خط دے جاتا ہے”۔نرس کے کہنے پر جب لوگ کمرے سے نکلنے لگے تو بوڑھے کو ایسا محسوس ہوا جیسے اُسے مٹی گارے سے صاف کیا جا رہا ہو۔ اس کے خیال میں کئی ایسے لفظ تھے جو اس کے زخموں میں نمک پھونک رہے تھے۔ وارڈ بوائے کی مددسے نرس نے اس کو بستر پہ آرام سے بٹھایا اور زخموں پرمرہم پٹی کرنے لگی تو بوڑھے کو ایک زور دار جھٹکا لگا۔ کئی برس پرانے احساس نے پورے وجود میں ایک ارتعاش پیداکردیا۔ماضی کے قبرستان سے ایک تصویر اُبھری جو سالوں کی مسافت پھلانگتی ہوئی قریب آنے لگی۔ وہ اس تصویر کو پھونکوں سے صاف کرنے لگاتو کئی بار گرد اس کی آنکھوں میں پڑی اور معلوم نہیں یہ آنسو تھے یا پانی مگر تصویر دُھل کر واضح ہونے لگی تھی۔ وہی جیتی جاگتی اُکھڑی اُکھڑی سانسیں لیتی تصویر جو اکثر گلے کا ہار بنتی تھی۔

پھر کچھ یوں ہوا کہ وہ گلے سے اُتر گئی اور سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ بے اختیار اس کا ہاتھ اُٹھا اور نرس کے بازو پہ گِر گیا۔ نرس اس کی تکلیف کا اندازہ لگاتے ہوئے بولی ” بس باباجی….تھوڑی دیر اور ۔۔۔” بوڑھے کو یاد آرہا تھا کہ کس طرح وقت کا کلّر ہریالی کو چاٹتا چلا گیا تھا۔۔۔۔ کسی کو اوپر والا لے گیا اور کسی کو دنیا کھا گئی….شاید یہی کچھ دیکھنا تھا….رہی سہی کسر ان ظالموں نے نکال دی جنہوں نے اسکی عمر دیکھے بغیر اسکو ادھ موا کر دیا۔ یادوں کی طویل راہ گزر عبور کرتے ہوئے بوڑھا گزشتہ رات کی تاریکی میں بھٹکنے لگا۔ زندگی بھر کی جمع پونجی ڈھونڈنے وہ دریا بسنتر کی طرف بھاگتا جا رہا تھا۔ ماحول پر سنسناہٹ طاری تھی۔سناٹا ایسا کہ پتوں کی سرسراہٹ پہ بھی اسکے قدم لڑکھڑا جاتے۔ اور وہ زور زور سے پکار رہا تھا ” اوئے لعنتیو!! ! تمہارا بیڑہ غرق ….۔۔۔فراڈیو۔۔۔یہ میرا مال ہے….تمہاری ماں کا داج نہیں….میرا مال واپس کرو….تم گائے بیچو گے….میری بکریاں میمنے سب کچھ بیچ دو گے….تم ہر چیز بیچ کے کھا جاتے ہو۔۔۔تمہارا پبٹ بھرتا ہی نہیں ۔۔۔۔.!!!اسی لئے تو تمہارے کھیت کلر سے چٹ چٹین ہو گئے۔۔۔ بیریاں سوکھ گئیں….تم کھلیانوں میں آگ لگاتے ہو اپنے بنجر پن کو کسی کے مال سے زرخیز کرتے ہو اور ڈکار مار کر کہتے ہو کہ سب ٹھیک ہے ۔۔۔!!! ۔۔کرم ہے اوپر والے کا۔۔۔؟؟؟۔ ابھی مجھے میرا مال واپس کرو۔۔۔ میرا حق حلال مجھے واپس کرو۔۔۔تمہارا بیڑہ غرق ۔۔۔۔تمہارا ستاناس۔۔۔ککھ نہ رئے تم لوگوں کا ذلیلو۔۔۔” اُس نے اپنے جانوروں کو مخصوص انداز سے آوازیں دیں ۔۔۔مالو،،، چھینو، دلبر،،، تھوڑی دورسے اسکے مال نے اسکی خاص آواز سنی تو میں میں کرنے لگے اور رسیاں سنگل توڑ کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگے۔ جونہی اس نے یہ آوازیں سنیں ،،،،اس نے سائیں جھلی کے انداز میں چیخ چیخ اپنے دشمنوں کی نیندیں اُڑادیں۔ اسے پتا تھا ان سب کا۔ آج کل ہر جگہ انہی کا راج تھا کیونکہ ان کو بھید معلوم ہو چکا تھا کہ طاقت ہی میں عظمت ہے۔۔ان لٹیروں نے رات کو اس کی آواز دبانے کی پوری کوشش کی تھی مگر شایدکچھ قرض ابھی باقی تھا۔ ۔۔!!! گلوکوز لگایا جا چکا تھا ۔ جو اب شریانوں سے ہوتا ہوا چھوٹے چھوٹے ریشوں میں داخل ہورہا تھا۔ ساون کی دوپہر میں ایسا میٹھا ذائقہ اس نے پہلی بار چکھا تھا۔ یہ ایک لذت بھرا احساس تھا جس کے سامنے وہ بے بس ہوگیا ۔ اب اپنے آپ کو نیند کے سپرد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ سو اس نے آنکھیں موند لیں ۔ خواب میں اس نے دیکھا کہ وہ ریلوے اسٹیشن کی طرف بھاگتا جا رہا ہے۔ اچانک ایک چمکتی دمکتی نئے ماڈل کی گاڑی اس کے قریب رُکتی ہے۔ ایک آدمی گاڑی سے اُترتا ہے۔ اور اس کو ایک تھیلا تھماتے ہوئے کہتا ہے ” آپ اپنا کچھ سامان وہیں چھوڑآئے تھے….میں نے سوچا آپ کے کام آئے گا….تھیلا وصول کرتے ہوئے اُس کی نظر فرنٹ سیٹ پر پڑی….زمین اس کے قدموں تلے سرکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ ایسی تھرتھراہٹ تھی کہ اُس کا دل اُچھل کر حلق میں آن اٹکا۔ وہی تصویر انسانی روپ میں سولہ سنگھار کے ساتھ اس کے قریب ….مگر کتنی دُور ….گاڑی واپسی کے راستے پر….بے چینی کے عالم میں اس نے تھیلے کو ٹٹولنا شروع کیا….” ہیں”….یکدم اُس کی آنکھوں میں حیرت اُتر آئی ، کانپتے ہاتھوں سے اُس نے تھیلے کو ٹٹولا۔ یہاں تو وہ لباس بھی تھا جسے وہ برسوں پہلے پہن کر شہر گیا تھا ۔ ان کپڑوں میں کیسی خوشبو ….کتنا سکون تھا۔ وہ اس لباس کو اسی وقت پہننا چاہتا ہے لیکن کیسے….؟ وہ اتنے سارے لوگوں کے درمیان ننگا نہیں ہونا چاہتا ۔ شش وپنج میں مبتلا کبھی وہ اپنے آپ کو دیکھتا کبھی تھیلے کو اور کبھی لوگوں کو کیونکہ آتے جاتے راہ گیر حیرت زدہ اس کی طرف متوجہ تھے۔ پھر ایک حل اس کے ذہن میں آیا اور اس نے جھٹ پٹ پہلے سے پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر ہی پرانا بھولا بسرا لباس پہن لیا۔ لوگ ہنستے اور تالیاں بجاتے جیسے وہ دل کھول کر داد دے رہے ہوں۔ اس داد میں سائیں جھلی کی چیخیں بھی تھیں ۔ ان سب کے نزدیک وہ کوئی بہروپیا تھامگر جب اس کی قوت ِ برداشت جواب دے گئی تو اس نے وہاں سے ایک طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ قدم….کہ جیسے اَن دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوں۔ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور منہ کے بل گرنے سے پہلے اس کی آنکھ کھل گئی۔

