نئی تعلیمی پالیسی -مطالعہ اور محاسبہ
امانت علی قاسمی
استاذو مفتی دار العلوم وقف دیوبند
تعلیم کسی بھی سماج کی ترقی کا جوہری عنصرہوتا ہے اس کے ذریعہ سماج اور معاشرہ کی نشو و نما ہوتی ہے اور آپ جس طرح کا سماج بنانا چاہتے ہیں اس میں تعلیم کا کلیدی کردار ہوتاہے،اس وقت ہمارے یہاں اسکول و کالج میں جو تعلیم رائج ہے وہ وہی ہے جو انگریز وراثت میں دے گئے تھے۔مولانا ابوالکلام آزاد نے۱۹۴۸ء میں تبدیلی کا مشورہ دیا تھا
اس کے بعد ۱۹۶۸ء میں ڈاکٹر رادھاکرشنن کی نگرانی میں تبدیلی ہوئی تھی،پھر ۱۹۸۶ء میں نئی تعلیمی پالیسی لائی گئی اور اب کستوری رنگن کی قیادت والی کمیٹی نے نئی قومی تعلیمی پالیسی (NEP)کا ڈرفت تیار کیا ہے جیسے موجودہ کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ اس نئی قومی تعلیمی پالیسی میں بہت سی اہم تبدیلی کی گئی ہے جن میں بعض کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے جب کہ بعض پالیسی ملک کے لیے خاص طور پر اقلیتوں کے لیے مضر اور نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی میں ۲۰۰۹ء کے قانون RTE کے مکمل نفاذ کی بات کی گئی ہے جس کے تحت ۰۳۰۲ء تک سو فیصد شرح خواندگی کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت ہر بچے کو سرکاری طور پر مفت لازمی تعلیم کوضروری قرار دیا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں جب یہ قانون آیا تھا اور مذہبی حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی تھی تو اس وقت و زارت تعلیم نے یہ صفائی دی تھی کہ مدارس اور پاٹھ شالہ جیسے ادارے جو مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو خصوصی تعلیم مہیا کرتے ہیں انہیں آئین ہند کی دفعہ ۹۲ اور ۰۳ کے تحت حفاظت حاصل ہے رائٹ تو ایجوکیشن ایکٹ ایسے اداروں کے جاری رہنے اور ان اداروں کے طلبا کے حقوق کا راستہ نہیں روکتا ہے۔ موجودہ نئی تعلیمی پالیسی میں مذہبی تعلیمی ا داروں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے جس سے امید یہی ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کا مرکزی اثر ان اداروں پر نہیں پڑے گا۔
نئی تعلیمی پالیسی کے مسودہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو بہت ساری باتیں سامنے آتی ہیں، اب تک ابتداء سے ہائی اسکول تک کا نظام صوبائی حکومت کے پاس اور ہایر ایجوکیشن کی کمان مرکزی حکومت کے پاس ہوتی تھی لیکن اب پرائمری؛ بلکہ پری پرائمری سے لے کر اعلی تعلیم تک سارا نظام مرکزی حکومت کے پاس رہے گا حتی کے اسکولوں میں ٹیچر کا تقرر بھی مرکزی سرکار کرے گی۔ اسکولی تعلیم پہلے پرائمری سے شروع ہوتا تھا لیکن اب پری پرائمری سے شروع ہوگا۔اس طرح اسکولی نظام پہلے بارہ سال پر محیط تھا اور اب پندرہ سال میں مکمل ہوگا۔وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کا نام تبدیل کرکے وزارت تعلیم کردیا جائے گا اس طرح بہت سی جگہ ناموں کی تبدیلی ہوگی۔اسکولی تعلیم میں بورڈ کا امتحان اب دسویں کے بجائے بارہویں میں ہوگا۔گریجویشن میں اب چار سال لگیں گے اس کے بعد ایک سال میں ایم اے ہوجائے گا۔ اعلی تعلیم میں ایم فل ختم کردیا جائے گا اور ڈائریکٹ ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ ہوگا، سرکار جی ڈی پی کا چھ فیصد تعلیم کے نام پڑ خرچ کرے گی۔تین سے چھ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مفت لازمی تعلیم کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے حق تعلیم قانون ۹۰۰۲ء میں کو توسیع دی جائے گی۔پانچ کلاس تک لازمی طور پر اور آٹھ کلاس تک اختیاری طورپر مادری زبان میں تعلیم ہوگی یہ ایک بڑی تبدیلی کا فیصلہ ہوگاجس کے اچھے ا ثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اعلی تعلیم میں بھی بڑے اہم فیصلے کئے گئے ہیں اس میں ایک لبرل تعلیم کا اضافہ ہے لبرل تعلیم کے نتائج کیا ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی طے کرے گا تاہم ضابطہ کی حدتک اسے آزادنہ تعلیم کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد آئینی اقدار کا فروغ ہے جن کی وجہ سے موجودہ دور میں مروج غیر لچک دار حد بندیاں ختم ہوجائیں گی اور تاحیات آموزش کے امکانات روشن ہوجائیں گے اور جو طالب علم اس موضوع پر گرویچویشن کرے گا اسے بیچلر آف لبرل آرٹس (Bachelor of liberal Arts) کی ڈگری دی جائے گی۔
معیار تحقیق کو بلند کرنے کے لیے حکومت ہند کے ایک خود مختار ادارے کے طور پر قومی تحقیقی فا ؤنڈیشن کاقیام پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعہ عمل میں لایا جائے گا اس ادارے کو ۰۰۰.۰۲ کروڑ روپئے جی ڈی کا ایک فیصد سالانہ گرانٹ دیا جائے گا ابتداء میں اس فاؤنڈیشن کے چار بنیادی ڈیویژن ہوں گے سائنس،ٹیکنالوجی،سماجی علوم اور آرٹس و انسانیات۔
موجودہ نئی تعلیمی پالیسی میں پانچ الفاظ بڑے اہم ہیں (LLASM)یعنی لینگویجز،لیٹریچڑ، آرٹس،سپورٹس ا ور میوزک یہ ہندوستانی تعلیمی نظام کے بنیادی عناصر ہیں اس میں لینگویجز میں بنیادی طورپر سہ لسانی فارمولہ اہم ہے اس سہ لسانی فا رمولہ میں سنسکرت، ہندی اور انگریزی داخل ہے، دیگر زبانیں بھی زبان کی حیثیت سے پڑھائی جائیں گی لیکن ہندوستان کے مختلف صوبوں میں اردو زبان دوسری سرکاری زبان ہے اور اردو کے ساتھ ہندوستان کا کلچر جڑا ہوا اس کے باوجود اردو زبان کو وہ حیثیت نہیں دی گئی ہے جو دوسری زبانوں کو دی گئی ہے؛ بلکہ جن زبانوں کی ترقی کی بات کی گئی ہے ان میں بھی اردو شامل نہیں ہے؛ چنانچہ کلاسیکی زبان ادب کے فروغ کے لیے موجودہ قومی اداروں کو مستحکم کرنے اور پالی، فارسی ا ور پراکرت کے لیے ایک قومی ادارہ بھی قائم کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن پورے تعلیم پالیسی میں اردو کا کوئی تذکرہ نہیں ہے یہ زبان کے فروغ کے ساتھ اردو کو ملک بدر کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔
۲۰۳۵ء تک کے لیے یہ تعلیمی پالیسی بنائی گئی ہے اس میں خاص بات یہ ہے کہ سیکولرزم کو نکال کر ویدانتا کو پورے نظام تعلیم میں نافذ کرنے پر زور دیا گیا،قدیم تعلیمی نظام نالندہ اور ٹکشیلاکے نظام کو نافذکرنے کی بات کہی گئی ہے۔
اس نئی تعلیمی پالیسی میں گیتا،سوریہ نمسکار،یوگا،وندنا وغیرہ پر بہت زیادہ زور دیا گیاہے سرکاری اسکول میں کلاس کے آغاز سے پہلے ہرے رام ہرے کرشنا کہنا ہوگاظاہر ہے کہ اگر مسلمان بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے تو ان کو بھی ان چیزوں میں حصہ لینا ہوگا جب کہ اس میں بہت سے چیزیں مسلمانوں کے عقائد سے ٹکراتی ہیں او ر بحیثیت مسلمان ان امور کا انجام دینا حرام اور ناجائز ہے اس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچتی ہے اور یہ نہ صرف سرکاری اسکولوں میں ہوگا؛بلکہ پرائیوٹ اسکول جو ان شرائط پر عمل کریں گے انہیں ہی لائسنس فراہم کی جائے گی اس طرح ہر جگہ مسلمانوں کے لیے عصری تعلیم کے حصول اپنے ایمان و عقیدہ کی بقاء کے ساتھ ایک مشکل امر بن جائے گا۔