کالم : بزمِ درویش – خدا کی عدالت
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
ڈیفنس لاہور کے شاہانہ سٹائل کے بنگلے میں پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک بڑے صنعتکار کا میاب بزنس مین اپنی نوکر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے معافی مانگ رہے تھے ساتھ میں دو لاکھ روپے ویسے ہی اُس کو دے رہے تھے کہ خدا کے لیے مجھے معاف کر دو‘ غریب عورت پچھلے کئی سالوں سے اُن کے گھر میں ملازمت کرتی تھی بار بار شیخ صاحب کو روک رہی تھی کہ آپ میرے مالک ہیں
میں آپ سے ناراض نہیں ہوں میں نے آپ کو معاف کیا تو شیخ صاحب اگلے ملازم اپنے ڈرائیور کے سامنے جاکر پھر دو لاکھ کے نوٹ پکڑ کر کھڑے ہو گئے یار تم بھی مجھے معاف کر دو‘ اب ڈرائیور بھی بار بار مالک مجھے شرمندہ نہ کریں میں آپ کا سالوں سے نوکر ہوں میں آپ سے ناراض نہیں ہوں آپ میرے سے معافی نہ مانگیں لیکن شیخ صاحب روتی آنکھوں اور اندھے گلے کے ساتھ اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے کہ یار یہ نوٹ رکھ لو اور تم بھی مجھے معاف کر دو اِس کے بعد شیخ صاحب قطار میں کھڑے اگلے ملازم کے سامنے جاکر کھڑے ہو گئے شیخ صاحب کے سارے ملازم ایک قطار میں کھڑے تھے شیخ صاحب بار ی باری سب کے سامنے جاکر ہاتھ جوڑتے کسی کو پچاس کسی کو ایک لاکھ کسی کو دو لاکھ دیتے اور معافی مانگتے کہ میں نے تم کو زندگی میں کبھی بھی تنگ کیا ہو‘ زیادتی کی ہو تمہارا دل دکھایا ہو تو میں اُس کے لیے بہت شرمندہ ہوں تم مجھے معاف کر دو۔ میں حیران نظروں سے بدلتے رنگ مکافات عمل کو دیکھ رہا تھا کہ اگر خدا اِس کائنات کا مالک نہ ہوتو کبھی بھی کوئی فرعون اِس دھرتی کی جان نہ چھوڑتا بلکہ ہٹلر چنگیز ہلاکو تیمور جیسے آمر پاگل جنونی جنگجو آج بھی انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے نظر آتے لیکن بڑھاپا بیماریاں اور گزرتا وقت کہ ایسے سارے پاگل جنونی جانور مٹی کا حصہ بنتے گئے اقتدار طاقت شہرت دولت جوانی کا نشہ کسی بھی گندم کھانے والے انسان کو اِس زعم غرور میں مبتلا کر دیتا ہے کہ اِس پردہ جہاں میں تم وہ خاص انسان ہو جو اِس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا تم گوشت پوست کے انسان نہیں بلکہ ایسے مٹیریل سے بنے ہو جس کو کبھی زوال نہیں ہے جو عقل شعور سمجھ طاقت اقتدار شہرت چالاکی دولت وسائل طاقت ور لاکھوں کے فوجی لشکراور ملکوں کے ملک آبادیوں رقبے محلات قلعے خزانے خوبصورت عورتیں تمہارے پاس ہیں یہ اِس سے پہلے نہ اب اور نہ ہی آنے والے وقت میں کسی کے پاس ہوں گے تم وہ خاص عظیم ہو جو دنیا میں حکومت کر نے اپنی مرضی کر نے کے لیے آئے ہو اِس پوری دھرتی پر اربوں انسانوں میں تمہارے جیسا ایک بھی نہیں ہے تم صرف تم ہو مشیروں مراثیوں کی فوج دن رات ایسے طاقت ور لوگوں کے کانوں میں اُن کی مرضی اور من پسند سرگوشیاں کرتے ہیں یہ مشیروں کی فوج وقتی طاقت ور حکمرانوں اور انسانوں کا خوب دماغ خراب کر تے ہیں لیکن پھر جب گردش ایام سے رگوں میں دوڑتا اچھلتا خون ٹھنڈا پڑتا ہے جسم کو بیماریاں دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر تی ہیں جسم کو حرارت سردی میں بدلنا شروع ہوتی ہے جوانی کی جگہ غیر محسوس طریقے سے بڑھاپا آجاتا ہے جسم میں بیماریوں کی فصل اگ آتی ہے مقدر کی دیوی بھی روٹھی روٹھی نظر آتی ہے اقتدار طاقت کا نشہ خمار اترنا شروع ہو تا ہے تو پتہ چلتا ہے اب نئے لوگوں کا وقت ہے وقت اتنی خاموشی سے آتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا عروج سے زوال کا موسم اتنی خاموشی سے زمینی خداؤں کو پہلی بار شکست کمزوری بیماری کا پتہ چلتا ہے تو انہیں احساس ہو تا ہے کہ حقیقی خدا ہم نہیں نیلے آکاش کے اُس پار ہے جس نے یہ دھرتی کائنات ہر چیز بنائی ہے لیکن اُس وقت یہ مسلسل زمین پر ظلم بر بر یت کے ہمالیہ کھڑے کر چکے ہوئے ہیں کہ اِن کے معافی کے دروازے بھی بند ہو چکے