ہارون رشید کا شاندار عہد حکومت
صباء ناز – کراچی
ہارون رشید کا عہد حکومت تاریخ اسلام کا با لعموم اور خلافت عباسیہ کا باالخصوص ایک ذریں دور ہے- ہارون رشید نہایت زیرک،مدبر،لائق، صاحب ہمت، انہتا درجےکا خوش ذوق ،خوش طبع، علوم و فنون کاشائق اور قدردان تھا- خوش حالی کے لحاظ سےاس کا دور حکومت خلافت عباسیہ کا ایک مثالی دور تھا-
دولت کی فراوانی تھی – اس کا شمار دنیا کےعظیم المرتبت حکمرانوں میں ہوتاتھاـ اس کے دور خلافت میں اسلامی مملکت معاشرتی، علمی اور سیاسی ترقی کے اعتبار سے منتہائے کمال کو پہنچی – عسکری جاہ و جلال، حدود مملکت کی وسعت اور خوشحالی و عظمت کےلحاظ سےدنیاکی کوئی قوم اور سلطنت ہارون رشید کی حکومت کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی – علم و ادب، صنعت وحرفت کوبےانتہا فروغ حاصل تھا-
دستور حکومت اگرچہ اصولی طور پر شریعت اسلامیہ کےمطابق رائج تھا- لیکن جب سے بنوامیہ کی خلاف کا قیام عمل میں آیاتھا- امراء اور صوبائی حکام نےشرعی قوانین کی صریح نافرمانی کرکےاپنی من مانی کاروائی شروع کر دی تھی – عباسی حکومت کےپہلے چار خلفاء کےعہد میں بھی یہ بدعنوانیاں بد دستور رہیں – مگر ہارون نے تخت خلافت پر متمکن ہوتےہی ان تمام خرابیوں کو دور کرکے صحیح اسلامی شریعت کانفاذ کیا اور بد نیت عمال کو معزول کر کے ان کی بجائے دیانتداراور پرہیز گار افسروں کومقرر کیا- خراج کی وصولی میں جو زیادتیاں روا رکھی جاتی تھیں – انکا قلع قمع کیا اور تمام غیر شرعی ٹیکس یک قلم منسوخ کردیے-
فہم وفراست،تدبرودانائی، عزم وثبات،فیاضی،شجاعت اوربلند حوصلگی میں ہارون خلفائےبنوعباس کےممازترین خلفاء میں سےتھا- وہ نہایت دیندار ارواحکام شریعت کابڑا پابندتھا- اس نےاپنےدورحکومت میں9 حج کیےاس کامعمول تھا1سال حج کوجاتااورایک سال تلوار سنبھال کرجہادکےلیےنکلتا- باالفاظ دیگرعبادت گزاروں میں نام پایا- دوسری طرف غازیوں کی صف اول میں نمایاں مقام حاصل کیا- وعظ ونصیحت کااس کےدل پرگہرا اثر ہوتاتھا- بعض اوقات اس کےدل پرایسی حالت طاری ہوجاتی کہ وعظ و نصیحت سن کراس کی آنکھوں سےآنسوبہنےلگ جاتے-
ہارون رشید ایک اعلی پائےکاحکمران ہونےکےعلاوہ شجاعت و مردانگی میں بھی ممتازتھا- فطری طورپر وہ ایک سپاہی واقع ہواتھا- متعدد معرکوں میں فوج کی کمانڈ کی، نڈر اتناتھاکہ لڑائی میں ہمیشہ فوج کےآگےآگےرہتا- وہ شیدید انتقامی جذبہ رکھتاتھا- دشمنوں کوشازونادر ہی معاف کرتا- عالم غیظ میں اسےاپنی طبیعت پرقابونہ رہتاتھا- ایسی حالت میں امراءو وزراء تک اس سےسامنےجانےسےخوف کھاتےتھے-
وہ ایک عدل گستر حکمران تھا- قاضیوں کاتقرر خود کرتاتھا- اسے رعایا کی بہبود و آسائش کا اس قدر خیال رہتاتھا کہ رات کوبھیس بدل کر دارالخلافہ کی گلیوں میں گھومتا اور مظلوموں کی داد رسی کرتاتھا- اپنی صفات کی بدولت وہ عوام میں بےحد مقبول تھا- مشہور کتاب الف لیلی میں اس کی عدل گستری، فرض شناسی اور رعایا پروری کےبے شمار واقعات موجود ہیں – جس سے اسے افسانوی دنیا میں بھی شہرت دوام حاصل ہے –
