ہوا یہ کہ خاندان کے کچھ لوگ ادھیڑ عمر کے ایک مریض کو یہ کہہ کر لائے کہ ان کو چکر آرہی ہے ۔ دو دن کسی دواخانے میں شریک کروائے ۔ تمام عصری امتحانات کروائے گئے جس سے بستہ بھرا ہوا تھا۔ بیوی کا رویہ ڈاکٹروں کے تعلق سے تھوڑا سا ترش نظر آرہا تھا ۔ کیونکہ ان تمام امتحان کروانے کے باوجود مریض کی کیفیت میں کوئی فرق نہیں ہوا اور انداز گفتگو شکایتاً تھا جو ممکن ہے مجھ پر تھوڑا سا گراں گزرا ۔ یہ رویہ میں جانتا ہوں کہ غلط تھا ۔ گو کہ میں خود اس مریض کو نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ میرے ماتحت دیکھ رہے تھے مگر میری پوری توجہ اس مریض پر ہی تھی ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ موصوف اپنے آپ میں مسکرارہے تھے اور اپنی ہی دنیا میں مست تھے۔ ڈاکٹر کے پوچھنے پر اوٹ پٹانگ جواب دے رہے تھے اور چکر کی تو وہ شکایت بھی نہیں کررہے تھے ۔ ان سے پوچھنے پر کہہ رہے تھے کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے اور مسلسل مسکراتے رہے ۔ رشتے دار پریشان تھے اور جب پوچھا گیا کہ مریض چکر کی شکایت تو نہیں کررہے ہیں تو بیگم صاحبہ کہتی ہیں کہ ذرا ان کو چلا کر دیکھئے ۔ لڑکھڑارہے ہیں ، توازن ٹھیک نہیں ہے ۔ دو قدم چ نہیں سکتے ۔ گرجاتے ہیں ، مگر چلنے پر مُصر ہیں ، اوسط گھرانے کے عزت دار لوگ نظر آرہے تھے ۔ جس دواخانے میں دو دن رہے اس کی مسلسل شکایتیں کرتے رہے کہ قیمتی سے قیمتی دوائیں دینے کے باوجود حالت ٹھیک نہیں ہورہی ہے
یہیں پر مجھ سے خطا ہوگئی ۔ شرابی کو برسرعام ذلیل نہیں کیا جائے کہ میرے اپنے بتائے ہوئے اصول کو میں بھول گیا اور یہ کہہ بیٹھا ۔
ان کو تو شراب پینے کی لت ہے ۔ لڑکھڑاہٹ کثرت شراب کا نتیجہ ہے ۔ یہ کیفیت جلدی سے کم ہونے والی نہیں ہے ۔ دماغ متاثر ہوچکا ہے ۔ شراب کی عادت کا علاج کروانا ہوگا ۔ ان باتوں سے سب سے پہلے جو متفق نظر آئے وہ مریض خود تھے ۔ بیوی دم بخود ہوگئی اور زبان کھول نہیں سکی ۔ دوسرے رشتہ دار ایکدوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ میں اسکے ساتھ ہی اپنی غلطی کو سمجھ بیٹھا ۔ مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔ میں ایک جملے میں اس خاندان کے ایک عزت دار شخص کی بے حرمتی کربیٹھا۔
گوکہ کھلے الفاظ میں اس کا اعتراف نہیں کیا گیا مگر یہ کہنے لگے کہ کبھی کبھار استعمال کرلئے ہوں گے مگر اس کے عادی تو نہیں ہیں ۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سب کو اس کی اطلاع نہیں تھی مگر دوسرے رشتہ دار سوالیہ نظروں سے بیوی کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کو برداشت نہیں کررہی تھی ۔ اس کے بعد میں نے یہ کہا کہ یہ تو سارے گھر والوں کی ذمہ داری ہے۔ بہت پہلے علاج کیلئے آنا چاہئے تھا ۔ یہ باتیں اور ہدایتیں بیوی کو اور ناگوار گزرنے لگی ۔
اس کے بعد میں شراب کو روکنے کے طریقۂ علاج کو سمجھانے لگا ، جس کے لئے وہ راضی نظر نہیں آرہے تھے ۔ نیم رضامند رشتہ داروں کو کیسے مطمئن کریں کہ شراب جگر کو متاثر کرتی جاتی ہے اور اسی کی وجہ سے کئی دوسری جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دماغ کی صلاحیتیں متاثر ہونا شروع ہوتی ہیں ، جس میں یادداشت سب سے پہلے خراب ہونے لگتی ہے اور اس کے بعد کچھ دن چھوڑنے پر مرگی کی طرح دورے بھی آیا کرتے ہیں ۔ اگر دورہ آئے تو لازماً دواخانے کو لے جانا پڑتا ہے جہاں پر شراب کی تفصیلات کو چھپائے رکھا جاتا ہے ۔ جب میں کھلم کھلا بول بیٹھا کہ ساری کیفیت شراب کی وجہ سے ہے تو یہ لوگ اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ کہنے لگے کہ انکا مریض شرابی نہیں ہے ۔کبھی کبھی پی لئے ہوں گے مگر اس کے عادی نہیں ہیں ۔ خون کے امتحان کی رپورٹ سے علانیہ پتہ چل گیا تھا کہ مسلسل شراب پی رہے ہیں ۔ مگر بیوی جھنجھلانے لگی اور یہ لوگ باہر چلے گئے اور شراب کی عادت کو چھڑانے کے لئے علاج کی ضرورت کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ ان کی پریشانی کو بھی میں سمجھ رہا تھا ۔ میں نے ان کی ایک بہت ہی معیوب اور پوشیدہ بدعملی کوطشت از بام کردیا ۔ اب خاندان کی عزت کا معاملہ تھا ۔ نئے داماد ساتھ تھے ۔ بچیوں کی شادیاں ہونی تھیں ۔ باہر جا کر وہ خاندان کے کسی اور ذمہ دار سے غصے میں بات کررہے تھے اور ڈاکٹر کی شکایت کررہے تھے ۔ تھوڑی دیر میں ایک عہدے دار نما بارعب شخصیت داخل ہوئی اور مریض کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے کی خواہش کی ۔ میں نے کہا کہ چکر ایک علامت ہے مگر اصلی مسئلہ تو شراب کا کثرت سے استعمال کا ہے ۔ اس کا علاج کروانا ضروری ہے ۔ وہ بیچارا بھی بے زبان ہوگیا اور پھر میں ان سے علحدگی میں بات کیا ۔ میں نے سمجھایا کہ وہ کسی بھی ڈاکٹر کے پاس جائیں تو پہلے علحدگی میں شراب کے استعمال کی تفصیلات سمجھائیں اور مریض کو اکیلا اندر لے جائیں ۔ شرابیوں کے دل بھی کمزور ہوجاتے ہیں ۔ اگر کوئی نیند کا انجکشن بغیر امتحان کے دیا جائے تو وہیں پر موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
میں صرف حیدرآباد کے مسلم سماج کے تعلق سے لکھ رہا ہوں اور وہ بھی اوسط طبقے کے ۔ لوگوں کے تعلق سے جو اپنی محبت سے پروان چڑھتے ہوئے ایک اچھے سماجی مقام پر پہنچ چکے ہیں ۔ غریب طبقے کیلئے تو یہ ایک لعنت ہے ۔ امراء کی بات تو بالکل جداگانہ ہے ۔ اوسط طبقے میں شراب کی عادت بے تحاشہ بڑھ رہی ہے ۔ جیسے ہی مالی حالت ، خالی جیب سے نکل کر لاکھوں میں آجاتی ہے اور اس کے ساتھ مطلوبہ شخصیت کی مضبوطی اور استحکام نہیں ہوتا تو شراب کا سہارا عارضی طور پرلیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی نوجوان یہ محسوس کرے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے خود اعتمادی میں کمتر ہے تو اس احساس کمتری کو بڑھانے کیلئے مجبوراً شراب کا استعمال کرسکتا ہے ۔ یہ انکی مجبوری ہے ۔ وہ اپنی کمزوری پر شرمندہ ضرور ہوتا ہے اور مسلسل پچھتاوا لگا رہتا ہے مگر اپنی بلند سماجی حیثیت اور ملازمت کے مقام کو بخوبی برقرار رکھنے کیلئے چوری چھپے استعمال کرنے لگتا ہے اور اپنی سماجی بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لئے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کی صحبت میں پی کر بہادری جتاتا ہے ۔ آہستہ آہستہ چند کمزور لوگوں میں یہ عادت ہی بن جاتی ہے ۔
مسلمان شرابی کے نفسیاتی مسائل کچھ خاص ہیں۔ اسکا تعلق جس گھرانے سے ہوتاہے اس میں کچھ لوگ انتہائی مذہبی ، متقی اور پرہیزگار ہوں گے ۔ پنج وقتہ نمازی نہ سہی موصوف جمعہ کی نماز تو ناغہ نہیں کرتے ہوں گے ۔ جمعہ کی نماز کا ناغہ کرنا ایک مسلمان کیلئے بڑا معنی خیز ہوجاتا ہے ۔ اس کی معقول وجہ ہونی پڑتی ہے علالت وغیرہ ۔ موصوف کا ضمیر تو ضرور ملامت کررہا ہوگا ۔ مسلسل چھوڑنے کی فکر میں رہتے ہیں مگر چھوڑ نہیں پاتے ۔ ان کو یہ بھی پتہ رہتا ہے کہ اگر یہ راز خاندان والوں کو معلوم ہوا تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے ۔ شادی شدہ اگر ہوں تو بیوی بیچاری اپنی عزت کی خاطر اپنے والدین سے اس کا ذکر نہیں کرتی ، کیونکہ اس ایک کمزوری کے علاوہ وہ انتہائی اچھا آدمی ہوسکتا ہے ۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ بیوی کو ہمراز بنانے کا جرمانہ اس سے اچھے سلوک سے کرتا ہے ۔
ہمارے قابل مسلمان لڑکے اپنی قابلیت کی بنا پر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اچھی ملازمتیں حاصل کرلیتے ہیں اور پہلی دفعہ ان کا حلقہ احباب اور ماحول ملازمت مذہبی نہیں ہوتا اور وقفہ وقفہ سے شراب کے استعمال کو ایک وقتی مگر موثر سماجی حربے کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ اپنی شخصیت میں نئے سماجی رول کے ادا کرنے میں جو جھجک ، شرم محسوس ہوتی ہے وہ شراب کے استعمال سے کم ہوجاتی ہے اور لوگوں سے گفتگو کرنے میں روانی آجاتی ہے جو ان کے نئے پیشے کے مقام کیلئے ضروری ہے ۔ مگر تعریف ان نوجوانوں کی کرنی چاہئے جو پہلی مرتبہ امریکہ کے ماحول میں کامیابی سے ملازمتیں کررہے ہیں اور شراب کے قریب نہیں جایا کرتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ اپنی غفلت سے باہرآئیں اور طلباء کو سماج کے نئے مسائل سے آگاہ کریں تاکہ ان کی شخصیت میں اس سے مقابلے کرنے کی صلاحیت پیدا ہو
روزنامہ سیاست
One thought on “شراب کی لت کا نفسیاتی علاج ۔ از۔ ڈاکٹر مجید خان”
Dr majeed Khan ka mai purana qari houn,aapke likhne ka andaaz dilchasp hai.ye mazmoon bhi bahut pasand aaya