موجودہ حالات اور ہندوستانی مسلمان
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ہندوستانی مسلمان پھر ایک بار تاریخ کے دو راہے پر کھڑے ہیں۔ ان کی حالت اند ھیری شب کے اُس مسافر کی طرح ہو گئی ہے جو اس گھٹا ٹوپ تاریکی سے نکلنے کے لئے ہاتھ پیر تو مار رہا ہے لیکن اسے سوائے مایوسی کے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگ رہی ہے۔
قوموں کی حیاتِ اجتمائی میں نشیبِ و فرازکا آنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ حوادثِ زمانہ کے تھپیڑے کھا کر قومیں درسِ بصیرت حا صل کرتے ہوئے اپنی تیز گامی کا ثبوت دیتی ہیں اور اپنی منزل مقصودکی طرف رواں دواں ہو جاتی ہیں۔ معلوم تاریخ میں دنیا کا کوئی گروہ ایسا نہیں ہے جس کے مقدّر میں عروج و زوال نہ لکھا گیا ہو۔ قدرت کا یہ قاعدہ کلّیہ ہے کہ دنیا میں ہر قوم اپنے مکافاتِ عمل کے نتائج خود اپنے آ نکھوں سے دیکھ لیتی ہے۔ مسلمان، ساری دنیا میں بالعموم اور خاص طور پر ہندوستان میں اس وقت جن حالات سے دوچار ہیں اس میں دشمن کی سازشوں کے علی الرغم ان کی کوتاہیوں اور غفلت شعاری کا بھی بہت کچھ دخل ہے۔ ملّت اگر اپنے مخالف کی کارستانیوں سے چوکس و چوکّنا ر ہتی تو ملک کی آزادی کے ۳۷ سالوں کے اندر اس کی یہ دُرگت نہ بنتی۔لیکن افسوس کہ مسلمان حالات سے بے خبر ہوکر عیّار دشمن کی چالاکیوں کو سمجھنے سے قا صر رہے۔ ان کی معصومیت اور بے گناہی ان کے لئے سّم قاتل ثابت ہوئی۔ دوسری طرف جن کے ہاتھوں میں مسلمانوں کی قیادت آئی انہوں نے حقیقتوں کا ادراک کر تے ہوئے بھی اپنی قوم کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے میں اپنا کوئی کلیدی کردار ادا نہیں کیا۔ آزادیِ وطن کے بعد جس مخلصانہ قیادت کی قوم کو ضرورت تھی اس کی کمی آج تک دیکھی جارہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کُل ہند سطح سے لے کر شہر اور گلیوں تک قیادت کے بہت سارے دعوے دار نظر آ تے ہیں۔ہر ایک کو یہ زعم ہے کہ ان سے بڑھ کر مسلمانوں کا کوئی اور قائد نہیں ہے۔ قائد بننے کے اسی شوق نے مسلمانوں کی آواز کو بے وزن اور بے وقعت کر دیا۔ ہر چھوٹی بڑی جماعت،تنظیم اور ادارے کے ذ مہ دار کایہ خیالِ خام ہے کہ اس سے بڑھ کر ملت میں کوئی لائق فائق، مخلص اور بے لوث نہیں ہے۔ لہذا اُ سے ہی قیادت کے منصب پر فائز رہنا ہے۔ یہی وہ مزاجِ یار ہے جس نے اسے مست کر کے رکھ دیا ہے۔ ملت یکے بعد دیگر لگنے والے ز خموں سے چور، چور ہو چکی ہے۔ جسم کے ہر حصے سے خون رِس رہا ہے۔لیکن قوم کے رہنمااپنے کاروبارِ حیات میں مصروف ہیں۔ 5/ ا گسٹ 2020کو ایودھیا میں بابری مسجد کے ملبے پر رام مندر کی بنیاد رکھدی گئی۔ مسلمانوں نے اپنا غم و غصہ سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے نکالا۔ با بری مسجد کی تصویروں کے ساتھ جذباتی اشعار بھی لکھے گئے۔ ذ مہ دار حلقوں سے صبر کی تلقین کی گئی۔ بعض نے دعا کو ہتھیار بنانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مظلوم کی دعا سے عرشِ الہی بھی کانپ جا تا ہے۔ یہ ساری با تیں ہو سکتا ہے کہ سوچ سمجھ کر ہی کہی گئیں ہوں۔ لیکن یہ باتیں سیاق و سباق سے ہٹ کر کہی گئیں ہیں۔ اگر مشیتِ ایزدی کا تقا ضا ملتِ اسلامیہ کی سر خروی اور سر بلندی کے لئے ہمیشہ صبر اور دعا ہوتی تو معرکہ بدر و حنین پیش نہ آ تا۔ نواسہ رسولﷺ کو کربلا میں اپنے ساتھ اپنے ۲۷ جانثاروں کو شہید کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ طارق بن زیاد کو بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے کی نوبت نہ آ تی۔ اسی طرح انگریزوں کے خلاف ہمارے علماء جہاد کا فتوی نہ دیتے اور نہ انہیں دارِ و رسن کی صعوبتوں کو برداشت کر نا پڑتا۔ جب سب کچھ دعا اور صبرسے ممکن تھا تو پھر یہ سب کچھ کیوں ہوا۔ ساری تیاری کے بعد صبر اور دعا کی منزل آتی ہے۔ کچھ نہ کرکے محض صبر کرلینا اور اپنے آپ کو حالات کی ڈگر پر ڈال لینا صرف بزدلی کی علامت ہے جو اس وقت ہندوساتی مسلمانوں میں دیکھی جا رہی ہے۔
حالات کی یہ سنگینی دیکھتے ہوئے بھی مسلمان نہ جا گے تو بقول مولانا ابوالکلام آزاد کے صورِ اسرا فیل ہی اُ سے خوابِ غفلت سے جگا سکتا ہے۔ آزادیِ وطن کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں میں بردارانِ وطن کی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے اس کا تقابل جب مسلمانوں سے کیا جاتا ہے تو انتہائی مایوس کُن تصویر ابھر کر سا منے آ تی ہے۔ تعلیم ہو کہ معیشت، سیاست ہو کہ معا شرت ہر طرف تنزّل ہی تنزل نظر آ تا ہے۔ اس میں جہاں حکومتوں کے معاندانہ رویوں، ان کا متعصبانہ رول اور تنگ نظری کھل کر ظاہر ہوتی ہے وہیں خود مسلمانوں کی غلط تر جیحات بھی ان کی ترقی میں رکاوٹ بنتی رہیں۔ ملک کی تقسیم اور پھر آ زادی کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں کو شک کے دائرے میں لا دیا گیا۔ ان پر تقسیمِ ملک کا الزام دھڑلے سے لگا دیا گیا۔ 73سالوں سے ہندوستان کے مسلمان اس جھوٹے پروپگنڈا کو ڈھوتے رہے۔ اسی بنیاد پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ اب مرکز کی بی جے پی حکومت، اسی کو ہتھیار بناکر سی اے اے کا قانون منظور کر کے مسلمانوں کو شہر یت سے محروم کر نا چاہتی ہے۔ سارے ملک میں کورونا کی وباء چل رہی ہے لیکن اس کے باوجود آسام میں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر نے کی کاروائیاں اب بھی تیزی سے جاری ہیں۔ یہ سمجھا رہا تھا کہ ایک عالمی وباء نے دنیا کے حکمرانوں اور خاص طور پر ہندوستان کے سیاستدانوں کو سبق سکھا دیا ہے اور اب وہ راہِ راست پر آ چکے ہیں۔ لیکن آ سام سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ بڑی مضطرب کر دینے والی ہیں۔ ملک جب کہ ایک زبردست بحران سے گذر رہا ہے ایسے وقت بھی مسلم دشمنی کا خا تمہ نہیں ہوا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں سے کتنا بغض و عناد ہے۔ شہریت کے نام پر صرف آ سام کے مسلمانوں کو پریشان نہیں کیا جا ئے گا بلکہ سارے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کی شہریت پر سوال اٹھایا جا ئیگا۔ اس ضمن میں مسلمانوں نے کیا حکمتِ عملی اختیارکی ہے اس کا کوئی اتہ پتہ ابھی تک عام مسلمانوں کے سامنے نہیں آ یا ہے۔ کویڈ۔۹۱ پر جیسے ہی قابو پا لیا جائے گا پھر ایک بار سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی گونج سارے ملک میں سنائی دے گی۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کویڈ۔۹۱ سے پہلے جس انداز کا احتجاج ان سیاہ قوانین کے خلاف سارے ملک میں دیکھنے میں آ یا ایسا زبردست احتجاج کرنے کے لئے ملک کے سارے انصاف پسند حلقے اٹھ کھڑے ہوں گے۔بی جے پی حکومت کو خود اندازہ نہیں تھا کہ حکومت کے مذموم عزائم کو ناکام بنا نے لئے سارے محبُان وطن سراپا احتجاج بن جا ئیں گے۔ حکومت ان ظالمانہ قوانین کے ذریعہ مسلمانوں کو ملکِ بدر کرنا چاہتی تھی لیکن وہ خود ملک کی عوام کے غیض و غضب کا شکار ہو گئی۔ یہاں بھی مسلمانوں کی روایتی قیادت کی مجہولیت سا منے آ ئی۔ حالات کی نزاکت کو سمجھنے میں یہ قیادت ناکام ہو گئی یا اس نے ہمیشہ کی طرح مصلحت کی چادر اوڑھ لینے میں اپنی عافیت سمجھی۔ ہندوستان کی آ زادی کے بعد یہ پہلی عوامی جدوجہد تھی جس نے حکومت کے ایوانوں کو ہِلا کر رکھ دیا۔ نوجوانوں نے اس احتجاج کو بر پا کر کے ثابت کر دیا کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کر تا۔ خواتین نے اپنی بے مثال قربانیوں کے ذریعہ جدو جہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ خواتین کے اسی بے لوث جذبہ نے اس احتجاجی مہم کو عالمگیر شہرت عطا کی۔ دہلی کے شاہین باغ نے دنیا کے کو نے کونے میں وہ شمع روشن کردی کہ جسے بجھانا حکومت کے بس میں نہ رہا۔ وقتی طور پر یہ طوفان تھما ہے لیکن شہریت کا قانون اب بھی ایک تلوار کی مانند لٹک رہا ہے۔ موجودہ حکومت اس متنازعہ قانون کو کسی بھی وقت نافذ کر سکتی ہے۔ ایسے نازک وقت مسلمان اگر شترمرغ کی طرح ریت میں سَر ڈالے طوفان کے گذرجانے کا انتظار کریں گے تو یہ وہ تاریخی غلطی ہوگی جسے مسلمانوں کی آ نے والی نسلیں بھی کبھی معاف نہیں کریں گی۔
موجودہ حالات کے تناظر میں مسلمانوں کو ایک مبسوط حکمتِ عملی کے ساتھ اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ محض کڑھنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے سے دیرینہ مسائل کا ممکن نہیں ہے۔ ملک کی فسطائی طاقتیں ہندوستانی سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کر کے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کر نا چاہتی ہیں۔ جموں و کشمیر کے خصو صی موقف کو ختم کرنے کے لئے دستور کی دفعہ 370کی منسوخی ہو یا ایو دھیا میں رام مندر کی تعمیر کا آ غاز ہو یا پھر ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کو نافذ کر نے کی بات ہو اس کے پسِ پردہ ہندو احیاء پرستوں کے وہ پوشیدہ عزائم ہیں جس کو پورا کرنے کے لئے وہ گذ شتہ دو سو سال سے اپنی کو ششوں لگے ہوئے ہیں۔ اسی مقصد کے خاطر 1925میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آ یا۔ اس سے پہلے تحریکِ آزادی کے دور ان ہی ہندو احیاء پرستی کی جڑوں کو مضبوط کر نے کے کام کا آغاز ہو چکا تھا۔ یہی جارحانہ ذہنیت ملک کی آزادی کے بعد بھی اپنے مشن میں لگی رہی اور آج اس کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ فرقہ پرستی کے اس زہر کو پورے ہندوستانی سماج میں ٹھوسنے کی بارہا کوشش ہوتی رہی۔ اب با ضابطہ اس کے لئے حکومتی مشنری کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن فسطائی طا قتوں کو پوری طرح کا میابی ملنے کے ابھی آ ثار نظر نہیں آ تے۔ پسماندہ اور محروم طبقات کا انہیں اعتماد حا صل نہیں ہوا ہے۔ دلتوں اور بچھڑ ے ہو ئے طبقوں کو یہ احساس ہے کہ مذہب کا نام لے کر ہندوؤں کے اس با اثر طبقہ نے ان کا استحصال کیا ہے۔ آزادی کے 73سال بعد بھی ان طبقوں کی حالتِ زار کو دیکھنے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے کہ ہندوتوا کے علمبرداروں کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ریزویشن کے نام پر انہیں کچھ خیرات دے کر اعلیٰ ذات کے ہندو انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کر تے رہے۔فر قہ وارانہ فسادات کی تاریخ بتا تی ہے کہ اس میں دلتوں اور دیگر کمزور طبقوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اب یہ طبقے اس حقیقت کو جان چکے ہیں اور ان کے بہکاوے میں آ نے سے گریز کر رہے ہیں۔ البتہ دلت قیادت بھی اپنے طبقوں کا استحصال کر نے میں لگی ہوئی ہے۔ مسلمان موجودہ حالات میں ایک نئی سیاسی صف بندی کرتے ہیں اور سما ج کے محروم اور کمزور طبقات کو اپنے ساتھ لینے میں کا میاب ہوجاتے ہیں تو اس سے ملک میں ایک نیا انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے یہ حقیقت بھی رہنی چاہیئے کہ ملک کی ساری اکثریت ہندو نہیں ہے۔ مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا مغالطہ ہے کہ ملک کی اقلیتوں کو چھوڑ کر جتنے طبقے ہیں وہ سب ہندو ہیں۔ جب کہ دلت اس بات کا صاف اعلان کرتے ہیں وہ ہندو نہیں ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اس جمہوری ملک میں ایک قائدانہ رول ادا کر نا ہے۔ اس کے لئے جہاں دوراند یشی اور دانشمندی کی سخت ضرورت ہے وہیں ایک بیباک، مخلص اور بے لوث قیادت کا ہونا بھی وقت کا تقا ضا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ قیادت پر تنقید کردینے اور اس پر الزام لگادینے سے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ ہر جماعت پر سے اعتماد کا اٹھ جانا اور ہر ایک کے تعلق سے بد گمان رہنا یہ بھی کوئی صحت مند علامت نہیں ہے۔ قیادت پر فائز افراد بھی انسان ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں سر زد ہوتی ہیں اس لئے اس کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں اصلاح کی دعوت دینا بھی ملّت کی اہم خدمت ہے۔ لیکن اس کا فقدان دیکھا جار ہا ہے۔ قیادت تعمیری تنقید کو بھی انتشار سے تعبیر کرتی ہے اور تنقید کرنے والے بھی اپنی حدوں کو پار کرلیتے ہیں اور قیادت پر رکیک حملے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہی افراط و تفریط مسلمانوں کے زوال اور ان کی شکست و ریخت کا سبب رہی۔ جس دن وہ اس ذہنیت سے نکلیں گے کامیابی اور سر بلندی ان کے قدم چو مے گی۔
توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا۔