رپورتاژ : پیغام کی فکر میں ہماری دھرتی کی تہذیب کا رنگ
ڈاکٹر محمد اشرف کمال
(پاکستان)
تسخیر فاوَنڈیشن دہلی اوردی ونگس فاوَنڈیشن دہلی کے زیر اہتمام پیغام پر دو روزہ بین الاقوامی سمینار
تسخیر فاوَنڈیشن دہلی اور دہلی ونگس فاوَنڈیشن دہلی کے تحت منفرد تخلیق کار ناول نگار، افسانہ نگار پیغام آفاقی کے یوم وفات پر دو روزہ سیمینار کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔
پیغام آفاقی 1956ء میں بہار کے ایک گاؤں چانپ ، سیوان (بہار) میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام اختر علی فارووقی تھا ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سیوان ہی میں حاصل کی ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے آنرز اور ایم اے ہسٹری کا امتحان پاس کیا ۔ انھوں نے دہلی پولیس میں کام کیا ۔ اور پولیس ٹریننگ کالج کے پرنسپل بھی رہے ۔ پیغام آفاقی کا انتقا ل20 اگست 2016ء کو ہوا ۔ جب وہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے اسی وقت ان کے افسانے اور ناولٹ سامنے آنا شروع ہوگئے تھے ۔ وہ کسی نظریے سے متاثر ہوئے بغیر آزاد خیال لوگوں میں شامل رہے ۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘ کے نام سے شاءع ہوا اور شعری مجموعہ’’درندہ‘‘ کے نام سے سامنے آچکا ہے ۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو ایک ناولٹ ’’راگنی‘‘ لکھا جو اب تک شاءع نہیں ہوا ہے ۔ اس کا مسودہ سلمان عبدالصمد کے پاس ہے ، عنقریب منظر عام پر آئے گا ۔ ان کا نام ادب میں ان کے ناول’’ مکان ‘‘کی 1989ء میں اشاعت کے بعد مقبول ہوا ۔ اس کے بعد ان کا ناول پلیتہ شاءع ہوا ۔ پیغام پر منعقد ہونے والے اس سیمینار کا افتتاحی اجلاس20 اگست 4 بجے شام میں شروع ہوا ۔ بحیثیت خصوصی مقررین جن دانشوروں نے بات کی ان کے نام کچھ یوں ہے:پروفیسر غضنفر علی علی گڑھ،پروفیسر شافع قدوائی علی گڑھ ،پروفیسر ابن کنول دہلی ،پروفیسر انور پاشا نئی دہلی ۔ اس نشست کا نام ’’ محبان آفاقی ‘‘ تھا اور اس میں ان کے قریبی دوستوں نے پیغام کی حیات واختصاص اور فکر وفن پر بات چیت کی ۔ نظامت کے فراءض ڈاکٹر جاوید حسن( اسسٹنٹ پروفیسر ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی) نے ادا کیے ۔ پہلا اجلاس 6 بجے شام شروع ہوا، جس کا نام’’ پیغام کی عمومیت ‘‘ تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر خواجہ اکرام الدین ( جے این یو )نے کی ۔
بحیثیت مقالہ نگار نازیہ پروین ( پاکستان )نے پیغام آفاقی کے ناولوں میں تصور سماج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی سوچ اور معاشرتی زبوں حالی اور طاقت کی اندھی تقلید کی کہانیاں پیغام آفاقی کے ناولوں میں نظر آتی ہیں ۔ نئے آدم کے حوالے سے انسان کی زمین سے وابستگی کی کہانی نظر آتی ہے ۔ پلیتہ میں برطانوی عہد کی بربریت کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ راحیلہ پروین علی گڑھ نے ’’اردو فکشن میں پیغام کا مقام‘‘کے عنوان سے بات کرتے ہوئے مکان ناول کے حوالے سے مختصر تبصرہ پیش کیا ۔ انھوں نے کہا کہ ان کی ا دبی شناخت ناول نگار کی ہے ۔ ان کے پہلے ناول مکان نے ان کو بطور ادیب متعاراف کرادیا ہے ۔ ان کا خاص موضوع انسانی ہمدردی ہے ۔ بیسویں صدی کے تلخ پہلووَں کو کہانی کے روپ میں پیش کیا ہے ۔ بنگلور سے محبہ وینمپوری نے ’’پیغام آفاقی کا غیرمطبوعہ افسانہ’’ڈائن کا تجزیہ‘‘ میں جو تکنیک استعمال ہوئی وہ اردو ادب میں منفرد ہے ۔ ڈاکٹرا ور مریض کے ساتھ سامعین اورقارئین کو بھی بطور کردار پیش کیا گیا ہے ۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے صدام حسین نے’’ پیغام کا فکشن معاشرتی تنقید کے آئینے میں ‘‘کے عنوان سے کہ مابعد جدید افسانہ نگاروں میں ابن کنول، علی امام نقوی وغیرہ نے ۰۸۹۱ کے بعد لکھنا شروع کردیا تھا ۔ مابعد جدید فکشن نگاروں میں پیغام آفاقی ایک اہم فکشن نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں ، اخلاق واقدار کی پالی، شناخت کی گمشدگی، دہشت پسندی سبھی کا بیان ان کے فکشن میں موجود ہے ۔ بات کی تہہ تک پہنچنا اور اس کے اسرار کو سامنے لانا ان کا خاصا ہے ۔ شاہ جہان بیگم صاحبہ نے ’’پیغام آفاقی جدیدیت کے نمائندہ شاعر‘‘کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے وقت کی ہر کروٹ کو شعر کے پیکر میں تراشا ہے شعور کی ان راہوں پر عصری منزلوں سے ہمکنار کرتے ہیں ۔
اس سیشن کی صدارت کی کرسی پہ براجمان پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے دونوں فاوَنڈیشن اور سلمان عبدالصمد کو مبارکباد پیش کی اور مقالہ نگاروں پر تبصرہ کیا ۔ پیغام آفاقی نے ادب کے لیے وقت نکالا ۔
دوسرا اجلاس پروفیسر شہزاد انجم صدر شعبہ اردو جامعیہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ یہ اجلاس پیغام آفاقی کے ناول ’’مکان‘‘ کے حوالے سے تھا ۔ ناظر اجلاس ڈاکٹر محمد اسرار محمد جمیل ناگپور سے تھے ۔ اجلاس کی نظامت جاوید عالم نے کی ۔ مقالہ نگاران میں ڈاکٹر جنتی جہاں نے ’’مکان: مزاحمت اور تصادم کا استعارہ، سہیل سالم نے ’ناول مکان: ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا ۔ محمد الیاس انصاری کا مقالہ ’’پیغام آفاقی کی فکروتخیل‘‘ کے عنوان سے تھا ۔ محمد وقار صدیقی نے ’’پیغام آفاقی کے فکشن میں سماج‘‘ کے حوالے سے بات کی ۔
دوسرے دن پہلا اجلاس ڈاکٹر صفدر امام قادری کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ مقالہ نگاران میں ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے ناول’ دوست‘ میں تانیثی حسیت کے عنوان سے بات کی ۔ سلمان عبدالصمد نے پیغام کے ’دوست‘ کی کہانی کے عنوان سے بات چیت کی اور پیغام کی غیر مطبوعہ کتابوں کے متعلق بہت سی معلومات فراہم کیں ۔ ذیشان مصطفی نے ناول دوست کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ناول دوست 2018 میں شاءع ہوا ۔ پیار اور محبت میں قربانی کا جذبہ ہو تو وہ انسان کو مرنے تک جوڑے رکھتا ہے یہی بات ناول دوست میں پیغام آفاقی نے شوہر اور بیوی کے رشتے کے حوالے سے کی ۔ آفاقی نے مرد معاشرے پہ تیکھا تضاد کیا ہے ۔ مقالہ نگار نے سکینہ اختر نے ناول دوست کا ایک جائزہ لیا ۔
مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ ڈاکٹر صالحہ صدیقی، انصاری صاحب اور رقیہ صاحبہ کے مقالات میں نے سنے ۔ پیغام آفاقی افسانہ نگار اور ناول نگار کے طور پر اپنے گہرے نقش ثبت کیے ہیں ۔ بطور ناول نگار زیادہ متاثر کرتے ہیں ۔ وہ ایک خاص فکر رکھتے تھے ۔ انھوں نے ہمیشہ مستقبل کے منظر نامے اور فکر کو سامنے رکھا ۔