ہارون علماء،شعراء اور ارباب علم و فن کامربی تھا- انکو بیش بہا انعامات اور اعزاز وکرام سےنوازتا تھا- اس کی فیاضانہ اور دادو دہش کا شہرہ سن کر ارباب علم و دانش دور دور سے اس کےدربار میں کھینچے چلےجاتےآتےتھے- چنانچہ اس کا دارالخلافہ علماء اور اہل علم و فن کا ایک مثالی گہوارہ بن گیاتھا-
مال و دولت کی فراوانی کا یہ عالم تھا کہ صوبائی اخراجات وضع کرنےکےبعد بھی بیت المال میں ہرسال چالیس کروڑ درہم کی رقم جمع ہوتی – بیت المال کی نگہداشت، دیانتدار اورحساب کتاب میں ماہر افسروں کےذمےہوتی تھی – جو کوڑی کوڑی کاحساب رکھتے- ہارون رشید سےپہلےبیت المال کوپر کرنےکےلیےہرقسم کےناجائز اورجائز زرائع استعمال ہوتےتھے- خلفاء صرف انہی عمال حکومت کواچھا جانتےجوزیادہ رقم مرکزی بیت المال کوبھیجتے- اس کےمتعلق انھوں نے کبھی استفسار نہیں کیاتھاتھاکہ یہ رقم وصول کن طریقوں سےہوئی ہے- اس کا اثریہ ہوتاکہ حکام رعایا پر طرح طرح کےمظالم توڑتےاور جائزٹیکسوں کےعلاوہ نذرانےکےطورپر بھی بھاری رقمیں وصول کرکےخلیفہ کوخوش رکھنےکی کوشش کرتے- ہارون نےخلیفہ ہوتےہی تمام بدعنوانیوں کوحکما” ممنوع قراردےدیااور سارے غیر شرعی محاصل فورا” بند کردیئے- مشہورعالم اور فقہیہ قاضی ابویوسف سےخراج کےقوانین کےمتعلق ایک رسالہ تحریر کرایاجو” کتاب الخراج "کےنام سےمشہورہےاورآج بھی فقہاء کےلیےرہنمائی کاکام دیتاہےہارون کاعقیدہ یہ تھاکہ جب کسی عامل یاوالی کا ظلم،زیادتی رعایا کےمال میں خیانت اورذاتی مال میں حرام خوری یا بدکرداری ثابت ہوجائےتواسےاپنےعہد پربحال رکھنا،اس سےمدد لینارعایا کےمعاملات میں مختار مقرر کرنا اور امور حکومت میں شریک کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے- اسےایسی عبرت آموز سزا دینی چاہیےکہ دوسرے لوگ اس قسم کےافعال بد کی جرات نہ کرسکیں –
ہارون جیسے صاحب اقبال تاجدار کی سیرت میں روشن اور تاریک دونوں پہلو پوری قوت سے جلوہ گر ہیں – اعلی صفات سےمزین ہونےکےساتھ ساتھ وہ کانوں کا کچا اور وہمی واقع ہواتھا- جس کےباعث حاسدوں اور شرپسندوں کی باتوں میں آ جاتاتھا- چناچہ اس سےایسےایسےافعال سرزد ہوجاتےتھےجواس کےاعلی و ارفع سیرت و کردار کےیکسر منافی ہوتے تھے-
دنیا کا کوئی بھی حکمران انبیاء کرام علیہ اسلام کےعلاوہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس سےغلطیاں سرزد نہ ہو- ایک حکمران بہت زیادہ قابل بھی ہو تواس سےکچھ غلطیاں ہونااس کےانسان ہونے کی نشانی ہیں – بےشک حکمران کو بااختیار اورباکردار ہونا ہی اس کےاندر کی چھپی صلاحیتوں کو واضع کرتاہےنہ کہ ایسا حکمران جس کےہاتھ میں اختیار بھی نہ ہواور اس سے100٪ نتیجہ بھی مانگاجائے-