افسانہ : یوم ِ والدین
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ
Email:
ہم سب اسکول میں ہی ملے تھے مگر کون جانے وہ دن کہا چلے گئے؟میں ہوں عاکف حسین اور یہ ہے میرا بیٹا نواز۔ اس نے آج مجھ سے کہا کہ اسکول میں بہت جلد ایک پروگرام ہونے والا ہے۔ میں نے نواز سے پوچھا کونسا پروگرام ہونے والا ہے؟اس نے کہا ”یوم والدین“۔ نواز نے مجھ سے جب یہ پوچھا کہ پاپا یوم ِوالدین پروگرام میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
تب مجھے اپنے بچپن کا وہ قصہ یاد آگیا اور میں اپنے بیٹے نواز کو سنانے لگا۔میں جب اسکول میں پڑھتا تھا تب اسکول میں کھیل کود، انعامی،تقریری مقابلے،ڈرامے ہوا کرتے تھے۔نواز بیٹے تمہاری طرح میرے بھی تین سب سے عزیز دوست تھے نواز بول اٹھا کہیں وہ ہمارے گھر پر آنے والے شاہد چچا، واجد چچا، اور ماجد چچا تو نہیں؟ ہاں میرے بیٹے میں ان کی ہی بات کر رہا ہوں۔اس روز کو میں نہیں بھول سکتا کیونکہ ہماری اسکول میں بھی یوم والدین پروگرام رکھا گیا۔ نواز بیٹے تمہاری عمر میں ہم بھی اسی طرح الجھ کر رہ گئے۔ ہمیں کیا کرنا ہیں؟ تب ہمارے استاد ناظم علی سر نے ہمیں بتایا کہ اس دن آپ کو اپنے والدین کی اہمیت بتانی ہیں وہ آپ کی زندگی کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت ہیں پھر آپ کو یہ بتانا ہے کہ آپ کے والدین آپ کے لیے کیا کچھ قربانیاں کرتے ہیں۔ میرے بیٹے نواز مجھے تو آسانی سے سمجھ میں آگیا تمہارے شاہد چچا رونے لگے۔استاد نے پوچھا شاہد تم کیوں رو رہے ہو؟ کیا تم کو تمہارے والدین پیارے نہیں ہیں؟ شاہد چچا نے اس وقت کہا نہیں مجھے میرے والدین اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ناظم علی سر نے پوچھا تو پھر تم کیوں رو رہے ہو؟ تمہارے شاہد چچا نے کہا ’میری والدہ کی فوت ہوچکی ہیں‘ اور آپ والدین کی بات کر رہے ہیں۔ناظم علی سر نے شاہد چچا کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا بیٹے والدین ’والدین ہی ہوتے ہیں یہ اور بات ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کے چلے جانے پر افسوس ہوتا ہے مگر وہ اپنے بچوں کے لیے ہمیشہ زندہ ہیں وہ ہر وقت اپنے بچوں کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ناظم علی سر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس وقت ان کی حالت تمہارے شاہد چچا جیسی ہی ہو گئی تھی۔ والدین جب تک ہماری زندگی میں ہیں ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔نواز نے اپنے پاپا سے پھر پوچھا پھر کیا ہوا؟ میں نے اپنے بیٹے سے کہا پھر کیا ہونا تھا ابھی شاہد چچا تمہارے چپ ہو ئے ہی تھے کہ تمہارے ماجد چچا نے نیچے منہ کرکے رونا شروع کیا۔نواز نے پوچھ لیا پاپا۔۔۔پاپا آخر ”ماجد چچا کیوں رو رہے تھے“
میں نواز سے کچھ کہتا اتنے میں خود میرا دوست ماجد ہی آگیا۔
”نواز نے کہا ’ارے ماجد چچا ’آپ!