کسی بے نام طاقت کے سہارے وہ اُٹھ بیٹھا اور آلتی پالتی مار کر دیوار کے سہارے بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر صاحب سر پہ کھڑے تھے اور اس کی حالت کا بغور مطالعہ کررہے تھے۔ بوسیدہ سی شلوار قمیض میں ملبوس خاموش گٹھری کے معنی تلاش کرنے لگے تو اپنی عینک چھوٹی نظر آنے لگی۔ دو آنکھوں سے وہ کتنی سلوٹوں کو پڑھ سکتے تھے۔۔ نرس آگے پیچھے چکر لگا رہی تھی جس کے ساتھ ہی چھوٹے سے قد کا کمزور سا بوڑھا ماضی کے مداروں میں ہچکولے کھا رہا تھا۔ یادوں کے پاتال میں ڈوبا وہ ان لمحوں کوکوس رہاتھا جنہوں نے زندگی کوکالی کھانسی اوڑھا دی تھی۔ ” بابا جی آپ کو پہلے اس علاقے میں نہین دیکھا”، کسی اجنبی نے سوال کر دیا،.،بوڑھے نے اس کی طرف غور سے دیکھا، نرس کو دیکھا، پھر اپنے آپ کو آنکھیں مل مل کر دیکھا ، وہ تو وہ تھا ہی نہیں… اتنی جلدی زمانہ بدل گیا۔۔اسے سارا سفر یاد آنے لگا. ہجرت تھی،محنت تھی، جبر تھا، زلت تھی اور پھر دھواں تھا ، بارود تھااور دھوئیں میں اُڑتے ہوئے اس کے خوابوں کے کھیت کھیت کھلیان، "اس آدمی نے، مجھے نہیں دیکھا، کسی کمی کو کبھی نہیں دیکھا اس نے؟ اس کے گاوں میں کمی کمین نہیں ہوتے؟ سب چکر ہے….سائیں جھلی کی طرح مجھے بھی مزدوری اور سفر مار گئے۔۔۔ انسانوں کی مار ہمیں تباہ کر گئی۔۔۔ اُس کے پاؤں میں بھی چکرتھا۔ بس چکے وچ چکر…. چکے وچ چکر….اوئے یہ کیا…. یہ توریل گڈی چل پڑی ہے ….پر….سفر لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے پتہ نہیں اسٹیشن کب آئے گا….۔۔اس سے پہلے پہلے میں نے اپنی جنگ جیتنی ہے۔۔۔بھانبھڑ بل رہے ہیں وجود کے اندر۔۔۔پاگل کر دے گا یہ الاؤ ۔۔۔۔ یہ ہم لوگوں کے سکون کو تیلی لگا کے شرابوں کے ڈکار لیتے ہیں۔۔۔بڑی بڑی حویلیوں میں بُولی، بگھیاڑی اور گلٹےرکتے پالتے ہیں وڈیرے ۔تا کہ وہ دوسروں کو کاٹ کھائیں اور ان کی بدمعاشی چلتی رہے۔ چوروں کے سردار چور۔ کوئی نکا چور کوئی وڈا چور۔ ڈاکٹر صاحب مضطرب ہوکر اپنے کمرے میں جانے لگے تو بوڑھے کو خیال آیا اگر اس ڈاکٹر پہ سائیں کی جھلی ڈال دی جائے تو یہ کیسا لگے….اس نے پھر اپنے آپ سے پوچھا ،اُس نرس کی جھلی نظر کیوں نہیں آتی….؟ پاس کھڑی نرس گلوکوز کے آخری قطروں کے انتقال کا انتظار کر رہی تھی۔