صدر محفل صفدر امام قادری نے اپنی گفتگو میں کہا کہ پیغام کے مجموعی کارناموں پر نظر رکھیں تو اردو کے علمی حلقوں میں جس طرح ان کا ناول ’’مکان‘‘ لوگوں کے تذکرے میں رہا باقی دونوں ناول نہیں رہے ۔ دوست اور پلیتہ پر اتنی بات نہ ہوسکی ۔ اب نئے لوگوں نے اس کو موضوع بنایاہے خوشی کی بات ہے ۔ صالحہ صدیقی نے تانیثیت پر کتاب بھی لکھی ہے ۔ الیاس انصاری نے پیغام آفاقی کے فکرو تخیل میں اترنے کی کوشش کی اور ان کی تخلیقات کو دیکھنے کی کوشش کی ۔ رقیہ نبی نے بھی پیغام آفاقی کے حوالے سے بات کی ۔ رقیہ نے پیغام آفاقی کے حوالے سے ایم فل کیا ہے ۔ انھوں نے ان کے افسانوں میں زندگی کی پیچیدگیوں کو پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔ پیغام آفاقی نئے موضوعات کی طرف بڑھنا چاہتے تھے ۔ ان کی فکری پڑتال کرنی چاہئے ۔ ان کی مجموعی تخلیقات میں جو فکر ملتی ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جاوید عالم نے کارروائی کو آگے بڑھایا ۔
دوسرے دن(21اگست ) کے دوسرے اجلاس کی صدارت راقم(اشرف کمال) نے کی ۔ ناظر اجلاس ڈاکٹر صالحہ صدیقی تھیں جب کہ نظامت کا فریضہ سلمان عبدالصمد نے ادا کیا ۔ اس اجلاس میں پیغام آفاقی کی افسانوی کتاب’’مافیا‘‘ پہ بات کی گئی ۔ ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی نے مکان کی عصری معنویت پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکورونا وائرس کے عہد میں ناول’’ مکان‘‘ کی اہمت دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔ اس میں ترقی پسند، جدیدیت اور تقسیم ہند کے اثرات نہیں ہیں ۔ نہ جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام کو موضوع بنایا گیاہے ۔ اس ناول کا موضوع انسان کی بقا کا مسئلہ ہے ۔ نہ صرف مکان بلکہ اپنا جسمانی مکان بھی بچانا پڑتا ہے ۔ انھوں نے ناول ’’مکان ‘‘کی علامتیت اور معنویت پر بات کی ۔ ناگپور سے ڈاکٹر محمد اسرار محمد جمیل نے ایک افسانے ’’پیتل کی بالٹی‘‘کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہانی کے لیے جو چیز درکار ہوتی ہے ان میں عصری تقاضے ا ور موجودہ حالات بھی شامل ہیں ، معاشی، تہذیبی اور تعلیمی وغیرہ ،انھیں حالات کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوکر لوگ خود کشی کرلیتے ہیں یا راہ فرار اختیار کرتے ہیں ۔ نندنی اور روی افسانے کے کردار ہیں ۔ شوہر بڑا افسر ہے بیوی گھر رہتی ہے اور اکتا چکی ہے ۔ پڑھی لکھی عورت ہے وہ شوہر کی ایٹریکشن چاہتی ہے یا مصروفیت ۔ نئی نسل مایوسی کا شکار ہورہی ہے ۔
جی بی عائشہ نے ’’مافیا‘‘ کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے نے کہا کہ پیغام آفاقی ایک منفرد فکشن نگار کے طور پر انا مقام بنانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ کل چھبیس افسانے شامل ہیں جنھیں پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پیغام آفاقی کے افسانے عصر حاضر میں اہمیت کے حامل ہیں ۔ وہ اشیا کی پراسراریت کی تہہ میں اترنے کا فن جانتے ہیں ۔ پیغام آفاقی کے افسانوں میں علامت اور حقیقت کے امتزاج کی بات کی ۔ مدراس یونیورسٹی سے محترمہ نازیہ کا نام بھی پیغام آفاقی کے حوالے سے مقالہ نگاروں میں نام شامل تھا ۔ سی فوزیہ کا مقالہ بھی پیغام آفاقی کی ناول نگاری کے حوالے سے تھا ۔ میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ان کا افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘ایجوکیشنل بک ہاوَس دہلی سے ۲۰۰۲ء میں شاءع ہوا ۔ پیغام آفاقی اس کتاب میں لکھتے ہیں :