تبھی ماجد نے کہا میرے نواز پیارے بھتیجے ’کیا میں آ نہیں سکتا؟
نواز نے کہا ’ماجد چچا آپ کو پتہ ہے کہ ابھی ابھی پاپا مجھے یوم والدین کا قصہ سنا رہے تھے۔
ماجد چچا نے کہا نواز تمہارے پاپا نے تمہیں کہا تک بتایا؟
نواز نے فوراً کہا وہ آپ کے بارے میں بتا رہے تھے کہ جب آپ نیچے منہ کرکے رونے لگے تھے،’تبھی ماجد چچا نے مجھ سے کہا اس کے آگے میں بتاتا ہوں۔”ماجد چچا کہنے لگے میری صورت اتری دیکھ اور مجھے روتے دیکھ ناظم علی سر نے پوچھ لیا۔”اب ماجد تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا سر آپ نے ہی تو کہا تھا کہ اپنے والدین کی اہمیت بتاؤ اور”اپنے والدین کا قصہ سناؤ“۔میرے والدین دونوں الگ ہوچکے ہیں جب ساتھ تھے تب ان میں لڑائی جھگڑا اس قدر ہوتا تھا کہ بس وہ میرے والدین نہ ہو کر جھگڑالو انسان بن کر رہ گئے تھے۔۔میں ایک مہینہ اپنی ماما کے پاس تو ایک مہینہ پاپا کے پاس رہتا ہوں۔ ناظم علی سر نے پوچھ لیا کہ آخر وہ کس بات پر جھگڑتے تھے مجھے اس بات کا علم اب ہوا جب میں خود اپنے ماما پاپا کے مقام کو پہنچا۔
نواز بیٹے نے پوچھا پھر آپ نے بتایا نہیں آگے کیا ہوا؟
”نواز بیٹے سر نے مجھے بتایا کہ تم اپنے ماما پاپا سے یہ بات ضرور کہنا کہ ’ناظم علی سر نے آپ کو خصوصاً اس پروگرام میں بلایا ہے۔
پھر کیا ہوا ماجد چچا؟
نواز بیٹے اس روز کو ہم زندگی میں کبھی نہیں بھول سکتے ”پروگرام میں اسکول کے تمام بچوں کے ساتھ ان کے والدین کو بھی بلوایا گیا۔نواز نے پوچھ لیا کہ ماجد چچا کیا آپ کے والدین بھی اس پروگرام میں آئے تھے؟ ماجد چچا نے کہا ہاں لیکن دونوں الگ الگ بیٹھے تھے دونوں مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں یہی ایک وجہ تھی کہ وہ دونوں اس پروگرام میں شامل ہوئے تھے۔
نواز نے مجھ سے پوچھا پاپا۔۔۔۔پاپا کیا دادا اور دادی آپ کے پروگرام میں شامل ہوئے تھے؟ میں نے کہاں بیٹے نواز۔
پروگرام کے بارے میں بتاتے ہوئے ناظم علی سر نے کہا ”اس یوم والدین پروگرام میں آپ سبھی کا خیر مقدم ہیں“ آپ سب سے ہی اس پروگرام کی اہمیت اور بھی زیادہ نکھر کر آئی ہیں۔میں اپنے ہونہار طالب عملوں سے گزارش کروں گا کہ وہ سب سے پہلے حمد و نعت سنائیں گے“
”بچوں نے اس وقت بہت ہی پیاری حمد و نعت پڑھی تھیں۔ ”اس کے بعد اقبال کی نظم بچوں کی دعا”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری“ سارا منظر اس وقت خوبصورت بن چکا تھاپھر کیا ہوا ماجد چچا؟ اس کے بعد ناظم علی سر نے اپنے اسکول کے طالب علموں کو ایک ڈرامہ پیش کرنے کو کہا“نواز نے پوچھا پاپا ۔۔۔پاپا۔۔۔آپ نے بھی اس ڈرامہ میں رول کیا تھا؟ میں نے کہا نہیں بیٹے مگر ناظم علی سرنے اس پروگرام کے چند روز قبل ہی ہم سے یوم والدین پر مضمون لکھوایا تھا۔شاہد چچا اور تیرے ماجد چچا نے دل کھول کر اپنے جذبات اس میں بیان فرمائیں تھے نواز نے پوچھ لیا کہ تو کیا پاپا آپ نے کچھ بھی نہیں لکھا؟ میں نے لکھا ”دنیا کی بہترین نعمت والدین ہیں جنہوں نے ہمیں بولنا سیکھایا، ہر کام کو کرنا سیکھایا، مشکلوں سے لڑنا سیکھایا اور صبر سے کام لینا سیکھایا۔مجھے یاد ہے جب میں سیڑیوں سے گر گیا تھا تب نواز بیٹے آپ کے دادا اور دادی یعنی میرے ممی پاپا نے جو مجھے حوصلہ دیا میری تیمار داری کی، میں بتا نہیں سکتا کہ اگر وہ اس وقت نہ ہوتے تو میں آج بہتر زندگی نہیں گزار پاتا۔تبھی ماجد چچا نے کہا اس پروگرام میں ایسا کرشمہ ہوا کہ اس پروگرام کے بعد میرے والدین ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہنے لگے۔نواز پوچھ بیٹھا وہ کرشمہ کیسے ہوا؟