ہو تے ہیں جسم میں بڑھتی بیماریاں کمزوری اپنوں کی پھرتی آنکھیں میراثیوں مشیروں کانئے آقاؤں کے گر د جھومنا اِن کو پھراِن کی اوقات یاد دلاتا ہے پھر یہ فرعونیت کا لبادہ اوڑھ کر انسان بنتے ہیں خدا نے اگر بیماری اور بڑھاپا نہ رکھا ہو تا تو اِس زمین کے معاملات کبھی بھی اچھے نہیں ہو سکتے تھے یہ تو وقت اور موت یہی اللہ کی وہ خاص نعمت اور ترازو ہے کہ جس کے ذریعے اِن زمینی فرعونوں سے دھرتی کو نجات ملتی ہے ورنہ اِن فرعونوں نے آج بھی اپنی وحشت انگیزیاں اُسی طرح جاری رکھی ہوتی تھیں انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مسلتے رہتا تھا بڑھاپا ہماری اور گزرتا وقت بڑے بڑے فرعونوں کو ان کی اوقات یاد دلاگیا ایسا ہی نظارہ میں لاہور ڈیفنس میں اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا صرف تین سال پہلے میرے پاس ایک غریب آدمی آیا کہ سر میرے صاحب کی والدہ بہت بیمار ہیں ان کے مُجھ پر بہت سارے احسانات ہیں خدا کے لیے میرے ساتھ اُن کے گھر چلیں وہ فالج زدہ ہیں حرکت نہیں کر سکتیں ورنہ میں اُن کو لے کر آپ کے پاس ضرور آتا نوکر نے اپنی بیگم کی اتنی تعریفیں اور نیکیاں گنوائیں کہ میں اُس کے ساتھ چل کر اُس کی بیگم کے کمرے میں گیا وہ بیمار نوے سال کی بوڑھی عورت اپنی زندگی کے آخری دن پورے کر رہی تھی وہاں میری پہلی ملاقات شیخ صاحب سے ہوئی جو اپنے نوکروں کو سامنے کھڑا کر کے اپنی عدالت لگا کر کھڑے تھے بلکہ دھاڑ رہے تھے کسی کی نوکری ختم کسی کی تنخواہ کاٹ لوں گا دفتری بندوں کو بھی بلایا ہوا تھا مجھے نوکر نے بتایا یہ ہر اتوار کے دن اپنی عدالت لگا کر اِسی طرح سب پر ظلم کر تے ہیں آج اِن کی عدالت کا دن ہے شیخ صاحب کی عدالت میں ایک پانچ سال کا نوکر بچہ پیش ہوا جو اُن کے پوتے کے ساتھ کھیلنے کے لیے رکھا گیا پوتے نے جب نوکر بچے کو مارا تو وہ بھی بچہ تھا اُس نے بھی آگے سے مالک بچے کو مار دیا اُس جرم پر اُسی نو کر بچے کو اُس کے والدین کے ساتھ بلا کر گالیاں دی جارہی تھیں کہ اِس اپنے بچے کو سمجھاؤ کہ وہ میرے پوتے کا نو کر ہے اِس کو میرا پوتا مارے گالیاں دے اِس کو کوئی حق نہیں آگے سے اُف بھی کر ے نوکر بچے کے والدین معافیاں مانگ رہے تھے کہ آئندہ بچہ مار کھالے گا گالیاں سنے گا لیکن بولے گا نہیں۔ مُجھ سے یہ ظلم برداشت نہ ہوا تو میں بو ل پڑا شیخ صاحب یہ ظلم ہے اِس طرح نہ کریں تو شیخ صاحب بو لے پروفیسر صاحب یہ میری عدالت ہے میں بہتر جانتا ہوں گھر اور کاروبار کو کیسے چلانا ہے بہر حال میں نے خدا کے قہر کا کہا اور آگیا تین سال بعد خدا کی لاٹھی حرکت میں آئی اُسی لاڈلے پوتے کو کینسر جیسی لاعلاج بیماری اور شیخ صاحب کو دل کا عارضہ ہو گیا تو ڈاکٹروں نے دونوں کو لا علاج قرار دیا تو دنیا بھر کا علاج کرا نے کے بعد میرے پاس آئے تو میں نے کہا آپ کی عدالت کا اب کیا فیصلہ ہے تو شیخ صاحب ڈر گئے بلکہ رونا شروع ہو گئے کہ میرے ساتھ چلیں میں آپ کے سامنے سب سے معافی مانگوں گا آپ دعا کریں اللہ میرے پوتے کو ٹھیک کر دے پہلے شیخ صاحب اپنی عدالت لگا کر لوگوں کو سزائیں سناتے تھے خالق کائنات نے اپنی عدالت لگا کر لوگوں کو سزائیں سناتے تھے جب خالق کائنات نے اپنی عدالت لگا کر اُن کو اور اُن کو پوتے کو سزا سنائی تو اوقات یاد آگئی میں نے کہا جن لوگوں کو آپ نے ناجائز سزائیں سنائیں تنخواؤں کے پیسے کاٹے اُن کے پیسے واپس کریں اُن سے معافی مانگیں تو شاید خدا کو آپ پر رحم آئے اور و ہ آپ کی سزا کو معاف کر دیں اِس لیے شیخ صاحب سب نوکروں سے معافی مانگ رہے تھے اِس دنیا میں بڑے سے بڑے ظالم کو جب خدا پکڑتا ہے تو وہ خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے تا کہ اُس پر آئی سزا ٹل سکے طاقت اقتدار کے نشے میں زمینی خدا جب اپنی عدالت لگاتے ہیں تو آخر کار خدا کی عدالت حرکت میں آکر اُس کو اُس کی اوقات یاددلا دیتی ہے کہ اِس دنیا میں صرف ایک عدالت ہے وہ ہے خدا کی عدالت۔