محرم الحرام : احترام کے نام پہ خرافات
نازیہ ترنم
جمشیدپور، جھارکھنڈ
محرم کا چاند نظر آتا نہیں کہ گلی کوچوں میں ڈھول تاشوں کی بے ہنگم آوازیں کان کے پردوں کو چیرنا شروع کر دیتی ہیں۔ گلی محلوں کو برقی قمقموں سے سجانے کی مہم شروع ہو جاتی ہے۔ نکڑ پہ ڈی جے نصب کر دئے جاتے ہیں۔ گانے باجے، تماشوں اور بیہودہ کھیلوں کی تیاریاں ہونے لگتی ہیں۔
اور محرم کی حقیقی عظمت سے ناواقف یہ سارے کام انجام دینے والے حضرات دین اور ثواب کا کام سمجھ کر بڑے ہی جوش و جذبے کے ساتھ پوری سنجیدگی سے یہ سب کرتے ہیں۔ اور یوں ہمارے نئے سال کی ابتدا غیروں کی طرح جشن کے ساتھ ہوتی ہے۔
کچھ لوگ محرم کو تہوار مانتے ہیں بلکہ عید سے بھی بڑا دس روزہ تہوار اس لئے محرم کی آمد کے ساتھ ہی نئے لباس اور گانوں باجوں کے ساتھ خوشیاں منانے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ گھروں کی صفائی اور سجاوٹ کا کام عروج پر ہوتا ہے۔ بریانی کی بڑی بڑی دیگیں چڑھائی جاتی ہیں۔ شربت بانٹی جاتی ہے۔ اور بھی کئ اقسام کی رسومات کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں خوشیاں منائی جاتی ہیں جو پھر بھی کسی حد تک ہضم ہو جاتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ جو محرم کو غم کا مہینہ مانتے ہیں اور ڈھول تاشے بجا بجا کر، موسیقی کے ساتھ پڑھی گئی مرثیہ کی تیز دھن پر تھرک کر، کھیل تماشے کر کے، مصنوعی کربلا پہ میلے ٹھیلے لگا کر رونقیں جما کر جو غم و ماتم مناتے ہیں تو یہ سب دیکھ کر غم اور خوشی میں فرق واضح کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انکے غم منانے کا انداز ہی یہی ہو۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر انھیں غم کس بات کا ہے۔۔؟؟ اور یہ کیسا غم ہے جو سال بھر اپنی ہی دنیا میں مگن عیش و عشرت میں مصروف رہنے والوں کو صرف ماہ محرم میں یاد آتا ہے۔ شہادتِ حسیینؓ کی یاد میں ہر سال محرم کو غم کے مہینے کے طور پر منانے والے اور ماتم و نوحہ کرنے والوں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ اسلام میں کسی کی بھی موت کا سوگ تین دن سے زیادہ منانے کی اجازت نہیں ہے۔ اور جب قرآن کہہ رہا ہے کہ شہیدوں کی موت نہیں ہوتی وہ زندہ ہیں تو پھر غم کس بات کا۔۔؟؟
در اصل لوگ محرم کی حقیقت اور شرعی حیثیت سے واقف ہی نہیں ہیں۔۔ محرم نہ تو کوئی تہوار ہے نہ ہی غم کا مہینہ بلکہ یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ جب سے کائنات وجود میں آئی اور زمین کی فرش بچھائی گئی اور آسمان کی چھت پھیلائی گئی تب سے اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے۔ جس میں سے محرم سال کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد ہجرت ہے اور ساتھ ہی محرم چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کا تقدس خود اللہ نے قرآن پاک میں قائم کیا ہے۔ "محرم” تحریم سے بنا ہے جو کہ لفظ حرمت سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے احترام۔ اس بنا پر محرم احترام و عظمت والا مہینہ ہے۔ جسے خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں کفار مکہ بھی حرمت والے مہینوں کا احترام کرتے تھے اور ان مہینوں میں جنگ و جدال ترک کر دیا کرتے تھے۔ لیکن آج خود کو مہذب کہنے والی قوم سال کے بارہ مہینے فتنہ و فساد میں مصروف رہتی ہے ۔ محرم الحرام کے مقدس مہینے میں بھی لوگ برے کاموں اورگناہوں سے باز نہیں آتے الٹا محرم الحرام کے احترام کے نام پہ مختلف قسم کی بدعات و خرافات میں مبتلا ہوتے ہیں۔
جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ اس مقدس مہینے میں ہر طرح کے برے کاموں سے پرہیز کرنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے خواہ کوئی چھوٹی سی نیکی ہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ حرمت والے مہینوں میں نیکیوں کا اجر بڑھ جاتا ہے۔ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے اور خاص کر روزے رکھنے چاہئیں۔ کیونکہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ محرم الحرام کا روزہ ہے۔