ناظم علی سر نے جو ڈرامہ کروایا اس میں ایک منظر یہ بھی تھاکہ والدین لڑائی جھگڑا کرتے کرتے الگ ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور یہ بات ان کے بچے پر گہرائی سے اثر کر جاتی ہے یہاں تک کہ وہ دماغی مریض بن جاتا ہے اپنے بیٹے کی دن بہ دن بگڑتی حالت دیکھ کر دونوں کے دل پگھل جاتے ہیں اور جو کبھی الگ الگ رہنے کا اردہ کرتے تھے اب وہ اس بچے سے ساتھ رہنے کا وعدہ کرتے ہیں اور لڑائی جھگڑے نہیں کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ماجد چچا نے کہا اس یوم والدین کے پروگرام میں جہاں خوشیاں بکھیرتے بچے اور والدین کے چہرے مسکراہٹوں سے بھر گئے تھے وہیں بہت سے والدین جوکبھی اعلیحدہ رہنے کا ارادہ کرتے تھے اب وہ اپنے بچوں کی خاطر ساتھ رہنے کا ارادہ کرچکے تھے۔اس پروگرام کے آخر میں بچوں نے والدین کے تعلق سے اپنا اظہار خیال پیش کیا کسی نے کہا میرے والدین مجھے اچھے اچھا کھانا کھلاتے ہیں، تو کسی نے کہا وہ ہماری ہر خواہش کو پورا کرتے ہیں فلاں نے کہا والدین دینا کی قیمتی نعمت ہیں،اتنے میں نواز نے کہا ماجد چچا آپ نے کیا کہا میں نے کہا کہ والدین چشمۂ محبت ہیں جس کا پانی شہد سے بھی میٹھا ہے پاپا۔۔پاپا آپ نے کیا کہا؟ میں نے کہا دنیا کی تمام نعمتوں میں خدا کی سب سے بڑی اور اچھی نعمت والدین ہیں یہ نعمت زندگی میں ایک بار ہی ملتی ہے اور ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اس نعمت کو سر آنکھوں پر بیٹھائیں۔ان کا کبھی دل نہ دکھائیں۔ ان سے زندگی کا سبق سیکھے۔یہ دنیا کا سب سے بہترین و اعلیٰ رشتہ ہیں اس رشتہ کو اچھے سے نبھائیں۔ہر رشتے میں کوئی نہ کوئی قیمت چکائے بغیر رشتہ نہیں نبھتا مگر یہ رشتہ خالص محبت کا ہے اس میں کوئی غرض و غائیت نہیں۔ نواز بیٹے میں اپنے والدین سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔نواز نے کہا پاپا میرا مقصد آپ کا دل دکھانا نہیں تھا۔”آپ مت روئیے“۔ میں جانتا ہوں نواز بیٹے آج انٹرنیٹ، میڈیا کا زمانہ ہے جہاں ہر چیز پل بھر میں بدل جاتی ہے مگر زمانے کی اس تیز رفتاری میں اس خاص رشتہ کی اہمیت کو بڑھانا ہے اور یہ سب صحیح تعلیم کے ذریعے ہی آئے گا ورنہ دنیا میں پڑھے لکھے لوگ تو بہت مل جایا کریں گے مگر افضل اور اشرف انسان وہ ہے جو اپنے والدین کی قدر کریں۔ان کی خوشی کا خیال رکھے۔تمہیں یاد بھی نہیں ہوگا بیٹے نواز جب تم پیدا ہوئے تھے تب ہم نے تمہارا اپنی جان سے بھی زیادہ خیال رکھا۔تمہاری خوشی کو اپنی خوشی سمجھی،تمہاری خواہش کو اپنی خواہش مانی،یہاں تک کہ تمہاری پسند کو اپنی پسند بنالی، تمہارے رونے پر ہمارے آنسو نکل آتے، تمہارے ہنسنے پر ہمارا دل ہلکا ہوجاتا یہی نہیں جب کبھی تم بیمار پڑھ جاتے تب ہمیں نہ تو دن کو چین آتا تھا اور نہ ہی راتوں کو دن آتی۔جب تم پوری طرح ٹھیک نہیں ہوجاتے تب تک سکون نہ ملتا۔ ماجد چچا نے کہا نواز بیٹے میں تمہیں بھی اپنا بچہ ہی مانتا ہوں اس لیے کہہ رہا ہوں تمہاری طرح کی زندگی گزارنے والے بچے بہت قسمت والے ہوتے ہیں جو اپنے والدین کی زیر نگرانی میں پرورش ہوتے ہیں مگر تم جیسے بچے ہی دنیا کووالدین کی اہمیت بتا کر ایک اچھا شہری ایک اچھا انسان ہونے کا احساس دلا سکتے ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Dr. SufiyaBanu.A.Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad