کرب وبلا کا پیغام امت مسلمہ کے نام :- محمد مجیب احمد فیضی

Share
محمد مجیب احمد فیضی

کرب وبلا کا پیغام امت مسلمہ کے نام

محمد مجیب احمد فیضی
دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف

اسلامی سال کا پہلا مہینہ ماہ "محرم الحرام” اپنی تمام ترشان وشوکت ,عظمت ورفعت کے ساتھ امت مسلمہ کے سروں پر سایہ افگن ہے۔یہ اور بات ہے کہ اور اسلامی تیہورات کی طرح یہ بھی پھیکا پڑ جائے گا مہلک چینی وبا کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کا سخت نفاذ جو موجود ہے۔بہر حال اسلامی تقویم اور سن ہجری میں ماہ محرم باالخصوص یوم "عاشورہ "کو ایک خاص مقام واہمیت حاصل ہے۔

یہ ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس کی جانب خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں "منھا اربعۃ حرم”سے اشارہ فرمایا: چار حرمت والے مہینوں میں محرم الحرام کا پر عظمت ماہ بھی شامل ہے جو حسن اتفاق اسلامی مہینہ کا پہلا مہینہ قرار پایا۔اسلام کی آمد سے قبل یعنی( عہد جاہلیت) میں اہل عرب اس کی حرمت اس کی عظمت کے قائل تھے۔احترام کا یہ حال تھا کہ وہ حرمت والے ان مہینوں میں اپنی جاری وساری جنگیں بھی موقوف کر دیا کرتے تھے۔تاریخ انسانی کے مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی عیاں اور ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اس پر عظمت ماہ میں بہت سارے اہم اہم واقعات ایسے رونما ہوئے جنہیں انسانی تاریخ بھلانے سے قاصر اور مجبور ہے۔باالخصوص سیدالشہداء سیدنا وسندنا امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت رہتی دنیا بلا تفریق مذہب وملت کوئ فراموش نہیں کر سکتا۔شروع سے لے کر اب تک اس ہمیشہ نہ رہنی والی دنیا میں واقعات تو بہت رونما ہوئے لیکن واقعۂ کربلا ایک ایسا نقش جسے کبھی کوئ بھلا نہیں سکتا۔ جب جب یہ تاریخ آتی ہے مسلمان عالم کے دلوں میں گھر کر جاتی ہے۔کیوں کہ اپنے شہر کے محلے کی مسجد میں اذان دے کر نماز پڑھ لینا بڑا ہی آسان اور سہل ہے لیکن اعدائے دین کی چھاتی پر اسلام کے علم کو گاڑ دینا یہ ما وشما کا جگر نہیں بلکہ "مصطفی "کے نواسے” فاطمہ” کے پیارے "علی مرتضی "کے دلارے خاندان نبوی کے چشم وچراغ سیدنا امام "حسین” لقد رضی المولی عنہ کا جگر ہے۔
بعض لوگ اپنے زبان وبیان میں واقعۂ کربلا کو بڑی دھاندلی اور جلد بازی کا صاف مظاہرہ کرتے ہوئے انصاف کے پیمانے کو چھوڑ کر واقعۂ کرب وبلا کو حادثۂ کربلا کہہ دیتے ہیں ,جو مری ناقص رائے میں غیر درست ہے ۔واقعہ اور حادثہ میں بڑا فرق ہے۔واقعہ "واقعہ "ہوتا ہے اور حادثہ "حادثہ "ہوتا ہے۔ جس میں کسی پلان کا دخل نہ ہو وہ حادثہ ہے ,جو اچانک ہوتا ہے۔ بر خلاف واقعہ کے واقعہ اچانک نہیں ہوتا۔ایسے ہی بلا تشبیہ وتمثیل واقعۂ کربلا حادثۂ کربلا نہیں۔ مشیت بہت پہلے سے اس کو رونما کرنے والی تھی۔ ورنہ آپ خود بتائیے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گلیوں میں چل رہے ہیں, اپنے دوش مبارک پر حسن وحسین کو بٹھائے ہوئے اپنے گیسوئے مبارک ان کو ہاتھوں میں دے دیئے۔ دنیا تو یہی دیکھ رہی تھی کہ شہزادے دوش انور پر سوار ہوکر گیسوئے مبارک ہاتھوں میں لئے ہوئےہیں۔ لیکن مشیت یہ آواز دے رہی تھی حسین سیکھ لو سیکھ لو کل تمہیں امت کی بانگ ڈور سنبھالنی ہوگی ۔امت محمدیہ کی لگام تمہارے ھاتوں میں ہوگی۔اتنا تو آپ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ یزید پوری دنیا کو بیعت کرتا ایک اگر امام حسین نہ ہوتے تو اس سے کیا ہونے والا تھا?پورا معرلۂ کربلا کھڑا کر دیا۔ لیکن نہیں وہ جانتا تھا دنیا یہی کہے گی بڑے بڑے امیر کبیر یزید کے ساتھ ہیں۔ لیکن حق باطل کے ساتھ نہیں ہے۔وہ جھوٹ میں حق کی تائید چاہتا تھا۔
چنانچہ!!حضرت ابراہیم خلیل نے میدان منی میں جس عظیم قربانی کی ابتدا کی تھی کرب وبلا کے اس تپتے ہوئے بے آب وگیاہ صحراء اور چلچلاتی ہوئ دھوپ میں امام عالی مقام نےاس عظیم قربانی کہ انتہا کی ہے۔ اور شاید اسی کی عکاسی کسی محبوب زار نے بڑے پیارے انداز میں بیان کیا ہے:
غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہیں اسمعیل
واقعۂ کر بلا کو دیکھنے والے نہ جانے کس کس نظریت سے دیکھتے ہیں ۔لیکن تاریخ کربلا کے کچھ اہم واقعات ایسے ہیں جن سے یہ بات ایک دم ظاہر اور روشن ہوجاتی ہے کہ میرے امام کے خلوص اور جذبۂ ایثار میں کوئ کمی نہیں تھی۔کربلا کی تاریخ میں ایک ایسی تاریک رات بھی آئ تھی کہ میرے امام نے اپنے جانثار ساتھیوں کو خیمہ میں اکٹھا کرکے جلتے ہوئے چراغ کو گل کر کے فرمایا: کہ اے میرے ساتھیوں!! "یزید اور ان جیسوں شر پسندون کی دشمنی مجھ سے ہے اس لئے آپ سے اپیل ہے کہ آپ حضرات میرے اور میرے اہل وعیال کے خاطر اپنی اپنی جانیں جوگھم میں نہ ڈالیں اور اسی لئے میں نے چراغ کو بجھا دیا کہ شاید آپ میں سے کسی کو جلتے ہوئے چراغ کی روشنی میں جاتے ہوئے شرم آئے تو بجھے ہوئے چراغ کی تاریکی میں نکل جاؤ! میری طرف سے مکمل اجازت ہے” اسی لئے میں نے چراغ بجھا دیا۔قربان ہو جائیے کربلا کی اس عظیم تاریخ پر میرے امام کے ان جانثاروں نے یک زباں ہو کربڑا ہی پیارا جواب دیا: کہ” میرے امام آپ کیسی بات کرتے ہیں یہاں تو ہم رات کی تاریکی میں نکل جائیں گے۔یہاں تو ہمیں کوئ دیکھ نہیں سکتا۔لیکن کل کیا ہوگا جب خورشید ورسالت کی جلوہ گری ہوگی۔اولین وآخرین کا اجماع ہوگا۔ اگلے پچھلے سب اکٹھا ہوں گے۔میرے امام ہم مصطفی کے دین اور اس کی تحفظ وبقا کے خاطر اپنی اپنی جانیں جان جان آفریں کے سپرد کرکے وفادار تو ہوسکتے ہیں پر بھاگ کر ہم غدار نہیں ہو سکتے۔اس مقام پر پہونچ کر مجھے اپنے موقراساتذہ کرام سے سنا ہوا حضور "سید العلما ” علیہ الرحمہ کا وہ تاریخی جملہ یاد آرہا ہے, جس کو آپ نے اپنی تقریر وتحریر میں بارہا استعال کیاتھا ۔آپ نے فرمایا تھا کہ "کسی نبی کو میرے نبی کے صحابہ کے بعد اتنے اچھے ساتھی نہیں ملے تھے جتنے اچھے ساتھی میرے حسین کو کر بلا میں ملے تھے” ع
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین۔
ویسے تو تاریخ کربلا کے بہت سے واقعات ہیں البتہ دوسرا اہم ترین واقعہ 10محرم الحرام کو سیدنا وسندنا حسین ابن علی کی شہادت کا وہ اندوہ ناک سانحہ ہے جس کی کسک رہتی دنیا ہر مومن کے دل میں اٹھتی ہے گی۔آپ کا جسم اقدس حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھا۔آپ بچپن میں اپنے برادر اکبر سیدنا امام حسن رضی المولی عنہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ پر سوار ہو کر کھیلا کرتے تھے۔
آپ اپنے ان شہزادوں سے خوب خوب محبت والفت کا اظہار فرماتے تھے۔آپ نے اپنے انہیں شہزادوں کے بارے میں فرمایا تھا: حسن وحسین دونوں دنیا میں مرے پھول ہیں۔ (الحدیث) اور ایک مقام پر مزید ارشاد فرمایا تھا:حسن وحسین جنتی نوجوانوں کے سر دار ہیں۔ (الحدیث)
چنانچہ: حضرت امیر معاویہ کے بعد یزید جب تخت نشیں ہوا تو اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے مسلمانوں سے اپنے حق میں خود اور اپنے کارندوں سے بیعت لینا شروع کیا,امام عالی مقام سے بھی مطالبہ کیا لیکن یزید کی بیعت خلافت نہیں ملوکیت تھی ,اس لئے مرے امام نے سختی سے انکار کیا۔تاریخی روایات کے مطابق بیعت نہ کرنے والے صحابہ کے ساتھ یزید کے کارندوں نے بد سلوکی کا مظاہرہ کیا۔آخر امام عالی مقام کر بلا پہونچے آپ کے قافلے کو روک کر بیعت لینے کی بھر پور کوشش کی گئ جسے آپ نے سختی سے انکار رتے ہوئے ناپسند فرمایا: آخر کار حق وباطل کا معرکہ وجود میں آیا آپ نے احقاق حق اور ابطال باطل کے خاطر جان جان آفریں کے سپرد کرکے حق وصداقت اور جرأت وبہادری کی بہترین تاریخ رقم فرمادی رہتی دنیا جسے فراموش نہیں کر سکتی۔
حسین ابن علی نے دین مصطفوی کی حفاظت وصیانت اور اس کی تحفظ وبقا کی خاطر گھر کا گھر کنبے کا کنبہ راہ حق میں نذرانہ پیش کر کے دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا ہے کہ جب مذہب وملت کی تحفظ کی بات آجائے تو جان جان آفرین کے سپرد کرکے حیات ابدی کا مالک بن جانا مگر اسلام آبیاری اور اس کی ہریالی میں کسی بھی ضاوے سے کمی نہ آنے دینا۔
زندہ ہو جاتے ہیں مرتے ہیں جو حق کے نام پر
اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا۔
—-
مضمون نگار۔دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف کے سابق استاذ ہیں ۔
رابطہ ۔+ 81157 75932

Share
Share
Share