انسان کی سرشت میں موجود ظالمانہ جبلت کس طرح عالمی اور مقامی پیمانے پر مختلف سطحوں پر اپنے کمند تیار کرکے دوسرے انسانوں کو اس کا نشانہ بناتی ہے ۔ یہ موضوع میری پوری فکر کا محور ہے ۔ ۔ ۔ میری فکر کامرکز معتوبہیں اس لیے مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مافیا کوئی انسانی گروہ ہے یاتاریخ ہے یا قدرت ہے ۔ ‘‘(ص11،13)
اس کتاب میں پیغام آفاقی نے دوسروں کا استحصال کرنے والوں اور دوسروں پر ظلم ڈھانے والے لوگوں کو موضوع بنایا ہے ۔ انھوں نے ادب کو ایک تہذیبی فریضہ سمجھتے ہوئے لکھا ۔ بھوکمپ اور جوالا مکھی تاریخ کی شکست وریخت سے تعلق رکھنے والی ایک علامتی کہانی ہے ۔ مرگھٹ کی نسبت قبرستان مردوں سے بھر رہا تھا ۔ اس پہ غور کیا جارہا تھا ۔ ان کے افسانے ’’تلاش‘‘ میں جذبہَ قربانی کی تجدید کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے ۔ جس میں انسانی فطرت کے ننگ جسے اخلاقی نظام اور معاشرتی اقدار کے ذریعے چھپایا گیا تھا ،کی برہنگی کے المیے کو پیش کرتا ہے ۔ جس میں سماج اور رشتوں کی ا کائیوں کے ربط کو خود غرضیوں سے جڑے ہونے کے انکشاف کودریافت کیا گیا ہے ۔ وہ موجودہ دور اور مابعد جدید عہد میں سانس لے رہے ہیں اور اسی تناظر میں واقعات اور حالات کو دیکھتے ہیں اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’کون جانتا تھا، کس نے محسوس کیا تھا کہ ماں ، اپنے بچے کو اس لیے دودھ پلاتی ہے کہ اسے دودھ پلانے میں مزہ آتا ہے ۔ ۔ کون جانتا تھا کہ باپ بیٹوں سے اس لیے محبت کرتا ہے کہ اس کے بیٹے اس کی مضبوط شخصیت کا ایک حصہ ہوتے ہیں ۔ کون جانتا تھا کہ ہم پڑوس کی مدد اور اس سے ہمدردی اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہماری اپنی زندگی کی حفاظت کرتے ہیں کس کو معلوم تھا کہ قانون کوئی مقدس آسمانی صحیفہ نہیں بلکہ سماج کے مختلف افراد کی خود غرضیوں کے ایک سلسلے میں پرونے والے دھاگے کا نام ہے لیکن آج سب کھل چکا ہے ۔ (تلاش ،پیغام آفاقی، مافیا،ص202)
اس افسانے میں موجودہ زندگی کا المیہ بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے کہ پیالہ خالی ہے مگر پیاس باقی ہے ۔ وہ پوری زندگی کو گانوں اور دلنشین آوازوں کے تناظر میں سوچتا ہے جو کہ سب فریب ہیں اور کسی کو کچھ نہیں دے سکتے سوائے فریب کے ۔ انسان کہیں اور ہے اور اس کا خیال کہیں اور ۔ اسی طرح اس کا افسانہ قطب مینار ‘‘بھی مابعد جدید عناصر سے تشکیل پاتا ہے ۔ اس کا آغا تاریخیت میں گندھے ماضی کے مسالے سے تیار شدہ مواد سے ہوتا ہے ۔ اگر ہم اپنے ماضی میں جھانکیں تو علم ہوگا کہ انسانی تاریخ کی ہر تخلیق تکمیل کو تاراج کرتی رہی ہے ۔