بوڑھے کی خاموشی اور اس کے انتظار میں کتنی مماثلت تھی۔ جب آخری قطرہ اپنی فارمیلٹی پوری کر چکا تو اس نے اپنے آپ کو ایک اور زنجیر سے آزاد پایا۔ بائیں ہاتھ سے نرس نے اپنے سفید کوٹ کی جیب سے ایک پرچی نکالی اور بوڑھے کو تھماتے ہوئے بولی۔ ” یہ دوائیاں بازارسے لے آئیں” پرچی کا شاید بوجھ اتنا تھا کہ بوڑھے کو تلوے گھسیٹتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکلنا پڑا۔ سڑک پر گہما گہمی ، چہل پہل، چھوٹی بڑی گاڑیوں کے شور، بڑے بڑے اشتہاروں اور آتے جاتے لوگوں کی تیکھی نظروں نے اس کا استقبال کیا۔کتنی دیر وہ بے مقصد ادھر ادھر گھومتا رہا۔مڑمڑ کے گزرتی ہوئی چیزوں کو دیکھتا رہا۔اسکے جسم پہ جگہ جگہ پٹیاں بندھی ہوئی تھیں جو اب ہل ہل کر اُکھڑ رہیں تھیں اور ننگے زخموں سے جب ٹیسیں اسکے قدم روک لیتیں تو وہ داہنی کہنی گھٹنے پہ رکھ کے تھوڑی دیرسستا لیتا۔

چادر جھاڑتا۔پھر چل پڑتا۔ مگر اچانک اپنے سائے پر نظرپڑی تو وہ فکر مند ہوگیا۔ بھوک پیاس کی شدت تو تھی مگر ڈوبتے سورج کے خوف نے اسے بڑے بڑے ڈگ بھرنے پر مجبور کردیاکئی بار لڑکھڑایا ۔بیٹھ گیا۔اُٹھا۔ ادھر اُدھر دیکھا آدمی انسان جو کچھ بھی تھے کم ہوتے جا رہے تھے۔وہ خود بھی کم ہوتا جا رہا تھا ایسے جیسے کمی لوگ اپنی ذات میں کم ہونے لگتے ہیں یا پھرایسے جیسے ہونے ہوتے ہیں۔جیسے بچے ہوں۔ گاڑیوں کا شور کم ہوتا جا رہا تھا۔ آہستہ آہستہ سب آوازیں سناٹے میں ڈوبنے لگیں اور اسے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ بونا ہوتا ان آوازوں میں ڈوبنے لگتا ہے اور غوطے کھانے لگتا ہے۔ پھر طوفانی جھکڑ اسے بسترمیں پھینک دیتے ہیں اور وہ گہرے پانیوں میں ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔پونے پانچ فٹ کے دُبلے پتلے وجود کو گھسیٹتا کنارے لگتاہے اور ہانپتاکانپتا پھر سے چلنے لگتا ہے ۔یہاں تک کہ اسے اپنے ہی قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ وہ نہیں جانتا کیسے مگر وہ شہر سے میلوں دُور آچکا تھا۔ چاروں طرف غور سے دیکھا مگر اُس کے اپنے وجود کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ آسمان پہ نگاہ ڈالی تو ایک ایک کرکے کئی بونے بونے ستارے اُس کے ہم سفر ہوچکے تھے ۔ اُس کے جسم میں خوشی کی ایک لہر دوڑگئی۔ درد کی گرفت ڈھیلی پڑی تو اُس نے بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا….وہ کتنا تیز بھاگتا تھا، گاؤں کے سبھی بچوں سے آگے ۔ ایک رات تو وہ واقعی ڈر گیا تھا۔ایک ستارے سے شرط جو لگائی تھی پاؤں زخمی تھے مگر پھر بھی بھاگتا چلا گیا۔ وہ گاؤں سے بہت دُور نکل آیا تھالیکن آسمان کی سمت دیکھا تو ستارہ بدستور وہیں ٹمٹما رہا تھا۔ سامنے سے آنے والی سائیں جھلی کی چیخ نے اس کی رکابیں کھینچ لیں۔۔۔وہ اس کی زبان سمجھنا چاہتا تھا۔۔۔مگر وہ تو پاگل تھا۔۔۔اپنے آپ کو بھی نہ بخشنے والا پاگل۔۔۔ اور وہ اسی رفتار سے بے اختیار واپس بھاگا۔ اُسے لگا جیسے وہ ستارہ تو آج بھی اس کے ساتھ ہم سفر تھا۔ اُس رات اُسے ڈر تھا کہ اندھیرے میں کہیں کھو نہ جائے لیکن آج کی رات تو بالکل نئی ہے۔ تاریکی ہے، تنہائی ہے مگر کچھ بھی کھونے کا ڈر نہیں۔چلو بھاگ کے دیکھتا ہوں۔ اس نے سوچا۔ ایک ہی قدم اُٹھ سکا۔درد کی ایک ٹیس ایسے اس کے جسم سے گُذری جیسے ہل کا پھالہ زمیں کا جسم چیر کے گُذرتا ہے۔دوسرا قدم اُٹھایاجیسے اس نے ساری زندگی اُٹھائی۔نہیں بھاگ سکتا۔اس نے اپنے آپ کو سمجھایا ۔ ابھی کچھ دُور ہی چلا تھاکہ اُس کے قدم رُک گئے، سڑک کے کنارے کھڑاکوئی اجنبی اُسے گھور رہاتھا، کون ہو تم۔۔۔؟ اُس نے آواز دی۔ اپنی ہی آواز پلٹ کر کانوں سے ٹکرائی ۔ دیکھا تو سامنے والا جثہ تو وہیں ساکت کھڑا تھا۔ کوئی چور ہے ، ٹھگ ہے ، لٹیرا ہے یا ٹھگیا فقیرمگر بولتا کیوں نہیں۔۔۔!!!۔ آج شکست اُس کا مقدر نہیں بن سکتی نہ ہی آئندہ کوئی بٹوارا کر سکے گا۔اس نے کھینچ کر اپنا قد اونچا کیا۔مدمقابل کے برابر۔ اس تاریک ماحول میں وہ تھا یا اُس کادشمن۔ اس نے ایک پتھر اُٹھایا اور زور سے مد مقابل کے سر پہ مارا….ڈھک کی آواز تو آئی مگر سامنے والا پنجے گاڑے وہیں ٹس سے مس بھی نہ ہوا تھا۔ بوڑھا اپنے آپ سے عہد کر چکا تھا ۔۔۔آدھ کلو گلوکوز کے سہارے اس نے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنا چاہا۔ مٹی کے ڈھیلے ، پتھر جو کچھ بھی اس کے ہاتھ لگتا وہ پھینکتا جا رہا تھا۔ سرکتی ہوئی جھلی جیسی چادر قدموں میں گرنے لگی ۔ تصویریں اور لفظ پھر گڈمڈ ہونے لگے۔ ہاتھ پاؤں جواب دینے لگے پھر بھی چاروں طرف سے گھوم گھوم کر اُچھل اُچھل کر اُس نے پتھر پھینکے ۔ سارا بدن پسینے سے شرابور ہوگیا۔ سوکھی ٹانگوں سے جسم گرنے لگا۔ پرانے زخموں کی پھر سے خون نے آبیاری کی۔ اَن گنت سولات کے شور اور تھکن نے اسے چکرا کے رکھ دیااور اب کی بار وہ ایسا گرا کہ پھر اُٹھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر وہ مطمئن تھا۔۔۔ کہ سامنے والا نظروں سے اوجھل ہو رہا تھا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ سڑک کے کنارے ایک سر کٹے کیکر کے پاس شجر حسین پڑا ہے۔ہسپتال والی پرچی پہ یہی نام لکھا تھا۔

Share

۵ thoughts on “افسانہ ۔ سر کٹا درخت۔ ۔ ۔از۔ فرخ ندیم”

Comments are closed.

Share
Share