جب ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ مدینہ تشریف لائے تو محرم کی دسویں تاریخ کو یہود کو روزہ رکھتے پایا۔ جب آپ نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیؑ اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کے پیروکاروں سے نجات عطا فرمائی۔ بعد ازیں موسیؑ شکرانے میں اس دن کا روزہ رکھتے اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ اس کی بات سننے کے بعد نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری نسبت ہم موسیؑ کے زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے خود بھی یوم عاشورہ (محرم کی دسویں تاریخ) کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب عاشورہ کے روزے کا حکم ہوا تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ وہ دن ہے جس کی تعظیم یہودی اور عیسائی کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انشاءاللہ اگر آئندہ سال حیات رہی تو ہم نویں محرم الحرام کا روزہ بھی رکھیں گے تاکہ یہودیوں سے مشابہت ختم ہو جائے۔ اس لئے ہمیں محرم کی نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا چاہیے۔ لیکن آج اس کے بر عکس مسلمان محرم الحرام میں سنتِ رسول ﷺ کو چھوڑ خود ساختہ رواجوں پر عمل کر رہے ہیں اور شرکیہ افعال کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ شہادتِ حسینؓ کو خراج تحسین پیش کرنے کے نام پہ آج مسلمان گریہ و ماتم اور مرثیہ خوانی کرتے ہیں۔ تعزیہ بنا کر اس سے منت و مراد مانگتے ہیں۔ جلوس نکالتے ہیں۔ کھیل تماشے وغیرہ کرتے ہیں۔ جو کہ غیروں کی نقل ہے اور سراسر غلط ہے۔
نبی کریم ﷺ اور حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوٰی کرنے والے نام نہاد مسلمانوں کو اگر واقعی ان سے محبت ہوتی تو وہ آپؐ اور حسینؓ کی اتباع کرتے۔ اپنی عظیم شہادت کے ذریعے حق و صداقت پہ قائم رہنے کا جو پیغام حضرت حسینؓ نے ہمیں دیا اس پہ عمل پیرا ہوتے۔ یا حسین کا نعرہ بلند کرنے کے بجائے اپنے کردار کو بلند کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن اس کے برعکس لوگ آج دین کے نام پہ نئی نئی بدعات و رسومات کو ایجاد کر محرم الحرام کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں اور گنہگاروں کی فہرست میں اپنا نام درج کروا رہے ہیں۔
واقعہ کربلا پر اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خلاصہ بس دو لفظوں پر مبنی ہے ایک "سجدہ” اور ایک "پردہ” کہ کس طرح حضرت حسینؓ روزے سے ہوتے ہیں، میدان جنگ میں بھی کوئی نماز قضا نہیں ہوتی اور اہل بیت کی عورتیں اس سخت آزمائش میں ہونے کے با وجود بھی بے پردہ نہیں ہوئیں۔ اور ہمارے لئے یہی ان کا سبق ہے۔ لیکن آج ہمیں نہ تو پردے کی فکر ہے نہ ہی سجدے (نماز) کی۔ محرم الحرام میں جو جلوس نکالے جاتے ہیں اور کھیل تماشے اکھاڑے وغیرہ ہوتے ہیں انھیں دیکھنے کے لئے عورتیں بھی جاتی ہیں جہاں مرد و زن کا اختلاط ہوتا ہے اور بے پردگی ہوتی ہے۔ خود کی ایجاد کردہ رسموں اور فضولیات کو پورا کرنا ہم فرض سمجھتے ہیں جبکہ نماز کو بھول چکے ہیں جو کہ فرض عین ہے۔ اس طرح ہم حضرت حسینؓ کی تعلیمات کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور ڈھول تاشے بجا کر ماتم و نوحہ کر کے آپؓ سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ جو بھیڑ مسجدوں میں جماعت سے نماز ادا کرنے کے لئے اور ظلم کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہونے کے لئے جمع ہونی چاہیے وہ بھیڑ جلوس میں شامل ہونے، کھیل تماشوں کو دیکھنے اور ڈی جے کے گرد موسیقی کی دھن اپنے پاؤں تھرکانے کے لئے جمع ہوتی ہے۔ سنت کو چھوڑ کر لوگ لغو و لہو میں مشغول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی حالت اتنی پست ہو چکی ہے۔ کیونکہ وہ قوم ترقی کر ہی نہیں سکتی جس کے یہاں حرام اور بدعات کا ارتکاب ہو۔
لہذا ہمیں قرآن و حدیث کا صحیح مطالعہ کر کے اپنے دین کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ محرم کی حقیقت اور شرعی حیثیت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہم سب کو حق کو تسلیم کرنے کی توفیق دے اور گمراہی سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے۔۔ آمین ثم آمین۔۔!!