وہ قطب مینار جس کے اندر اور باہر سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے اور جو کچھ باقی بچا ہے وہ بھی تغیر پذیری کے عمل سے گزر رہا ہے ۔ اس افسانے میں مینار کا نقشہ بنانے والا معمار ،ایک بڑے کینوس پہ پھیلا ہوا اس کا نقشہ اورڈھانچہ، ادھورا مینار، کھنڈرات میں بدل جانے والی مسجد، ایک پر فریب حقیقت اور پھر علاوَ الدین خلجی کی موت سے ادھورا رہ جانے والا اس تعمیری شاہکار کا تصور جس طرح پیغام آفاقی نے پیش کیا ہے اس میں بیشمار تخلیقی امکانات پائے جاتے ہیں ۔ بڑے بڑے پتھروں پہ اپنے نام کھدوانے والے تاریخ کے بڑے بڑے خواب دیکھنے والے لوگ اپنے تصورات کے انہدام کے نوحوں کی بازگشت میں کھو گئے ہیں ۔ بڑے بڑے سیاحت گروں کے کیمرے ان تصورات کو اپنے لینس کی گرفت میں لینے سے معذور ہیں ۔ ان کے افسانوں میں کثیر الجہتی بیانیہ پایا جاتا ہے ۔ واقعاتی سچائیوں کو خیال رکھا گیا ہے ۔ ان کے ہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے ۔
مابعد جدید افسانے کی طرح ان کے افسانوں میں پلاٹ، کہانی، تاثراتی ارتقا،نقطہ عروج، کہانی پن اور فنی ہنر مندی کے ساتھ ساتھ تخلیقیت بھی نظر آتی ہے ۔ انھوں نے ثقافتی اور سماجی رویوں کو براہ راست مشاہدہ کرکے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے ۔ یہ کوشش کی گئی ہے کہ کہانی میں کسی کردار کی نفسیاتی صورت حال کو پیش کیا جائے ۔ تاکہ کردار کی نفسیات کا جائزہ لیا جاسکے ۔ غیر ضروری چیزوں اور باتوں سے احتراز کرکے صرف موضوع سے تعلق رکھنے والی چیزوں کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔
ان کے افسانوں میں حقیقت بیانی کا عنصر نظر آتا ہے ۔ اس حوالے سے وہ تاریخیت، نو تاریخیت، اور فلیش بیک کی تکنیک کو بھی استعمال کرتے ہیں ۔ زندگی کے جدلیاتی پہلووَں اورخود سے انحرافی رویوں سے ہٹ کر انسانی تجربات اور میلانات کو پیش کیا ہے ۔ ان کے بیانیہ میں نہ تو سپاٹ پن موجود ہے اور نہ گھسا پٹا روایتی انداز ۔ ان کی فکر پہ اس دھرتی کی تہذیب وثقافت مقامی رنگ میں ڈھلے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں جہاں زندگی کے آلام اور غم واندوہ کا اظہار ملتا ہے وہاں انسانی ارتقا کی حامل ایک ایسی توانائی بھی کارفرما دکھائی دیتی ہے جو کہ اپنے اندر اثر پذیری کی بیش بہا قوت رکھتی ہے ۔
اس سیشن کے بعد آخری سیشن اختتامی تھا جس میں پروفیسر مولا بخش ( شعبہ اردو ، اے ایم یو )نے گفتگو کی اور پیغام آفاقی کے فن پر مجموعی حوالے سے روشنی ڈالی ۔ پروفیسر مولا بخش نے اپنے گفتگو میں کہا کہ میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں چار جلدوں میں اس میں اشرف بھائی کا ذکر بھی ہے نعت کے اسلوبیاتی مطالعے کے حوالے سے ۔
انھوں نے کہا کہ پہلے ادیبوں کو ایک ہی کام تھا ادب پڑھنا ادب پہ گفتگو کرنا ۔ جن سے اردو ناول کا شعور پیدا ہوا ۔ ان میں سے 80کی دہائی کے بعد چھ سات نام آئے جن میں چار پانچ لوگوں نے ایک نیا انداز اپنایا ۔ ان میں سے ایک نام پیغام آفاقی کا ہے اور دوسرے حسین الحق ہیں ، غضنفر ناول بناتے بناتے رک جاتے ہیں ، ناول میں بڑے سوالات نہیں اٹھاپاتے ۔ ’’پانی‘‘اور’’ کینچلی‘‘ وہ ناول ہیں جن کاحجم بڑا نہیں ہے، وہ دور کی کوڑی نہیں لاتے ۔ ناول کی جو شکل ابھرتی ہے وہ ڈیڑھ دو سوصفحے کے ناول سے نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ صفحات کے حامل ناولوں میں بڑی باتیں کی گئی ہیں ۔ ۔ ناول کے حوالے سے بڑا نام پیغام آفاقی اور حسین الحق کا ہے ۔ پیغام نے ’نیرا‘ کیریکٹر کو متعارف کرایا اردو میں ۔ کسی بھی کیریکٹر کو یہ نہیں کہا گیابلکہ صرف نیرا کے کردار کے بارے میں یہ کہا گیا کہ نیرا کیریکٹر نہیں بلکہ نیرا ازم ہے ۔ کیریکٹر کسی ناول کی پوری ڈسکورس ہوتی ہے ۔ ہمارا معنی کیا ہے، نیرا کی حیثیت میں زندگی کے کس مسئلے کو سمجھا رہے ہیں ۔ نئے نئے چینلوں کو لانچ کرنے میں کام کرنے والوں میں پیغام آفاقی اور مولا بخش ہیں ۔ اشرف کمال نے کہا کہ جب ناول مکان پڑھتے ہیں تو ایک مکان اور دوسرا جسم کا مکان جس میں ہم قید ہیں ۔
مکان ہونے کی وجہ سے لامکانیت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ مکان میں ایسی علامتیت ہے کہ اسے پڑھتے چلے جائیے ۔ ہ میں خوشی ہورہی ہے کہ پیغام آفاقی نئی نسل کی سوچ تک پہنچے ہیں ۔ پیغام صاحب جب تک موضوع نہ ہو ناول نہیں لکھتے ۔ پوسٹ کلونیل ناول جس نے لکھا جس سے تھرلنگ پیدا ہوجائے وہ ناول ہے پلیتہ ۔ پلیتہ سے مراد ہے فلیتا ۔ ناول نگار اپنی زبان نہیں لکھتا وہ ریپریزینٹیشن کرتا ہے دوسروں کی زبان کی ۔ ناول اور فکشن میں فطرت کی زبان ہوتی ہے مصنف کی زبان نہیں ہوتی ازروئے تقاضائے ماحول اور کردار اور سیاق وسباق کی زبان ہوتی ہے ضرورت کی زبان ہوتی ہے ۔ پلیتہ پہلا ناول ہے جسے ہم پوسٹ کلونیل ناول کہہ سکتے ہیں ۔ ناول کی سیٹنگ کی ہے کالا پانی ۔ کلونیل آقا لارڈ میوکاقتل شیر علی کیسے کرتا ہے ۔ شیر علی ایک ایسا آدمی جس کے پاس قوت نہیں ہے پھر بھی وہ قتل کردیتا ہے حکمران کا ۔ شیر علی انگریز کو مارنا چاہتا ہے جو کلونیل کیریکٹر ہے جو آج بھی آپ کے دامن سے چپکا ہوا ہے ۔
پیغام آفاقی ڈرتا نہیں تھا کسی سے، بیباک آدمی تھا ۔ اس ناول میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تجارت اور حکمرانی میں فرق ہے، فوجیں عوام کو بچانے کے بجائے تاجر حکمران کو بچانے میں لگ جاتی ہے ۔ تاجرانہ ذہن رکھنے والا حکمران آپ کو سب کو بیچ دے گا ۔ جس طرح اشرف صاحب اور دوسرے مقالہ نگاروں نے بتایا کہ آفاقی ملٹی ڈسپلنڈ آدمی تھے ۔ ہمارے ملک کے لوگوں کو اور دوسرے ملکوں کے لوگوں کو یہ سیکھنا اور سکھانا چاہئے کہ ہم انسان ہیں ۔ اشرف صاحب نے یہ ٹھیک کہا کہ وہ ناول نگار ہی نہیں افسانہ نگار بھی بڑے ہیں ۔ ان کی نظم درندہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ سب سے بڑی چیز ان کی تنقیدی ژرف نگاری ہے ۔
اس سیمینار کی کئی خصوصیات ہیں : اول یہ کہ اس میں جتنے اجلاس ہوئے ان تما م کا پیغام آفاقی کو ذہن میں رکھتے ہوئے رکھا گیا ۔ مثلا: پیغام کی عمویت، مکان کے حدود، حلقہ مافیا، شہر درندہ، دائرہ دوست وغیرہ ۔ ان عناوین سے جہاں اس سیمینار کی دل کشی میں اضافہ ہوا ، وہیں پیغام کی کتابوں کی دل کشی بڑھ گئی ۔ اسی طرح اس سیمینار کے ہر اجلاس میں ایک ناظر اجلاس تھے جو ایک منفرد اصطلاح ہے ۔ ناظر اجلاس نے کئی صدور کی نیابت بھی کی اور پروگرام کو بحسن خوبی اختتام پر پہنچانے کی بہترین سعی کی ۔ مختصر یہ کہ پیغام آفاقی کی یاد میں ایک بہترین سیمینار تھا ۔